زامن ہوف
ماہرلسانیات اور اسپرانتو زبان کے بانی۔
KARACHI:
تخلیق کار کی موت کے 100 برسوں بعد بھی آج اس کی تخلیق زندہ ہے جو کہ اس کی غیر معمولی اور نمایاں کام یابی کی سب سے بڑی دلیل ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
ایک یہودی ڈاکٹر کے طور پر اس شخص کی موت ہوچکی ہے لیکن بطور لسّانی ماہر اس کی تخلیق ''اسپرانتو'' زبان نہ صرف اپنا بھرپور وجود رکھتی ہے بل کہ اس کے چاہنے والوں لاکھوں دلوں کی دھڑکن میں زامن ہوف بھی بستا ہے اور جب تک یہ زبان قائم ودائم رہے گی اس کے خالق کا نام بھی باقی رہے گا۔
زامن ہوف کا خواب انسانوں میں وحدانیت پید ا کرنا تھا جو کہ اس مشترکہ زبان کی صورت میں دنیا کو میسر آگئی۔ آج اسپرانتو انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب ترین بین الاقوامی رابطے کی موثر زبان تسلیم کی جاتی ہے۔ 14 اپریل کو زامن ہوف کی موت کے حوالے پورے سو برس مکمل ہوچکے ہیں اور سویں برسی کے یادگار موقع پر اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافتی امور کے ذیلی ادارے ''یونیسکو'' کی جانب سے خراج ِعقیدت پیش کرنے کے لیے انہیں انسانی تاریخ کی اہم ترین اور قابل ذکر شخصیات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
حالیہ سال 2017 ء کو جن عظیم اور غیرمعمولی لوگوں کے نام کیا گیا ہے ان میں ایک نام زامن ہوف کا بھی ہے جن کی موت کی سوسالہ یادگاری تقریبات ساری دنیا میں منائی جارہی ہیں۔ یونیسکو کو زامن ہوف کی صد سالہ برسی منانے کے لیے جرمنی اور سلواکیہ کی اعانت حاصل ہے۔
انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ زبانوں کا علم رکھنے اور اسے استعمال کرنے والے پولی گلاٹس میں چند ہی نام ہیں جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ ان میں ایک نام پولینڈ کے لدوک زامن ہوف کا بھی ہے، جنہیں 15 زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ پیشے کے طور ایک طبیب ہونے کے باوجود لسّانیات کی مہارت ان کا مشغلہ تھا اور اسی میں انہوں نے شہرت و نیک نامی حاصل کی۔ ایک مشترکہ زبان کا آئیڈیا لوگوں کی اکثریت کو گرویدہ کرتا ہے جس کے لیے ماضی میں بڑے پیمانے پر کاوشیں کی گئیں۔ زامن ہوف کا معاملہ بھی ان میں سے ایک ہے جسے ساری دنیا میں پذیرائی نصیب ہوئی۔
وہ 1859 ء میں صوبہ ''بیالستوک '' میں پیدا ہوئے تھے، جو اس وقت روسی سلطنت کے زیرنگیں علاقہ تھا اور آج یہ شمالی مشرقی پولینڈ میں واقع ہے۔ ان کی پیدائش ایک روشن خیال یہودی گھرانے میں ہوئی تھی۔ بیالستوک ایک اکثریتی یہودی بستی تھی جو کہ نسلی تناؤ اور تصادم والی جگہ واقع تھی، جہاں متعدد زبانیں بولنے والوں کے مابین اختلافات اور جھگڑے عام تھے۔ ان کے والد فرانسیسی اور جرمن زبانیں پڑھاتے تھے۔
اگرچہ زامن ہوف کے والدین روسی زبان بولتے تھے اور جہاں پولیندیزی و جرمن زبانیں کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں، رشتے داروں کے مابین "Yiddish" کو دوستانہ زبان کے طور پر اپنایا گیا تھا جب کہ یہودی اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں عبرانی زبان کو اولیت دیتے ہیں، جس نے زامن ہوف کے دل میں دوسری زبانوں کے لیے نرم گوشہ اور محبت پیدا کی۔ ان کے علاقے میں شہر کی مارکیٹ میں ایک اسکوائر تھا۔
یہ ٹاور مارکیٹ کا دل تھا۔ یہاں فرانسیسی، یہودی، لتھینین(Lithanian) پولش بولنے والے تاجر اپنا مال فروخت کرتے تھے اور زبان کے اختلاف کے سبب ان کے درمیان غلط فہمیاں جنم لیتی تھیں، جو کہ جھگڑوں کا باعث بنتیں۔ زامن ہوف کے ذہن میں بچپن سے یہ بات دل میں بیٹھ چکی تھی کہ وہ زبانوں کے اختلافات کو ایک واحد زبان کی مدد سے ختم کریں گے، کیوںکہ ان کا خیال تھا کہ قومی زبانیں لوگوں کو تقسیم کرتی ہیں، ان کے بیچ لڑائیوں کا سبب بنتی ہیں۔
وہ تخلیقی انسان تھے جنہیں کامل یقین تھا کہ لسّانی گروپوں کے اجتماعی ملاپ اور قربت کی صورت مین اصل لڑائی ان کے۔ مابین لسّانی ہی ہوتی ہے۔ زامن ہوف کو پوری امید تھی کہ وہ وقت آئے جب ان کی زبان زندہ وجاوید بن جائے گی۔1881 ء میں ان کا خاندان بیالستوک سے وارساآگیا۔و ارسا کے علاوہ انہوں نے ویانا اور ماسکو میں تعلیم حاصل کی۔
٭اسپرانتو کا ابتدائی ورجن: زامن ہوف نے 1878 ء میں اسپرانتو کا ابتدائی ورجن لاؤنچ کردیا تھا۔ اس وقت وہ محض 19 سال کے تھے اور اسکول کی تعلیم کے فائنل میں تھے، تب انہوں نے اپنی 19 ویں سال گرہ ہم جماعت ساتھیوں کے ساتھ اسپرانتو کا بنایا ہوا گیت گاکر منائی۔ اس بنیادی ورجن کا نام lingvo universala تھا۔ ایک اسکول کے لڑکے نے اس زبان کی بنیاد رکھ دی تھی، جوکہ آج ہزاروں لوگوں کی مادری زبان جیسا درجہ رکھتی ہے۔ اسکول کی تعلیم کے بعد انہوں نے طب کی تعلیم جاری رکھی اور ماہرچشم بن گئے۔ نہ صرف اپنی اکیڈمک پڑھائی جاری رکھی بل کہ انہوں نے اس دوران متعدد زبانیں سیکھنے کا عمل جاری رکھا جن میں جرمن، فرانسیسی، لاطینی اور عبرانی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی تخلیق کردہ زبان اسپرانتو کے لیے بھی سرگرمی سے کام کو آگے بڑھایا اور اسے شائع کرایا جس کے لیے مالی تعاون ان کی بیوی کلارا زامن ہوف نے کیا۔
٭ زامن ہوف کے خواب و مقاصد: ان کے نظریے کے تین بڑے اہداف یا مقاصد یہ تھے:
1۔زبان لازمی طور پر آسانی سے سیکھی جانے والی ہو!
2۔ اسے جلد اور تیزی سے سیکھنا ممکن ہو اور عالمی رابطے کے لیے اس کا استعمال لازمی کیا جاسکے!
3 ۔ وہ راستہ تلاش کیا جائے جس سے زبان کو سیکھنا یقینی بنایا جاسکے تاکہ بڑی تعداد میں لوگ اسکا موثر استعمال کرسکیں!
٭اسپرانتو کی پہلی کتاب : طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد زامن ہوف نے Yiddish زبان کی ایک گرامر مرتب کی۔ آخرکار 27 سال کی عمر میں ان کا اسپرانتو کی پہلی کتاب کا ورجن "Internacia Lingvo" (بین الاقوامی زبان) کے نام سے 26 جولائی 1887 ء کو منظرعام پر آگیا جو کہ 50 صفحات پر مشتمل کتاب تھی۔ 26 جولائی کو شایع ہونے والی کتاب نے اسپرانتو کی پیدائش کا دن بھی طے کردیا تھا، آج اسپرانتوداں اسی دن سال گرہ کا دن مناتے ہیں اس طرح جولائی2017 ء میں اسپرانتو کو 130 برس مکمل ہوجائیں گے۔
کتاب کے مصنف کی جگہ زامن ہوف کا قلمی نام "Dr Esperanto" تحریر تھا، جس کے معنی ''امید کرنے والا یا امیدوار'' کے ہیں۔ ان کی امید تھی کہ زبان دنیا میں پھلے پھولے اور فروغ پائے اور بہتر رابطے کی موثر عالمی زبان ثابت ہو، جس سے تنازعات کو کم کیا جاسکے جو مختلف انسانی برادریوں کے مابین پروان چڑھتے ہیں اور اختلافات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی مناسبت سے امیدوار کے طور پر نئی زبان کو ''اسپرانتو'' کا نام بھی مل گیا۔
٭اسپرانتو ٹیکسٹ کی پہلی کتاب: اسپرانتو سکھانے کی پہلی ٹیکسٹ بک "La Unua Libro" ہے جو کہ اسپرانتو کا تعارف بھی تھی۔ ایک مختصر گرامر کی بنیاد والی زبان جس کے 16 بنیادی قاعدے ہیں۔ اسکے ساتھ ایک چھوٹی سی لغت بھی ترتیب دی گئی تھی۔ کتاب پانچ زبانوں روسی، پولیندیزی، فرانسیسی، جرمن اور آخر میں انگریزی میں چھپی، جس کی قیمت 50 سینٹ تھی۔
کتاب میں بہت سے کوپنز بھی رکھے گئے تھے جن میں دستخطوں کے ساتھ وعدہ لیا گیا تھا کہ پڑھنے والے اسپرانتو سیکھیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ لوگو ں نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کردیے تھے، جب کہ 1910 ء میں صرف 25000 ہزار ایسے نام ان کے دستخطوں اور پتوں کی لسٹ میں شائع ہوسکے لیکن لوگوں کی اکثریت نے پہلی کتاب سے اسپرانتو پڑھنا شروع کردی تھی اور فوری طور پر زبان کی مدد سے مصنف کو خطوط بھی لکھے گئے۔
٭اسپرانتو دانوں کا پہلا عالمی اجلاس: اسپرانتو کا پہلا گروپ جرمنی کے شہر Nuremberg میں وجود میں آیا اور اسی شہر میں اسپرانتو کا ہفتہ وار"La Esperantisto" شائع ہونا شروع ہوا۔ آنے والے وقتوں میں اسپرانتو کے مقامی گروپوں کے جنم لینے کا رحجان فروغ پایا، جو کہ اپنی قومی انجمنوں سے الحاق کیے ہوئے تھے۔ 1905 ء میں فرانس کے شہر Boulogne-sur-Mer میں اسپرانتو کی پہلی عالمی متحدہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں دنیا بھر سے 700 مندوبین نے اسپرانتو سے اظہاریکجہتی کیا۔ یہاں زامن ہوف نے انہیں خوش آمدید کہا۔
اب بین الاقوامی زبان کا نظریہ تیزی سے پھیلنے لگا تھا اور تیزی سے کسی زبان کو سیکھنا ممکن ہوگیا۔ 1906 ء میں زامن ہوف نے "Homarnismo" یا نظریہ انسانیت (Humanitism)شائع کروائی تھی، جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ تمام دنیا کی قوموں کو ایک مشترکہ زبان کے بندھن میں باندھا جائے۔
پہلی اسپرانتو سکھانے والی کتاب کی اشاعت کے بعد متعدد کتابیں شائع ہوئیں اور اس کتاب کی اشاعت کے 25 سال بعد 1912 میں اسپرانتو کی عالمی تنظیم یونیورسل اسپرانتو ایسوسی ایشن (UEA) قائم ہوگئی۔ اب زامن ہوف نے ''گائیڈآف اسپرانتو لینگویج کمیونیٹی'' سے علیحدگی اختیار کرلی اور یہ کمیونٹی خودمختار ہوگئی۔ پہلی جنگ عظیم کی شروعات سے پہلے ہی اسپرانتو سارے براعظموں میں وارد ہوچکی تھی۔
اسپرانتو کی عالمی تنظیم کے اجلاس باقاعدگی سے جاری ہیں، جنہیں 100 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ پچھلا اجلاس نترو، سلواکیہ میں ہوا تھا، جب کہ حالیہ سال کا اجلاس جنوبی کوریا کے شہر ''سیول '' میں ہونا قرار پایا ہے۔ زامن ہوف نے ہرسال سالانہ کانگریس کے اجلاسوں میں شرکت کی اور بہت سے ممالک میں اپنی کام یابی کا جشن منایا، تاکہ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ اپنی تخلیق کردہ زبان کے بعد وہ 30 سال زندہ رہے۔
ابتدا میں ہی زامن ہوف نے اسپرانتو میں اہم کتابوں کے ترجمے کیے ان میں ''بائیبل''، ''ہیملٹ۔Hamlet'' ،ـ" "Die Raube اور ـ"The Fables of Anderson" کے ترجمے قابل ذکر ہیں۔ آج ایک صدی کے مختصر عرصے میں اسپرانتو دنیا کی 50 سب سے زیادہ بولی اور استعمال کی جانے والی عالمی زبانوں میں اپنا مقام بناچکی ہے۔ زامن ہوف نے 13 مرتبہ نوبیل پرائز کے لیے نام زد گی حاصل کی۔ زامن ہوف کے کم زور پھیپھڑوں اور ناتواں دل کے باعث ڈاکٹروں کی طرف سے زور دیا گیا کہ مزید کام جاری نہ رکھیں۔ محض57 سال(1859-1917) کی عمر میں وہ اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کا مقبرہ وارسا میں ہے۔ ہر سال 15 دسمبر کو ان کی پیدائش کے موقع پر Zamenhof Tago ''زامن ہوف کا دن'' بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے، جس کے ساتھ ''یوم کتاب '' یا Libro Tago بھی منایا جاتا ہے۔
٭اسپرانتو بطور مادری یا غیرملکی زبان: اسپرانتو نہ صرف ایک مکمل سیکھی جانے اور کام میں لائی جانے والی زبان ہے بل کہ یہ ایک ہزار سے دو ہزار لوگوں کی مادری زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ وہ جنہوں نے اپنے والدین کو یہ زبان بولتے ہوئے سنا۔ سابق جرمن سفارت کارUlrich Branden Burg بھی ایسے ہی اسپرانتو دانوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اسے بچپن ہی میں سیکھ لیا تھا، کیوںکہ ان کے والدین اسپرانتو بولتے تھے۔
وہ ماسکو میں سفیر رہ چکے ہیں ۔1901 ء کے آغاز پر زامن ہوف نے لکھا تھا کہ اگر خاندانی طور پر ایک گروپ اسپرانتو کو قبول کرلے تو وہ اسپرانتو کے کا مددگار ہوگا۔ 1904 ء میں ایسے پہلے بچے کی پیدائش ہوگئی تھی جو اسپرانتو بولتے ہوئے بڑا ہوا۔ اسپرانتو برطانیہ میں پہلی غیرملکی زبان کے طور پر رائج ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک کے اسکولوں میں اسپرانتو سکھانے کے تجربات اور اس کے نتائج نہایت حوصلہ افز اء ہیں اور اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایک سال میں اسپرانتو کا مطالعہ دوسری زبانوں کے سالانہ مطالعہ کو دگنا کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سال اسپرانتو سیکھی جائے اور ایک سال فرانسیسی، تو فرانسیسی کا سیکھنا دو سالوں کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔
ہنگری میں اسپرانتو کو یورپ میں سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور یہاں یہ کسی بھی فارن زبان کے ہم پلہ سمجھی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پہ2001 ء تک 35 ہزار ہنگری کے لوگ وہاں کے امتحانات اسپرانتو میں پاس کرچکے ہیں۔ چین میں اسپرانتو میں اخبارات شائع ہوتے ہیں جنہیں سرکاری حمایت حاصل ہے اور یہاں ریڈیو کے چینل بھی اسپرانتو کی ترقی وتوسیع کے لیے کام کررہے ہیں۔
اسپرانتو کی عالمی تنظیم UEA اور یونیسکو کا ساتھ 63 سال پرانا ہے جو کہ اسپرانتو کی بھرپور حمایت کرتی ہے جب کہ یورپین یونین کی آفیشل زبان کے طور اسپرانتو کو منوانے کے لیے جدوجہد جاری ہے اور حالیہ برطانیہ کے یونین سے Brexit کے نتیجے میں حتمی فیصلہ کے بعد اب انگریزی کا یونین سے انخلاء بھی یقینی نظر آرہا ہے اور قوی امکانات ہیں کہ اسپرانتو یونین کی 24 ویں آفیشل زبان کے طور پر رائج کردی جائے، جس سے کہ یورپین یونین کی اصل ترجمانی ممکن ہوسکے گی۔
٭اسپرانتو کی ترقی اور مستقبل: آج اسپرانتو رنگ و نسل کی ناہمواریوں سے بے نیاز مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں میں سما چکی ہے۔ زامن ہوف کے سبھی مقاصد کی تکمیل ہوئی۔ ان کی ایجاد کردہ زبان کو کام یابی ملی جو کہ اب تیزی سے سیکھی جاسکتی ہے اور نہایت آسان ہے، جسے بین الاقوامی رابطوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس وقت ایک مصنوعی زبان وولاپوک (Volapuk) بھی وجود رکھتی تھی جو کہ اسپرانتو کے مقابلے میں بہت زیادہ مشکل تھی۔ یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ اسپرانتو میں گوں ناگوں خواص، برداشت، یکجہتی و ثقافتی اقدار شامل ہوچکی ہیں۔ پہلی کتا ب 1887 ء کے بعد سے اسپرانتو میں بہترین ادب تخلیق پاچکا ہے۔ اس کے ادیبوں کو نوبیل انعام کی نام زدگیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔
اسپرانتو کے لکھاریوں کی قلم کاروں کی عالمی تنظیم PEN بھی حمایت کرتی ہے ۔ اسپرانتو کا اوریجنل ادبی ورجن انسائیکلوپیڈیا 740 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے 2008 ء میں نیویارک سے شائع گیا تھا۔ اسپرانتو شاعر Willium Auid ، جن کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے ہے، متعدد بار نوبیل کے ادبی انعام کے لیے نام زدگی حاصل کرچکے ہیں۔ دنیا کے 120 ممالک میں اسپرانتو کی ہزاروں کتابیں شائع ہوئی ہیں اور مسلسل چَھپ رہی ہیں۔ ان میں ایک تہائی تعداد اسپرانتو کی اصل تحریریں ہیں، جب کہ دو تہائی ترجمے بھی شامل ہیں۔ ان ممالک میں اسپرانتو کے بولنے والے رہتے ہیں۔
اسپرانتو کی عالمی اتحاد کی تنظیمیں اور قومی انجمنیں دنیا کے 70 ممالک میں قائم ہوچکی ہیں۔ اسپرانتو کے ایک معروف نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات Reinhard Setlen ہیں، جنہیں 1994 ء میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ وہ اسپرانتو کی دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ فکشن و فینٹیسی کے ماہر برطانوی لکھاری ٹولکن بھی اسپرانتو کے مداح تھے اور معروف فرانسیسی مصنف ناول و ڈراما نگار رُومین رَولانڈ بھی اسپرانتو کے سحر میں گرفتار رہے، جنہیں 1915 کا ادبی نوبیل پرائز دیا گیا تھا۔
وکی پیڈیا انسائیکلوپیڈیا میں اسپرانتو میں 230,000 اسپرانتو آرٹیکلز موجود ہیں اور یہ تعداد ڈینش اور عبرانی زبان کے مضامین سے بڑھ چکی ہے۔یوٹیوب وغیرہ پر اسپرانتو موسیقی کی وسیع ورائٹی، راک موسیقی، روایتی گیت، ریپ اور ہپ ہاپ کی صورت میں دست یاب ہے۔
اسپرانتو اب فیس بک کی بھی زبان بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اب کام یابی سے گوگل کے فعال آن لائن ترجمان ''گوگل ٹرانسلیٹ '' کا حصہ ہے۔ اسپرانتو سکھانے کی بڑی ویب سائیٹس ہیں جو کہ اسپرانتو کورس آفر کرتے ہیں ان میں ایک نمایاں مثال "Duoling.com" کی ہے، جس میں 800,000 لوگ رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اور سب سے زیادہ تجربہ کی حامل اسپرانتو سکھانے کی ویب Lernu.Net ہے اس میں ایک لاکھ کی تعداد میں سیکھنے والے رجسٹرڈ ہیں۔ حال ہی میں نیوزایجنسیAFP نے اسپرانتو کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اسے لیبل "Unprecedented International Success" (بے نظیر بین الاقوامی کام یابی) دے ڈالا ہے۔ ان تمام کام یابیوں کا سہرا اس کی زبان کی تیزرفتاری سے سیکھی جانے والی منطقی زبان کی ہونے والی صلاحیت کے سر ہے۔
برعکس ان دشواریوں کے جو دوسری زبانیں سیکھتے وقت سامنے آتی ہیں۔ آج اس زبان کو بین الاقوامی سطح پر اہمیت دی جارہی ہے۔ اسپرانتو ایک فلسفے کی حامل تحریک ہے۔ اس کی بین الاقوامیت کا مبہم یا گول مول تصور ابھی تک زندہ ہے جو کہ زامن ہوف کا پہلا قدم تھا۔
تخلیق کار کی موت کے 100 برسوں بعد بھی آج اس کی تخلیق زندہ ہے جو کہ اس کی غیر معمولی اور نمایاں کام یابی کی سب سے بڑی دلیل ہے جس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
ایک یہودی ڈاکٹر کے طور پر اس شخص کی موت ہوچکی ہے لیکن بطور لسّانی ماہر اس کی تخلیق ''اسپرانتو'' زبان نہ صرف اپنا بھرپور وجود رکھتی ہے بل کہ اس کے چاہنے والوں لاکھوں دلوں کی دھڑکن میں زامن ہوف بھی بستا ہے اور جب تک یہ زبان قائم ودائم رہے گی اس کے خالق کا نام بھی باقی رہے گا۔
زامن ہوف کا خواب انسانوں میں وحدانیت پید ا کرنا تھا جو کہ اس مشترکہ زبان کی صورت میں دنیا کو میسر آگئی۔ آج اسپرانتو انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب ترین بین الاقوامی رابطے کی موثر زبان تسلیم کی جاتی ہے۔ 14 اپریل کو زامن ہوف کی موت کے حوالے پورے سو برس مکمل ہوچکے ہیں اور سویں برسی کے یادگار موقع پر اقوام متحدہ کے تعلیم، سائنس اور ثقافتی امور کے ذیلی ادارے ''یونیسکو'' کی جانب سے خراج ِعقیدت پیش کرنے کے لیے انہیں انسانی تاریخ کی اہم ترین اور قابل ذکر شخصیات میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
حالیہ سال 2017 ء کو جن عظیم اور غیرمعمولی لوگوں کے نام کیا گیا ہے ان میں ایک نام زامن ہوف کا بھی ہے جن کی موت کی سوسالہ یادگاری تقریبات ساری دنیا میں منائی جارہی ہیں۔ یونیسکو کو زامن ہوف کی صد سالہ برسی منانے کے لیے جرمنی اور سلواکیہ کی اعانت حاصل ہے۔
انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ زبانوں کا علم رکھنے اور اسے استعمال کرنے والے پولی گلاٹس میں چند ہی نام ہیں جنہیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ ان میں ایک نام پولینڈ کے لدوک زامن ہوف کا بھی ہے، جنہیں 15 زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ پیشے کے طور ایک طبیب ہونے کے باوجود لسّانیات کی مہارت ان کا مشغلہ تھا اور اسی میں انہوں نے شہرت و نیک نامی حاصل کی۔ ایک مشترکہ زبان کا آئیڈیا لوگوں کی اکثریت کو گرویدہ کرتا ہے جس کے لیے ماضی میں بڑے پیمانے پر کاوشیں کی گئیں۔ زامن ہوف کا معاملہ بھی ان میں سے ایک ہے جسے ساری دنیا میں پذیرائی نصیب ہوئی۔
وہ 1859 ء میں صوبہ ''بیالستوک '' میں پیدا ہوئے تھے، جو اس وقت روسی سلطنت کے زیرنگیں علاقہ تھا اور آج یہ شمالی مشرقی پولینڈ میں واقع ہے۔ ان کی پیدائش ایک روشن خیال یہودی گھرانے میں ہوئی تھی۔ بیالستوک ایک اکثریتی یہودی بستی تھی جو کہ نسلی تناؤ اور تصادم والی جگہ واقع تھی، جہاں متعدد زبانیں بولنے والوں کے مابین اختلافات اور جھگڑے عام تھے۔ ان کے والد فرانسیسی اور جرمن زبانیں پڑھاتے تھے۔
اگرچہ زامن ہوف کے والدین روسی زبان بولتے تھے اور جہاں پولیندیزی و جرمن زبانیں کاروباری مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں، رشتے داروں کے مابین "Yiddish" کو دوستانہ زبان کے طور پر اپنایا گیا تھا جب کہ یہودی اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں عبرانی زبان کو اولیت دیتے ہیں، جس نے زامن ہوف کے دل میں دوسری زبانوں کے لیے نرم گوشہ اور محبت پیدا کی۔ ان کے علاقے میں شہر کی مارکیٹ میں ایک اسکوائر تھا۔
یہ ٹاور مارکیٹ کا دل تھا۔ یہاں فرانسیسی، یہودی، لتھینین(Lithanian) پولش بولنے والے تاجر اپنا مال فروخت کرتے تھے اور زبان کے اختلاف کے سبب ان کے درمیان غلط فہمیاں جنم لیتی تھیں، جو کہ جھگڑوں کا باعث بنتیں۔ زامن ہوف کے ذہن میں بچپن سے یہ بات دل میں بیٹھ چکی تھی کہ وہ زبانوں کے اختلافات کو ایک واحد زبان کی مدد سے ختم کریں گے، کیوںکہ ان کا خیال تھا کہ قومی زبانیں لوگوں کو تقسیم کرتی ہیں، ان کے بیچ لڑائیوں کا سبب بنتی ہیں۔
وہ تخلیقی انسان تھے جنہیں کامل یقین تھا کہ لسّانی گروپوں کے اجتماعی ملاپ اور قربت کی صورت مین اصل لڑائی ان کے۔ مابین لسّانی ہی ہوتی ہے۔ زامن ہوف کو پوری امید تھی کہ وہ وقت آئے جب ان کی زبان زندہ وجاوید بن جائے گی۔1881 ء میں ان کا خاندان بیالستوک سے وارساآگیا۔و ارسا کے علاوہ انہوں نے ویانا اور ماسکو میں تعلیم حاصل کی۔
٭اسپرانتو کا ابتدائی ورجن: زامن ہوف نے 1878 ء میں اسپرانتو کا ابتدائی ورجن لاؤنچ کردیا تھا۔ اس وقت وہ محض 19 سال کے تھے اور اسکول کی تعلیم کے فائنل میں تھے، تب انہوں نے اپنی 19 ویں سال گرہ ہم جماعت ساتھیوں کے ساتھ اسپرانتو کا بنایا ہوا گیت گاکر منائی۔ اس بنیادی ورجن کا نام lingvo universala تھا۔ ایک اسکول کے لڑکے نے اس زبان کی بنیاد رکھ دی تھی، جوکہ آج ہزاروں لوگوں کی مادری زبان جیسا درجہ رکھتی ہے۔ اسکول کی تعلیم کے بعد انہوں نے طب کی تعلیم جاری رکھی اور ماہرچشم بن گئے۔ نہ صرف اپنی اکیڈمک پڑھائی جاری رکھی بل کہ انہوں نے اس دوران متعدد زبانیں سیکھنے کا عمل جاری رکھا جن میں جرمن، فرانسیسی، لاطینی اور عبرانی شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی تخلیق کردہ زبان اسپرانتو کے لیے بھی سرگرمی سے کام کو آگے بڑھایا اور اسے شائع کرایا جس کے لیے مالی تعاون ان کی بیوی کلارا زامن ہوف نے کیا۔
٭ زامن ہوف کے خواب و مقاصد: ان کے نظریے کے تین بڑے اہداف یا مقاصد یہ تھے:
1۔زبان لازمی طور پر آسانی سے سیکھی جانے والی ہو!
2۔ اسے جلد اور تیزی سے سیکھنا ممکن ہو اور عالمی رابطے کے لیے اس کا استعمال لازمی کیا جاسکے!
3 ۔ وہ راستہ تلاش کیا جائے جس سے زبان کو سیکھنا یقینی بنایا جاسکے تاکہ بڑی تعداد میں لوگ اسکا موثر استعمال کرسکیں!
٭اسپرانتو کی پہلی کتاب : طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد زامن ہوف نے Yiddish زبان کی ایک گرامر مرتب کی۔ آخرکار 27 سال کی عمر میں ان کا اسپرانتو کی پہلی کتاب کا ورجن "Internacia Lingvo" (بین الاقوامی زبان) کے نام سے 26 جولائی 1887 ء کو منظرعام پر آگیا جو کہ 50 صفحات پر مشتمل کتاب تھی۔ 26 جولائی کو شایع ہونے والی کتاب نے اسپرانتو کی پیدائش کا دن بھی طے کردیا تھا، آج اسپرانتوداں اسی دن سال گرہ کا دن مناتے ہیں اس طرح جولائی2017 ء میں اسپرانتو کو 130 برس مکمل ہوجائیں گے۔
کتاب کے مصنف کی جگہ زامن ہوف کا قلمی نام "Dr Esperanto" تحریر تھا، جس کے معنی ''امید کرنے والا یا امیدوار'' کے ہیں۔ ان کی امید تھی کہ زبان دنیا میں پھلے پھولے اور فروغ پائے اور بہتر رابطے کی موثر عالمی زبان ثابت ہو، جس سے تنازعات کو کم کیا جاسکے جو مختلف انسانی برادریوں کے مابین پروان چڑھتے ہیں اور اختلافات کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اسی مناسبت سے امیدوار کے طور پر نئی زبان کو ''اسپرانتو'' کا نام بھی مل گیا۔
٭اسپرانتو ٹیکسٹ کی پہلی کتاب: اسپرانتو سکھانے کی پہلی ٹیکسٹ بک "La Unua Libro" ہے جو کہ اسپرانتو کا تعارف بھی تھی۔ ایک مختصر گرامر کی بنیاد والی زبان جس کے 16 بنیادی قاعدے ہیں۔ اسکے ساتھ ایک چھوٹی سی لغت بھی ترتیب دی گئی تھی۔ کتاب پانچ زبانوں روسی، پولیندیزی، فرانسیسی، جرمن اور آخر میں انگریزی میں چھپی، جس کی قیمت 50 سینٹ تھی۔
کتاب میں بہت سے کوپنز بھی رکھے گئے تھے جن میں دستخطوں کے ساتھ وعدہ لیا گیا تھا کہ پڑھنے والے اسپرانتو سیکھیں گے۔ ایک اندازے کے مطابق دس لاکھ لوگو ں نے مشترکہ اعلامیہ پر دستخط کردیے تھے، جب کہ 1910 ء میں صرف 25000 ہزار ایسے نام ان کے دستخطوں اور پتوں کی لسٹ میں شائع ہوسکے لیکن لوگوں کی اکثریت نے پہلی کتاب سے اسپرانتو پڑھنا شروع کردی تھی اور فوری طور پر زبان کی مدد سے مصنف کو خطوط بھی لکھے گئے۔
٭اسپرانتو دانوں کا پہلا عالمی اجلاس: اسپرانتو کا پہلا گروپ جرمنی کے شہر Nuremberg میں وجود میں آیا اور اسی شہر میں اسپرانتو کا ہفتہ وار"La Esperantisto" شائع ہونا شروع ہوا۔ آنے والے وقتوں میں اسپرانتو کے مقامی گروپوں کے جنم لینے کا رحجان فروغ پایا، جو کہ اپنی قومی انجمنوں سے الحاق کیے ہوئے تھے۔ 1905 ء میں فرانس کے شہر Boulogne-sur-Mer میں اسپرانتو کی پہلی عالمی متحدہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی، جس میں دنیا بھر سے 700 مندوبین نے اسپرانتو سے اظہاریکجہتی کیا۔ یہاں زامن ہوف نے انہیں خوش آمدید کہا۔
اب بین الاقوامی زبان کا نظریہ تیزی سے پھیلنے لگا تھا اور تیزی سے کسی زبان کو سیکھنا ممکن ہوگیا۔ 1906 ء میں زامن ہوف نے "Homarnismo" یا نظریہ انسانیت (Humanitism)شائع کروائی تھی، جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ تمام دنیا کی قوموں کو ایک مشترکہ زبان کے بندھن میں باندھا جائے۔
پہلی اسپرانتو سکھانے والی کتاب کی اشاعت کے بعد متعدد کتابیں شائع ہوئیں اور اس کتاب کی اشاعت کے 25 سال بعد 1912 میں اسپرانتو کی عالمی تنظیم یونیورسل اسپرانتو ایسوسی ایشن (UEA) قائم ہوگئی۔ اب زامن ہوف نے ''گائیڈآف اسپرانتو لینگویج کمیونیٹی'' سے علیحدگی اختیار کرلی اور یہ کمیونٹی خودمختار ہوگئی۔ پہلی جنگ عظیم کی شروعات سے پہلے ہی اسپرانتو سارے براعظموں میں وارد ہوچکی تھی۔
اسپرانتو کی عالمی تنظیم کے اجلاس باقاعدگی سے جاری ہیں، جنہیں 100 برس مکمل ہوچکے ہیں۔ پچھلا اجلاس نترو، سلواکیہ میں ہوا تھا، جب کہ حالیہ سال کا اجلاس جنوبی کوریا کے شہر ''سیول '' میں ہونا قرار پایا ہے۔ زامن ہوف نے ہرسال سالانہ کانگریس کے اجلاسوں میں شرکت کی اور بہت سے ممالک میں اپنی کام یابی کا جشن منایا، تاکہ اس زبان کے بولنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ اپنی تخلیق کردہ زبان کے بعد وہ 30 سال زندہ رہے۔
ابتدا میں ہی زامن ہوف نے اسپرانتو میں اہم کتابوں کے ترجمے کیے ان میں ''بائیبل''، ''ہیملٹ۔Hamlet'' ،ـ" "Die Raube اور ـ"The Fables of Anderson" کے ترجمے قابل ذکر ہیں۔ آج ایک صدی کے مختصر عرصے میں اسپرانتو دنیا کی 50 سب سے زیادہ بولی اور استعمال کی جانے والی عالمی زبانوں میں اپنا مقام بناچکی ہے۔ زامن ہوف نے 13 مرتبہ نوبیل پرائز کے لیے نام زد گی حاصل کی۔ زامن ہوف کے کم زور پھیپھڑوں اور ناتواں دل کے باعث ڈاکٹروں کی طرف سے زور دیا گیا کہ مزید کام جاری نہ رکھیں۔ محض57 سال(1859-1917) کی عمر میں وہ اس دنیا سے کوچ کرگئے۔ ان کا مقبرہ وارسا میں ہے۔ ہر سال 15 دسمبر کو ان کی پیدائش کے موقع پر Zamenhof Tago ''زامن ہوف کا دن'' بڑے اہتمام سے منایا جاتا ہے، جس کے ساتھ ''یوم کتاب '' یا Libro Tago بھی منایا جاتا ہے۔
٭اسپرانتو بطور مادری یا غیرملکی زبان: اسپرانتو نہ صرف ایک مکمل سیکھی جانے اور کام میں لائی جانے والی زبان ہے بل کہ یہ ایک ہزار سے دو ہزار لوگوں کی مادری زبان کا درجہ بھی رکھتی ہے۔ وہ جنہوں نے اپنے والدین کو یہ زبان بولتے ہوئے سنا۔ سابق جرمن سفارت کارUlrich Branden Burg بھی ایسے ہی اسپرانتو دانوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے اسے بچپن ہی میں سیکھ لیا تھا، کیوںکہ ان کے والدین اسپرانتو بولتے تھے۔
وہ ماسکو میں سفیر رہ چکے ہیں ۔1901 ء کے آغاز پر زامن ہوف نے لکھا تھا کہ اگر خاندانی طور پر ایک گروپ اسپرانتو کو قبول کرلے تو وہ اسپرانتو کے کا مددگار ہوگا۔ 1904 ء میں ایسے پہلے بچے کی پیدائش ہوگئی تھی جو اسپرانتو بولتے ہوئے بڑا ہوا۔ اسپرانتو برطانیہ میں پہلی غیرملکی زبان کے طور پر رائج ہے۔ دنیا کے بہت سارے ممالک کے اسکولوں میں اسپرانتو سکھانے کے تجربات اور اس کے نتائج نہایت حوصلہ افز اء ہیں اور اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایک سال میں اسپرانتو کا مطالعہ دوسری زبانوں کے سالانہ مطالعہ کو دگنا کردیتا ہے۔ مثال کے طور پر ایک سال اسپرانتو سیکھی جائے اور ایک سال فرانسیسی، تو فرانسیسی کا سیکھنا دو سالوں کے مساوی قرار دیا گیا ہے۔
ہنگری میں اسپرانتو کو یورپ میں سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے اور یہاں یہ کسی بھی فارن زبان کے ہم پلہ سمجھی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کی سطح پہ2001 ء تک 35 ہزار ہنگری کے لوگ وہاں کے امتحانات اسپرانتو میں پاس کرچکے ہیں۔ چین میں اسپرانتو میں اخبارات شائع ہوتے ہیں جنہیں سرکاری حمایت حاصل ہے اور یہاں ریڈیو کے چینل بھی اسپرانتو کی ترقی وتوسیع کے لیے کام کررہے ہیں۔
اسپرانتو کی عالمی تنظیم UEA اور یونیسکو کا ساتھ 63 سال پرانا ہے جو کہ اسپرانتو کی بھرپور حمایت کرتی ہے جب کہ یورپین یونین کی آفیشل زبان کے طور اسپرانتو کو منوانے کے لیے جدوجہد جاری ہے اور حالیہ برطانیہ کے یونین سے Brexit کے نتیجے میں حتمی فیصلہ کے بعد اب انگریزی کا یونین سے انخلاء بھی یقینی نظر آرہا ہے اور قوی امکانات ہیں کہ اسپرانتو یونین کی 24 ویں آفیشل زبان کے طور پر رائج کردی جائے، جس سے کہ یورپین یونین کی اصل ترجمانی ممکن ہوسکے گی۔
٭اسپرانتو کی ترقی اور مستقبل: آج اسپرانتو رنگ و نسل کی ناہمواریوں سے بے نیاز مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں میں سما چکی ہے۔ زامن ہوف کے سبھی مقاصد کی تکمیل ہوئی۔ ان کی ایجاد کردہ زبان کو کام یابی ملی جو کہ اب تیزی سے سیکھی جاسکتی ہے اور نہایت آسان ہے، جسے بین الاقوامی رابطوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔ اس وقت ایک مصنوعی زبان وولاپوک (Volapuk) بھی وجود رکھتی تھی جو کہ اسپرانتو کے مقابلے میں بہت زیادہ مشکل تھی۔ یہ امر نہایت خوش آئند ہے کہ اسپرانتو میں گوں ناگوں خواص، برداشت، یکجہتی و ثقافتی اقدار شامل ہوچکی ہیں۔ پہلی کتا ب 1887 ء کے بعد سے اسپرانتو میں بہترین ادب تخلیق پاچکا ہے۔ اس کے ادیبوں کو نوبیل انعام کی نام زدگیوں میں شامل کیا جاتا ہے۔
اسپرانتو کے لکھاریوں کی قلم کاروں کی عالمی تنظیم PEN بھی حمایت کرتی ہے ۔ اسپرانتو کا اوریجنل ادبی ورجن انسائیکلوپیڈیا 740 صفحات پر مشتمل ہے اور اسے 2008 ء میں نیویارک سے شائع گیا تھا۔ اسپرانتو شاعر Willium Auid ، جن کا تعلق اسکاٹ لینڈ سے ہے، متعدد بار نوبیل کے ادبی انعام کے لیے نام زدگی حاصل کرچکے ہیں۔ دنیا کے 120 ممالک میں اسپرانتو کی ہزاروں کتابیں شائع ہوئی ہیں اور مسلسل چَھپ رہی ہیں۔ ان میں ایک تہائی تعداد اسپرانتو کی اصل تحریریں ہیں، جب کہ دو تہائی ترجمے بھی شامل ہیں۔ ان ممالک میں اسپرانتو کے بولنے والے رہتے ہیں۔
اسپرانتو کی عالمی اتحاد کی تنظیمیں اور قومی انجمنیں دنیا کے 70 ممالک میں قائم ہوچکی ہیں۔ اسپرانتو کے ایک معروف نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات Reinhard Setlen ہیں، جنہیں 1994 ء میں نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ وہ اسپرانتو کی دو کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ فکشن و فینٹیسی کے ماہر برطانوی لکھاری ٹولکن بھی اسپرانتو کے مداح تھے اور معروف فرانسیسی مصنف ناول و ڈراما نگار رُومین رَولانڈ بھی اسپرانتو کے سحر میں گرفتار رہے، جنہیں 1915 کا ادبی نوبیل پرائز دیا گیا تھا۔
وکی پیڈیا انسائیکلوپیڈیا میں اسپرانتو میں 230,000 اسپرانتو آرٹیکلز موجود ہیں اور یہ تعداد ڈینش اور عبرانی زبان کے مضامین سے بڑھ چکی ہے۔یوٹیوب وغیرہ پر اسپرانتو موسیقی کی وسیع ورائٹی، راک موسیقی، روایتی گیت، ریپ اور ہپ ہاپ کی صورت میں دست یاب ہے۔
اسپرانتو اب فیس بک کی بھی زبان بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ یہ اب کام یابی سے گوگل کے فعال آن لائن ترجمان ''گوگل ٹرانسلیٹ '' کا حصہ ہے۔ اسپرانتو سکھانے کی بڑی ویب سائیٹس ہیں جو کہ اسپرانتو کورس آفر کرتے ہیں ان میں ایک نمایاں مثال "Duoling.com" کی ہے، جس میں 800,000 لوگ رجسٹرڈ ہوچکے ہیں اور سب سے زیادہ تجربہ کی حامل اسپرانتو سکھانے کی ویب Lernu.Net ہے اس میں ایک لاکھ کی تعداد میں سیکھنے والے رجسٹرڈ ہیں۔ حال ہی میں نیوزایجنسیAFP نے اسپرانتو کی افادیت کو دیکھتے ہوئے اسے لیبل "Unprecedented International Success" (بے نظیر بین الاقوامی کام یابی) دے ڈالا ہے۔ ان تمام کام یابیوں کا سہرا اس کی زبان کی تیزرفتاری سے سیکھی جانے والی منطقی زبان کی ہونے والی صلاحیت کے سر ہے۔
برعکس ان دشواریوں کے جو دوسری زبانیں سیکھتے وقت سامنے آتی ہیں۔ آج اس زبان کو بین الاقوامی سطح پر اہمیت دی جارہی ہے۔ اسپرانتو ایک فلسفے کی حامل تحریک ہے۔ اس کی بین الاقوامیت کا مبہم یا گول مول تصور ابھی تک زندہ ہے جو کہ زامن ہوف کا پہلا قدم تھا۔