قابل قدر افسروں کی بے قدری
پہلے صرف بیوروکریسی کا نام سنا کرتے تھے اب غیر سول کریسی کا نام بھی سنا جاتا ہے
ملک پر اصل حکمرانی کرنے والے افسران ملک کے مختلف محکموں میں اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں، تعینات ہیں اور رہیں گے۔ کہنے کو ملک میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ نہایت بااختیار ادارے ہیں۔ مقننہ کا کام عارضی طور پر ارکان اسمبلی کا ہے جو قومی اسمبلی،سینیٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں قانون سازی کرتے ہیں اور ملک کے اور حکومتوں کے سربراہوں کا انتخاب کرتے ہیں اور منتخب سربراہ جو مخصوص مدت کے لیے ہوتے ہیں بیوروکریسی کے ذریعے حکومت کرکے مدت پوری کرتے ہیں یا قبل از وقت فارغ کردیے جاتے ہیں۔
پہلے صرف بیوروکریسی کا نام سنا کرتے تھے اب غیر سول کریسی کا نام بھی سنا جاتا ہے۔ سیاسی حکومتوں کو بعض وجوہات کے باعث مارشل لا کے ذریعے ہٹا دیا جاتا ہے تو سب سے پہلے آئین معطل کیا جاتا ہے مقننہ گھر بھیج دی جاتی ہے اور عدلیہ کنٹرول کی جاتی رہی ہے اور سول بیورو کریسی کی اہمیت بڑھ جاتی ہے جو ملک اور معاملات چلانے کی ماہر ہوتی ہے اور غیر سول انتظامیہ کی مشاورت کا حصہ بن جاتی ہے۔
ملک میں مارشل لا ہو یا سیاسی حکومت بیوروکریسی اہمیت کی حامل رہی ہے اور ہر دور میں اکثر بیوروکریٹ اپنے ہاتھ پاؤں بچا کر کام کرتے ہیں کیونکہ ان کے تبادلے ہوتے رہتے ہیں اور مقررہ عمر کے بعد انھیں ریٹائر ہونا اور سرکاری مراعات حاصل کرنا ہوتی ہیں۔ ملک چلانے والے افسر نچلی سطح سے اعلیٰ سطح تک ترقی پاتے ہیں اور عوام کا زیادہ واسطہ بیورو کریسی، پولیس، عدلیہ اور دیگر محکموں کے افسروں سے پڑتا ہے۔
عام دنوں میں عوام کا فوج سے واسطہ نہیں پڑتا جو اپنی حد تک محدود ہے۔ عدلیہ سے واسطہ مقدمے والوں کا ہی پڑتا ہے اور ہر ضلع میں واسطہ لوگوں کا ضلع انتظامیہ سے زیادہ پڑتا ہے جن کے ماتحت پولیس، بلدیات سمیت دیگر محکمے ہوتے ہیں۔ جن سرکاری محکموں سے عوام کا رابطہ پڑتا ہے وہاں اچھے، عوام کا خیال رکھنے والے، عوام کا خود کو حقیقی خادم سمجھ کر لوگوں سے خوش اخلاقی سے پیش آنے والے، وقت کی پابندی کرنے والے افسروں کا انتہائی فقدان ہے اور رہا سرکاری افسروں کی ایمانداری کا معاملہ تو ہزاروں میں اگر چند ہوں تو یہ لوگوں کی اور محکمے کی خوش قسمتی ہوگی وگرنہ تو یہاں دیانتداری تو حاجیوں اور نمازیوں میں ناپید ہے کیونکہ اب سرکاری ملازمتیں بھاری رشوت دے کر رشوت کے ذریعے امیر بننے کے لیے ہی حاصل کی جاتی ہیں اور وہ سرکاری ملازم انتہائی خوش نصیب ہوگا جسے رشوت اور سفارش کے بغیر سرکاری ملازمت ملی ہو اور ایسا ملازم اگر دیانتدار بھی ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سب افسر خراب نہیں مگر اکثریت ضرور ایسے افسروں کی ہے جو عوام سے دور رہنے ہی میں اپنی اہمیت سمجھتے ہیں اور رہی عوام کی خدمت تو وہ زمانہ گزر چکا۔ راقم کو 30 سال قبل شکارپور کے ایک سیشن جج نے اپنی مختصر تنخواہ دکھاتے ہوئے کہا تھا کہ ہم اس کم تنخواہ میں عوام کی خدمت کر رہے ہیں۔ گوشت نہیں ملتا تو دال پر گزارا کرلیتے ہیں مگر رشوت خود کھاتے ہیں نہ کھانے دیتے ہیں۔ یہ ڈسٹرکٹ جج شہر سے باہر واقع اپنے سرکاری گھر سے سائیکل پر نماز پڑھنے اکثر شہر آیا کرتے تھے اور سائلین سے خود نہ صرف ملتے تھے بلکہ ان کے معمولی تنازعات فوری ختم کرا دیتے تھے۔ کسی وجہ سے ان کا تبادلہ کرا دیا گیا جسے ڈسٹرکٹ جج نے منسوخ کرایا اور اپنے رویے کے باعث عوام میں مقبولیت اور عزت حاصل کی تھی۔
آئی جی پولیس سندھ اے ڈی خواجہ جب ایس ایس پی شکارپور تھے تو عوام میں اتنے گھل مل گئے تھے کہ ان کے تبادلے پر شہر میں 3 روز ہڑتال کی گئی تھی اور تبادلے کی منسوخی کا مطالبہ کیا گیا تھا مگر حکومت نے عوام کی نہیں اپنے ارکان اسمبلی کی سنی اور تبادلہ ہوکر رہا کیونکہ حکومت کو عوام دوست افسر پسند نہیں ہوتے۔
موجودہ ڈی آئی جی پولیس خادم حسین رند جب ڈی ایس پی ٹھٹھہ تھے تو انھوں نے بھی عوام کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا اور لوگوں سے کوئی زیادتی نہیں ہونے دی تھی مگر علاقے کے وڈیرے ان کے خلاف ہوگئے اور تبادلہ کرادیا جس پر لوگوں اور سندھی میڈیا نے شدید احتجاج کیا مگر حکومت نے عوامی احتجاج کو نظرانداز کرکے وڈیروں کو اہمیت دی اور تبادلہ منسوخ نہیں کیا۔ کچھ دنوں بعد راقم کی ان سے ملاقات ہوئی اور تبادلے پر بات ہوئی تو کہنے لگے کہ میرے دروازے عوام کے لیے حقیقی طور پر کھلے رہتے تھے اور میں نے ایک یتیم بچے کو اس کا حق ضرور دلوایا تھا جو علاقہ وڈیروں کو پسند نہیں آیا تھا۔
کالم نگار اوریا مقبول جان جب بلوچستان میں ڈپٹی کمشنر اور عوام کی حقیقی خدمت کر رہے تھے جو سرداروں کو پسند نہ آئی تو ان کا تبادلہ کرادیا تو پہلی بار بلوچستان میں کسی ڈپٹی کمشنر کے تبادلے پر احتجاج ہوا تھا مگر قابل قدر افسر برداشت نہیں کیا گیا۔
ایکسپریس کے کالم نگار اور گوجرانوالہ کے اس وقت کے ڈی آئی جی پولیس ذوالفقار چیمہ اپنے اقدامات سے ڈویژن بھر میں عوام میں مقبول ہوئے تھے مگر حکمران جماعت کے ارکان اسمبلی عوام کے کام آنے اور ناجائز سفارشیں نہ ماننے پر ان کے پیچھے پڑ گئے تھے مگر تبادلہ کرانے میں ناکام رہے تھے مگر پنجاب حکومت پر دباؤ ڈالتے رہے جو خادم اعلیٰ برداشت نہ کرسکے اور سیالکوٹ کے ایک افسوس ناک واقعے کی بنیاد پر انھیں ہٹانے پر مجبور ہوگئے تھے۔
حکمرانوں کو اپنے افسروں کے کردار کی معلومات ہوتی ہیں اور انھیں پتا ہوتا ہے کہ عوام کس افسر سے خوش اور جاگیردار اور ارکان اسمبلی کس وجہ سے ناراض ہوتے ہیں مگر حکمرانوں کو عوام سے زیادہ سیاسی مفاد عزیز ہوتا ہے اس لیے عوام کی ضرورت اور مطالبے کو ٹھکرا کر بااثر افراد کو خوش رکھا جاتا ہے۔
عوامی خواہشات پامال کیے جانے کی حالیہ مثال سابق صدر زرداری کا حالیہ بیان ہے کہ اگر اے ڈی خواجہ اچھے افسر ہیں تو کیا باقی اچھے نہیں ہیں کہ انھیں مقرر نہ کیا جائے۔ ہر جگہ حکمرانوں اور علاقے کے بااثر افراد کی ضرورت ہوتی ہے جو عوام سے دور اور ان کے قریب ہوں اور ان کے در پر حاضری دینے اور ان کی ہر بات تسلیم کرنے والے ہوں۔ بااثر افراد کے کہنے پر نچلے افسروں کے تقرر و تبادلے جھوٹے مقدمات اور ناانصافی و زیادتی میں رکاوٹ بننے والے افسران سیاستدانوں کو پسند نہیں ہوتے۔ ایسے اچھے افسروں کو عوام جتنا پسند کریں مگر ایسے قابل قدر افسر ہمارے سیاستدانوں، ارکان اسمبلی اور برسر اقتدار پارٹی کے عہدیداروں کی پسند نہیں ہوتے جس کی وجہ سے حکمرانوں کو اپنے سیاسی مفاد کے لیے قابل قدر افسروں کی بے قدری کرنا ہی پڑتی ہے۔