انصاف کے دروازے پر
مظلوم کو ان مشکلات کا قطعی کوئی اندازہ نہ تھا، وہ تو یہ سوچ کر چلا تھا کہ انصاف کا گھر سب کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔
دنیائے ادب میں فرانز کافکا کو افسانہ نگاری کا بادشاہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ کافکا کے افسانے بہت مختصر ہوتے ہیں اور ان ہی مختصر افسانوں نے کافکا کو صف اول کا افسانہ نگار بنادیا۔ کافکا صدیوں پہلے کا ادیب نہیں ہے، اس کا تعلق بیسویں صدی سے ہے، اس کے افسانوں میں ایک افسانہ ''انصاف'' ہے۔ کافکا نے اپنے اس افسانے میں مظلوموں کو انصاف کے محل کے سامنے انصاف کے انتظار میں بیٹھے بیٹھے بوڑھا ہوتے اور انصاف کے محل کے باہر دم توڑتے ہوئے دکھایا ہے۔ چونکہ یہ افسانہ مختصر بھی ہے اور تاثر انگیز بھی، لہٰذا ہم اسے قارئین کی نذر کرتے ہیں۔
انصاف کے دروازے پر پہرے دار کھڑا ہے، ایک مظلوم انصاف کے دروازے پر آتا ہے اور پہرے دار سے انصاف کے محل میں جانے کی اجازت طلب کرتا ہے، پہرے دار کہتا ہے فی الحال تمہیں اندر جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ مظلوم پہرے دار سے پوچھتا ہے کیا کبھی اندر جانا ممکن ہوگا؟ پہرے دار جواب دیتا ہے ہاں ممکن ہوگا، لیکن کب؟ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا، فی الوقت تم اندر نہیں جاسکتے۔
انصاف کے محل کا دروازہ کھلا ہے، مظلوم بے قراری سے بار بار اندر جھانکتا رہتا ہے۔ پہرے دار اس کی بے قراری دیکھ کر ہنستا ہے اور کہتا ہے تم میری اجازت کے بغیر اندر نہیں جاسکتے، تم اندر جانے کی کوشش کرکے دیکھو، یہ کوشش اس لیے بے سود ہوگی کہ انصاف کے محل کے کئی دروازے ہیں اور ہر دروازے پر مجھ سے بڑھ کر طاقتور پہرے دار کھڑے ہیں، ہر دوسرا پہرے دار پہلے سے زیادہ طاقتور ہے اور کچھ پہرے دار تو اس قدر خوفناک ہیں کہ میں بھی ان پر نظر ڈالنے سے گریز کرتا ہوں۔
مظلوم کو ان مشکلات کا قطعی کوئی اندازہ نہ تھا، وہ تو یہ سوچ کر چلا تھا کہ انصاف کا گھر سب کے لیے ہر وقت کھلا رہتا ہے، لیکن اب اس کے لیے انتظار کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا۔ پہرے دار اسے ازراہ کرم ایک کونے میں بیٹھنے کی اجازت دیتا ہے اور مظلوم انصاف کے محل کے اندر داخل ہونے کی امید پر وہاں بیٹھا رہتا ہے۔ اسے یہاں بیٹھے بیٹھے برس ہا برس گزر جاتے ہیں، مظلوم اپنے ساتھ لائی ہوئی ہر چیز پہرے دار کو رشوت کے طور پر دے دیتا ہے، پہرے دار خوشی سے ہر چیز لے لیتا ہے۔
لیکن ساتھ ساتھ مظلوم کو یہ بھی بتاتا رہتا ہے کہ ''فی الحال تمہیں اندر جانے کی اجازت نہیں مل سکتی'' وہ پہرے دار کو برسوں اس طرح دیکھتا رہتا ہے کہ اس کے کپڑوں میں پائے جانے والے کیڑوں تک سے وہ آشنا ہوجاتا ہے اور مایوسی کے عالم میں ان کیڑوں سے کہتا ہے کہ وہ خدا کے لیے پہرے دار سے سفارش کریں کہ وہ اسے اندر جانے دے۔ انصاف کے محل کے اندر جانے کی امید میں اس کی بینائی چلی جاتی ہے۔ اندھیرے میں صرف انصاف کے گھر سے نکلنے والی انصاف کی کرن کی روشنی باقی رہ جاتی ہے۔ پہرے دار کو اندازہ ہوجاتا ہے کہ مظلوم کا آخری وقت آگیا ہے لیکن وہ مظلوم کو انصاف کے محل میں داخل ہونے کی اجازت دینے کے بجائے یہی کہتا ہے ''ابھی تم کو انصاف کے محل میں جانے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔''
مظلوم کی قوت گویائی ختم ہورہی تھی۔ مظلوم اشارے سے پہرے دار کو نزدیک آنے کے لیے کہتا ہے۔ پہرے دار اسے مظلوم کی آخری خواہش سمجھ کر اسے پوری کرنے کے لیے اپنے کان مرنے کے قریب پہنچے مظلوم کے منہ کے قریب لاتا ہے۔ مظلوم انتہائی نحیف آواز میں پوچھتا ہے۔ ہزاروں مظلوم انصاف تک رسائی چاہتے ہیں تو اس طویل ترین عرصے میں یہاں کوئی اور انصاف کے لیے کیوں نہیں آیا؟ کیا انصاف کے محل میں داخل ہونے کے انتظار میں زندگی کی حدوں کو پار کرنا پڑتا ہے؟
فرانز کافکا کا یہ افسانہ دنیا کے بہترین افسانوں میں شمار ہوتا ہے۔ کافکا کا مظلوم انصاف کے انتظار میں موت سے ہمکنار ہوجاتا ہے لیکن پسماندہ ملکوں میں مظلوم لوگ نسلوں تک انصاف کے محل کے دروازے پر انصاف کے محل میں داخل ہونے کا انتظار کرتے ہیں اور انصاف کی آرزو لے کر قبروں میں جا سوتے ہیں۔
ہماری عدلیہ آزاد ہے، اس کی آزادی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک خط نہ لکھنے کے جرم میں اس ملک کے وزیر اعظم کو گھر جانا پڑا، قانون اور انصاف کی بالادستی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ بڑے بڑے رہنماؤں پر توہین عدالت کے کیس چل رہے ہیں، قانون کی بالادستی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ ایک سابق وزیراعظم اور مستقبل میں وزارت عظمیٰ کی باری کے منتظر رہنما کے داماد کو ایک معمولی جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ لیکن بے چارے ناخواندہ عوام کے ذہنوں میں بہت سارے سوالات کلبلا رہے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ کیا سوئس حکومت کو خط لکھنے سے انصاف کے تقاضے، انصاف کا مقصد پورا ہوگیا؟ کیا اس خط کے لکھنے سے وہ 5 ارب کی رقم واپس آگئی جس کے لیے حکمرانوں کو این آر او کا سہارا لینا پڑا تھا، کیا این آر او سے فائدہ اٹھانے والے سارے ملزموں کے ساتھ انصاف ہوا؟
2007 کے بعد آزاد ہونے والی عدلیہ نے بڑی جرأت سے ان محترم لوگوں کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا، ماضی میں جن کے محلوں پر قانون اور انصاف چوکیداری کی ڈیوٹی انجام دیتے تھے۔ ہماری آزاد عدلیہ نے قانون اور انصاف کی برتری کے ایسے کام انجام دیے جن کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اعلیٰ سطح کے عمائدین کا احتساب مکمل ہونے کے بعد اب ضرورت یہ محسوس کی جارہی ہے کہ ایسے کیسوں کی جو برسوں سے زیر سماعت ہیں، تیزی سے سماعت کی جائے۔ ان میں ایک کیس اتنا اہم ہے کہ اس کے حل سے مستقبل میں قانون اور انصاف کی بالادستی ایک ریکارڈ قائم کرسکتی ہے اس کیس کے منصفانہ حل سے صدیوں سے جاری ظلم کے نظام کا تختہ الٹ سکتا ہے، وہ ہے زمین کی حد ملکیت کے حوالے سے دائر عابد حسن منٹو کی طرف سے دائر کردہ پٹیشن۔ ہمارے محترم چیف جسٹس صاحب جانتے ہیں کہ وڈیرہ شاہی نظام جرائم کو ناانصافیوں کو جنم دیتا ہے۔ عابد حسن منٹو کی پٹیشن پر عادلانہ فیصلے سے ہمارا ظلم پر مبنی پورا معاشرتی ڈھانچہ بدل جائے گا۔ دوسرا مسئلہ اربوں کی متعدد کرپشن کیسوں کا ہے جن میں بینکوں کی نادہندگی کے دو بڑے کیس شامل ہیں ایک ڈھائی کھرب کے بینک قرضوں کو ہڑپ کرجانے کا، دوسرا شریف برادران پر کرپشن اور نادہندگی کے کیس ہیں جو برسوں سے انصاف کے منتظر ہیں۔ کیا چیف جسٹس صاحب ان کیسوں کی طرف توجہ دیں گے جن کے حل سے معاشرتی نظام میں مثبت تبدیلی اور ملک کی معیشت میں بہتری آسکتی ہے؟