شکریہ خانم آپ کا شکریہ
شکریہ خانم نے زندگی کا سفر طے کیا اور لاہور کی خاک میں آسودہ ہوئیں
وہ 1959ء کی جولائی کا ایک گرم دن تھا۔گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں۔ اخبار کھولا تو ایک روشن چہرہ نگاہوں کے سامنے آگیا۔ فراخ پیشانی، آنکھوں میں چمک اور ہونٹوں پر ہلکا سا تبسم۔ یہ شکریہ نیاز علی تھیں جو بعد میں شکریہ خانم کہلائیں۔ انھوں نے پاکستان کی پہلی خاتون پائلٹ ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا تھا۔ خوشی کی لہر میرے سارے بدن میں پھیل گئی۔آنکھوں کو یقین نہیں آرہا تھا اور ذہن میں یہ بات راسخ ہورہی تھی کہ لڑکیاں سب کچھ کرسکتی ہیں، آسمان سے تارے توڑ کر لاسکتی ہیں۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے یہ کارنامہ خود میں نے انجام دیا ہے۔ اسکول کھلے ہوئے ہوتے تو ہم سب اس خوشی کا کیسا جشن مناتے۔ دوچار دن میں یہ بات آئی گئی ہوگئی۔
اب خبر آئی ہے کہ شکریہ خانم نے زندگی کا سفر طے کیا اور لاہور کی خاک میں آسودہ ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ ہم نے حسب دستور اپنے ایک جوہر قابل کے ساتھ کیسے ستم روا رکھے۔ انھوں نے ایک کمرشل پائلٹ کا لائسنس لیا تھا لیکن انھیں اس کی آرزو ہی رہی کہ وہ پی آئی اے کا کوئی مسافر بردار طیارہ اڑا سکیں۔
انھوں نے فضاؤں میں اڑنے کی تربیت لی تھی لیکن پاکستان کی فضائیں ان پر حرام رہیں۔ وہ پی آئی اے سے وابستہ ضرور رہیں لیکن ان کے نصیب میں ہمیشہ گراؤنڈ انسٹرکٹر رہنا ہی آیا۔ انھوں نے پاکستان اور دوسرے کئی ملکوں کے ہوا بازوں کو طیارہ اڑانے کی تربیت دی لیکن انھیں اس کا اہل نہ سمجھا گیا کہ وہ کسی طیارہ بردار جہاز کی سیٹ پر ہوں اور طیارہ ان کے اشارے پر بادلوں کو چیرتا ہوا آسمانوں کو چھولے۔
اڑنے کا ارمان پورا کرنے کے لیے وہ کراچی فلائنگ کلب میں لوگوں کو تفریحی اڑان کے لیے لے جاتی رہیں لیکن ان کی یہ چھوٹی سی خوشی بھی پاکستان کے ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے چھین لی۔ شکریہ خانم پر پابندی لگادی گئی کہ وہ کاک پٹ میں کسی مرد کو ساتھ بٹھا کر طیارہ نہیں اڑا سکتیں۔ شکریہ خانم کا دل اس پابندی سے خون ہوگیا۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ پی آئی اے کے ٹریننگ سینٹر میں مردوں کے ساتھ کام کرتی ہیں، نوجوانوں کو اڑنے کی تربیت دیتی ہیں تو پھر کاک پٹ میں کوئی مرد ان کے ساتھ کیوں پرواز نہیں کرسکتا۔
انھیں یاد کرتے ہوئے حجاب اسمٰعیل کا خیال آتا ہے جو ہمارے ادبی حلقوں میں حجاب امتیاز علی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ وہ ہندوستان کی پہلی عورت تھیں جو 1936ء میں ناردن انڈیا فلائنگ کلب کی رکن بنیں۔ ان کے انسٹرکٹر ایک پارسی مسٹر دستور تھے، جن کی نگرانی میں حجاب نے 50 گھنٹے کے بجائے 21 گھنٹوں میں A لائسنس حاصل کیا، جو یقیناً ایک کارنامہ تھا۔ انھوں نے کئی مرتبہ سولو فلائٹ کی، راتوں میں طیارہ اڑایا، نیچی پروازیں کیں، جو خطرناک سمجھی جاتی ہیں۔
ایک مرتبہ ایسی ہی نیچی پرواز کرتے ہوئے انھیں ہنگامی طور پر اپنا جہاز اتارنا پڑا۔ وہ لاہور میں ہونے والے ہوابازی کے مقابلوں میں شرکت کرتی رہیں۔ ان کے ناول ''میری ناکام محبت''، ''ظالم محبت''، ''صنوبر کے سائے میں'' جیسے ناولوں اور افسانوں کی رومانی فضاؤں کو پڑھتے ہوئے ہمیشہ یہی خیال آیا کہ حجاب جو عشق سے بھرپور کہانیاں لکھتی تھیں، بادلوں کو چیر کر ہوائی جہاز اڑاتے ہوئے کیا انھیں بادلوں کے درمیان کبھی ڈاکٹر گار، دادی زبیدہ، روحی اور زوناش میں سے کسی کی جھلک نظر آئی۔
شکریہ خانم آج ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کا نام بہت سی عورتوں کی یاد دلاتا ہے جنھوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ ان میں سے ایملیا ایرہارٹ کا نام داستانی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ انیسویں صدی کے آخری برسوں میں پیدا ہوئی اور جولائی 1937ء میں فضائے بسیط کی وسعتوں میں کھوگئی لیکن اپنا نام تاریخ میں رقم کرگئی۔ ایملیا 21 برس کی تھی جب اپنے والد کے ساتھ سیرو تفریح کے لیے نکلی۔ اسی تفریح سفر کے دوران وہ دونوں ایک ایئر فیلڈ گئے جہاں انھوں نے ایک چھوٹے طیارے میں تفریحی پرواز کی۔
ایملیا کا کہنا تھا کہ پائلٹ نے طیارے کو جب لگ بھگ 300 فٹ بلند کیا اور پھر دس منٹ میں ان باپ بیٹی کو آس پاس کا نظارہ کرانے کے بعد زمین پر اتارا تو وہ پرواز کرنے کے عشق میں گرفتار ہوچکی تھی۔ باپ نے اس تفریحی سفر کے 10 ڈالر ادا کیے اور بیٹی نے اپنی زندگی کا مقصد ڈھونڈ لیا۔ اس نے طے کیا کہ وہ ہوا بازی سیکھے گی، لیکن گرہ میں دام کہاں تھے۔ باپ سے رقم مانگتی تو سوائے ڈانٹ پھٹکار کے کیا ہاتھ آتا۔
اسے معلوم تھا کہ ہوا بازی سیکھنے کے لیے اسے خود کمانا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے اس نے ٹرک ڈرائیور، فوٹوگرافر اور اسٹینو گرافر کے طور پر کام کیا۔ اس دوران اس نے جو کچھ بھی کمایا اسے جمع کرتی رہی۔ کچھ رقم اس کی ماں نے دی اور جب 1 ہزار ڈالر جمع ہوگئے تو وہ ہوا بازی کی تربیت کے لیے ہوا بازی کے اسکول پہنچ گئی۔ وہاں انسٹرکٹر ایک خاتون تھی۔ ایملیا نے اسے بتایا کہ وہ ہر قیمت پر ہواباز بننا چاہتی ہے۔
انسٹرکٹر کے لیے یہ بہت خوشی کی بات تھی کہ ایک لڑکی کو ہوابازی سے جنون کی حد تک عشق ہے۔ جس روز وہ اپنے طیارے کو 14000 فٹ کی بلندی تک لے گئی، اس روز اس کی خوشی قابل دید تھی۔ امریکا میں اس سے پہلے 15 دوسری لڑکیاں ہوابازی سیکھ چکی تھیں، ایملیا 16 ویں تھی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ کسی امریکی لڑکی کا ہواباز بن جانا کوئی خاص بات نہیں تھی جب کہ ایملیا ہوابازی کے شعبے میں ایسا ریکارڈ قائم کرنا چاہتی تھی جو اس سے پہلے کسی دوسری امریکی لڑکی کے حصے میں نہ آیا ہو۔
ایک طرف یہ خواہش تھی دوسری طرف اس کی تمام جمع پونجی ختم ہوچکی تھی۔ ایملیا پھر سے چھوٹے چھوٹے کام کرنے لگی تاکہ رقم جمع کرسکے۔ یہ 1927ء کے دن تھے۔ ان دنوں چارلس لنڈبرگ کا بہت شہرہ تھا جس نے بحراوقیانوس عبور کرنے کا شاندار کارنامہ انجام دیا تھا۔ ایملیا نے طے کرلیا کہ وہ بحراوقیانوس عبور کرنے والی پہلی عورت ہوگی۔ اس نے ایک فوکر طیارے میں 20 گھنٹے اور 40 منٹ کے اندر اپنی منزل سر کرلی لیکن اس سفر میں وہ تنہا نہیں تھی۔
دھن کی پکی ایملیا نے کئی منصوبے بنائے۔ ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ براعظم شمالی امریکا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اس نے تنہا اڑان بھری اور پھر واپس اسی مقام پر پہنچی جہاں سے چلی تھی۔ کسی عورت کا تنہا اتنا طویل ہوائی سفر ایک کارنامہ تھا۔ اس کا نام امریکا اور کسی حد تک یورپ میں بھی سیلیبریٹی کی صف میں شامل ہوگیا۔ اس نے '99' کے نام سے خواتین ہوا بازوں کی ایک انجمن بنائی۔ اسے امریکا اور فرانس میں کئی اعزازات سے نوازا گیا اور اس وقت کے امریکی صدر کی دعوت پر وہائٹ ہاؤس میں مہمان ہوئی۔
1937 میں وہ دنیا کے گر چکر لگانے کا ایک نیا ریکارڈ قائم کرنے کے لیے نکلی۔ اس سفر میں اس نے 22000 میل کا سفر طے کیا، اب صرف 7000 میل کا سفر رہ گیا تھا جو بحراوقیانوس پر سے پرواز کرتے ہوئے پورا ہوجاتا۔ اس سفر میں وہ 17 جون 1937 کو کراچی میں اتری اور ایندھن لے کر اس نے کلکتہ کا رخ کیا۔ بنکاک، سنگاپور اور راستے کے کئی شہروں سے ایندھن لیتے ہوئے وہ سفر کرتی رہی۔ 4 جولائی 1937 کو اسے ہونولولو، ہوائی پہنچنا تھا لیکن وہ راستے میں ہی کھوگئی۔ دنیا کے گرد چکر لگانے کا اس کا خواب پورا نہ ہوسکا، لیکن اس کا نام ہوائی سفر کی تاریخ میں امر ہوگیا۔
اب 29 برس کی ایک افغان لڑکی شائستہ واعظ دنیا کے گرد چکر لگانے کا ارادہ رکھتی ہے، 25,800 کلومیٹر سفر کرنے کا عزم رکھنے والی شائستہ 18 ملکوں سے گزرتی ہوئی منزل مقصود تک پہنچے گی۔ اس سفر کے دوران وہ ہندوستان میں بھی اترے گی۔ آرزو ہے کہ وہ اپنے اس عزم میں کامیاب ہو۔
ہماری شکریہ خانم نے 1959ء میں طیارہ اڑانے کا کمرشل لائسنس حاصل کیا تھا لیکن ایک کمرشل طیارہ اڑانے کے ارمان ان کے دل میں ہی رہے۔ یہی وہ پابندیاں تھیں جن کی وجہ سے خواہش رکھنے کے باوجود بہت دنوں تک پاکستانی لڑکیوں نے اسے بھاری پتھر سمجھ کر چھوڑ دیا۔
30 برس بعد لڑکیوں نے ایک بار پھر پائلٹ بننے کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے پی آئی اے کا رخ کیا اور اب 14 پاکستانی لڑکیاں بادلوں کو چیرتی ہوئی آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ چند دن پہلے پاکستان کی پہلی خاتون پائلٹ شکریہ خانم نے 82 برس کی عمر میں آخری سانس لی۔ شکریہ خانم نے جو خواب 50 کی دہائی میں دیکھا تھا اس کی تعبیر اب دوسری پاکستانی لڑکیوں کو مل رہی ہے جو پی آئی اے کے مسافر بردار طیارے اڑا رہی ہیں۔
چند دنوں پہلے میں اسلام آباد سے جس طیارے میں واپس آرہی تھی اسے کیپٹن ملیحہ اڑا رہی تھیں۔ شکریہ خانم! آپ کا شکریہ کہ آپ نے اپنے بعد آنے والی پاکستانی لڑکیوں کے دل میں آسمان کو چھولینے کی خواہش زندہ رکھی۔