کیا عریانی ستر ہو سکتی ہے

ستر‘ حیا اور پردہ انسانی تہذیب کی وہ اعلیٰ ترین اوصاف ہیں جو انسان کو جانور سے ممیز کرتی ہیں

theharferaz@yahoo.com

پاکستان کے آزاد اور خود مختار میڈیا پر گزشتہ چند مہینوں سے میرے ایک عظیم دانشور دوست کے فقرے کی گونج بار بار سنائی دے رہی ہے۔ ''یورپ میں عریانی ستر ہے۔'' مجھے اپنے اس دوست پر ایک گمان ہے کہ یہ فقرہ اس نے خالص جذباتی اور فقرہ بندی کے عالم میں کہہ دیا اور پھر اسے اس کا دفاع کرنا پڑ رہا ہے۔

ورنہ ایک معمولی سی لغت یا ڈکشنری رکھنے والا شخص بھی اگر عریانی اور ستر کے معنی نکال کر دیکھ لے تو وہ شاید ہی ایسا فقرہ زبان سے نکال سکے۔ماہرین زبان جنھیں Philologist کہا جاتا ہے وہ ہر لفظ کی تخلیق کے پیچھے صدیوں کے انسانی تجربے کا کھوج لگاتے ہیں اور پھر بتاتے ہیں کہ انسان ایسے ماحول' حادثات' تجربات اور ترغیبات سے گزرا تب جا کر لفظ عریانی' حیاء' شرم محبت' نفرت' غصہ وغیرہ ہر زبان میں تخلیق ہوئے۔ دنیا میں پھیلی ہزاروں زبانوں میں صدیوں سے عریانی کا ایک ہی مفہوم ہے اور ستر کا دوسرا مفہوم ہے۔ دنیا کے ہر مذہب میں آدم اور حوا کا قصہ تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ موجود ہے۔

اس میں جنت میں دونوں لباس میں موجود تھے اور جب ان سے وہ غلطی سرزد ہوئی تو ان کے ستر ان پر کھل گئے اور وہ پتوں سے اپنے ستر ڈھانپنے لگے۔ گویا حیاء وہ پہلا عمل تھا جو انسانوں کی جبلت میں شامل ہوا۔ مارگریٹ میڈ وہ مشہور محقق ہے جس نے ایمیزن کے جنگلات میں رہنے والے تہذیب سے دور قبائل کا مطالعہ کیا۔ اس کے نزدیک بھی مکمل عریانی کسی قبیلے میں بھی موجود نہ تھی بلکہ ستر کا ایک معیار ضرور موجود تھا خواہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔

ستر' حیا اور پردہ انسانی تہذیب کی وہ اعلیٰ ترین اوصاف ہیں جو انسان کو جانور سے ممیز کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مغرب میں کوئی عریانی پر نظر بھی نہیں ڈالتا۔ اس سے بڑا جھوٹ تو شاید ہی بولا جائے کیوں کہ مغرب کے جرائم کی اعداد و شمار میں سب سے زیادہ جرائم وہ ہیں جو عریانیت کی وجہ سے وہاں عام ہیں۔ دنیا میں دو سو کے قریب ممالک میں عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی شرح نکال کر دیکھ لیں۔ صرف ایک سرچ انجن پر بٹن دبانے سے مل جائے گی۔

آپ کو سب سے زیادہ عورتیں ان معاشروں میں جنسی زیادتی کا شکار ملیں گی جہاں لباس کی حد کو کم سے کم کیا گیا ہو اور سب سے کم ان ممالک میں جہاں ستر اور حجاب آج بھی انسانوں کا زیور سمجھا جاتا ہے۔ عریانیت اور جرم کا تعلق دنیا کے ہر معاشرے میں مسلم حیثیت رکھتا ہے۔ امریکا کے محکمہ انصاف کی ویب سائٹ کھولیں اور حیرت سے دانتوں میں انگلیاں دبائیں۔ 2005 میں ایک لاکھ اکیانوے ہزار چھ سو ستر خواتین نے جنسی زیادتی کی رپورٹ پولیس میں درج کروائی جب کہ یہ اصل تعداد کا ایک تہائی ہے۔ یعنی اصل میں چھ لاکھ کے قریب عورتیں اس اذیت سے گزریں جب کہ اکثر خاموش رہیں۔

اب ذرا غور کیجیے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ انھیں نظر بھر کر بھی نہیں دیکھتے جو عورتیں مختصر لباس میں ہوتی ہیں۔ زیادتی کرنے والوں میں 38 فیصد ان کے قریبی دوست تھے جن کے سامنے وہ روز اس لباس میں آتی تھیں۔ 7 فیصد رشتے دار' اور26 فیصد پرانے بوائے فرینڈ وغیرہ۔ یہ سارا اختلاط ہی تھا جو ان چھ لاکھ عورتوں کی زندگیوں میں زہر بھر گیا۔ پوری دنیا کے ممالک کے جرائم کے اعداد و شمار اٹھا لیں' ایک لفظ سیریل کلر ملے گا۔


یہ وہ لوگ ہیں جو نیم برہنہ لباس میں ملبوس عورتوں کو اٹھا کر جنسی جنون میں قتل کرتے ہیں۔ ان کا آغاز دو سو سال قبل جیک دی ریپر سے ہوتا ہے جب یورپ میں عریانیت کا آغاز ہوا تھا۔ آپ کو اس پوری لسٹ میں مسلمان ممالک میں دس سے زیادہ سیریل کلر نہیں ملیں گے جب کہ اکیلے امریکا میں ان کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے جنہوں نے لاکھوں عورتوں کو اٹھا کر اذیتیں دے کر قتل کیا۔ ان میں کوئی مذہبی جنونی نہ تھا۔ اکثریت وہ تھی جو ان کے مختصر لباس سے اشتعال میں آتے اور پھر تاک میں بیٹھ کر ان کو اٹھا کر قتل کر دیتے۔ ان میں ایسی عورتیں بھی شامل تھیں جو ان کے خون سے غسل کرتیں۔

ارجنٹائن سے لے کر آسٹریلیا' کینیڈا' یونان' ڈنمارک' سویڈن اور دیگر ممالک میں ایسے قاتلوں کی تعداد ہزاروں کی تعداد میں بنتی ہے جنہوں نے خواتین کو ایسے ملبوس میں دیکھا اور ان پر جنون طاری ہوا اور پھر یہ ان کی ایک عادت بن گئی کہ ایسی عورتوں کو اٹھا کر قتل کر دیا جائے۔ اگر ان کے رنگین ''کارناموں'' کی تفصیل مرتب کی جائے تو دنیا کے کسی انسائیکلو پیڈیا سے کم نہیں ہو سکتی۔ جسے پوری طرح پڑھنے کے لیے میرے معزز دوست دانشور کو پوری زندگی درکار ہو گی۔

ایسے جنسی جنونیوں اور قاتلوں کی تعداد مسلمان معاشروں میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی ان معاشروں میں شرم' حیاء' غیرت' حجاب اور ستر جیسی اقدار زندہ ہیں۔ 1970 کی دہائی میں مغرب کے معاشروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اس جنسی ہیجان کو کم کرنے کے لیے عریاں فلموں کی بہتات معاشروں میں پھیلائی جائے۔ تاکہ لوگ اس کی طرف مائل ہو کر اپنا جنون اور ہیجان کم کر دیں۔

صرف دو یا تین سال جرائم کم ہوئے لیکن پھر ایسے بڑھے کہ معاشرے چیخ اٹھے۔ عریانیت کے اس طوفان سے ایک خوفناک صورت حال مقدس رشتوں سے زیادتی اور بچوں کو اس مقصد کے لیے استعمال کرنا تھا۔ صرف امریکا سے ہر سال 25 لاکھ بچیاں اس مقصد کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔ چین' فلپائن' تھائی لینڈ' مشرقی یورپ اور روس کی آزاد کردہ ریاستوں سے بچیاں جہازوں میں بھر کر یورپ کی منڈیوں میں لائی جاتی ہیں۔

جرمنی کے فٹ بال کپ کی تقریب کے لیے دنیا بھر سے پنتالیس ہزار لڑکیاں ایک عارضی بازار نما جگہ میں لا کر بٹھائی گئیں۔ دنیا میں اغوا شدہ' غریب بچیوں کی محرومی سے فائدہ اٹھانے والی سب سے بڑی منڈی یورپ ہے۔ ایمسٹرڈیم کے ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کے ہزاروں کمروں میں آپ کو ہر ملک کی عورت نیم برہنہ حالت میں کھڑی ملے گی جنھیں دیکھنے والوں اور داد عیش دینے والوں میں اکثریت انھی کی ہوتی ہے جن کے بارے میں یہ دعویٰ ہے کہ وہ دیکھتے تک نہیں۔

فلپائن' بنکاک' برازیل اور گوا کے بازاروں میں آپ کو یورپ اور امریکا کے سیاح ملیں گے جو ان عورتوں کی تلاش میں وہاں آتے ہیں جن کے بارے میں آپ کا دعویٰ ہے کہ وہاں عریانی ستر بن چکی ہے۔ مجھے انتہائی دکھ اس وقت ہوا جب کہا گیا کہ پردہ اصل میں عرب کی روایت تھی جسے اسلام نے قائم رکھا۔ مجھے دنیائے عرب کی کوئی بھی تاریخ نکال کر دکھا دیں کہ عرب کے قبائلی معاشرے میں عورتیں اسلام سے پہلے پردہ کرتی تھیں۔

یہ میرے آقا سرورِدو عالم صلی اﷲ علیہ وسلم پر ایک بہتان ہے۔ آپ نے اس بے راہ رو معاشرے کو جس میں کعبے میں لٹکے ہوئے قصیدے صرف فحش نگاری کے سوا کچھ نہ تھے حیاء' شرم' عصمت اور حجاب کا درس دیا۔ انسانی معاشرے میں ستر اس کی پہچان ہے' انسان عریانیت پر چونکتا ہے۔ البتہ کتوں کے غول نے کبھی مڑ کر بھی نہیں دیکھا کہ سڑک کے کنارے کونسا کتا کیا کر رہا ہے۔ خنزیروں کے ٹولے گھومتے ہیں اور کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا کہ ہم میں عریانیت ہے یا ہم میں سے کون ہے جو سرعام غیر اخلاقی حرکات کر رہا ہے۔
Load Next Story