پاناما کیس میں وزیر اعظم کو جے آئی ٹی میں بلانے کیلیے عملدرآمد بینچ سے منظوری لی جائے گی
ٹیم اپوزیشن کی تنقید کے ڈر سے وزیر اعظم ہاؤس جانا نہ ضابطہ فوجداری کے تحت نوٹس جاری کرنا چاہتی ہے، ذرائع
پاناما لیکس کیلیے تشکیل دی گئی جے آئی ٹی نے وزیراعظم کو بلانے کیلیے عملدرآمد بینچ سے منظوری لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیراعظم اور اُن کے خاندان پر لگائے گئے الزامات کی انکوائری کیلیے سپریم کورٹ کی طرف سے تشکیل دی گئی تاہم جوائنٹ انسویسٹی گیشن ٹیم(جے آئی ٹی) پرسوں عملدرآمد بینچ کے روبرو 2اہم پوائنٹس اٹھائے گی۔ پہلا یہ کہ وزیراعظم کو ذاتی طور پر کس طرح بلایا جائے؟ جبکہ دوسرا یہ کہ وزیراعظم کی فیملی کے مختلف اسٹیک ہولڈرز کیلیے جو سوالنامہ تیار کیا گیا ہے، اُس کی عملدرآمد بینچ سے منظوری لی جائیگی۔
ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ ٹیم سوال جواب کیلیے وزیراعظم ہاؤس نہیں جانا چاہتی کیونکہ اس سے اپوزیشن کے عتاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ، جانبداری کے الزامات بھی لگ سکتے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم کو نوٹس جاری کرنے کا بھی ایک آپشن ہے لیکن ایسا نوٹس ضابطہ فوجداری کی دفعہ 160 کے تحت جاری کیا جاتا ہے، جس کا مطلب لیا جائیگا وزیراعظم کو ملزم تصور کیا جا رہا ہے جبکہ اس صورتحال میں اس آپشن سے بھی گریزکیا جا رہا ہے کیونکہ اس سے اپوزیشن کو وزیراعظم پر گولہ باری کا موقع مل سکتا ہے۔
دوسری جانب جے آئی ٹی گزشتہ روز سپریم کورٹ کے رجسٹرا ر سے ملی اور اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا اور معاملے کا ایک حل ڈھونڈ بھی نکالا لیکن ہمارے ذرائع کا کہنا ہے ٹیم پھر بھی کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچی، اس لیے وہ بینچ سے ہدایت لے گی۔ خیال رہے سپریم کورٹ نے ٹیم کو اختیار دے رکھا ہے کہ وہ وزیراعظم، ان کے بیٹوں، اگر ضرورت پڑے تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار،وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز سے سوال کر سکتی ہے۔
علاوہ ازیں جے آئی ٹی نے قطری شہزادے جاسم بن جابر الثانی سے بھی عدالت میں پیش کیے گئے خطوط کے بارے میں پوچھنے کا فیصلہ کیا ہے، اس مقصد کیلیے قطر میں پاکستانی سفارتخانے سے رابطہ کیا جائے گا جو قطری شہزادے کو ٹیم کی گزارش سے آگاہ کرے گا کہ وہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے کیلیے پاکستان تشریف لائیں۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران شریف فیملی کے وکلا کہتے رہے ہیں کہ اگر عدالت طلب کرے گی تو شہزادہ پیش ہو جائے گا۔ اب دیکھنا ہوگا شہزادہ جے آئی ٹی سے تعاون کرتا ہے یا نہیں۔ پرسوں (22 مئی) کو عدالت ٹیم سے اب تک کی پیش رفت معلوم کرے گی اور یہ بھی پوچھے گی اسے کوئی مشکل تو پیش نہیں۔ اس دوران جے آئی ٹی میں شامل نیب کا نمائندہ نیب کے ان تفتیشی افسران سے ملاقاتیں کر رہا ہے جنھوں نے شریف فیملی سے 2000 کی دہائی میں تفتیش کی تھی، یہ وہ زمانہ ہے جب جنرل ( ر) مشرف کی حکومت تھی۔
واضح رہے کہ نیب کا نمائندہ اس وقت کے چیئرمین نیب لیفٹیننٹ جنرل(ر) منیر حفیظ سے بھی ملا ہے اور اس وقت کی تمام معلومات لی ہیں ، جے آئی ٹی کی تفتیش اور رویہ کا اندازہ سپریم کورٹ سے ملنے والی ہدایات کی روشنی سے ہی لگایا جا سکے گا۔