گم راہی کی تاریکیوں میں آفتابِ ہدایت کا طلوع

یہ قانون قدرت ہے کہ وہ کسی کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا بلکہ جب کسی پر سختیوں کی انتہا ہو جائے تو ضرور...

دنیا کے حالات یک ساں اور ایک جیسے نہیں رہتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔ فوٹو: رائٹرز

حضور نبی اکرم ﷺ نے دور جاہلیت کے ایک منتشر ہجوم اور بے مقصد زندگی گزارنے والے انسانوں کے گروہ کو رسالت کے نور مبین سے کس طرح ہدایت کی راہ پر گامزن کیا؟ اس کا صحیح اندازہ اُسی وقت کیا جاسکتا ہے جب اس تاریک دور کے مذہبی و سماجی اور ذہنی آوارگی کے حالات ہمارے سامنے ہوں ۔ اس لیے ہم پہلے انہیں بیان کر تے ہیں۔

۱۔ قانون قدرت
دنیا کے حالات یک ساں اور ایک جیسے نہیں رہتے بلکہ بدلتے رہتے ہیں۔ کبھی ایک غریب اور فاقہ کش انسان ا میر ہو جاتا ہے اور کبھی دولت مند دیکھتے ہی دیکھتے ٹکڑے ٹکڑے کا محتاج ہو جاتا ہے۔ کوئی آن کی آن میں عزت کھو بیٹھتا ہے اور کوئی ذلت کے گڑھے سے نکل کر عظمت و کرامت کی مسند پر جا بیٹھتا ہے۔ غرض دنیا کا نظام اسی طرح چل رہا ہے، کسی چیز کو قرار و سکون حاصل نہیں۔ دنیا ایک ڈھلتی چھائوں ہے جو کبھی کسی کے پاس ہے اور کبھی کسی کے پاس۔ اللہ تعالیٰ نے ہر لحظہ بدلتے حالات کو قرآن پاک میں اس طرح بیان فرمایا: ''ہم دِنوں کو لوگوں میں بدلتے رہتے ہیں۔'' ( آل عمران:140)
چناں چہ عزت اور ذلت اسی کے ہاتھ میں ہے۔

یہ سب تبدیلیاں اس کی موجودگی اور قدرت کی علامات ہیں۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ نظام کائنات کو سنبھالنے والا بھی کوئی ہے، وہ کسی کو ایک حالت پر نہیں رہنے دیتا۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں: '' میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کے ٹوٹنے ہی سے پہچانا ہے۔'' میں ارادہ کچھ کرتا ہوں لیکن ہوتا کچھ ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ارادوں کو بدلنے والی بھی طاقت ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ ارادوں کو بدلتا ہے اسی طرح کائنات اور مخلوقات کے حالات کو بھی بدلتا ہے۔ گرمی کے بعد سردی پیدا فرماتا ہے تاکہ بندے گرمی سے جھلس نہ جائیں۔ پھر سردی بھی نہیں رہنے دیتا تاکہ اس سے بھی لوگ اُکتا نہ جائیں ۔ خزاں کی تباہ کاریوں کے بعد وہ بہار کو شادابیوں سے آراستہ کر کے اور خوشبوئوں میں بسا کر، خوش گوار جھونکے دے کر بھیج دیتا ہے۔ دن بھر کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے رات لے آتا ہے اور پھر رات کی تاریکی کے بعد دن کی روشنی عطا کرتا ہے۔

یہ قانون قدرت ہے کہ وہ کسی کو حالات کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتا بلکہ جب کسی پر سختیوں کی انتہا ہو جائے تو ضرور اس پر مہربانی فرماتا ہے۔ زمین جب پانی کی ایک ایک بوند کو ترس جائے تو بادلوں سے الحیات برساتا ہے۔ کھیتیاں سوکھ جائیں تو انہیں تازگی بخشتا ہے۔ جہالت کو علم کے نور سے دور فرماتا ہے۔ بیماری کے بعد صحت اور توانائی بخشتا ہے۔ غم کے بعد راحت اور دکھ کے بعد سکون عطا فرماتا ہے۔ غربت کے بعد دولت اور ذلت کے بعد عزت سے نوازتا ہے۔ غرض یہ کہ اس کا قاعدہ اور طریقہ ہے کہ وہ کسی کو بے سہارا نہیں چھوڑتا، کمال اور زوال کا راستہ ضرور دکھاتا ہے۔ پھر انسان جو چاہے راستہ اختیار کر لے۔ اگر نیکی اور ترقی کی طرف قدم بڑھانا چاہے تو اس کی دست گیری فرماتا ہے اور اگر کوئی ذلت اور پستی کے گڑھے میں ہی گرنا چاہے تو اسے ڈھیل دے دیتا ہے۔ ارشاد فرمایا: ترجمہ:'' اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک اسے اپنی حالت کے بدلنے کا احساس نہ ہو۔'' ( الرعد:11)

جب اللہ تعالیٰ راہیں دکھاتا ہے اور سکون و قرار اور ہدایت و راحت کے اسباب مہیا کر تاہے تو کس طرح ممکن تھا کہ وہ انسان کو روحانی بربادی اور باطنی تباہی پر کچھ انتظام نہ کرتا اور انسان کو گم راہی اور ضلالت کی تاریکیوں میں ٹھوکریں کھانے کے لیے چھوڑ دیتا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا، چناں چہ اس نے ایسے آفتاب ہدایت کے طلوع کا انتظام فرمایا جس کے بغیر روشنی پھیلنے کی کوئی صورت ہی نہ تھی۔ ایسے سرچشمہ ہدایت کو جاری فرمایا جس کے بغیر انسانی اخلاق کے کھیتوں کی سیرابی کا کوئی امکان نہ تھا۔ انسانیت کو ایسا نسخہ کیمیا عطا فرمایا جس میں قلب و روح کی بیماریوں کا تیر بہدف علاج مندرج تھا اور لوگوں کو گناہوں کی اس دلدل سے نکالا جس میں وہ گلے تک ڈوبے ہوئے تھے۔ اُس وقت اُن کی ہوس رانی، معاشرتی بے راہ روی، ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کا کیا عالم تھا؟ اس کے تصور ہی سے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ وہ انسان تھے یا انسانیت کے نام پر تہمت ۔

۲۔ قبائل عرب کی ضلالت
ظہور قدسی سے پہلے پوری دنیا اور خصوصاً خطہ عرب میں آباد غیر مہذب قبائل کی سماجی اور اخلاقی حالت کا یہ عالم تھا کہ وہ فاسد اور بے ہودہ نظریات میں الجھے ہوئے تھے۔ دین اور مذہب کے مثبت ضوابط اور اصولوں پر مبنی عقائد و نظریات سے وہ یک سر ناآشنا تھے۔ آباو اجداد کی تقلید اور توہم پرستی کے نتیجے میں انہوں نے مذہب کے نام پر کچھ خرافات کو اپنایا ہوا تھا جنہیں وہ سرمایہ حیات سمجھتے تھے اور جان سے بھی زیادہ ان کی حفاظت کر تے تھے۔ یہ حقیقت سے عاری تصورات اور احمقانہ خیالات کیا تھے! محدثین کرام نے ان کی بڑی وضاحت سے تصویر کشی کی ہے جس سے پورے عرب اور ان کے مذاہب و نظریات کا مکمل نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے، ان کا بیان ہے۔

(الف) خدا کے منکر
اہل عرب ہدایت سے بھٹک کر مختلف گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ بغض اور انتشار نے ان کی جمعیت اور قوت کو پارہ پارہ کر دیا تھا۔ ان کی زندگی اس اونٹ کے مشابہ تھی جو بے مہار ہو اور منہ اُٹھائے بے مقصد چلا جارہا ہو۔ ان میں ایک ہی عقیدے اور نظریے کے لوگ آباد نہیں تھے بلکہ ہر خاندان اور قبیلہ اپنے اپنے صنم کدے سجائے بیٹھا تھا۔ ان میں خدا، حشر و نشر اور رسولوں کے منکر بھی تھے جو یہ کہتے تھے کہ خدا کوئی نہیں ہے، زمانہ ہی سب کچھ ہے۔ ہمیں زندگی بخشنے اور موت دینے والا زمانہ ہی ہے۔ قرآن پاک نے ایسے کم نظر لوگوں کا تذکرہ اس آیت مبارکہ میں کیا ہے۔
'' وہ بولے سب کچھ دنیا کی زندگی ہی ہے، ہم مرتے اور جیتے ہیں، زمانہ ہی ہمیں ہلاک کرتا ہے ( اللہ تعالیٰ انہیں جواب دیتے ہیں) انہیں کسی قسم کا علم تو ہے ہی نہیں ۔ ایسے ہی گمان کے گھوڑے دوڑا رہے ہیں۔''

( الجاثیہ:24)
(ب) قیامت کے منکر
ایسے کافر بھی تھے جو حشر و نشر اور قیامت کو نہیں مانتے تھے۔ وہ اعتراض کر تے تھے کہ قبر میں انسان گل سڑ جاتا ہے، اس کی ہڈیاں ریزہ ریزہ بلکہ سُرمہ ہو جاتی ہیں پھر وہ کس طرح دوبارہ زندہ ہو سکتاہے؟ان کے ان خیالات کی عکاسی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات میں ہوتی ہے۔


'' ہڈیوں کو کون زندہ کر ے گا حالاں کہ وہ بوسیدہ اور سُرمہ ہو چکی ہوںگی۔'' (یٰسین:78)
'' اور کہا کر تے تھے کہ کیا جب ہم مر جائیں گے اور ہم خاک (کا ڈھیر) اور (بوسیدہ) ہڈیاں ہو جائیں گے تو کیا ہم (پھر زندہ کر کے) اُٹھائے جائیں گے۔ اور کیا ہمارے اگلے باپ دادا بھی ( زندہ کیے جائیں گے )۔ (الواقعہ:47,48)

(ج) رسالت کے منکر
ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں تھی جو خدا اور یوم آخرت پر تو ایمان رکھتے تھے لیکن رسالت کے منکر تھے۔ رسولوں کا وجود تسلیم نہیں کر تے تھے۔ اس لیے انہوں نے بتوں اور پتھر کی مورتیوں کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کیے ہوئے تھے اور انہی کو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ اور شفیع مانتے تھے۔ ان کے بڑے بڑے بت سواع، یغوث، یعوق اور نسر تھے۔ ہر قبیلے نے ان میں سے اپنا ایک الگ خدا بنایا ہوا تھا۔

بت پرستی کی ابتدا
عرب میں سب سے پہلے بت پرستی کی بنیاد عمرو بن لحی نے رکھی۔ یہ شخص بڑا شریر، خطرناک اور جاہ پرست تھا۔ ایک مرتبہ ملک شام گیا، وہاں شہر بلقاء میں اس نے لوگوں کو بت پرستی کر تے دیکھا، اسے یہ منظر بہت پسند آیا، اُس سے پوچھا: ''یہ تم کیا کرتے ہو''؟ وہ بت پرست بولے: ہم ان کی پرستش کر رہے ہیں، یہ ہمارے خدا ہیں۔ ''ہم ان سے بارش مانگتے ہیں تو یہ بارش دیتے ہیں، مدد مانگتے ہیں تو مدد کر تے ہیں۔'' ( ابن ھشام)

اس نے کہا کیا تم مجھے ایک بت دے سکتے ہو جسے میں عرب میں اپنے ساتھ لے جائوں تاکہ اہل عرب بھی تمہاری طرح اس کی پوجا کریں؟ انہوں نے کہا تم ضرور لے جائو۔ چناں چہ ایک بہت بڑا بت جس کا نام ''ہبل'' تھا وہ انہوں نے اس کو دیا۔ اس نے وہ لاکر کعبہ معظمہ میں نصب کر دیا اور سب قبیلوں کو مشترکہ طورپر اس کی عبادت کرنے کی دعوت دی۔ اس نئے کام میں شریک ہونے کے لیے سب اکٹھے ہو گئے اور ہبل کے پجاری بن گئے۔ پھر آہستہ آہستہ ہر قبیلے نے الگ الگ بت گھڑ لیے اور انہیں پوجنا شروع کردیا۔

حضرت ابو ہریرہ ؓ فرماتے ہیں: ''ایک مرتبہ ہم حضور ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، آپؐ نے فرمایا: میں نے عمرہ بن لحی کو دوزخ میں دیکھا ہے وہ آگ میں اپنی آنتیں کھینچ رہا تھا۔ اسی مجلس میں ایک صحابی اکشم بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ حضورؐ نے ان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: اے اکشم! اس کی شکل تم سے بہت ملتی جلتی ہے۔ وہ صحابی ڈر گئے، عرض کی: یارسول اللہﷺ پھر ممکن ہے یہ مشابہت میرے لیے نقصان اور ضرر کا باعث ہو۔ آپ ؐ نے فرمایا: نہیں وہ کافر تھا تم مومن ہو۔ اس نے تو دین حنیف کی بنیاد ہلاکر رکھ دی تھی جس کی سزا اب بھگت رہا ہے۔

بتوں کو پوجتے پوجتے نوبت یہاں تک آن پہنچی تھی کہ اُنہوں نے معمولی معمولی پتھروں کو بھی خدا بنانا شروع کردیا تھا۔ اس پستی کی ابتداء اس طرح ہوئی کہ انہوں نے سفر کے لیے جاتے وقت حرم کعبہ کے پتھروں کو ساتھ لے جانا شروع کردیا۔ وہ جہاں قیام کر تے ان پتھروں کو سامنے رکھ کر پوجتے اور ان کا طواف کر تے۔ آہستہ آہستہ جب وہ اس حرکت کے اچھی طرح عادی ہو گئے تو ہر جگہ کے پتھروں کے ساتھ ایسا ہی کرنا شروع کر دیا، یعنی ہر روڑا اور کنکر ان کا معبود بن گیا۔ پھر انہوں نے زبان سے بھی شرکیہ کلمات ادا کرنا شروع کر دیئے۔

گھر سے نکلتے وقت بت کو چومتے اور واپس آکر سب سے پہلے اسی کے آگے جھکتے، خدا کو لاشریک مان کر پھر اس کے لیے شریک ثابت کرنے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ''اور ان میں اکثر ایسے ہیں جو ایمان نہیں لاتے مگر ساتھ ہی شرک بھی کرتے ہیں۔'' (یوسف:106)

۳۔ آفتاب ہدایت کا طلوع
شرک وکفر کی اس گرم بازاری پر آسمان ہل گیا، زمین کانپ گئی ۔ فرشتے دہل گئے، انسانوں اور جنوں کے سوا کائنات کا جگر خون ہوگیا۔ کعبہ معظمہ سراپا فریاد بن گیا اور ہر شے بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ہو گئی کہ: اے مولا کریم! اب بغاوت اور سرکشی حد سے بڑھ گئی ہے۔ انسان کی کم علمی اور نادانی نے اسے ذلت کے پست ترین گڑھے میں گرادیا ہے۔ وہ اپنا مقام کھو بیٹھا ہے۔ اس کی ذلیل حرکتوں سے ساری مخلوق نالاں ہے۔ آسمان کو حکم دے وہ ان پر ٹوٹ پڑے یا زمین کو اجازت دے وہ اسے نگل لے، یا اس کی آبادیوں پر دنیا بھر کے پہاڑ الٹ دے۔

ہر طرف ظلمت چھائی ہوئی ہے۔ روشنی کی کرن کسی طرف دکھائی نہیں دے رہی۔ تشنگی حد سے بڑھ گئی ہے۔ بندہ بندے کو کھا رہا ہے۔ انسان ، انسان کا دشمن ہے۔ اگر دنیا کی تباہی مقصود نہیں تو پھر انسان کی دست گیری فرما۔ اس کی حالت زار پر رحم کر۔ اسے اپنی عنایا ت اور مہربانیوں سے نواز۔

خشک دھرتی، تاریک فضا اور بے زبان مخلوق کی دعائیں قبول ہوئیں۔ رحمت کے سمندر میں جوش آیا۔ حق کی بجلی کوندی ۔ کوہ فاران کی طرف سے رحمت کی گھٹا اٹھی۔ ہدایت کا آفتاب طلوع ہوا اور ہر طرف سے تاریکی کے بادل چھٹ گئے۔ زمین سیراب ہو گئی اور ہر جگہ بقعہ نور بن گئی۔
Load Next Story