انعام کس کا تھا‘ ملا کسے
مگر اب یار پریشان ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم تو اس کے بعد اپنی مشکل میں گرفتار ہو گئے۔
اکیڈیمی آف لیٹرز کی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے ہم اسلام آباد کی طرف دوڑے چلے جا رہے تھے۔ اپنے ٹھکانے پر پہنچ کر ابھی اطمینان کا سانس لینے ہی لگے تھے کہ لاہور سے ایک فون آیا۔ کہیے خیر تو ہے۔ کہا کہ کہاں خیر ہے' محمد علی صدیقی انتقال کر گئے۔ یہ اچانک کیا سناونی سنائی۔ ارے بھائی تحقیق کر لو۔ محمد علی صدیقی دو ہیں۔ ادھر سے جواب آیا کہ بالتحقیق یہ وہی محمد علی صدیقی ہیں جنھیں ہم ایک نامور نقاد کے طور پر جانتے ہیں۔
موت برحق۔ مگر جب کوئی دوست' عزیز' یا ہمعصر اچانک سے گزر جاتا ہے تو لگتا ہے کہ خبر وہ اثر کرتی ہے جیسے بجلی گر پڑی۔ ارے ابھی تو اس عزیز کو نظریاتی حساب سے بہت سے حساب چکانے تھے۔ ترقی پسند نقادوں نے جو اردو ادب میں اپنی نظریاتی تنقید سے چہل پہل کر رکھی تھی وہ تو اب بہت ماند پڑ گئی تھی۔ تیسری چوتھی دہائی میں نمودار ہونے والے نامی گرامی نقاد ایک ایک کر کے سب گزر گئے تھے۔ ان کے بعد میں آنے والوں میں بھی اب تو میدان میں محمد علی صدیقی ہی نظر آتے تھے۔ اور ارے لو اسی برس میں جو ان کے تنقیدی مضامین کا نیا مجموعہ 'نکات' شایع ہوا ہے وہ بھی ہمیں موصول ہو گیا ہے۔ مگر ابھی ذرا دم تو لے لیں، پھر اس پر بات کریں گے۔ فی الحال تو تعزیت کے طور پر چند سطریں لکھی ہیں۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ ع
پر ہائے آدمی تھا وہ خانہ خراب کیا
خیر آدمی گزر جاتا ہے مگر زندگی کا عمل نہیں رکتا، وہ جاری رہتا ہے۔کبھی ہنگامہ خیزی کے ساتھ کبھی اپنی سدا کی سست رفتاری کے ساتھ۔ اکیڈیمی آف لیٹرز کی کانفرنس تو گزر گئی۔ مگر اس کی گونج ابھی تک باقی ہے۔ باقی جن اپنے دوستوں کو انعامات ملے تھے ان میں سے کئی ایک کو مبارکباد موقعہ واردات ہی پر دے دی تھی۔ سب سے بڑھ کر بانو قدسیہ کو جو اس برس کے کمال فن ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں۔ جب وزیراعظم نے اس ایوارڈ کی پانچ لاکھ کی رقم کو دگنا کر دیا توہم نے بھی اس تناسب سے اپنی مبارکباد میں دوگنا اضافہ کر دیا۔
مگر اب یار پریشان ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم تو اس کے بعد اپنی مشکل میں گرفتار ہو گئے۔ انھوں نے جو امدادی رقوم کے اعلانات کیے تھے وہ پروان بھی چڑھ پائیں گے یا نہیں۔ ہاں لیجیے ایک مبارک باد تو رہ ہی گئی۔ خالد احمد کی انگریزی کتاب 'Word For Word' پر بھی انعام کا اعلان ہوا تھا۔ مگر خالد احمد تقسیم انعامات کی تقریب میں موجود ہی نہیں تھے۔ ہم نے لاہور آ کر انھیں مبارکباد دی اور پوچھا کہ آپ کا انعام آپ کو پکارتا رہا، آپ کیوں نہیں آئے۔ انھوں نے جواب میں اپنے سابقہ انعام کا قصہ سنایا کہ کس طرح انھیں پچھلی بار بھی اسی طرح نوازا گیا تھا۔ مگر اس تقریب میں انھیں غیر حاضری کی سزا یہ ملی کہ ان کے حصے کا انعام ان کے ایک ہم نام کو بخش دیا گیا۔
ہم کتنے حیران ہوئے۔ حامد کی ٹوپی محمود کے سر والی مثل سنی تھی۔ مگر یہ کبھی نہیں سنا تھا کہ حامد کی ٹوپی کسی دوسرے حامد کے سر پر سجا دی گئی۔ ہم نے کہا کہ آپ کا وہ کونسا ہم نام تھا جو آپ کا انعام اچک کر لے گیا۔ کیونکہ آپ کا نام ماشاء اللہ مقبولیت کی ایسی شان رکھتا ہے کہ خالد احمد ایک نہیں' دو نہیں' بلکہ تین تین چار چار ہیں۔کچھ اشارہ تو کیجیے کہ وہ کونسا ہم نام تھا جو آپ کے ساتھ یہ واردات کر گیا۔ مگر وہ اپنے ہم نام کے متعلق کچھ نہیں بتاتے،کہتے ہیں کہ جو کچھ کیا وہ اکیڈمی آف لیٹرز نے کیا۔
بجا کہتے ہیں۔ مگر اکیڈیمی آف لیٹرز کی بھی کیا خطا ہے۔ انھیں تو بہر حال خالد احمد کو انعام دینا تھا۔ ایک خالد احمد نہ سہی دوسرا خالد احمد سہی۔ اور معاملہ کی بات یہ ہے کہ؎
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
بھئی جب لکھ لٹ رہے تھے آپ کہاں تھے۔ اور اس مرتبہ اس عزیز نے پھر یہی کیا کہ تقریب میں شرکت سے کنی کاٹ گئے۔ اب اگر وہ انعام اپنے نامزد کو موجود نہ پا کر کسی دوسرے کی جھولی میں جا گرے تو اس میں انعام کا کیا قصور ہے اور انعام دینے والے کیا کریں۔
نہ تھا اگر تو شریک محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ
بہر حال جس کتاب پر انعام ملا ہے، کیا مضائقہ ہے تھوڑا اس کا ذکر ہو جائے۔ خالد صاحب کا قلم بہت رواں ہے۔ پھر انھوں نے علم کے کتنے کونے داب رکھے ہیں، ایک کونہ ایسا ہے جس کا ان کے قلم کی موجودہ سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق لسانیات سے ہے۔ لفظوں کا کھوج لگاتے ہیں۔کھوج لگاتے لگاتے اس کی اصل تک پہنچتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ لفظ کتنا لمبا سفر کر کے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر اردو میں آن شامل ہوا ہے۔ ان کی کتاب Word For Word میں یہی بحث ہے۔
ہم نے ان سے کہا کہ خالد صاحب جن لفظوں پر آپ نے بحث کی ہے ان کی نسبت سے یہ بحث اردو لسانیات کے ذیل میں آتی ہے۔ اردو میں آپ نے اس کتاب کو لکھا ہوتا تو آپ دوسرے مولانا محمد حسین آزاد بن جاتے۔ اور یہ کتاب ان کی سخن دان فارس سے ٹکر لیتی۔ خیر اب بھی کچھ نہیں گیا ہے، اس کا ترجمہ اردو میں ہو سکتا ہے۔ اصل میں تو مقتدرہ قومی زبان کو یہ فریضہ انجام دینا چاہیے تھا۔ مگر پتہ نہیں چل رہا کہ اب اس کا سربراہ کون ہے۔ ویسے تو یہ کام اکیڈیمی آف لیٹرز بھی انجام دے سکتی ہے۔
موت برحق۔ مگر جب کوئی دوست' عزیز' یا ہمعصر اچانک سے گزر جاتا ہے تو لگتا ہے کہ خبر وہ اثر کرتی ہے جیسے بجلی گر پڑی۔ ارے ابھی تو اس عزیز کو نظریاتی حساب سے بہت سے حساب چکانے تھے۔ ترقی پسند نقادوں نے جو اردو ادب میں اپنی نظریاتی تنقید سے چہل پہل کر رکھی تھی وہ تو اب بہت ماند پڑ گئی تھی۔ تیسری چوتھی دہائی میں نمودار ہونے والے نامی گرامی نقاد ایک ایک کر کے سب گزر گئے تھے۔ ان کے بعد میں آنے والوں میں بھی اب تو میدان میں محمد علی صدیقی ہی نظر آتے تھے۔ اور ارے لو اسی برس میں جو ان کے تنقیدی مضامین کا نیا مجموعہ 'نکات' شایع ہوا ہے وہ بھی ہمیں موصول ہو گیا ہے۔ مگر ابھی ذرا دم تو لے لیں، پھر اس پر بات کریں گے۔ فی الحال تو تعزیت کے طور پر چند سطریں لکھی ہیں۔ نظریاتی اختلافات اپنی جگہ ع
پر ہائے آدمی تھا وہ خانہ خراب کیا
خیر آدمی گزر جاتا ہے مگر زندگی کا عمل نہیں رکتا، وہ جاری رہتا ہے۔کبھی ہنگامہ خیزی کے ساتھ کبھی اپنی سدا کی سست رفتاری کے ساتھ۔ اکیڈیمی آف لیٹرز کی کانفرنس تو گزر گئی۔ مگر اس کی گونج ابھی تک باقی ہے۔ باقی جن اپنے دوستوں کو انعامات ملے تھے ان میں سے کئی ایک کو مبارکباد موقعہ واردات ہی پر دے دی تھی۔ سب سے بڑھ کر بانو قدسیہ کو جو اس برس کے کمال فن ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں۔ جب وزیراعظم نے اس ایوارڈ کی پانچ لاکھ کی رقم کو دگنا کر دیا توہم نے بھی اس تناسب سے اپنی مبارکباد میں دوگنا اضافہ کر دیا۔
مگر اب یار پریشان ہیں کہ ہمارے وزیر اعظم تو اس کے بعد اپنی مشکل میں گرفتار ہو گئے۔ انھوں نے جو امدادی رقوم کے اعلانات کیے تھے وہ پروان بھی چڑھ پائیں گے یا نہیں۔ ہاں لیجیے ایک مبارک باد تو رہ ہی گئی۔ خالد احمد کی انگریزی کتاب 'Word For Word' پر بھی انعام کا اعلان ہوا تھا۔ مگر خالد احمد تقسیم انعامات کی تقریب میں موجود ہی نہیں تھے۔ ہم نے لاہور آ کر انھیں مبارکباد دی اور پوچھا کہ آپ کا انعام آپ کو پکارتا رہا، آپ کیوں نہیں آئے۔ انھوں نے جواب میں اپنے سابقہ انعام کا قصہ سنایا کہ کس طرح انھیں پچھلی بار بھی اسی طرح نوازا گیا تھا۔ مگر اس تقریب میں انھیں غیر حاضری کی سزا یہ ملی کہ ان کے حصے کا انعام ان کے ایک ہم نام کو بخش دیا گیا۔
ہم کتنے حیران ہوئے۔ حامد کی ٹوپی محمود کے سر والی مثل سنی تھی۔ مگر یہ کبھی نہیں سنا تھا کہ حامد کی ٹوپی کسی دوسرے حامد کے سر پر سجا دی گئی۔ ہم نے کہا کہ آپ کا وہ کونسا ہم نام تھا جو آپ کا انعام اچک کر لے گیا۔ کیونکہ آپ کا نام ماشاء اللہ مقبولیت کی ایسی شان رکھتا ہے کہ خالد احمد ایک نہیں' دو نہیں' بلکہ تین تین چار چار ہیں۔کچھ اشارہ تو کیجیے کہ وہ کونسا ہم نام تھا جو آپ کے ساتھ یہ واردات کر گیا۔ مگر وہ اپنے ہم نام کے متعلق کچھ نہیں بتاتے،کہتے ہیں کہ جو کچھ کیا وہ اکیڈمی آف لیٹرز نے کیا۔
بجا کہتے ہیں۔ مگر اکیڈیمی آف لیٹرز کی بھی کیا خطا ہے۔ انھیں تو بہر حال خالد احمد کو انعام دینا تھا۔ ایک خالد احمد نہ سہی دوسرا خالد احمد سہی۔ اور معاملہ کی بات یہ ہے کہ؎
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی
جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
بھئی جب لکھ لٹ رہے تھے آپ کہاں تھے۔ اور اس مرتبہ اس عزیز نے پھر یہی کیا کہ تقریب میں شرکت سے کنی کاٹ گئے۔ اب اگر وہ انعام اپنے نامزد کو موجود نہ پا کر کسی دوسرے کی جھولی میں جا گرے تو اس میں انعام کا کیا قصور ہے اور انعام دینے والے کیا کریں۔
نہ تھا اگر تو شریک محفل قصور تیرا ہے یا کہ میرا
مرا طریقہ نہیں کہ رکھ لوں کسی کی خاطر مئے شبانہ
بہر حال جس کتاب پر انعام ملا ہے، کیا مضائقہ ہے تھوڑا اس کا ذکر ہو جائے۔ خالد صاحب کا قلم بہت رواں ہے۔ پھر انھوں نے علم کے کتنے کونے داب رکھے ہیں، ایک کونہ ایسا ہے جس کا ان کے قلم کی موجودہ سرگرمی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا تعلق لسانیات سے ہے۔ لفظوں کا کھوج لگاتے ہیں۔کھوج لگاتے لگاتے اس کی اصل تک پہنچتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہ لفظ کتنا لمبا سفر کر کے گھاٹ گھاٹ کا پانی پی کر اردو میں آن شامل ہوا ہے۔ ان کی کتاب Word For Word میں یہی بحث ہے۔
ہم نے ان سے کہا کہ خالد صاحب جن لفظوں پر آپ نے بحث کی ہے ان کی نسبت سے یہ بحث اردو لسانیات کے ذیل میں آتی ہے۔ اردو میں آپ نے اس کتاب کو لکھا ہوتا تو آپ دوسرے مولانا محمد حسین آزاد بن جاتے۔ اور یہ کتاب ان کی سخن دان فارس سے ٹکر لیتی۔ خیر اب بھی کچھ نہیں گیا ہے، اس کا ترجمہ اردو میں ہو سکتا ہے۔ اصل میں تو مقتدرہ قومی زبان کو یہ فریضہ انجام دینا چاہیے تھا۔ مگر پتہ نہیں چل رہا کہ اب اس کا سربراہ کون ہے۔ ویسے تو یہ کام اکیڈیمی آف لیٹرز بھی انجام دے سکتی ہے۔