کھول آنکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مغرب کا یہ خیال درست نہیں کہ بھارت اور چین میں مخاصمت ہی رہے گی
کئی ماہ ہوگئے مسلسل میں خارجہ پالیسی پر پاکستان کے موقف پر قلم یوں ہی نہیں اٹھا رہا، چین کے بدلتے ہوئے تیور، ایرانی کمانڈر انچیف کے بیانات کہ وہ دہشتگردوں کا پیچھا پاکستان کے اندر تک بلکہ ان کی پناہ گاہوں تک کریں گے جس پر پاکستان نے ایران سے احتجاج بھی کیا۔ ہماری خارجہ پالیسی کی زبردست اہمیت چین اور ایران کا تعاون تھا مگر اب ذرا کچھ باتیں چین کی اور پھر ایران کی سنتے جائیے،یہ سب بیرونی اخباروں کے تراشے اور مصدقہ خبریں ہیں۔
بھارت میں چین کے سفیر نے نئی دہلی میں ایک بہت اہم پریس کانفرنس گزشتہ ہفتے کی جس میں سفیر لیوذاہواLuo Zhao Hu نے بڑے زور و شور سے بھارت کے دانشوروں اور مفکرین کو بتایا کہ وہ بھارت کے لیے ایک شاندار منصوبہ شروع کرنا چاہتے ہیں جس کا نام ہوگا ون بیلٹ ون روڈ (One Belt One Road) یہ سڑک بنگلہ دیش سے گزرتی بھارت سے گھومتی، میانمار اور استے کے سنگلاخ جوہرات کو چومتی ہوئی چین میں داخل ہوکر انڈونیشیا اور دوسرے ملکوں کو مالا مال کرتی جائے گی۔ مسٹر لیو نے کہا کہ بھارت ایک بڑا ملک اور بڑی آبادی والی سلطنت ہے۔ تاریخ کے قدیم صفحات بتاتے ہیں کہ صدیوں پرانی شاہراہ ریشم سے بھارتی سوداگر تجارت کرتے تھے۔
مغرب کا یہ خیال درست نہیں کہ بھارت اور چین میں مخاصمت ہی رہے گی۔ انھوں نے کہا ایسا ہرگز نہیں کہ ڈریگن اور ہاتھی لڑتے رہیں گے کیونکہ ڈریگن اب ایک روایتی قدیم تاریخ کا مفروضہ ہے۔ بھارت نے اقتصادی ترقی کی ہے اور ان کا جی ڈی پی چین کے جی ڈی پی کے قریب تر آگیا ہے اور کشمیر کے مسئلے سے جو ایک تنازعہ ہے، چین اس کا پرامن حل چاہتا ہے اور وہ بھارت کو سی پیک میں بھی خوش آمدید کہتا ہے۔ ذرا دیکھیے چین کی یہ سیاسی کروٹ کیوں ہے اور چین کے صوبہ سیانگ کیانگ میں مسلمانوں پر جس قسم کی پابندی لگائی گئی ہے، اس وقت اس کا تذکرہ بے سود ہے مگر یہ تبدیلی پاکستان کی اسلامی فوج کی تخلیق کی قیادت کے بعد ہی نمایاں ہوئی اپوزیشن کی بعض پارٹیاں خصوصاً عمران خان اس مسئلے پر خاصا بولتے رہے ہیں۔ لہٰذا اب چین بھی اپنی خارجہ حکمت عملی کی وجہ سے نیوٹرل ہوگیا۔ یعنی اب وہ ایسا لٹمس پیپر ہے جو نہ لال سے نیلا ہو گا اور نہ نیلے سے لال جب کہ چین ہمارا کھلم کھلا ساتھی تھا لہٰذا ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ زیادہ عرصہ کی بات نہیں کہ عوام کو یہ بتایا جانا تھا کہ اسلامی فوج کے سربراہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں تلخی ختم کریں گے، مگر اب تو دوسروں کی بات کہاں بات اپنے اوپر آچکی ہے۔ ایران نے پاکستان کی سرحدوں کے بارے میں کہا کہ دور تک پاکستانی سرحدوں میں گھس کر تخریب کاروں کی پناہ گاہوں کو مسمار کریں گے، ان الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ صورت حال نے نیا اور مخالف رخ اختیار کرلیا ہے یہ جملے جو تحریر کیے جا رہے ہیں خود ساختہ نہیں بلکہ پریس ٹی وی ایران کی تحریر ہے۔ ذرا غور فرمایے گزشتہ ایک ماہ سے چین کا بھارت سے
ون بیلٹ ون روڈ پر شمولیت پر اصرار اور اپنی پالیسی کا کشمیر پر نیا موقف ہماری کوتاہیوں کا ثمر ہے۔ حالیہ دنوں میں صرف یہی نہیں بلکہ ایران اور سعودی عرب کے بڑھتے ہوئے منفی تعلقات اور خطے میں جنگی امکانات پاکستان کے لیے نئی مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ چین کی سست روی اور افغانستان، بھارت اور اب ایران کے سوال و جواب، تکرار اچھی علامت ہیں۔ اسی لیے گزشتہ کئی ماہ سے میں خارجہ امور پر تسلسل سے لکھنے پر مجبور ہوں اور جس طریقے سے عالمی سیاست کروٹ لے رہی ہے شرق اوسط کے حالات میں ہمارے قریبی یا دور سے ملوث ہونا اچھا شگون نہیں۔ اب تک ایرانی نکتہ نظر سے یمن صف اول پر اختلافی موضوع تھا، مگر اب بحرین دوسرا اہم موضوع بن گیا ہے۔
کیونکہ بحرین سعودی عرب کا اتحادی ہے۔ مسلم امہ میں اختلافی مسئلہ امریکا کے لیے مداخلت کا بہترین موقع ہے۔ جنگ سے قبل امریکا کو موقع مل گیا ہے کہ وہ اسلحہ فروخت کرے اور اب یہ ڈیل شروع ہوچکی ہے۔ ظاہر ہے اب ان کا استعمال بھی یقینی بن گیا ہے ایران نے ہیومن رائٹس واچ کو بحرین کا ویزا نہ ملنے پر بھی بڑا شور شرابہ مچایا ہے اس سے آپ اندازہ لگائیں اور ایرانی اسمبلی جو ملک کی دستور ساز قوت ہے اس نے ایک جان ہوکر بحرین کے عالمی شیخ قاسم کی مکمل حمایت کی ہے اور شیخ قاسم پر بند کمرے میں مقدمہ چلانے کی مذمت کی ہے۔
جب عالم اسلام میں اس قدر پیچیدگیاں ہوگئی ہیں اور چین نے بھی سیانگ کانگ صوبہ میں مسلمانوں پر سختیاں کرنی شروع کردی ہیں تو اب صورتحال کدھر جا رہی ہے۔ یہ وہ موقع ہے کہ پاکستان کو بیرونی سفارتکاری اور ہم آہنگی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ وزارت خارجہ میں فاطمی صاحب تھے وہ بھی رخصت ہوئے اب کوئی دور اندیش نہ رہا۔ سوچنے کی ضرورت ہے جب اس کڑے وقت میں امریکا کردوں کی پارٹی کو مسلح کررہا ہے اور (ypg)کو لیس کر رہا ہے جس پر طیب اردوان نے سخت مخالفت کی حالانکہ ترکی نیٹو کارکن ہے اور ماضی میں اس نے شام کے ساتھ جو کچھ کیا تھا وہ بھی امریکا کے کہنے پر مگر اب امریکا اپنے ہی اتحادی کے مد مقابل کو اسلحہ کا ڈھیر لگا دیا اور خطے میں ترکی کو بے بس قرار دے دیا مگر روس اور چین اپنے اتحادیوں یا رسمی دوستی کا پاس رکھتے ہیں۔
دیکھیے پیکنگ میں چین نے (One Belt One Road) ایک بیلٹ ایک روڈ اور سلک روڈ پر گزشتہ ہفتے جو کانفرنس شروع کی بھارت باوجود چین کے نہایت مدبرانہ گفتگو کے اس نے شرکت نہ کی کیونکہ مودی ایک تلخ ہندوتوا راہ پر چل رہا ہے جس کا پاکستان میں ردعمل یقینی ہے اور اس طرح پاکستان میں تلخ نوائی پروان چڑھ رہی ہے۔ بھارت یہ چاہتا ہے کہ وہ چین سے تن تنہا روابط رکھے جس کے امکانات معدوم ہیں البتہ یہ صورتحال امریکا کے ساتھ ممکن ہے۔ آزاد کشمیر سے سی پیک روڈ کا گزرنا بھارت کو بڑا ناگوار گزرا ہے، مگر یہ راستہ تو ایک حقیقت ہے۔ چین اس راہ کو چھوڑ نہیں سکتا پاکستان کو تو سالانہ 5 بلین ڈالر کی آمدنی اس سے یقینی ہوگی مگر چین کو تو بے پناہ سیاسی اور معاشی فوائد ہیں۔ بھارت نے چین کو منانے کی بہت کوشش کی مگر چین اپنے بنیادی موقف سے دور نہیں ہٹ سکتا البتہ پاکستان کا شرق اوسط پر جو رویہ تھا وہ خود چین سے دوری کا راستہ ہے کیونکہ پاکستان اور چین کے عالمی موقف میں تضاد بڑھتا جارہا ہے۔
ایران اور چین سیاسی امور پر ایک سا موقف رکھتے ہیں جب کہ پاکستان کا اسلامی فوج کا تعلق دونوں کو مختلف سمتوں میں لے جا رہا ہے جب کہ یہ امید تھی کہ اسلامی فوج اور ایران ایک دوسرے کے مخالف نہ ہوں گے مگر بدلتی صورت حال تشویش ناک ہے جب کہ چین بڑی احتیاط سے اپنی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جب کہ ایران نے کھلم کھلا عرب دنیا میں بادشاہت اور ملوکیت کے خلاف مہم شروع کر رکھی ہے لہٰذا یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان سعودی عرب اور ایران کے موقف میں لچک پیدا کرے۔ یہ افسوس کا مقام ہے کہ پاکستانی سیاستدان نہ اپنا کوئی منشور رکھتے ہیں اور نہ عالمی فورم پرکوئی زاویہ نگاہ۔ لہٰذا اس مسئلے پر حکومت کو ہی فیصلہ کرنا ہوگا۔ رہ گیا بھارت کا تو مودی سرکار امریکا کی زبردست حلیف ہے اس لیے اس نے چین کی لچک دار پالیسی پر بھی کوئی دھیان نہ دیا۔ اور امریکا نوازی میں پیش پیش نظر آرہا ہے۔ مسئلہ شاہراہ ریشم پر اس نے پیکنگ کانفرنس میں شرکت نہ کی بلکہ بعض بھارتی دانشور اس میں شریک ہوئے۔ مشرق اوسط میں فی الحال ایران نے نرم رویہ اختیار کیا ہے لہٰذا کشیدگی میں کمی کے امکانات نمایاں ہیں۔ دیکھیں مسٹر ٹرمپ کے آنے والے دورے کے بعد شرق اوسط کے رجحانات اور موقف کیا ہوتا ہے کیونکہ امریکا کو اسلحہ کی تجارت میں اپنی پوزیشن مستحکم رکھنی ہے۔
پاکستان کو کھلی آنکھوں اور ہوش و حواس سے چوکس انداز میں اپنی خارجہ حکمت عملی کو جاری رکھنا ہے بہرصورت جہاں تک میری صوابدید تھی اپنی آرا سے موضوع کو منور کیا مگر جو لوگ حکومت چلا رہے ہیں ان کو مزید پہلوؤں کو دیکھنا ہوگا دینی اورآفاقی حقائق کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہوگی۔