ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ چین کا نیو ورلڈ آرڈر
اگریہ نیا حکم نامہ وجود رکھتا بھی ہے تو اس کی بنیادیں تصادم اور استعماریت نہیں محبت، امن اور بھائی چارے سے اٹھی ہیں۔
یہ 1492ء کی بات ہے جب ہسپانوی اور پرتگالی افواج نے اسپین میں آخری مسلم ریاست کو بھی زیر کر لیا۔یہ دونوں قوتیں مسلمانوں کی شدید مخالف تھیں۔انھوں نے پھر سمندروں میں مہم جو اور جہاز راں بھجوائے۔ مقصد یہ تھا کہ اسلامی ممالک تک پہنچنے کے لیے سمندری راستے تلاش کیے جاسکیں۔
دوران سفر یورپی جہاز رانوں نے براعظموں کے متفرق علاقے دریافت کیے جنہیں نوآبادی بنا لیا گیا۔ یوں یورپیوں کے ہاتھوںانسانی تاریخ میں نوآبادیت کے ظالمانہ و نامنصفانہ باب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ہسپانوی اور پرتگالی قوتوں نے اپنی نو آبادیوں میں ہزارہا لوگوںکو غلام بنایا اور ان سے کھیتوں و فارموں میں بیگار لینے لگے۔ ساتھ ساتھ نو آبادیوں کے وسائل لوٹ کر ان کی مدد سے اپنے ملکوں کو معاشی ترقی دی جانے لگی۔انھیں نوآبادیوں کے باعث زبردست معاشی فوائد ملے تو دیگر یورپی قوتوں کی رال بھی ٹپکنے لگی۔ چناں چہ آنے والی صدیوں میں تقریباً سبھی یورپی ممالک نے بزور ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا، شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں اپنی بیسیوں نو آبادیاں قائم کرلیں۔ انہوں نے نو آبادیوں کے وسائل جی بھر کر لوٹے اور خود طاقتور معاشی قوتیں بن بیٹھیں۔ یہ سچ ہے کہ یورپ کی معاشی ترقی نو آبادیوں میں لوٹ مار کی مرہون منت بھی ہے۔
اب مغربی ممالک کو نو آبادیاں بنانے کا چسکا لگ گیا کیونکہ ان کی بدولت انہیں معاشی، سیاسی اور عسکری فوائد حاصل ہوتے تھے۔ بیسویں صدی میں مغربی ممالک کے مابین دو عظیم جنگیں ہوئیں۔ یہ جنگیں انجام پانے کا ایک اہم سبب نو آبادیوں پر کنٹرول حاصل کرنا بھی تھا۔ تاہم باہمی سرپھٹول نے یورپی استعماری قوتوں کو کمزور کردیا۔ نتیجتاً مجبور ہوکر انہیں اپنی بیشتر نو آبادیاں آزاد کرنا پڑیں۔ لیکن بعد میں بھی مغربی استعماری طاقتوں مثلاً برطانیہ، فرانس، بیلجیئم وغیرہ کی یہی سعی رہی کہ وہ اپنی سابقہ نو آبادیوں کی سیاست، معیشت و دفاع پر اثر انداز ہوسکیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نئی استعماری قوت بن کر ابھرا۔ مگر اس نے بزور کم ہی نو آبادیاںقائم کیں بلکہ وہ معاشی وعسکری امداد کے ذریعے خصوصاً اسلامی ممالک میں اثرو رسوخ بڑھانے میں کامیاب رہا۔ سویت یونین سے سرد جنگ نے بھی امریکا کو سپرپاور بننے میں مدد دی اور اپنی بین الاقوامی کرنسی، ڈالر کی بدولت بھی وہ عظیم قوت بن گیا۔
1991ء میں سویت یونین کا خاتمہ ہوا، تو امریکی حکمران طبقہ دنیا کو اپنے نظریات و خیالات پر ڈھالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے ''نیو ورلڈ آرڈر'' قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس غیر اعلانیہ حکم نامے کے ذریعے امریکی حکمران طبقے نے دنیا والوں پر زور دیا کہ وہ امریکا کی معاشی و عسکری ہی نہیں تہذیبی، ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی بالادستی بھی قبول کرلیں۔ تاہم اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ، ایران، شمالی کوریا، شام اور عراق نے یہ نیو ورلڈ آرڈر قبول کرنے سے انکار کردیا۔
دنیا کی اکلوتی سپرپاور ہونے کے احساس نے امریکی حکمران طبقے کو مغرور بنا دیا تھا۔ وہ سمجھنے لگا کہ اس کی زبردست عسکری و معاشی طاقت کے سامنے اب دنیا کی ہر حکومت گھٹنے ٹیک دے گی مگر اس کو پہلے صدام حسین اور پھرالقاعدہ سے ٹکرانا پڑا۔
القاعدہ کے گوریلوں سے لڑائی بڑھتی چلی گئی اور اس نے عراق، پاکستان، افغانستان سمیت عالم اسلام کے بڑے حصّے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔لڑائیوں میں اندھا دھند اوربے سوچے سمجھے کودنے سے امریکا کے جنگی اخراجات بے تحاشا بڑھ گئے اور اس امر نے امریکی حکومت کو مقروض بنا دیا۔ اخراجات نے قومی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا۔ جب امریکی حکمران طبقہ چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑنے میں محو تھا، تو دنیا میں ایک نئی معاشی طاقت... چین کا ظہور ہو گیا۔
1949ء میں جب ماؤزے تنگ نے چین کا اقتدار سنبھالا، تو اس کا شمار غریب ممالک میں ہوتا تھا۔ افیون کا عادی ہونے کے باعث چینی افیونچی کہلاتے تھے۔ ماؤزے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے معیشت کو سنبھالا تاہم 1979ء کے بعد انقلابی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ چینی صدر، ڈینگ زیاؤ پنگ نے معیشت پرعائد پابندیاں ہٹالیں اور نجی و سرکاری طبقے کو آزادانہ تجارت کی اجازت دے ڈالی۔ یہ عمل تاریخ ساز ثابت ہوا۔ اب چین کی سستی اشیا پوری دنیا میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے لگیں۔
اُدھر چین اشیا کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال درآمد کرنے لگا۔ یوں چین کی اربوں ڈالر پر مشتمل برآمدات و درآمدات نے عالمی معیشت کا پہیہ تیز تر کردیا۔ اس امر نے چین اورچینیوں کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک کو بھی بے پناہ معاشی فوائد بہم پہنچائے۔
اکیسویں صدی کے آغاز تک امریکا اور مغربی ممالک چین کے بڑے تجارتی ساتھی بن چکے تھے۔ اس دوران مغرب اور چین کے مابین کئی سیاسی و معاشی معاملات پر اختلاف رائے ہوا مگر بات زیادہ آگے نہیں بڑھی ۔لیکن جب چین دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بن گیا تو امریکی حکمران طبقے کے کان کھڑے ہوگئے۔ اب وہ چین کو اپنا مدمقابل سمجھنے لگا۔ اس طرز فکر نے امریکا اور چین کے درمیان تناؤ بڑھا دیا۔ امریکی حکمران طبقہ اچانک 2005ء کے بعد بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگا۔
امریکی میڈیا ہی نے آخر کار یہ راز افشا کیا کہ چین کا مقابلہ کرنے کی خاطر امریکا بھارت کو اپنا ''پٹھا'' بنا کر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ امریکی حکمران طبقے کی خفیہ و عیاں چالوں اور سازشوں سے متنفر ہوکر چینی حکومت نے اپنے جنگی بجٹ میں اضافہ کردیا۔ اب خصوصاً طیارہ بردار جہاز، جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں تیار کرنے پر زور بڑھ گیا۔ وجہ یہ کہ بحرالکاہل میں جابجا امریکا کی عسکری تنصیبات پھیلی ہوئی ہیں۔
بحیرہ جنوبی چین دنیا کے اسی سب سے بڑے سمندر کا حصّہ ہے جہاں سے چین بذریعہ آئل ٹینکر اپنا بیشتر تیل منگواتا ہے۔ نیز بہت سا درآمدی برآمدی سامان بھی بحیرہ جنوبی چین کے راستے سے آتا جاتا ہے۔ جب چینی حکومت کو احساس ہوا کہ امریکا چین کے خلاف محاذ بنا رہا ہے تو وہ چوکنا ہوگئی۔
اسے پہلا خیال یہی آیا کہ آمدورفت کے نئے راستے تلاش کیے جائیں۔ امریکی اپنے طیارہ بردار جہازوں کی مدد سے جنوبی بحیرہ چین کی ناکہ بندی کرکے چین کو باآسانی محصور کرسکتے ہیں۔ تبھی چینی تھنک ٹینکس کی یہ پیش کردہ تجویز نمایاں ہوئی کہ قدیم شاہراہ ریشم کے بری و بحری راستوں کو ازسرنو دریافت و تعمیر کرنا چاہیے۔
یہ تجویز نئی نہیں تھی مگر چینی حکومت نے اس پر زیادہ غور نہیں کیا۔ لیکن منافق امریکی حکمران طبقے کی سازشوں نے اسے نمایاں کر دیا۔اب چینی حکمران طبقے کو احساس ہوا کہ یہ تجویز اپنانے سے نہ صرف محفوظ تجارتی راستے جنم لیں گے بلکہ وہ چین اور دیگر ممالک کو بے پناہ معاشی فوائد بھی بہم پہنچا سکتی ہے۔چناں چہ2013ء کے موسم خزاں میں چینی صدر، شی جن پنگ نے اس تجویز کو ''بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو'' کے نام سے باقاعدہ طور پر پیش کر ڈالا۔ منصوبے کا جوہر یہ ہے کہ چین، ایشیا، روس اور یورپ میں برّی و بحری راستے تعمیر کیے جائیں تاکہ ان تمام خطوں کے مابین تجارت بڑھ سکے اور معاشی ترقی جنم لے۔
حسب توقع امریکا اور اس کے ہم نوا ممالک چین کے درج بالا منصوبے پر تنقید کرنے لگے جو عرف عام میں ''ون بیلٹ ون روڈ'' کہلاتا ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ اس کی مدد سے چین دنیا بھر میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ گویا انہوں نے چین کو نئی استعماری قوت قرار دے ڈالا۔ بعض دانشوروں نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے صدر شی جن پنگ چین میں اپنی طاقت بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے اقتدار کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں ۔ تاہم امریکا کی شدید مخالفت بھی چینی منصوبے کی قدرو قیمت کم نہ کرسکی۔
چین ون بیلٹ ون روڈ پلان کے تحت منصوبے میں شامل ممالک میں سڑکوں، شاہراؤں،پٹڑیوں،پلوں،پائپ لائنوں، نئے تجارتی مراکز اور دیگرمتعلقہ انفراسٹرکچر کی تعمیر پر ایک ٹریلین ڈالر (ایک ہزار ارب ڈالر) تک خرچ کرنے کو تیار ہے۔ تادم تحریر ایشیا، یورپ اور افریقا کے 65 ممالک اس عظیم الشان منصوبے کا حصہ بن چکے۔
ماہرین معاشیات کی رو سے یہ انسانی تاریخ میں مالی لحاظ سے سب سے بڑا ڈویلپمنٹ پلان ہے۔پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ اور بنگلہ دیش، چین، بھارت، میانمار، اکنامک کوریڈور بھی ون بیلٹ ون روڈ کے ذیلی منصوبے ہیں۔ پاکستان میں سی پیک منصوبے کے تحت بجلی گھر بھی بن رہے ہیں جن کے ذریعے لوڈشیڈنگ کے بے قابو دیو کو قابو کرنے میں مدد ملے گی۔ سی پیک منصوبے کی مالیت 50 تا 60 ارب ڈالر کے مابین بتائی جاتی ہے۔
سال رواں کے آغاز میں چینی حکومت نے اعلان کیا کہ 14 تا 15 مئی بیجنگ میں ایک بین الاقوامی فورم منعقد ہوگا۔ اس میں صدر شی جن پنگ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی غرض و غایت تفصیل سے واضح کریں گے۔ یہ اعلان ہوتے ہی امریکی میڈیا پروپیگنڈا کرنے لگا کہ چین اس منصوبے کے ذریعے دنیا والوں پر اپنا نیو ورلڈ آرڈر تھوپنا چاہتا ہے۔ چینی حکمران طبقے کی خواہش ہے کہ وہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے زیر دام و ماتحت لے آئیں۔ مگر یہ امریکی میڈیا کا دروغ گوئی اور عیاری پر مبنی پروپیگنڈا ہے۔
تاریخ سے عیاں ہے کہ چین مغربی طاقتوں کی طرح کبھی سّکہ بند استعماری طاقت نہیں رہا۔ اس نے دور دراز علاقوں میں جاکر زبردستی نو آبادیاں قائم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اقوام عالم کے قیمتی قدرتی وسائل لوٹے۔ اگر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو چین کا نیو ورلڈ آرڈر سمجھ بھی لیا جائے، تو یہ امریکی حکمران طبقے کے عالمی حکم نامے سے بالکل مختلف ہے۔
پچیس سال قبل امریکا نے ظالمانہ و غیر انسانی مغربی نو آبادیاتی روایات برقرار رکھتے ہوئے جو نیوورلڈ آرڈر پیش کیا وہ دھونس، دھمکی اور ترغیبات سے عبارت تھا۔ اس کے ذریعے طاقت میںمست الست امریکی حکمران طبقے نے اعلان کیا کہ جو امریکا کے مفادات سے ٹکرایا، اسے نیست و نابود کردیا جائے گا۔ گویا امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا خمیر نفرت، دشمنی اور جنگ جوئی سے اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے، اس کے نافذ ہوتے ہی کرہ ارض کا وسیع رقبہ جنگوں کی آگ کا نشانہ بن گیا۔یاد رہے،امریکا کا نظریہ ترقی بھی مادہ پرستی،خود غرضی اور دھوکے بازی کی خصوصیات رکھتا ہے۔
چین کا نیا ورلڈ آرڈر بنیادی طور پہ امن، محبت، یکجہتی اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔ چینی اپنے ملک و قوم کی معاشی ترقی چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی خواہش ہے کہ بذریعہ ون بیلٹ ون روڈ دیگر ممالک میں معاشی ترقی جنم لے، غربت و جہالت ختم ہو اور عوام خوشحال ہوجائیں۔
اس سلسلے میں چینی اربوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہیں تاکہ سبھی ممالک میں منصوبے کو درکار انفراسٹرکچر وجود میں آسکے۔ گویا چین اپنا بھلا چاہتا ہے اور دوسروں کا بھی!اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ چینیوں کے نظریہ ترقی میں انسانی جذبات واحساسات کی چاشنی بھی موجود ہے۔وہ سو فیصد مادہ پرستی پہ مبنی نہیں۔ جبکہ امریکی و مغربی حکمرانوں کی تاریخ افشا کرتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے جائز و ناجائز مفادات کو اولیت دی چاہے دوسروں کا نقصان ہوجائے۔
ہر منصوبے کی طرح ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ بھی خامیاں و خدشات رکھتا ہے ۔مثلاً ایک خدشہ یہ ہے کہ اس کی بدولت پاکستان سمیت تمام ممالک کا قرضہ بڑھ جائے گا۔ مگر پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک آئی ایم ایف، عالمی بینک وغیرہ سے وقتاً فوقتاً قرضے لیتے رہتے ہیں۔عموماً یہ قرضہ حکمرانوں کی کوتاہیاں اور غلطیاں دور کرنے میں کام آتا ہے اور جس کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جب کہ چین کے دیئے گئے قرضوں سے ہرملک میں وسیع پیمانے پر انفراسٹرکچر کھڑا ہوگا جو لامحالہ عوام الناس کو فائدہ پہنچائے گا۔
قول ہے ''اگر آپ خطرات مول لینے کو تیار نہیں تو اپنے معمولی حال پر قانع ہوجائیے۔''چناں چہ پاکستانیوں کو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے اچھائی کی امید رکھنی چاہیے۔ ویسے بھی پاکستان ایشیا میں اس چینی منصوبے کا ایک بڑا حمایتی بن چکا جو درست حکمت عملی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی معاشی وعسکری قوت کا ساتھ پاکر پاکستان اس قابل ہو گا کہ مقامی و عالمی نوعیت کے مسائل بخوبی حل کرسکے۔ چینی منصوبے کے مخالف بھارت سے ٹکراؤ اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اکیسویں صدی کے اوائل سے پاکستان ٹوٹنے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ مگر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اعلان ہوتے ہوتے یہ افواہیں دم توڑ گئیں اور اب ایک خوشحال و اُمید بھرا مستقبل پاکستانی قوم کا منتظر ہے۔
دوران سفر یورپی جہاز رانوں نے براعظموں کے متفرق علاقے دریافت کیے جنہیں نوآبادی بنا لیا گیا۔ یوں یورپیوں کے ہاتھوںانسانی تاریخ میں نوآبادیت کے ظالمانہ و نامنصفانہ باب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ ہسپانوی اور پرتگالی قوتوں نے اپنی نو آبادیوں میں ہزارہا لوگوںکو غلام بنایا اور ان سے کھیتوں و فارموں میں بیگار لینے لگے۔ ساتھ ساتھ نو آبادیوں کے وسائل لوٹ کر ان کی مدد سے اپنے ملکوں کو معاشی ترقی دی جانے لگی۔انھیں نوآبادیوں کے باعث زبردست معاشی فوائد ملے تو دیگر یورپی قوتوں کی رال بھی ٹپکنے لگی۔ چناں چہ آنے والی صدیوں میں تقریباً سبھی یورپی ممالک نے بزور ایشیا، افریقا، لاطینی امریکا، شمالی امریکا اور آسٹریلیا میں اپنی بیسیوں نو آبادیاں قائم کرلیں۔ انہوں نے نو آبادیوں کے وسائل جی بھر کر لوٹے اور خود طاقتور معاشی قوتیں بن بیٹھیں۔ یہ سچ ہے کہ یورپ کی معاشی ترقی نو آبادیوں میں لوٹ مار کی مرہون منت بھی ہے۔
اب مغربی ممالک کو نو آبادیاں بنانے کا چسکا لگ گیا کیونکہ ان کی بدولت انہیں معاشی، سیاسی اور عسکری فوائد حاصل ہوتے تھے۔ بیسویں صدی میں مغربی ممالک کے مابین دو عظیم جنگیں ہوئیں۔ یہ جنگیں انجام پانے کا ایک اہم سبب نو آبادیوں پر کنٹرول حاصل کرنا بھی تھا۔ تاہم باہمی سرپھٹول نے یورپی استعماری قوتوں کو کمزور کردیا۔ نتیجتاً مجبور ہوکر انہیں اپنی بیشتر نو آبادیاں آزاد کرنا پڑیں۔ لیکن بعد میں بھی مغربی استعماری طاقتوں مثلاً برطانیہ، فرانس، بیلجیئم وغیرہ کی یہی سعی رہی کہ وہ اپنی سابقہ نو آبادیوں کی سیاست، معیشت و دفاع پر اثر انداز ہوسکیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نئی استعماری قوت بن کر ابھرا۔ مگر اس نے بزور کم ہی نو آبادیاںقائم کیں بلکہ وہ معاشی وعسکری امداد کے ذریعے خصوصاً اسلامی ممالک میں اثرو رسوخ بڑھانے میں کامیاب رہا۔ سویت یونین سے سرد جنگ نے بھی امریکا کو سپرپاور بننے میں مدد دی اور اپنی بین الاقوامی کرنسی، ڈالر کی بدولت بھی وہ عظیم قوت بن گیا۔
1991ء میں سویت یونین کا خاتمہ ہوا، تو امریکی حکمران طبقہ دنیا کو اپنے نظریات و خیالات پر ڈھالنے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے ''نیو ورلڈ آرڈر'' قائم کرنے کا اعلان کردیا۔ اس غیر اعلانیہ حکم نامے کے ذریعے امریکی حکمران طبقے نے دنیا والوں پر زور دیا کہ وہ امریکا کی معاشی و عسکری ہی نہیں تہذیبی، ثقافتی، سیاسی اور معاشرتی بالادستی بھی قبول کرلیں۔ تاہم اسامہ بن لادن کی تنظیم القاعدہ، ایران، شمالی کوریا، شام اور عراق نے یہ نیو ورلڈ آرڈر قبول کرنے سے انکار کردیا۔
دنیا کی اکلوتی سپرپاور ہونے کے احساس نے امریکی حکمران طبقے کو مغرور بنا دیا تھا۔ وہ سمجھنے لگا کہ اس کی زبردست عسکری و معاشی طاقت کے سامنے اب دنیا کی ہر حکومت گھٹنے ٹیک دے گی مگر اس کو پہلے صدام حسین اور پھرالقاعدہ سے ٹکرانا پڑا۔
القاعدہ کے گوریلوں سے لڑائی بڑھتی چلی گئی اور اس نے عراق، پاکستان، افغانستان سمیت عالم اسلام کے بڑے حصّے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔لڑائیوں میں اندھا دھند اوربے سوچے سمجھے کودنے سے امریکا کے جنگی اخراجات بے تحاشا بڑھ گئے اور اس امر نے امریکی حکومت کو مقروض بنا دیا۔ اخراجات نے قومی معیشت کو بھی نقصان پہنچایا۔ جب امریکی حکمران طبقہ چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑنے میں محو تھا، تو دنیا میں ایک نئی معاشی طاقت... چین کا ظہور ہو گیا۔
1949ء میں جب ماؤزے تنگ نے چین کا اقتدار سنبھالا، تو اس کا شمار غریب ممالک میں ہوتا تھا۔ افیون کا عادی ہونے کے باعث چینی افیونچی کہلاتے تھے۔ ماؤزے تنگ اور ان کے ساتھیوں نے معیشت کو سنبھالا تاہم 1979ء کے بعد انقلابی تبدیلیوں کا آغاز ہوا۔ چینی صدر، ڈینگ زیاؤ پنگ نے معیشت پرعائد پابندیاں ہٹالیں اور نجی و سرکاری طبقے کو آزادانہ تجارت کی اجازت دے ڈالی۔ یہ عمل تاریخ ساز ثابت ہوا۔ اب چین کی سستی اشیا پوری دنیا میں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہونے لگیں۔
اُدھر چین اشیا کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال درآمد کرنے لگا۔ یوں چین کی اربوں ڈالر پر مشتمل برآمدات و درآمدات نے عالمی معیشت کا پہیہ تیز تر کردیا۔ اس امر نے چین اورچینیوں کے ساتھ تجارت کرنے والے ممالک کو بھی بے پناہ معاشی فوائد بہم پہنچائے۔
اکیسویں صدی کے آغاز تک امریکا اور مغربی ممالک چین کے بڑے تجارتی ساتھی بن چکے تھے۔ اس دوران مغرب اور چین کے مابین کئی سیاسی و معاشی معاملات پر اختلاف رائے ہوا مگر بات زیادہ آگے نہیں بڑھی ۔لیکن جب چین دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بن گیا تو امریکی حکمران طبقے کے کان کھڑے ہوگئے۔ اب وہ چین کو اپنا مدمقابل سمجھنے لگا۔ اس طرز فکر نے امریکا اور چین کے درمیان تناؤ بڑھا دیا۔ امریکی حکمران طبقہ اچانک 2005ء کے بعد بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے لگا۔
امریکی میڈیا ہی نے آخر کار یہ راز افشا کیا کہ چین کا مقابلہ کرنے کی خاطر امریکا بھارت کو اپنا ''پٹھا'' بنا کر کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ امریکی حکمران طبقے کی خفیہ و عیاں چالوں اور سازشوں سے متنفر ہوکر چینی حکومت نے اپنے جنگی بجٹ میں اضافہ کردیا۔ اب خصوصاً طیارہ بردار جہاز، جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں تیار کرنے پر زور بڑھ گیا۔ وجہ یہ کہ بحرالکاہل میں جابجا امریکا کی عسکری تنصیبات پھیلی ہوئی ہیں۔
بحیرہ جنوبی چین دنیا کے اسی سب سے بڑے سمندر کا حصّہ ہے جہاں سے چین بذریعہ آئل ٹینکر اپنا بیشتر تیل منگواتا ہے۔ نیز بہت سا درآمدی برآمدی سامان بھی بحیرہ جنوبی چین کے راستے سے آتا جاتا ہے۔ جب چینی حکومت کو احساس ہوا کہ امریکا چین کے خلاف محاذ بنا رہا ہے تو وہ چوکنا ہوگئی۔
اسے پہلا خیال یہی آیا کہ آمدورفت کے نئے راستے تلاش کیے جائیں۔ امریکی اپنے طیارہ بردار جہازوں کی مدد سے جنوبی بحیرہ چین کی ناکہ بندی کرکے چین کو باآسانی محصور کرسکتے ہیں۔ تبھی چینی تھنک ٹینکس کی یہ پیش کردہ تجویز نمایاں ہوئی کہ قدیم شاہراہ ریشم کے بری و بحری راستوں کو ازسرنو دریافت و تعمیر کرنا چاہیے۔
یہ تجویز نئی نہیں تھی مگر چینی حکومت نے اس پر زیادہ غور نہیں کیا۔ لیکن منافق امریکی حکمران طبقے کی سازشوں نے اسے نمایاں کر دیا۔اب چینی حکمران طبقے کو احساس ہوا کہ یہ تجویز اپنانے سے نہ صرف محفوظ تجارتی راستے جنم لیں گے بلکہ وہ چین اور دیگر ممالک کو بے پناہ معاشی فوائد بھی بہم پہنچا سکتی ہے۔چناں چہ2013ء کے موسم خزاں میں چینی صدر، شی جن پنگ نے اس تجویز کو ''بیلٹ اینڈ روڈ انشیٹیو'' کے نام سے باقاعدہ طور پر پیش کر ڈالا۔ منصوبے کا جوہر یہ ہے کہ چین، ایشیا، روس اور یورپ میں برّی و بحری راستے تعمیر کیے جائیں تاکہ ان تمام خطوں کے مابین تجارت بڑھ سکے اور معاشی ترقی جنم لے۔
حسب توقع امریکا اور اس کے ہم نوا ممالک چین کے درج بالا منصوبے پر تنقید کرنے لگے جو عرف عام میں ''ون بیلٹ ون روڈ'' کہلاتا ہے۔ دعویٰ کیا گیا کہ اس کی مدد سے چین دنیا بھر میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانا چاہتا ہے۔ گویا انہوں نے چین کو نئی استعماری قوت قرار دے ڈالا۔ بعض دانشوروں نے دعویٰ کیا کہ اس منصوبے کی تکمیل سے صدر شی جن پنگ چین میں اپنی طاقت بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ ان کے اقتدار کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔ غرض جتنے منہ اتنی ہی باتیں ۔ تاہم امریکا کی شدید مخالفت بھی چینی منصوبے کی قدرو قیمت کم نہ کرسکی۔
چین ون بیلٹ ون روڈ پلان کے تحت منصوبے میں شامل ممالک میں سڑکوں، شاہراؤں،پٹڑیوں،پلوں،پائپ لائنوں، نئے تجارتی مراکز اور دیگرمتعلقہ انفراسٹرکچر کی تعمیر پر ایک ٹریلین ڈالر (ایک ہزار ارب ڈالر) تک خرچ کرنے کو تیار ہے۔ تادم تحریر ایشیا، یورپ اور افریقا کے 65 ممالک اس عظیم الشان منصوبے کا حصہ بن چکے۔
ماہرین معاشیات کی رو سے یہ انسانی تاریخ میں مالی لحاظ سے سب سے بڑا ڈویلپمنٹ پلان ہے۔پاکستان میں جاری سی پیک منصوبہ اور بنگلہ دیش، چین، بھارت، میانمار، اکنامک کوریڈور بھی ون بیلٹ ون روڈ کے ذیلی منصوبے ہیں۔ پاکستان میں سی پیک منصوبے کے تحت بجلی گھر بھی بن رہے ہیں جن کے ذریعے لوڈشیڈنگ کے بے قابو دیو کو قابو کرنے میں مدد ملے گی۔ سی پیک منصوبے کی مالیت 50 تا 60 ارب ڈالر کے مابین بتائی جاتی ہے۔
سال رواں کے آغاز میں چینی حکومت نے اعلان کیا کہ 14 تا 15 مئی بیجنگ میں ایک بین الاقوامی فورم منعقد ہوگا۔ اس میں صدر شی جن پنگ ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کی غرض و غایت تفصیل سے واضح کریں گے۔ یہ اعلان ہوتے ہی امریکی میڈیا پروپیگنڈا کرنے لگا کہ چین اس منصوبے کے ذریعے دنیا والوں پر اپنا نیو ورلڈ آرڈر تھوپنا چاہتا ہے۔ چینی حکمران طبقے کی خواہش ہے کہ وہ دنیا کے زیادہ سے زیادہ ممالک کو اپنے زیر دام و ماتحت لے آئیں۔ مگر یہ امریکی میڈیا کا دروغ گوئی اور عیاری پر مبنی پروپیگنڈا ہے۔
تاریخ سے عیاں ہے کہ چین مغربی طاقتوں کی طرح کبھی سّکہ بند استعماری طاقت نہیں رہا۔ اس نے دور دراز علاقوں میں جاکر زبردستی نو آبادیاں قائم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اقوام عالم کے قیمتی قدرتی وسائل لوٹے۔ اگر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو چین کا نیو ورلڈ آرڈر سمجھ بھی لیا جائے، تو یہ امریکی حکمران طبقے کے عالمی حکم نامے سے بالکل مختلف ہے۔
پچیس سال قبل امریکا نے ظالمانہ و غیر انسانی مغربی نو آبادیاتی روایات برقرار رکھتے ہوئے جو نیوورلڈ آرڈر پیش کیا وہ دھونس، دھمکی اور ترغیبات سے عبارت تھا۔ اس کے ذریعے طاقت میںمست الست امریکی حکمران طبقے نے اعلان کیا کہ جو امریکا کے مفادات سے ٹکرایا، اسے نیست و نابود کردیا جائے گا۔ گویا امریکی نیو ورلڈ آرڈر کا خمیر نفرت، دشمنی اور جنگ جوئی سے اٹھایا گیا۔ یہی وجہ ہے، اس کے نافذ ہوتے ہی کرہ ارض کا وسیع رقبہ جنگوں کی آگ کا نشانہ بن گیا۔یاد رہے،امریکا کا نظریہ ترقی بھی مادہ پرستی،خود غرضی اور دھوکے بازی کی خصوصیات رکھتا ہے۔
چین کا نیا ورلڈ آرڈر بنیادی طور پہ امن، محبت، یکجہتی اور بھائی چارے پر مبنی ہے۔ چینی اپنے ملک و قوم کی معاشی ترقی چاہتے ہیں۔ لیکن ان کی خواہش ہے کہ بذریعہ ون بیلٹ ون روڈ دیگر ممالک میں معاشی ترقی جنم لے، غربت و جہالت ختم ہو اور عوام خوشحال ہوجائیں۔
اس سلسلے میں چینی اربوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہیں تاکہ سبھی ممالک میں منصوبے کو درکار انفراسٹرکچر وجود میں آسکے۔ گویا چین اپنا بھلا چاہتا ہے اور دوسروں کا بھی!اس سوچ کی وجہ یہ ہے کہ چینیوں کے نظریہ ترقی میں انسانی جذبات واحساسات کی چاشنی بھی موجود ہے۔وہ سو فیصد مادہ پرستی پہ مبنی نہیں۔ جبکہ امریکی و مغربی حکمرانوں کی تاریخ افشا کرتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے جائز و ناجائز مفادات کو اولیت دی چاہے دوسروں کا نقصان ہوجائے۔
ہر منصوبے کی طرح ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ بھی خامیاں و خدشات رکھتا ہے ۔مثلاً ایک خدشہ یہ ہے کہ اس کی بدولت پاکستان سمیت تمام ممالک کا قرضہ بڑھ جائے گا۔ مگر پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک آئی ایم ایف، عالمی بینک وغیرہ سے وقتاً فوقتاً قرضے لیتے رہتے ہیں۔عموماً یہ قرضہ حکمرانوں کی کوتاہیاں اور غلطیاں دور کرنے میں کام آتا ہے اور جس کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑتا ہے۔ جب کہ چین کے دیئے گئے قرضوں سے ہرملک میں وسیع پیمانے پر انفراسٹرکچر کھڑا ہوگا جو لامحالہ عوام الناس کو فائدہ پہنچائے گا۔
قول ہے ''اگر آپ خطرات مول لینے کو تیار نہیں تو اپنے معمولی حال پر قانع ہوجائیے۔''چناں چہ پاکستانیوں کو ون بیلٹ ون روڈ منصوبے سے اچھائی کی امید رکھنی چاہیے۔ ویسے بھی پاکستان ایشیا میں اس چینی منصوبے کا ایک بڑا حمایتی بن چکا جو درست حکمت عملی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی معاشی وعسکری قوت کا ساتھ پاکر پاکستان اس قابل ہو گا کہ مقامی و عالمی نوعیت کے مسائل بخوبی حل کرسکے۔ چینی منصوبے کے مخالف بھارت سے ٹکراؤ اس ضمن میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ اکیسویں صدی کے اوائل سے پاکستان ٹوٹنے کی باتیں ہونے لگی تھیں۔ مگر ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا اعلان ہوتے ہوتے یہ افواہیں دم توڑ گئیں اور اب ایک خوشحال و اُمید بھرا مستقبل پاکستانی قوم کا منتظر ہے۔