سانحہ پشکان ایک اور قیامت صغریٰ

محنت کشوں کو تمام قسم کا تحفظ دیا جائے اور ان کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا جائے



مقامی ماہی گیروں کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ پشکان کوگنڈ سے ملانے والی ذیلی سڑک تعمیر کی جائے چنانچہ مقامی لوگوں کی و ماہی گیروں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس 19 کلومیٹر ذیلی سڑک کی تعمیر کا کام شروع ہوگیا۔ اس سڑک کی تعمیرکا ٹھیکہ ٹھیکیدار درمحمد کو دیا گیا، چنانچہ ٹھیکیدار در محمد نے گوٹھ محمد صدیق لاکھو تعلقہ کنڈیارو ضلع نوشہرو فیروز سے 11 مزدوروں کو لاکر ذیلی سڑک پر کام شروع کر رکھا تھا۔

اس سڑک کی تعمیر کوئی متنازعہ منصوبہ نہ تھا ایک ماہ سے سڑک کی تعمیر کا کام خوش اسلوبی سے جاری تھا کہ ہفتہ 13 مئی 2017 کو دو موٹرسائیکل سوار آئے اور اندھا دھند فائرنگ شروع کردی ۔ اس اندھا دھند فائرنگ کے باعث دس محنت کش شہید ہوگئے ان شہدا میں 30 سالہ عبدالحکیم، 22 سالہ صدام لاکھو، 20 سالہ رسول بخش لاکھو، 18 سالہ علی دوست لاکھو، 25 سالہ آصف علی لاکھو، 30 سالہ ظہیر لاکھو، 45 سالہ جلال لاکھو، 30 سالہ کوڑل لاکھو، 30 سالہ وحید علی بروہی شامل تھے۔ ان میں 30 سالہ عبدالحکیم لاکھو و رسول بخش لاکھو دونوں سگے بھائی تھے جب کہ حضور بخش لاکھو جوکہ شدید زخمی ہے ان دونوں شہید بھائیوں کا تیسرا بھائی ہے حضور بخش لاکھو کے زخم کس نوعیت کے ہیں کیا وہ اپنی آیندہ زندگی نارمل حالت میں گزار سکے گا خدانخواستہ معذوری اس کا تا حیات مقدر ہے یہ سوال دیگر ہے، البتہ ایک محنت کش قادر بخش جوکہ ان شہید و زخمی محنت کشوں کا ساتھی ہے بلوچی زبان بولنے کے باعث اپنی زندگی بچانے میں کامیاب ہوگیا۔

واضح رہے کہ فائرنگ کے یہ واقعات دو الگ الگ مقامات پر ہوئے یعنی پشکان و گنت میں۔ بلاشبہ دونوں واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں۔ بہرکیف ان شہید محنت کشوں کی لاشوں کو فضائی راستے سے نوابشاہ پہنچایا گیا اور نواب شاہ سے بذریعہ سڑک گوٹھ محمد صدیق لاکھو پہنچایا گیا جہاں ان شہید محنت کشوں کی تدفین ہوئی۔ قبرستان کا فاصلہ گوٹھ محمد صدیق لاکھو سے تین کلومیٹر کی مسافت پر ہے اسی باعث ان شہدا کی میتوں کو بذریعہ ٹریکٹر ٹرالی قبرستان مورند شاہ لے جایا گیا۔ گویا ایمبولینسز کا کوئی انتظام نہ تھا ان تمام حالات میں شہدا کے لواحقین کس کرب سے گزر رہے ہیں ہر وہ انسان جس کے سینے میں ایسا دل ہے جوکہ انسانیت کا درد رکھتا ہے محسوس کرسکتا ہے لواحقین کا کرب تو اپنی جگہ علاقہ مکین و پورے گوٹھ محمد صدیق لاکھو میں ہر دل دکھی و ہر آنکھ اشکبار و پرنم ہے۔

ان تمام حالات و قیامت صغریٰ برپا ہونے کے بعد ہمارے ہر دل عزیز حکمرانوں و سیاستدانوں کا رویہ یہ سامنے آیا ہے کہ وزیر اعظم صاحب وفاقی وزرا، وزیر اعلیٰ بلوچستان و وزیر داخلہ بلوچستان سب کے بیانات ملاحظہ ہوں، گویا سب کے بیانات کا ایک ہی مطلب ہے کہ یہ بزدلانہ کارروائی ہے۔ یہ دہشت گردی ہے۔ اس دہشت گردی کے پس پردہ غیر ملکی ہاتھ ہے دہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ ہمارے حوصلے بلند ہیں یہ مٹھی بھر دہشت گرد ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے ہم مذمت کرتے ہیں ہم شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

ان تمام باتوں کے جواب میں ہم فقط اتنا عرض کرنے کی جسارت کریں گے آپ حضرات بنا پروٹوکول کے حکومتی ایوانوں و اپنے محلات سے باہر تشریف لائیں تاکہ ہم عوام بھی جان لیں کہ آپ حضرات کس قدر بلند حوصلے کے مالک ہیں۔ معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ 11 مارچ بروز ہفتہ 2017 کو ہم چند دوستوں کے ساتھ لاہور گئے جہاں ہمارا قیام رائے ونڈ روڈ پر تھا۔ چنانچہ ہفتے کی صبح ہی ہمیں ہمارے میزبان نامور شاعر عرفان علی نے یہ نوید سنا دی کہ آج کا پروگرام یہ ہے کہ ہم قذافی اسٹیڈیم کے عقب پیلاک میں ایک پروگرام ہورہا ہے ثقافت و امن اس میں شرکت کرنی ہے مگر ہمیں جلدی نکلنا ہوگا کہ پھر وی وی پی آئی آمد ہوگی جس کے باعث روڈ کو مکمل بند کردیا جائیگا۔

بہرکیف، کیفیت یہ ہے کہ تادم تحریر سانحہ پشکان کے محنت کشوں کے لیے کسی حکومت بشمول وفاقی حکومت کے کسی قسم کی مالی آمد کا اعلان تک نہیں کیا گوکہ یہ مالی امداد کے اعلانات بھی روایتی ہی ثابت ہوتے ہیں جیسے کہ سانحہ بلدیہ فیکٹری کے شہید محنت کشوں کے لواحقین کے لیے امداد کے اعلانات کی تو ہوئی مگر امداد ندارد۔ چنانچہ تمام تر حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے NTUF نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن کے رہنما آگے بڑھے اور 15 مئی 2017 کو شہید محنت کشوں کے لیے پریس کلب کراچی پہنچے ان کے ہمراہ دیگر محنت کشوں کی کثیر تعداد بھی تھی ان لوگوں نے ایک احتجاجی ریلی بھی نکالی جس میں شدید نعرے بازی کی گئی بعدازاں NTUF کے ڈپٹی جنرل سیکریٹری ناصر منصور نے ریلی کے شرکا سے خطاب کیا انھوں نے اپنے خطاب میں مطالبہ کیا کہ سانحہ پشکان کے شہیدوں کے لواحقین کو فی کس 30 لاکھ روپے معاوضہ دیا جائے انھوں نے مزید کہا کہ تمام جہاں جہاں محنت کش کام کرتے ہیں ۔

ان محنت کشوں کو تمام قسم کا تحفظ دیا جائے اور ان کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھا جائے تاکہ محنت کش اپنا اپنا کام احسن طریقے سے کرسکیں۔ آخر میں ناصر منصور نے ان تمام رہنماؤں جن میں NTUF کے مرکزی صدر محترم بلوچ، NTUF بلوچستان کے سیکریٹری جنرل بشیر احمد محمودانی، UNTUF کے صدر گل رحمان، NTUF سندھ کے سیکریٹری جنرل ریاض علی ہوم بیسڈ ورکرز کی رہنما شبنم اعظم، سانحہ بلدیہ متاثرین کی چیئرپرسن سعیدہ خاتون، ریلوے ورکرز یونین کے چیئرمین منظور رضی، ٹیکسٹائل گارمنٹ جنرل ورکرز یونین رہنما آدم جوکھیو واحد، کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے رشید تاج، مزدور کسان پارٹی کے سینئر رہنما محترم ظفر اسلم، جئے سندھ محاذ کے رہنما ایاز بکڑو، علی مستوئی، انقلابی آدرش آدرش فورم مشتاق علی شان کا شکریہ ادا کیا کہ وہ تشریف لائے اور اس احتجاج میں شریک ہوئے ۔

آخر میں ہم اتنا عرض کریں گے کہ اعلیٰ ایوانوں میں بیٹھے حکمران حقیقت پسندی سے کام لیں اور تمام حالات کا ادراک کرتے ہوئے عام عوام و محنت کشوں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ رہ گئی حکومت سازی کی باتیں تو بے فکر رہیں حالات جو بھی ہوں حکمران آپ لوگ ہی ہوں گے۔ جب تک موجودہ سسٹم برقرار ہے کیونکہ اس سرمایہ داری سسٹم کا یہی کمال ہے کہ اس سسٹم کے ہوتے کوئی عام پاکستانی و محنت کش حکومتی ایوانوں میں داخل نہیں ہوسکتا۔ ہاں یہ ضرور عرض کریں گے کہ سانحہ پشکان کے شہید محنت کشوں کے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے ذمے داران کوکڑی سزائیں دی جائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں