36 ہزار این جی اوز اور کام

حال ہی میں ایک خبر نظروں سے گزری کہ صوبہ سندھ میں 36 ہزار این جی اوز کام کررہی ہیں


Naseem Anjum May 21, 2017
[email protected]

حال ہی میں ایک خبر نظروں سے گزری کہ صوبہ سندھ میں 36 ہزار این جی اوز کام کررہی ہیں، کراچی میں 12 ہزار اور اندرون سندھ میں 24 ہزار فلاحی ادارے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ خبر پڑھنے کے بعد این جی اوز کا وجود اور کارکردگی مشکوک نظر آتی ہے، چند این جی اوز کے نام ضرور نمایاں ہیں اور تھوڑا بہت کام نظر آتا ہے، باقی 35 ہزار یا اس سے بھی زیادہ رجسٹروں اور سرکاری کاغذوں تک محدود ہیں۔

این جی اوز کی چیئرپرسن اور ان کا عملہ حالات اور معاشرتی مسائل سے ''بے خبر'' ہے۔ کسی خاص مواقعوں پر فائیو اسٹارز ہوٹلوں میں غربا و مساکین کی امداد کے حوالے سے سیمینار منعقد کیے جاتے ہیں اور اس کی رپورٹ اور تصاویر پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر آجاتی ہے۔ گویا تشہیر زیادہ ہے اور کارکردگی صفر ہے۔

آج سندھ کے جو حالات ہیں، وہ سب کے سامنے ہیں، کبھی کوئی وفد تھر کے صحرا نشینوں کی بھوک، ادویات، فاقہ کشی اور پینے کے پانی کا معقول انتظام کرنے، اسکولوں اور اسپتالوں کے قیام کے لیے گیا ہو اور ان فلاحی اداروں کے منتظمین نے کوئی کارنامہ انجام دیا ہو، اسی طرح شہر کراچی کے مسائل کے حوالے سے آواز اٹھائی یا اپنی بساط کیمطابق کام کیا ہو۔ کراچی کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے پچھلے سال جنید جمشید جیسی اعلیٰ شخصیت میدان عمل میں کود گئی تھیں اور بھی بہت سے لوگوں نے دعوے کیے، لیکن نتیجہ صفر ہی رہا۔

مسائل خود اپنی تمام مشکلات کے حل کے لیے کچرے کے ڈھیر، پانی، بجلی کی محرومی کی صورت میں چیخ رہے ہیں، لیکن حکومت اور یہ نام نہاد این جی اوز سننے کے لیے تیار نہیں۔ 'پیسہ اکٹھا کرو اور جیبیں بھرو' کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں۔ آج بھی معصوم لڑکیوں کا اغوا اور قتل ہورہا ہے، جلایا جارہا ہے، لیکن اس ظلم کے خاتمے کے لیے آواز اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ این جی اوز کے منتظمین نے گوٹھ، گاؤں اور پسماندہ علاقوں میں اسکول و مدارس کھولنے اور باقاعدہ تعلیم کو عام کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی حکومت نے اپنی ذمے داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔

جہالت کی تاریکی نے انسانی اذہان کو مفلوج کردیا ہے، اسی لیے وہ خونی رشتوں کا احترام اور ان سے محبت کرنے کے عمل سے ناواقف ہیں، کلہاڑی ہے اور معصوم بچیاں ہیں، وہ بھی ان کا اپنا خون جسے سربازار بہایا جارہا ہے۔ دونوں ہاتھوں سے پیسہ بٹورنا ہر طمع پرست شخص کا حق بن گیا ہے، لوگ مختلف طریقوں اور تراکیب کے ذریعے اپنے اپنے مقناطیس کسی بھی حوالے سے اہل ثروت کی تجوریوں تک پہنچا دیتے ہیں، بس پھر کام بن جاتا ہے۔

اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے دیانت، صداقت کے مفہوم سے بھی واقف نہیں ہیں، اسلامی تاریخ کو پڑھنے کو تیار نہیں، اسلام بہت آسان مذہب ہے، انسانیت کا پرچار کرنا ہی اسلامی تعلیمات ہے۔

اگر ہم خلافت راشدہ کے دور کا مطالعہ کریں تو اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجائے گا کہ آج اہل مغرب ان ہی اصولوں پر کاربند ہیں بلکہ کینیڈا اور دوسرے کئی ملکوں میں حضرت عمرؓ کے نظام حکومت کو اپنایا گیا ہے، ان کے اصول و ضوابط کی تعریف کرتے ہوئے ہمارے پاکستانی بھائیوں کی زبان نہیں تھکتی ہے۔ باہر جائیں تو آپ دیکھیں اپنے کاموں کو انجام دینے کے لیے قطاریں لگائی جاتی ہیں، ملاوٹ کا دور دور تک پتہ نہیں، اصلی اور خالص اشیا میسر آتی ہیں۔

تو جناب! آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں۔ یہ مشکل کام ہرگز نہیں ہے۔ ضمیر کو مطمئن رکھنے، سکون کی نیند سونے اور عزت کمانے کا اﷲ نے بہترین موقع عطا کیا ہے۔ لیکن افسوس ہر ادارے میں بد دیانتی عروج پر ہے۔ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ رعایا کی مشکلات سننے کے لیے ہر نماز کے بعد مسجد کے صحن میں بیٹھ جاتے، جس کو جو کہنا ہو آزادی کے ساتھ کہہ سکے، باہر سے آنیوالے وفود کی موجودگی میں حکام کو طلب کرتے اور اعلان ہوتا کہ جس شخص کو شکایت ہو وہ بیان کرے۔

راتوں کو گشت کرتے اور لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرتے، ایک بار ایک بچے کی رونے کی آواز سنی، پاس جاکر ماں سے کہا تو بڑی بے رحم ہے، ماں نے وضاحت کی کہ حضرت عمرؓ کے حکم کے مطابق کہ بچے کے دودھ چھوڑنے کے بعد بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جائے، اسی لیے دودھ چھڑاتی ہوں، بچہ اسی وجہ سے رو رہا ہے۔ یہ سن کر حضرت عمرؓ سخت پریشان ہوئے اور فرمایا عمر نے کتنے بچوں کو خون کیا ہوگا اور اسی وقت اعلان کردیا کہ بچے کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کا وظیفہ مقرر کردیا جائے۔

باہر کے ملکوں میں عہد فاروقی کا ہی نظام حکومت رائج ہے۔ اسی طرح ایک رات گشت کرتے ہوئے تین میل مدینہ سے باہر نکل گئے۔ بچوں کے رونے کی آواز سنی، دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ بچے بھوک کی وجہ سے بلبلارہے ہیں اور ماں نے بچوں کو بہلانے کے لیے خالی ہانڈی چولہے پر چڑھادی۔ یہ حالت دیکھ کر آپ نے اسی وقت بیت المال سے آٹا، گھی اور کھجوریں لیں اور اپنی پیٹھ پر لاد لیا۔ آپ کے غلام نے کہا میں اٹھالیتا ہوں، آپؓ نے فرمایا قیامت میں میرا بار تم نہیں اٹھاؤگے۔

اپنی بیماری کے دوران بیت المال سے شہد لینے کے لیے مسجد میں جاکر مسلمانوں سے کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو تھوڑا سا شہد لے لوں۔ حضرت عمرؓ نے بیت المال یعنی خزانے کا شعبہ قائم کیا۔ فوجی دفتر، مردم شماری، پولیس کا محکمہ، عدالتیں اور قاضی مقرر کیے۔ فوجی چھاؤنیاں، چوکیاں اور سرائیں بنوائیں۔ راہ پڑے بچوں کی پرورش کا ذمہ لیا۔ شراب کی حد 80 کوڑے مقرر کیے۔ مفلوک الحال عیسائیوں اور یہودیوں کے روزینے مقرر کیے۔ نماز تراویح جماعت سے قائم کی۔

غرض ایک ترقی یافتہ معاشرے کی تشکیل میں نمایاں کردار حضرت عمر فاروق ؓ کا تھا۔ ان کے ہی بنائے ہوئے طریقوں اور قوانین کو پس پشت ڈال کر اسلام سے قبل کے دور جہالت کی پیروری کی جارہی ہے۔حکمرانوں کو صرف اور صرف اپنی پرواہ ہے۔ دولت کی ریل پیل، زمین و جائیداد، سب ہی کچھ میسر ہے، لیکن ہوس ہے جو ختم نہیں ہوتی۔ ٹیکس لگا لگاکر غریب کا جینا دوبھر کردیا ہے۔

ماہ رمضان قریب ہے۔ اس کے بعد عید ہے، اخراجات بڑھیںگے اور خواہشات جنم لیں گی۔ اچھا کھانے کا بھی دل چاہے گا اور عید کے کپڑوں کی خریداری بھی۔ تنخواہیں وہی۔ کوئی اور کسی قسم کا اضافہ نہیں، کس طرح گزارا ہوگا؟ یہ بات موجودہ اور نہ سابقہ حکمرانوں نے سوچی؟ بس اقتدار کے حصول کی مالا دیوانے کی طرح جپ رہے ہیں۔ عاقبت کی فکر سے بیگانہ ہوکر اس طرح کوئی بھی ووٹ دینے کو تیار نہیں ہوگا۔

تھوڑا سا لالچ، ایک پلیٹ بریانی، ایک لال نوٹ اور بس امیدواروں کو اقتدار اور مجبور عوام کو مزید ٹھوکریں۔ بہت سے ووٹ مل جائیں گے۔ پھر وہی وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ موومنٹ اور دم توڑتے ہوئے لوگ اور ٹریفک میں پھنسے عوام۔ یہ بات سوچنے کی ہے، جس صوبے میں 36 ہزار فلاحی ادارے ہوں، وہاں فلاح کا دور دور تک پتا نہیں۔ لوگ بجلی اور پانی کے مارے ہوئے ہیں۔ بھوک، گلی گلی، قریہ قریہ سخت گرمی میں مزدوری کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ کاش یہ لوگ سمجھیں کہ احساسات و جذبات سب کے ایک سے ہوتے ہیں، کون کس جہاں میں بامراد ہوتا ہے اور کون نا مراد۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔