دو جماعتی نظام
ووٹروں کے سامنے ایک ہی نظریہ ہونا چاہیے کہ ملک گیر پارٹی کو ووٹ دینا ہے ورنہ اس کا ووٹ ضایع جا سکتا ہے
ان دنوں الیکشن یا اس سے پہلے کی فضا بن رہی ہے،آئینی طور پر سات آٹھ ماہ ابھی باقی ہیں اور بہت سے لوگوں کو سمجھ آ گئی ہے کہ جہاں سوا چار برس بہر طور گزار لیے ، وہاں اگلے چند ماہ گزار لینے میں کوئی حرج نہیں، مگر بے صبری کے مرض کا کوئی علاج نہیں،سوائے اس کے کہ دعا کی جائے۔
حکومت کو خود بھی قبل از وقت الیکشن کا اعلان نہیں کرنا چاہیے تا کہ ملکی تاریخ میں کوئی تو منتخب پارلیمنٹ ایسی ہو جس نے اپنی ٹرم پوری کی ہو۔ورنہ مشرف کا یہ طعنہ گنیز بک آف ریکارڈ کا حصہ بن جائے گا کہ پارلیمنٹ صرف فوجی اقتدار کی چھتری تلے ہی ٹرم پوری کرتی ہے۔حقیقت اس سے برعکس ہے، فوجی اقتدار نے تو ٹرم سے دگنے عرصے تک برقرار رہنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے اور پس پردہ رہ کر فوج نے کسی حکومت کو چند برس سے زیادہ گزارنے کا موقع نہیں دیا،
کبھی اس کی جیگ برانچ متحرک ہو جاتی ہے،کبھی کاکڑ فارمولہ آزمایا جاتا ہے اور کبھی بنگلہ دیش ماڈل کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں ، کوئی فوجی حکمران جسے سب سے کم عرصہ اقتدار ملا، وہ یحییٰ خاں تھا اور اس نے اس تھوڑے کو بہت جانا اور ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی، قائد اعظم کا ملک آدھا کر دیا ، فوج کو بھارت کے سامنے سرنڈر ہونے دیا اور یہ کئی برس تک کلکتہ کے جنگی کیمپوں میں مقید رہی۔
بہر حال بات اگلے الیکشن کی ہے جسے اپنے وقت سے نہ پہلے ، نہ بعد میں بلکہ مقررہ وقت پر ہونا چاہیے اور اب باقی جو عرصہ ہے اس کے اندر ہماری سیاسی جماعتیں، ہمارا الیکشن کمیشن اور دوسرے ادارے بھرپور تیاری پر توجہ مرکوز کریں۔ قوم کو ایک متفقہ، غیر متنازعہ چیف الیکشن کمیشن مل گیا ہے مگر یہ بھارت کے الیکشن کمیشن کی طرح آزاد اور خود مختار نہیں، اس لیے پہلے تو اسے مکمل طور پر خود مختار آئینی ا دارہ بنانے کی کوشش ہونی چاہیے اورالیکشن کے سلسلے میںہماری عدلیہ کوئی رٹ پٹیشن سننے اور کسی طرح کی آئینی تشریح کا اختیار استعمال نہ کرے۔الیکشن کے تمام تنازعات الیکشن کمیشن ہی نمٹائے۔
جناب فخرالدین جی ابراہیم سے تو کوئی سینئر جج ہو نہیں سکتا اور ان سے کسی بے انصافی کی توقع بھی نہیں ہو سکتی۔اس لیے ان کے ادارے کو آزاد، خود مختار اور مضبوط بنانا ضروری ہے۔ اسی طرح ہماری سیاسی جماعتوں کو اپنا ہوم ورک مکمل کرنا چاہیے، ملک گیر سطح پر منظم ہونے کی کوشش کرنی چاہیے اور علاقائی ، نسلی، لسانی، صوبائی یا فرقہ وارانہ بنیادوں پر سیاست کرنے سے اجتناب برتنا چاہیے
تاکہ قوم ٹکڑوں میں تقسیم نہ ہو اور وفاق کی روح مجروح نہ ہو۔1970کے الیکشن میں ایک صوبے کی بنیاد پر سیاست چمکانے دی گئی جس سے پاکستان دو لخت ہو گیا۔چھوٹے گروپوں کو انتخاب کے نقطہ نظر سے ہم خیال بڑی سیاسی جماعتوں میں ضم ہوجانا چاہیے یا کم از کم ٹکٹوں کی تقسیم کا نظام وضع کر لینا چاہیے تاکہ ہم ایک منقسم منڈیٹ سے بچ جائیں اور قوم کا واضح فیصلہ آ سکے کہ فلاں دو جماعتیں ایسی ہیں جن میں سے ایک تو حکومت بنا لے اور دوسری اپوزیشن میں بیٹھ کر اس کی نگرانی کا فریضہ ادا کرے۔
کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ہاں عملی طور پر یہی دو جماعتی نظام موجود ہے اور پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی شکل میں دو دھڑے پارلیمنٹ میں کام کرتے ہیں لیکن موجودہ صورت میںچھوٹے گروپ الیکشن تو اپنے طور پر لڑتے ہیں اور پھر حکومتی اتحاد میں شامل ہو کر بڑے فریق کو جب چاہے بلیک میل کرتے رہتے ہیں جس سے مستحکم حکومتی نظام وضع نہیں ہو پاتا اور قوم ایک پل صراط پر لٹکی رہتی ہے،
چھوٹے گروپ من مانی کرتے ہیں، ہارس ٹریڈنگ کا مکروہ دھندا شروع ہو جاتا ہے اور مویشی میلے کا منظر سامنے آ جاتا ہے ، ماضی میں چھانگا مانگا، میریٹ ہوٹل اور مالم جبہ کا کھیل قوم نے دیکھا اور ہر کسی کا سر شرم سے جھک گیا لیکن یاد رکھئے ، اس نظام کی باگ ڈور اصل میں ووٹروں کے ہاتھ میں ہے، اگر وہ اپنا فرض ادا کریں اور ٹانگے کی سواری رکھنے والی پارٹیوں کوووٹ دے کر اسمبلیوں میں نہ بھیجیں تو مکروہ سیاست نہیں ہو سکے گی،
ووٹروں کے سامنے ایک ہی نظریہ ہونا چاہیے کہ ملک گیر پارٹی کو ووٹ دینا ہے ورنہ اس کا ووٹ ضایع جا سکتا ہے۔امریکا برطانیہ اور کئی دوسرے ملکوں میں یہی دو جماعتی نظام ہے ، اکا دکا کئی دوسرا دھڑا موجود بھی ہے تو اس کا وجود، عدم وجود کوئی حیثیت نہیں رکھتا اور وہ کسی سودے بازی کی پوزیشن میں نہیں ہوتا، نہ حکومت کو ان کی ضرورت پڑتی ہے، نہ اپوزیشن کو اس کے نخرے اٹھانے کی کوئی مجبوری لاحق ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں تو منظر نامہ ہی دوسرا ہے اور اب تو ٹانگے کی سواری سے بھی آگے صرف ایک رکنی پارٹیوں کی کثرت ہو رہی ہے، ہر کوئی انا کا مارا ہوا ہے، ن لیگ نے پہلے اعلان کیا کہ وہ غداروں ، بے وفائوں ، لوٹوں کو قبول نہیں کرے گی، پھر ہم خیالوں کے ٹولے کے بل بوتے پر چار برس سے پنجاب میںحکومت قائم کر رکھی ہے اور جب سے اسے تحریک انصاف نے چیلنج کیا ہے ،
اس نے دھڑادھڑ بے وفائوں کو شرف قبولیت بخشنا شروع کر دیا ہے، سیاست میں وفا داری ایوان تک محدود ہوتی ہے اور وہ بھی آئینی مسائل پر ووٹ دیتے وقت جب پارٹی لائن سے ہٹنے کی صورت میںسیٹ سے محرومی کی تلوار سر پر لٹک جاتی ہے لیکن ہمارے ہاں یہ رسک بھی لے لیا جاتا ہے۔ایک وزیر صاحب اپنی حکومت کے خلاف عدالت میں پارٹی بن بیٹھے۔یہ عجوبے صرف ہمارے ہاں ہی ہو سکتے ہیں۔ن لیگ پر نیا پریشر صرف تحریک انصاف کی وجہ سے آیا ہے اور اسے متحرک ہونے اور اپنے رفقا کی بات پر کان دھرنے کی توفیق ہو گئی ہے۔
ن لیگ کی طرف سے سارے تجزیے اس نوع کے آ رہے ہیں کہ اگر عمران خاں ووٹ تقسیم نہ کرے اور بھلا مانس بن جائے تو اگلی حکومت ن لیگ کی بن سکتی ہے، ورنہ تو پیپلز پارٹی شروع دن سے پیتیس چالیس فی صد پکے ووٹ کے ساتھ ایک بڑے چیلنج کے طور پر موجود ہے اور شاید اسی بنا پر صدرزرداری نے دعویٰ کر دیا ہے کہ اگلی حکومت بھی ان کی ہو گی اور پنجاب میں بھی ایک جیالا راج کرے گا۔
اس دعوے کا مقابلہ کرنے کے لیے پی پی پی مخالف قوتوں کو اکٹھے ہونا پڑے گا لیکن کسی اشارے پر نہیں یا پھر ووٹر کی تربیت کی جائے کہ وہ اپنا ووٹ ضایع نہ کریں۔ن لیگ کے رہنما 1977 کے بعد وفاق اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے میںحکومت کر تے ر ہے، ایک موٹر وے کا کارنامہ کب تک ووٹر کے لیے کشش کا باعث بن سکتا ہے، اس وقت پورا لاہور شہر اکھڑا پڑا ہے ، اس پرکم ازکم لاہور ٹریفک پولیس تو کسی دن ضرور ہڑتال پر چلی جائے گی
جو کسی کو متبادل راستہ بھی بتانے کی پوزیشن میں نہیں، سڑکوں کو ادھیڑنے کا منصوبہ کس نے بنایا، بنی بنائی فیروز پور روڈ کا تیا پانچہ کس نے کیا، یہ تو کسی دن استنبول کے میئر دوبارہ لاہور آئے تو ان سے میں پوچھوں گا کہ کیا ایک بھرے پرے شہر کا یہ حال کیا جاتا ہے اور کیا یہ ان کے مشورے سے شہریوں پر قیامت ڈھائی گئی ہے۔باقی صحت کا شعبہ کسی کے کنٹرول میں نہیں، تعلیم کا بر احال ہے اور امن عامہ کا کچھ نہ پوچھیے
، شہری ، دکاندار، ملازمین اور بینک آئے روز لٹتے ہیں ، یہی عالم رہا تو تحریک انصاف کو دوسری بڑی جماعت بننے سے کوئی نہیں روک سکتا، اس کا دعویٰ ہے کہ نئی لسٹوںمیں نوجوان ووٹرز کی اکثریت ہے اور یہ سب ان کے ساتھ ہیں، یہ دعویٰ درست نکلا تو مقابلہ پی پی پی کے پکے اور جیالے ووٹر اور تحریک انصاف کے جذباتی اور نوجوان ووٹر کے درمیان ہو گا، پھر اﷲ دے،اور بندہ لے، فیصلے آنے و الا وقت ہی کرے گا۔