Happy Mothers Day۔
بد قسمتی سے اب ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے کہ سال کا ایک دن ماؤں کے لیے
KARACHI:
فون پر آج کل پیغامات کی بیل جب بجتی ہے تو جانتے ہوئے بھی صرف اس لیے اس پر نظر ڈالتی ہوں کہ معلوم ہو جائے کہ کس دکان اور کس برانڈ کا اور کتنے فیصد سیل کا یا پھر نئے والیوم کی لانچ کا پیغام ہے۔ ہمارے اپنوں نے تو ایس ایم ایس سروس استعمال کرنا چھوڑ دی ہے کیونکہ اس پر تھوڑی سی لاگت آتی ہے، کئی اور طرح کے مفت پیغامات اور کالوں والی app آ گئی ہیں تو اب کوئی ایس ایم ایس ایسا نہیں ہوتا جس میں کوئی اپنوں کی خیرخبر ہو۔... اپنی ماں کو ہماری شاندار سیل سے حیران کریں، تین دن کے لیے لان کی نئی رینج کی قیمتوںمیں تیس فیصدتک کی کمی سے فائدہ اٹھائیں۔
... ماؤں کے عالمی دن کے موقع پر آپ اپنی ماں سے محبت کا اس سے بہتر اورکس طرح اظہار کر سکتے ہیں کہ انھیں ہماری نئی پراڈکٹ کی لانچ سے نت نئے پرنٹ خرید کر مدرز ڈے کا تحفہ دیں۔
ان دنوں موصول ہونیوالے سارے پیغامات ایسے ہی تھے... ماؤں کو کسی نہ کسی طرح خوش کرنے کے۔
میں بھی ایک ماں ہوں، نہ صرف مجھے یہ پیغامات اپنی ماں کو تحائف دے کر خوش کرنے کے لیے ملے بلکہ میرے بچوں کو بھی ایسے ہی ڈھیروں پیغامات ملے ہوں گے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ماؤں کا کوئی ایک دن نہیں ہوتا... بد قسمتی سے اب ہمارے ہاں ایسا ہو رہا ہے کہ سال کا ایک دن ماؤں کے لیے... ایک دن عورتوں کے لیے... ایک دن باپوں کے لیے اور ایک دن چاہنے والوں کے لیے۔ ایسی ایسی بدعتیں ہمارے ہاں مغرب سے در کر آئی ہیں۔
ان کے ہاں شاید ان دنوں کی اتنی تشہیر نہ ہوتی ہو گی اور نہ ہی ان مخصوص دنوں کے حوالے سے مختلف کمپنیوں کی تشہری مہم میں جتنی کہ ہمارے ہاں ہو رہی ہے۔ ا نہیں یاد کرنا پڑتا ہے کہ ان کی جڑیں کہیں منسلک ہیں، مغرب سے ہر چیز سوشل میڈیا کے ذریعے ہمارے ہاں آ رہی ہے،ہماری ثقافت کا رنگ بھی بدل دیا۔
اولاد سے ماں کی محبت کی کوئی مثال نہیں، بچپن سے ایک حدیث سنتے آئے ہیں کہ اللہ تعالی انسان کو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے۔ماں کی اولاد سے محبت کا رشتہ اس کی ولادت سے کئی ماہ پہلے شروع ہوجاتا ہے، حمل کی صورت اس کا بو جھ اٹھاتی ہے، اسے تکلیف سے گزر کر جنم دیتی ہے، اس کی پیدائش کے بعد اس کی پرورش کے لیے اپنا آرام، نیند اور سکون تج دیتی ہے... ماں کے لیے اولاد کی خواہشات اپنی ضروریات سے بڑھ کر ہیں۔اب کچھ عرصے سے ہمارے ہاں سوسائٹی اور اس کی اقدار اس طرح تبدیل ہوئی ہیں کہ ہم نے اپنی اصل اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے کیونکہ ان اقدار سے رشتوں کو ساتھ لے کر چلنے کا بوجھ تھا۔
نئی نسل ترقی کی جس راہ پر بگٹٹ بھاگ رہی ہے اس میں سب سے اہم ان مغربی معاشروں کی اندھا دھند تقلید ہے جو اب خود بھی اپنے بدلے ہوئے معاشرے سے نالاں ہیں۔ بڑوں کے لیے پیار، عزت اور احترام لیے ہوئے، جب ہم نے سال بھر میں ایک ایک دن ماں باپ کے لیے مختص نہیں کیا تھا۔
ماں کیا چاہتی ہے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ ماں اپنی اولاد کی سلامتی، خوشی اور قرب چاہتی ہے۔ اسے اپنے بچوں کو دیکھنا، انھیں چھونا اور انھیں پیار کرنا اچھا لگتا ہے... مگر اس کا کوئی بچہ یہ کہہ دے کہ اس کی خوشی ماں سے دور رہنے میں ہے تو یقین کریں کہ ماں اپنی خوشی کو اس کی خوشی کی خاطر تج دے گی۔ا س کے گرد غائبانہ اپنی دعاؤں کے حصار باندھتی رہتی ہے، اس کی آواز سن کر بھی جی اٹھتی ہے۔
کیا دنیا کی ہر ماں ایک جیسی ہو سکتی ہے؟ یہ بھی ایک اہم سوال ہے۔ ماں کا پیار آفاقی ہے، ہر ماں کا اپنی اولاد کے لیے محبت کا رشتہ ایک جیسا ہے۔اولاد ماں باپ کی طرف سے جو کچھ وصولتی ہے اسے اپنا حق سمجھتی اور اس کے بارے میں ہمیشہ نالاں رہتی ہے جب کہ ماں باپ کے لیے اولاد کے دل میں اس سوچ کا آنا ہی قیمتی تحفہ ہے کہ انھیں اپنے فرض کا احساس ہے۔جس اولاد کی خاطر انھوں نے کبھی نہ کبھی اپنا پیٹ کاٹا ہو گا، ان کی کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے وسائل نہ ہوئے توکسی کے آگے دست سوال بھی پھیلا دیا ہو گا... ا س اولاد سے کوئی مطالبہ کرتے وقت ماں باپ اندر سے چٹخ کیوں جاتے ہیں؟
کس قدر بد قسمت ہیں وہ اولادیں کہ جب وہ اس قابل ہوئی کہ ماں باپ کا بوجھ سہار سکیں اس وقت انھیں اس کی توفیق ہی نہ ملی... اگر توفیق بھی ملی تو سمجھ ہی نہ پائے کہ ماں باپ کو کس طرح پیارا ور چاہت سے رکھیں کہ جس طرح انھوں نے اس کو بچپن میں رکھا- جس وقت اولاد اتنی مضبوط ہوتی ہے کہ وہ اپنے والدین کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوجائے اس وقت والدین اتنے ناتواں ہو چکے ہوتے ہیں جیسے کوئی بچہ۔ مگر ان کی اولاد بٹ چکی ہوتی ہے، ان کے اپنے بچے ہو چکے ہوتے ہیں، انھیں سمجھ آ جاتی ہے کہ والدین نے انھیں کس مشقت اور محنت سے پالا تھا مگر حیف... صد حیف!! اس وقت بھی انھیں توفیق نہیں ملتی۔
قسمت والے ہوتے ہیں وہ بچے جو اپنے پیروں پر کھڑے ہوں تو انھیں ہدایت بھی نصیب ہو کہ وہ اپنے ماں باپ کا خیال رکھیں، ان کی ضروریات کو پورا کریں۔ انھیں اپنے مصروفیت میں سے کوشش کر کے وقت دیں، ان کی پسند و نا پسند کا احترام کریں، ان سے نرمی اور شفقت سے بات کریں، ان کی خوراک اور دوا دارو کا خیال رکھیں، انھیں حتی الامکان آرام پہنچانے کی کوشش کریں۔ ان سے اونچی آواز میں بات نہ کریں، بے وجہ ان سے اختلاف نہ کریں اور نہ ہی ان کے سامنے ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کو برا کہیں۔
آپ کی کسی بات سے ان کا دل دکھے گا تو اللہ بھی آپ سے راضی نہیں ہو گا۔اور ہا ں سب سے اہم بات... یہ سب کرنے کے لیے آپ کو '' مدرز ڈے '' یا '' فادرز ڈے '' کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں، سال کا ہر ایک دن والدین کا دن ہوتا ہے، کسے معلوم عمر کا کون سا پل آخری ہو، ہر پل کو اپنے پیاروں کے ساتھ خوشیوں اور پیار کے ساتھ گزاریں۔
اہم نوٹ:ایک بہت ہی مجبورنوجوان نے ای میل کے ذریعے اپنے حالات کی تنگدستی کا اظہار کیا ہے۔میں اپنے وسائل سے اس کی بابت چیک کروا رہی ہوں اور حتی الامکان اس کی مدد کروں گی۔ اس کے بعد مالک مکان کو کرایہ دینے کے لیے صرف پیر یعنی کل تک کی مہلت ہے، اپنے زکوۃ اور صدقات سے اس کی مدد کرنے کے خواہش مند خواتیں و حضرات اگر مجھ سے رابطہ کریں تو میں ا نہیں اس نوجوان کا نام ، پتہ اور فون نمبر دے سکتی ہوں تا کہ وہ براہ راست اس کی مدد کر سکیں۔ شکریہ