نفس انساں ۔۔۔ خوبیاں خامیاں

’’اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔‘‘

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

نفس کے معنی شخص، ذات، اصل جان کے ہیں اور قرآن میں نفس ان تمام معانی مختلفہ میں استعمال ہوا ہے۔ مثلاً

(۱)۔ ''اور کوئی نفس نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔'' یہاں نفس سے مراد شخص ہے۔

(۲)۔ ''اے لوگو! بچاؤ اپنے نفس کو اور اپنے گھر والوں کو آگ سے۔'' یہاں نفس سے مراد ذات ہے۔

(۳)۔ ''اے لوگو! تم ڈرو اپنے رب سے جس نے تم کو پیدا کیا ایک نفس سے۔'' یہاں نفس سے مراد اصل ہے۔

(۴)۔ نکالو تم اپنی جانیں۔'' یہاں نفس سے مراد جان ہے۔

قرآن مجید میں نفس انسانی بمعنی دل کی تین قسموں کا ذکر کیا گیا ہے۔

(۱)۔نفسِ مطمئنہ / دل تابندہ:نفس مطمئنہ یا دل تابندہ سے مراد وہ شخص ہے جس کو اسلام کے احکام اور اس کے پیغام کی سچائی پر دل سے ایسا یقین محکم ہوتا ہے کہ ناپاک جذبات، غلط معقولات اور گمراہ خواہشات کبھی بھی اس یقین میں شکوک و شبہات پیدا نہیں کرسکتیں۔ غرض یہ کہ وہ ایسا مرد مومن، مرد حق، مرد قلندر ہوتا ہے۔ بقول شاعر:

ہزار دام سے نکلا ہوں ایک ہی جنبش میں

جسے غرور ہو آئے کرے شکار مجھے

وہ اللہ کو اپنا رب ہونے پر اسلام کے اپنا دین ہونے پر اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اپنا رسول ہونے پر مطمئن ہوجاتا ہے۔ وہ اللہ اور رسول اللہؐ کے عطا کردہ نظریات اور تصورات کو ہر حال میں دنیا کے دوسرے علوم، اذکار و افکار جو انسان کے ذہن کی پیداوار ہوتے ہیں، افضل اجمل اور اکمل سمجھتا ہے اور زندگی کے ہر پہلو کو قرآن و سنت کی ہدایت کے نور سے منور کرتا ہے۔ وہ اللہ کا پکا اور سچا غلام ہوتا ہے۔ حصول رضائے الٰہی اس کا کام ہوتا ہے۔ ہر پل، ہر گھڑی رضا بہ قضا رہتا ہے۔ ''رضائے مولیٰ ازہمہ اولیٰ'' اس کی زندگی کا مقصد اعلیٰ ہوتا ہے۔ بقول شاعر:

ہر بات میں انھی کی خوشی کا رہا خیال

ہر کام سے غرض ہے انھی کی رضا مجھے

رہتا ہوں غرق ان کے تصور میں روزو شب

مستی کا پڑ گیا ہے کچھ ایسا مزا مجھے

اس کا دل اللہ سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس لیے وہ دنیا کی رنگینیوں پر فریفتہ نہیں ہوتا۔ ذوق خدائی اور لذت آشنائی اسے دو عالم سے بیگانہ کردیتی ہے۔ اس کی نگاہ ناز میں

یہ مال ودولت' یہ رشتہ و پیوند

بتان وہم وگماں' لا الہ الا اللہ

اللہ کی یاد، اس کا تصور، عشق و مستی اسے دیوانہ و مستانہ بنائے رکھتی ہے۔ دنیا میں رہتا ہے، لوگوں سے ملتا ہے، مگر لگتا ہے ایسا جیسے کہ گویا دل ہے اس کا کہیں کھویا کھویا۔

گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے

ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا

وہ ہجوم بلا سے ڈرتا نہیں، تندیٔ باد مخالف سے گھبراتا نہیں، طوفان مصائب سے بھاگتا نہیں، شیطان رجیم اسے کسی حال میں صراط مستقیم سے ہٹا سکتا نہیں، وہ شیر خدا حالات سے ہارتا نہیں۔


دست و پا شل ہیں کنارے سے لگا بیٹھا ہوں

لیکن اس شورش طوفاں سے ہارا تو نہیں

وہ شمع رسالت کا پروانہ ہوتا ہے۔ ناموس رسالتؐ پہ مر مٹنے پر اسے ناز ہوتا ہے۔ یہ اس کی تمنا ہوتی ہے۔ لبوں کی دعا ہوتی ہے کہ ''وہ رہے نہ دہر میں اسمِ محمدؐ کا اُجالا رہے۔''

میرے ہزار دل ہوں تصدق حضور پر

میری ہزار جان ہوں قربان مصطفیؐ

اس کی رگ رگ، نس نس کی بس ہوتی ہے ایک ہی رٹ۔ یا نبیؐ! یا نبیؐ! یا نبیؐ! یا نبیؐ۔ وہ اللہ سے راضی، اللہ اس سے راضی، وہ رسولؐ سے راضی، رسول اس سے راضی ۔ بس یہی خوشی اس کے لیے ہوتی ہے کافی۔ الغرض نفس مطمئنہ یا دل تابندہ، رنگ الٰہی میں رنگا ہوا، حب رسالتؐ میں مہکا ہوا، تار نور الٰہی کا بنا ہوا ہوتا ہے اس کی زندگی اسلام کی جیتی جاگتی چلتی پھرتی تصویر اور تعبیر ہوتی ہے وہ خدا کا شیر ہے جو ہر لمحہ لڑتا ہے شر سے۔

نفس لوامہ / دل زندہ:نفس لوامہ یا دل زندہ، شدت سے ملامت کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ فرد بشر جو اپنی بری نیت، بری نظر، بری فکر، بری بات جو کر گزرا اس پر سوچتا ہے تو اس کی شدت سے ملامت اور ندامت ہوتی ہے۔ شیطان کے سبز باغ دکھانے اور بہکانے میں آکر برائی کے دریا میں تیرتے رہنے پر پریشان اور پشیمان ہوتا ہے۔ دل رونے لگتا ہے۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔ اللہ کے حضور سربسجود ہوکر توبہ و استغفار کرتا ہے۔ شیطان سے دوستی، یاری، طرف داری ترک کرنے، صحیح راہ پر چلنے اور غلط راہ کو چھوڑنے کا عزم محکم و مصمم کرتا ہے۔ خدا اور رسولؐ سے دوبارہ پیمان وفا باندھتا ہے۔ اب وسواس اور خناس اس کے سامنے بھیس بدل بدل کر آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اب وہ ان کے جھانسے میں نہیں آتا۔ اس طرح نفس لوامہ، دل زندہ اور قابل اصلاح ہونے کی علامت ہے۔

نفس امارہ/ دل مردہ:پہلے آدمی برائی کرتا ہے۔ پھر برائی، برائی کراتی ہے اور پھر برائی، آدمی پر چڑھائی کردیتی ہے۔

اب آدمی، مکڑی کے جال میں مکھی کی طرح پھنس جاتا ہے۔ اب اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ شیطان حاکم و محکوم، خود عبد خناس معبود، زندگی کا مطلوب و مقصود، حق ہو نیست و نابود۔ اب وہ خدا، رسول، دین اور انسان کا شیطان کی طرح دشمن بن جاتا ہے۔ اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی رہتا ہے برہم۔ دین میں خامیاں ڈھونڈنے لگتا ہے۔ کیڑے نکالنے لگتا ہے۔ خوب کو ناخوب اور ناخوب کو خوب بناکر انسانی نظروں کے سامنے پیش کرتا ہے۔ اور دین سے لوگوں کو بے عمل اور بدظن کرتا پھرتا ہے۔

حق سے رشتہ توڑ کر باطل سے رشتہ جوڑ کر، اندھا، گونگا اور بہرا بن جاتا ہے۔ اور کئی امراض قلب مثلاً زیغ دل، زنگ دل، غلاف دل، جہل دل، قفل دل، کور دل، قسوۂ دل، ختم دل جیسی خطرناک نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ شیطان کی طرح اللہ اور اللہ کے نام لینے والوں کا دشمن ہوجاتا ہے۔

رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جا جا کے تھانے میں

کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

مذہب کے پرستاروں سے وہ کد، کدر اور کدورت میں حد سے گزر جاتا ہے۔ ڈرانا، دھمکانا، آنکھیں دکھانا اس کا شیوہ بن جاتا ہے۔ نیک نام لوگوں پر الزام، ان کی عزت اور نیک شہرت کو بذریعہ غیبت و تہمت بدنام کرتا پھرتا ہے۔ حسد کی آگ میں جلنا، اشراف کے خلاف افواہیں پھیلانا۔ دو ملے ہوئے دلوں میں میل پیدا کرنا، لوگوں کے کان بھرنا، نفرتوں اور سازشوں کے جال بننا، صبح ہو شام، بس اس کا ہوتا ہے یہی ایک کام۔ خود تو ہوتا ہے حقیقتاً کالا، لیکن حسداً کہتا ہے گورے کو کالا۔ اور اس طرح خود اور کرتا ہے اپنا ہی منہ کالا۔

اے صاحب نظران! دل مردہ ہے خطرناک! کیونکہ جو قوم دل مردہ کے ساتھ زندہ رہتی ہے اس قوم کا خورشید بہت جلد زرد ہوجاتا ہے۔ بقول اقبال:

دل مردہ دل نہیں ہے اسے زندہ کر دوبارہ

کہ یہی امتوں کے مرض کہن کا چارہ

موت کے سوا کوئی مرض ایسا نہیں جس کا کوئی علاج نہیں۔ جسمانی امراض کی طرح رب کریم نے نفسیاتی امراض کے لیے بھی روحانی علاج رکھا ہے۔ ہم تو کچھ بھی نہیں۔ دور رسالت مآبؐ میں تو آوے کا آوا نفس امارہ کا گہوارا تھا۔ لیکن جب انھوں نے اللہ کا پیغام سنا۔ صدق دل سے قبول کیا۔ قرآن کو سینے سے لگایا، دل میں بسایا، اس کی روشنی میں چل کر دکھایا تو ان کی ہر بیماری خزاں کے پتے کی طرح ایک ایک کرکے جھڑتی چلی گئی۔ جو تھے بدنام زمانہ، وہ ایسے، ایک اور ایک نیک بن گئے، شر کے منکر اور خیر کے پیکر ہوگئے کہ ان کو دیکھ کر دنگ رہ گیا زمانہ۔

زمانے کے بدلنے کے ساتھ اصول و اقدار بدلا نہیں کرتے۔ آج بھی ہماری بیماری دل کی شفایابی کے لیے وہی اصول و اقدار ہیں جو کل تھے۔ یعنی قلب میں سوز، روح میں احساس، پیغام رسالتؐ کا خیال خاص۔ کل کا بھولا شام کو گھر لوٹ آئے تو اسے بھولا نہیں کہتے۔ جو ہوچکا سو ہو چکا۔ مگر آج بھی ہم قرآن کا دامن عزم مصمم کے ساتھ تھام لیں تو ہمارا نفس امارہ کا مارا، معاشرہ، حسن و سچائی اور امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے اور رنگ لیل و نہار پر بہار آجائے۔ دنیا اسلاف کی طرح اخلاف کو کبھی دیکھتی رہ جائے۔ مگر نیت، ہمت، محنت، جرأت اور جذبہ شہادت کی ضرورت ہے۔

قرآن نور بھی ہے ہدیٰ بھی ہے۔ دعا بھی ہے، شفا بھی ہے اور اس بات کی صدا بھی ہے:

ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں

راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
Load Next Story