گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیونکر ہو
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو<br />
ہم نفس کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
غالب کا ایک شعر ہے:
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم نفس کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
مرزا نے تو یہ شعر لوگوں کے تکلیف دہ رویے سے تنگ آکرکہا تھا کہ ہر دور میں ہمیشہ جینیس لوگوں کو صرف مخالفتوں ہی کا نہیں بلکہ حسد اور رقابت کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔کچھ جی دار ڈٹ کے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کچھ حساس اور سنجیدہ افراد حاسدوں اور نااہل لوگوں کے منہ لگنا پسند نہیں کرتے اور اپنی دنیا میں مگن رہ کر تخلیقی کام کرتے رہتے ہیں۔
غالب جیسا شاید ہی کوئی دوسرا ہو جس نے ہزارہا مخالفتوں اور دشمنیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف اپنی شاعری سے کام رکھا اور اپنی نجی زندگی کی محرومیوں کو شاعری پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ لیکن غالب اگر آج کے دور میں زندہ ہوتے تو انھیں یہ شعر کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کہ وہ وہاں جاکر رہیں جہاں کوئی ہمسایہ یا رازداں نہ ہو۔ کیونکہ آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں وہ ایسا ہی ہے جہاں کوئی کسی کو نہیں جانتا، ان کا ہمسایہ کون ہے، اوپر کی منزل میں کون رہتا ہے اور نیچے والے فلور پہ کون سا خاندان آباد ہے۔
آپ کہیں جاکرکسی کا نام لے کر پتا پوچھیے تو سوائے لاعلمی کی گردن ہلانے کے کوئی جواب نہیں ملے گا اور جب آپ کو وہی صاحب اسی بلڈنگ میں مل جائیں گے تو انھیں یہ سن کرحیرت ہوگی کہ وہ تو گزشتہ تین سال سے یہاں مقیم ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک دوسرے سے اتنے دورکیوں ہوگئے ہیں کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نماز تو ضرور پڑھتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے واقفیت نہیں۔ محلے اور مسجد کی بات تو چھوڑیے اب تو گھر میں رہنے والے ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کمال ہے سوشل میڈیا کا۔ چند دن قبل ایک تقریب میں لوگ اپنی اپنی میزوں پہ اپنے اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ میں بہت کم تقریبات میں جاتی ہوں کہ لوگوں کی بھیڑ میں تنہائی کا اور زیادہ احساس ہوتا ہے۔
مصنوعی چہرے، مصنوعی مسکراہٹیں، لباس کی نمائش، دوسروں پر تنقید، دلہا دلہن کے اسٹیج کے گرد لوگوں کا مجمع۔ لیکن اس تقریب میں ایسا کچھ نہ تھا سوائے چند میزبانوں کے جو مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے گیٹ کے پاس کھڑے تھے۔ سب کے ہاتھوں میں موبائل فون، سیلفی بنانے کا جنون انتہا پر۔ مرد کیا عورت کیا، سب بجائے ایک دوسرے سے ملنے حال احوال پوچھنے کے اپنی اپنی موبائل اسکرین میں گم۔
ادھر اسٹیج پر بھی یہی عالم کہ سیلفی بنانے کے لیے عجیب و غریب انداز جنھیں چھچھورا انداز کہنا زیادہ مناسب ہوگا، زوروں پر۔ پہلے لوگ تقریبات میں ملتے تھے تو چہروں پہ خوشیاں نظر آتی تھیں۔ ملتے اب بھی ہیں لیکن صرف شادی بیاہ کی تقریبات میں یا کسی کی وفات پر۔ لیکن وہ خلوص اور جذبہ جو پہلے نظر آتا تھا اب ناپید ہے۔ ایک بار پھر اقبال کا شعر دہرانے کو جی چاہ رہا ہے کہ
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آپ کسی بھی تقریب میں تجربہ اور مشاہدہ کرکے دیکھ لیجیے کہ خواہ ادبی تقریب ہو یا کوئی اور مہمان صرف اپنے سیل فون پہ نظریں جمائے یا اس کو کان پہ لگائے یا فیس بک اور واٹس ایپ پہ انگلیاں چلاتے دکھائی دیں گے۔ ہم نے انسانوں سے ناطہ توڑ کر ان دیکھے اجنبی دوستوں سے رابطے بنا لیے ہیں۔ گھروں میں وہ فضا نظر نہیں آتی جب رات کے کھانے پر سب ایک دسترخوان پہ یا ڈائننگ ٹیبل پر جمع ہوتے تھے۔
دوپہر کو تو یہ ممکن نہ ہوتا تھا، پھر بھی ہم نے دیکھا کہ بچوں کے اسکول سے آتے ہی ماں کچن کی طرف دوڑتی تھی، اب برگر، پیزا اور بریانی نے ماؤں کو کچن سے آزاد کردیا ہے۔ بیشتر بچے اسکول سے آتے ہوئے بن کباب، بریانی یا بروسٹ لیتے ہوئے آتے ہیں۔ کولا مشروبات کا زہر اپنے معدوں میں اتارتے ہیں اور ڈاکٹروں کی جیبیں بھرتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے فوائد سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ گھر بیٹھے آپ پرانے سے پرانے کلاسیکل سنگیت سن سکتے ہیں "You Tube" پر کلک کرتے ہی آپ کے سامنے ان تمام گانوں کی فہرست آجاتی ہے جو آپ نے بچپن میں سنے ہوں گے۔ پرانی سے پرانی کتاب، شخصیات، گلوکار، اداکار، فلم، تھیٹر، سائنس اور آرٹس کے مضامین منٹوں میں آپ کے سامنے جلوہ گر ہوں گے۔ لیکن یہ ان زندہ انسانوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے جو آپ کے آس پاس رہتے ہیں۔
ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے سب ایک دوسرے سے اجنبی، نہ سلام نہ دعا نہ دن بھر کی روئیداد، نہ باپ کو فرصت کہ بچوں سے ان کی دن بھر کی مصروفیات اور تعلیمی مشاغل کے بارے میں پوچھے۔ پہلے جو ذمے داریاں اسکول کے بعد والدین اٹھاتے تھے وہ اب کوچنگ سینٹرز والوں کی ہیں۔ کیونکہ والدہ محترمہ کو فیس بک سے فرصت نہیں یہی حال والد محترم کا بھی ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی موبائل فون پلیٹ کے قریب رکھا رہتا ہے۔ یہ وہ منفی پہلو ہیں جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے نہایت تکلیف دہ پہلو ہیں۔
یہ مناظر بھی عام ہیں کہ بچے اسکول سے آتے ہی بیگ ایک طرف پھینک کر بغیر یونیفارم تبدیل کیے ویڈیو گیم میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کالج اسٹوڈنٹ واٹس ایپ اور فیس بک کے علاوہ ''دیگر مشاغل'' موبائل اسکرین پر ہی تلاش کرلیتے ہیں۔ مکالمہ ختم ہوگیا ہے۔ خاص کر نوجوان نسل موبائل ایپ کے خول میں بند ہوگئی ہے۔ آس پاس کی دنیا، رشتوں اور رویوں کا انھیں ادراک ہی نہیں رہا۔
یہ ایک نہایت خطرناک صورت حال ہے۔ ''موبائل اسکرین جنریشن'' جب عملی دنیا میں قدم رکھے گی تو وہ ان کے لیے بہت اجنبی ہوگی۔ جاب کے لیے کیسے انٹرویو دینا ہے۔ جاب کس طرح تلاش کرنی ہے۔ اخبار کی دنیا کیا ہے۔ سماجی رابطوں کی کیا اہمیت ہے۔ آفس میں ساتھ کام کرنے والوں اور باس کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے۔ اپنی دنیا خود کس طرح بنانی ہے۔ ان سب سے آج کی نسل لاعلم ہے۔ حد تو یہ کہ سلام کرنا بھی اب آؤٹ آف فیشن ہے۔
ماں باپ بھی نوٹس نہیں لیتے۔ اب وہ رویے جو پانچ چھ سال پہلے نظر آتے تھے کہ کسی بزرگ کو راستہ دے دینا، محلے کے یا آس پڑوس کے کسی ہمسائے کو دیکھ کر سلام کرنا وہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات ہماری سوسائٹی پہ زیادہ پڑ رہے ہیں۔ اگر آپ ایک ہلکا سا بھی سروے کریں تو اندازہ بخوبی ہوجائے گا کہ خود والدین بھی اس لت کا شکار ہیں۔ اس لیے وہ بچوں کو تنبیہہ کیسے کریں گے۔
آپ سرسری سا بھی جائزہ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نہ مطالعہ عام ہو رہا ہے نہ کتابوں سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ بلکہ غیر اخلاقی سرگرمیاں عروج پر ہیں جن کا ذکر میں نے گزشتہ کالم میں بھی کیا تھا۔ پارک، کیفے، شاپنگ مالز، سپر مارکیٹیں اور کوچنگ سینٹرز سب جگہ سوشل میڈیا اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہے۔ سماجی زندگی میں نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ سماجی روابط پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔
لوگوں کا ہجوم ہے لیکن لوگوں کی موجودگی میں ہم سب اکیلے ہیں۔ اپنی اپنی موبائل فون کی اسکرین پہ ایک الگ دنیا آباد کر رکھی ہے۔ جہاں غیروں سے ہمارا رابطہ ہے۔ لیکن اپنی بلڈنگ میں کون بیمار ہے، کون اکیلا ہے، ہمسائے میں کسی کو مدد کی ضرورت تو نہیں ہے۔ ان سب سے کوئی لینا دینا نہیں، بلکہ یہ بے حسی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ پڑوس میں اگر کسی کو کسی مدد کی فوری ضرورت پڑ جائے تو لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔ بلکہ منہ بناکر ٹال دیتے ہیں۔
یہ صرف مشاہدہ نہیں بلکہ ذاتی تجربہ بھی ہے کہ لوگ بغیر کسی غرض یا مطلب کے کسی سے ملتے بھی نہیں ہیں۔ ہم سب سوشل میڈیا کے ایسے جنگل کے باسی بنتے جا رہے ہیں جہاں قریب کے لوگوں کی نہ آواز سنائی دیتی ہے نہ شکل نظر آتی ہے۔ کاش غالب زندہ ہوتے تو یہ شعر بھی نہ کہتے:
پڑھیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور مہرباں کوئی نہ ہو
رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم نفس کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو
مرزا نے تو یہ شعر لوگوں کے تکلیف دہ رویے سے تنگ آکرکہا تھا کہ ہر دور میں ہمیشہ جینیس لوگوں کو صرف مخالفتوں ہی کا نہیں بلکہ حسد اور رقابت کا مقابلہ بھی کرنا پڑتا ہے۔کچھ جی دار ڈٹ کے مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کچھ حساس اور سنجیدہ افراد حاسدوں اور نااہل لوگوں کے منہ لگنا پسند نہیں کرتے اور اپنی دنیا میں مگن رہ کر تخلیقی کام کرتے رہتے ہیں۔
غالب جیسا شاید ہی کوئی دوسرا ہو جس نے ہزارہا مخالفتوں اور دشمنیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف اپنی شاعری سے کام رکھا اور اپنی نجی زندگی کی محرومیوں کو شاعری پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ لیکن غالب اگر آج کے دور میں زندہ ہوتے تو انھیں یہ شعر کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی کہ وہ وہاں جاکر رہیں جہاں کوئی ہمسایہ یا رازداں نہ ہو۔ کیونکہ آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں وہ ایسا ہی ہے جہاں کوئی کسی کو نہیں جانتا، ان کا ہمسایہ کون ہے، اوپر کی منزل میں کون رہتا ہے اور نیچے والے فلور پہ کون سا خاندان آباد ہے۔
آپ کہیں جاکرکسی کا نام لے کر پتا پوچھیے تو سوائے لاعلمی کی گردن ہلانے کے کوئی جواب نہیں ملے گا اور جب آپ کو وہی صاحب اسی بلڈنگ میں مل جائیں گے تو انھیں یہ سن کرحیرت ہوگی کہ وہ تو گزشتہ تین سال سے یہاں مقیم ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟ ہم ایک دوسرے سے اتنے دورکیوں ہوگئے ہیں کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نماز تو ضرور پڑھتے ہیں لیکن ایک دوسرے سے واقفیت نہیں۔ محلے اور مسجد کی بات تو چھوڑیے اب تو گھر میں رہنے والے ایک دوسرے سے لاتعلق ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ کمال ہے سوشل میڈیا کا۔ چند دن قبل ایک تقریب میں لوگ اپنی اپنی میزوں پہ اپنے اپنے خاندان کے ساتھ بیٹھے تھے۔ میں بہت کم تقریبات میں جاتی ہوں کہ لوگوں کی بھیڑ میں تنہائی کا اور زیادہ احساس ہوتا ہے۔
مصنوعی چہرے، مصنوعی مسکراہٹیں، لباس کی نمائش، دوسروں پر تنقید، دلہا دلہن کے اسٹیج کے گرد لوگوں کا مجمع۔ لیکن اس تقریب میں ایسا کچھ نہ تھا سوائے چند میزبانوں کے جو مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے گیٹ کے پاس کھڑے تھے۔ سب کے ہاتھوں میں موبائل فون، سیلفی بنانے کا جنون انتہا پر۔ مرد کیا عورت کیا، سب بجائے ایک دوسرے سے ملنے حال احوال پوچھنے کے اپنی اپنی موبائل اسکرین میں گم۔
ادھر اسٹیج پر بھی یہی عالم کہ سیلفی بنانے کے لیے عجیب و غریب انداز جنھیں چھچھورا انداز کہنا زیادہ مناسب ہوگا، زوروں پر۔ پہلے لوگ تقریبات میں ملتے تھے تو چہروں پہ خوشیاں نظر آتی تھیں۔ ملتے اب بھی ہیں لیکن صرف شادی بیاہ کی تقریبات میں یا کسی کی وفات پر۔ لیکن وہ خلوص اور جذبہ جو پہلے نظر آتا تھا اب ناپید ہے۔ ایک بار پھر اقبال کا شعر دہرانے کو جی چاہ رہا ہے کہ
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آپ کسی بھی تقریب میں تجربہ اور مشاہدہ کرکے دیکھ لیجیے کہ خواہ ادبی تقریب ہو یا کوئی اور مہمان صرف اپنے سیل فون پہ نظریں جمائے یا اس کو کان پہ لگائے یا فیس بک اور واٹس ایپ پہ انگلیاں چلاتے دکھائی دیں گے۔ ہم نے انسانوں سے ناطہ توڑ کر ان دیکھے اجنبی دوستوں سے رابطے بنا لیے ہیں۔ گھروں میں وہ فضا نظر نہیں آتی جب رات کے کھانے پر سب ایک دسترخوان پہ یا ڈائننگ ٹیبل پر جمع ہوتے تھے۔
دوپہر کو تو یہ ممکن نہ ہوتا تھا، پھر بھی ہم نے دیکھا کہ بچوں کے اسکول سے آتے ہی ماں کچن کی طرف دوڑتی تھی، اب برگر، پیزا اور بریانی نے ماؤں کو کچن سے آزاد کردیا ہے۔ بیشتر بچے اسکول سے آتے ہوئے بن کباب، بریانی یا بروسٹ لیتے ہوئے آتے ہیں۔ کولا مشروبات کا زہر اپنے معدوں میں اتارتے ہیں اور ڈاکٹروں کی جیبیں بھرتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے فوائد سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ گھر بیٹھے آپ پرانے سے پرانے کلاسیکل سنگیت سن سکتے ہیں "You Tube" پر کلک کرتے ہی آپ کے سامنے ان تمام گانوں کی فہرست آجاتی ہے جو آپ نے بچپن میں سنے ہوں گے۔ پرانی سے پرانی کتاب، شخصیات، گلوکار، اداکار، فلم، تھیٹر، سائنس اور آرٹس کے مضامین منٹوں میں آپ کے سامنے جلوہ گر ہوں گے۔ لیکن یہ ان زندہ انسانوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے جو آپ کے آس پاس رہتے ہیں۔
ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے سب ایک دوسرے سے اجنبی، نہ سلام نہ دعا نہ دن بھر کی روئیداد، نہ باپ کو فرصت کہ بچوں سے ان کی دن بھر کی مصروفیات اور تعلیمی مشاغل کے بارے میں پوچھے۔ پہلے جو ذمے داریاں اسکول کے بعد والدین اٹھاتے تھے وہ اب کوچنگ سینٹرز والوں کی ہیں۔ کیونکہ والدہ محترمہ کو فیس بک سے فرصت نہیں یہی حال والد محترم کا بھی ہے کہ کھانا کھاتے ہوئے بھی موبائل فون پلیٹ کے قریب رکھا رہتا ہے۔ یہ وہ منفی پہلو ہیں جو سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے نہایت تکلیف دہ پہلو ہیں۔
یہ مناظر بھی عام ہیں کہ بچے اسکول سے آتے ہی بیگ ایک طرف پھینک کر بغیر یونیفارم تبدیل کیے ویڈیو گیم میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ کالج اسٹوڈنٹ واٹس ایپ اور فیس بک کے علاوہ ''دیگر مشاغل'' موبائل اسکرین پر ہی تلاش کرلیتے ہیں۔ مکالمہ ختم ہوگیا ہے۔ خاص کر نوجوان نسل موبائل ایپ کے خول میں بند ہوگئی ہے۔ آس پاس کی دنیا، رشتوں اور رویوں کا انھیں ادراک ہی نہیں رہا۔
یہ ایک نہایت خطرناک صورت حال ہے۔ ''موبائل اسکرین جنریشن'' جب عملی دنیا میں قدم رکھے گی تو وہ ان کے لیے بہت اجنبی ہوگی۔ جاب کے لیے کیسے انٹرویو دینا ہے۔ جاب کس طرح تلاش کرنی ہے۔ اخبار کی دنیا کیا ہے۔ سماجی رابطوں کی کیا اہمیت ہے۔ آفس میں ساتھ کام کرنے والوں اور باس کے ساتھ کس طرح پیش آنا ہے۔ اپنی دنیا خود کس طرح بنانی ہے۔ ان سب سے آج کی نسل لاعلم ہے۔ حد تو یہ کہ سلام کرنا بھی اب آؤٹ آف فیشن ہے۔
ماں باپ بھی نوٹس نہیں لیتے۔ اب وہ رویے جو پانچ چھ سال پہلے نظر آتے تھے کہ کسی بزرگ کو راستہ دے دینا، محلے کے یا آس پڑوس کے کسی ہمسائے کو دیکھ کر سلام کرنا وہ بھی ختم ہوگیا ہے۔ سوشل میڈیا کے منفی اثرات ہماری سوسائٹی پہ زیادہ پڑ رہے ہیں۔ اگر آپ ایک ہلکا سا بھی سروے کریں تو اندازہ بخوبی ہوجائے گا کہ خود والدین بھی اس لت کا شکار ہیں۔ اس لیے وہ بچوں کو تنبیہہ کیسے کریں گے۔
آپ سرسری سا بھی جائزہ لیں تو اندازہ ہوجائے گا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے نہ مطالعہ عام ہو رہا ہے نہ کتابوں سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔ بلکہ غیر اخلاقی سرگرمیاں عروج پر ہیں جن کا ذکر میں نے گزشتہ کالم میں بھی کیا تھا۔ پارک، کیفے، شاپنگ مالز، سپر مارکیٹیں اور کوچنگ سینٹرز سب جگہ سوشل میڈیا اپنی پوری آب و تاب سے جلوہ گر ہے۔ سماجی زندگی میں نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ سماجی روابط پر بھی اثر پڑ رہا ہے۔
لوگوں کا ہجوم ہے لیکن لوگوں کی موجودگی میں ہم سب اکیلے ہیں۔ اپنی اپنی موبائل فون کی اسکرین پہ ایک الگ دنیا آباد کر رکھی ہے۔ جہاں غیروں سے ہمارا رابطہ ہے۔ لیکن اپنی بلڈنگ میں کون بیمار ہے، کون اکیلا ہے، ہمسائے میں کسی کو مدد کی ضرورت تو نہیں ہے۔ ان سب سے کوئی لینا دینا نہیں، بلکہ یہ بے حسی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ پڑوس میں اگر کسی کو کسی مدد کی فوری ضرورت پڑ جائے تو لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔ بلکہ منہ بناکر ٹال دیتے ہیں۔
یہ صرف مشاہدہ نہیں بلکہ ذاتی تجربہ بھی ہے کہ لوگ بغیر کسی غرض یا مطلب کے کسی سے ملتے بھی نہیں ہیں۔ ہم سب سوشل میڈیا کے ایسے جنگل کے باسی بنتے جا رہے ہیں جہاں قریب کے لوگوں کی نہ آواز سنائی دیتی ہے نہ شکل نظر آتی ہے۔ کاش غالب زندہ ہوتے تو یہ شعر بھی نہ کہتے:
پڑھیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو تیمار دار
کوئی ہمسایہ نہ ہو اور مہرباں کوئی نہ ہو