راہول کی رونمائی …
بھارت کو اجتماعیت کی اقدار کو قائم رکھنے کی خاطر بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔
30 جنوری وہ دن ہے جب مہاتما گاندھی کو بھارت کی تقسیم کا ذمے دار سمجھ کر گولی مار دی گئی تھی۔ یہ کام ایک ہندو جنونی نے کیا تھا۔ قاتل کا نام گوپال گوڈسے تھا جسے اپنے کیے پر کوئی پچھتاوا نہیں تھا جیسا کہ اس نے پنجاب ہائی کورٹ میں، جہاں اس مقدمے کی سماعت ہو رہی تھی، بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ گاندھی ایک منافق (ہپوکریٹ) تھا۔ مسلمانوں کے ہاتھوں ہندوئوں کے قتل عام کے باوجود وہ خوش تھا۔جتنا زیادہ ہندوئوں کا قتل عام ہوتا، وہ (گاندھی) سیکولرازم کا پرچم اتنا ہی بلند کر دیتا۔
بھارت کو اجتماعیت کی اقدار کو قائم رکھنے کی خاطر بہت بھاری قیمت ادا کرنا پڑی ہے۔ اس کے باوجود یہاں اسی قسم کے ایک دہشت گرد گروپ نے سر اٹھا لیا جس کا موقف بھی یہی تھا کہ جن کا مذہب مختلف ہے یا جو سیکولرازم کا نظریہ اپنا بیٹھے ہیں، انھیں صفحہ ہستی سے نابود کر دیا جانا چاہیے۔ یہ گروپ بھارت کی سیاسی زندگی پر تابڑ توڑ حملے کر رہا ہے اور مذہب کے نام پر اپنے پیروکار پیدا کر رہا ہے۔
مرکزی وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے نے کہا ہے کہ ''این آئی اے (نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی) کی تحیقیقات سے یہ رپورٹ ملی ہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس نے دہشت گردی پھیلانے کی خاطر تربیتی کیمپ قائم کر رکھے ہیں''۔انھوں نے مزید کہا کہ سجھوتہ ایکسپریس اور مکہ مسجد میں بم نصب کیے گئے تھے اور مالیگائوں میں بھی دھماکے کرائے گئے۔ ہمیں اس کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ سوچنا ہو گا۔
شنڈے کا بیان ممکن ہے ایک حد تک سنسنی خیز ہو مگر میری خواہش ہے کہ کاش وہ اس موقعے پر ایسا بیان نہ دیتے جب کہ بھارت کو سرحد پر پیش آنے والے واقعات سے بھی خاصی تشویش لاحق ہو چکی ہے اور جب ان حقائق کا ذکر انھوں نے جے پور میں کانگریس کے مرکزی اجلاس میں کیا، اسی وجہ سے اس کے مندرجات کے بارے میں شک پیدا ہو جاتا ہے۔ ان کے انداز سے ایسا لگتا ہے جیسے وہ بی جے پی اور آر ایس ایس کی شہرت خراب کرنا چاہتے ہیں۔ بہرحال میرا اس سے کوئی جھگڑا نہیں کیونکہ دونوں متذکرہ جماعتیں سیکولر ازم کے حق میں نہیں ہیں جب کہ ہم اسے پورے بھارت پر نافذ کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔
شنڈے کو اپنے الزام کے ٹھوس ثبوت فراہم کرنے چاہئیں۔ پارلیمنٹ کے فروری میں ہونے والے اجلاس کے روبرو ایک قرطاس ابیض (وائٹ پیپر) کا پیش کیا جانا مناسب اقدام ہو سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب مسلم دہشت گردی حکام کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن چکی ہے، ہندو دہشت گردی اور زیادہ بڑا خطرہ ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے اکثریتی آبادی چھوت چھات کے مرض میں مبتلا ہو جائے گی۔ ایک اقلیت کی فرقہ پرستی پر قابو پایا جا سکتا ہے مگر اکثریت کی فرقہ پرستی فسطائیت بن جاتی ہے۔وزیراعظم منموہن سنگھ نے جے پور کے اس جلسے میں دوبارہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ ہندو قومیت کی دہشت گردی پاکستان سے آنے والی مسلم دہشت گردی کا جواب ہے۔ ممکن ہے یہ بات درست ہو مگر یہ اس خطرناک صورتحال کا جواب نہیں جو ملک میں پیدا ہو رہی ہے۔
پاکستان سے ایک مسلم دانشور نے اپنا تبصرہ ای میل سے مجھے بھیجا ہے: ''اب جب کہ اس کے لیے انکار کی کوئی گنجائش نہیں کہ بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے بعض واقعات سے پاکستان کے رابطے
بھی ہو سکتے ہیں جیسا کہ 26نومبر کو ہونے والا واقعہ اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بھارتی مسلمان بھی جو 60 سال سے زائد عرصے سے ریاستی ظلم و تشدد اور نا انصافیوں کا شکار ہیں خود بھی کبھی کبھی اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوں گے جیسا کہ بابری مسجد پر حملے اورگجرات میں مسلمانوں کے قتل عام کا واقعہ ہوا جس کا مسلمانوں میں ردعمل ظاہر ہونا فطری امر تھا۔ اس نے مزید لکھا ہے کہ دنیا میں تشدد بڑھ رہا ہے جب کہ مغرب دیگر ممالک کے قدرتی وسائل پر قبضے کے لیے اور اپنے سیاسی غلبے کے لیے ایک نئے طرز کی نوآبادیاتی پالیسی پر عمل پیرا ہے تو ایسی صورت میں تشدد اور جوابی تشدد کوئی حیرت کی بات نہیں۔ ہر عمل کا ایک ردعمل ہونا فطری بات ہے جو ہم نے فرانسیسی جارحیت کے خلاف مالی میں اور الجزائر میں دیکھا ہے۔
بی جے پی کا بپھرا ہوا جواب قابل فہم ہے۔ اس نے وزیراعظم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا ہے اور ملک بھر میں ہڑتال کرانے کی دھمکی دیدی ہے تاہم کلیان سنگھ کے دوبارہ اعتراف کے بعد جو بابری مسجد کے آخری اینٹ تک انہدام کے وقت ریاست کا وزیراعلیٰ تھا بی جے پی کے غصے میں سے زہر نکل گیا ہے۔ اب یہ مدافعتی طرز عمل اختیار کر رہی ہے۔ بہرحال شنڈے کے انکشاف نے راہول گاندھی کی کانگریس میں دوسری سب سے اہم پوزیشن پر نامزدگی کی تام جھام سے چمک چھین لی ہے تاہم اس سے بصورت دیگر کچھ زیادہ فرق نہیں پڑا کہ اب انھوں نے راہول کو مسٹر راہول کہنے کے بجائے راہول جی کہنا شروع کر دیا ہے جو اس پارٹی کا اپنے محترم لیڈروں کے لیے احترام و تکریم کا مخصوص انداز ہے۔
راہول کو سیکریٹری جنرل کی پوزیشن سے ترقی دیتے ہوئے پارٹی کا وائس پریذیڈنٹ بنا دیا گیا لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ 2014ء کے عام انتخابات میں انھیں وزارت عظمیٰ کے لیے نامزد کیا جائے گا۔ راہول کہتے ہیں کہ وہ پارٹی کی تعمیر کریں گے۔ یہ بات عجیب لگتی ہے کہ ان کی والدہ سونیا گاندھی جو پارٹی کی صدر ہیں، وہ اور ان کا نائب صدر بیٹا دونوں مل کر پارٹی کی تعمیر کرتے رہیں۔ لیکن کانگریس چونکہ خاندانی ملکیت بن چکی ہے لہٰذا اس حوالے سے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ اسے سونیا گاندھی کی خواہشات کو آگے بڑھانا ہے۔ اگرچہ منموہن سنگھ کی خاص اہمیت ہے لیکن بطور وزیر اعظم وہ ایک لنگڑی بطخ بن چکے ہیں۔
جے پور میں راہول نے بہت اچھی جذباتی تقریر کی۔ لیکن آخر وہ کہنا کیا چاہتے تھے، بیشک ہم فرض کر لیں کہ تقریر انھوں نے خود ہی لکھی تھی؟یہ کہنا کہ ہم پورے سسٹم کو اوورہال کریں گے یا از سر نو مرتب کریں گے یا کرپشن کے خلاف لڑیں گے اب بے معنی الفاظ ہو چکے ہیں۔ آخر ان کی بات کو سنجیدگی کے ساتھ کیسے لیا جا سکتا ہے جب وہ خود جانتے ہیںکہ ان کے بہنوئی رابرٹ وڈھیرا نے ہریانہ میں بددیانتی کے ساتھ وسیع اراضی حاصل کی ہے؟ بھارت اور بھارت کے باہر عوام یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ملک کے سلگتے ہوئے مسائل کے بارے میں ان کے نظریات کیا ہیں نہ کہ ایک 'سب اچھا ہے' جیسی تقریر کر دی جائے۔ راہول نے عالمی منظر نامے پر کبھی ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ عمومی حالات میں تو عالمی منظر نامے کی تصویر کھینچنا شاید ضروری نہ ہو لیکن چونکہ موصوف وزارت عظمیٰ کے متوقع امید وار ہیں تو انھیں لازماً ان وسیع ترمعاملات پر بھی اپنا نقطہ نظر بیان کرنا چاہیے۔
میرا شبہ یہ بھی ہے کہ ممکن ہے راہول آیندہ انتخابات میں وزارت عظمیٰ کے لیے کانگریس کے امیدوار نہ ہوں۔ سونیا گاندھی کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ وہ راہول کی پارٹی کے نائب صدر کے طور پر ترقی پر باقاعدہ رو پڑیں، اس خوف سے کہ اقتدار ایک زہر ہے۔ لہٰذا ممکن ہے کہ وہ جب تک ممکن ہو منموہن سنگھ کے ساتھ ہی گزارا کرتی رہیں اور راہول کی باری منموہن سنگھ کے بعد آئے۔ بعض دیگر اشخاص بھی ممکنہ طور پر امید وار ہو سکتے ہیں۔ وزیر خزانہ پی چدم برم نے تو پہلے ہی ہندی سیکھنے کے لیے ایک ٹیوٹر کی خدمات حاصل کر لی ہیں۔ سونیا گاندھی خود پارلیمانی امور کے وزیر کمل ناتھ کو ترجیح دے رہی ہیں اور انھیں ڈاؤس میں ہونے والے بین الاقوامی اجلاس میں بھارتی وفد کی قیادت کے لیے نامزد کر دیا ہے۔ وزیر تجارت آنند شرما اس وفد کے محض ایک رکن ہیں جب کہ ماضی میں وہ ایسے وفود کی سربراہی کرتے رہے ہیں۔
2014ء کا انتخاب ممکن ہے کہ سیکولر اور غیر سیکولر قوتوں کے مابین مقابلہ ثابت ہو۔ بہر حال بی جے پی گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کی بطور وزیراعظم نامزدگی سے پہلے دو مرتبہ سوچے گی۔ پہلی بات تو یہ کہ اس طرح پورا ملک اختلافی سوچ کا شکار ہو جائے گا اور دوسرا یہ کہ نریندر مودی کو وزیراعظم کے طور پر نمایاں کرنے سے بی جے پی کے لیے مخلوط حکومت کے لیے اتحادی ڈھونڈنا بہت مشکل ہو جائے گا۔ پارٹی کو یاد رکھنا چاہیے کہ واجپائی کی پہلی حکومت برسراقتدار آنے کے صرف 13 دن بعد ہی کس طرح گر گئی تھی کیونکہ کوئی بھی دوسری پارٹی اس کے ساتھ شامل ہونے پر تیار نہیں تھی۔ جو تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے وہ تاریخ دہرانے پر مجبور ہوتے ہیں۔
(ترجمہ: مظہر منہاس)