شادی کے لیے مخلص شخص کی تلاش
اس وقت دیر سے شادی کرنا یا اولاد کا نہ ہونا ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے
ہمیں بچپن ہی سے اخبار پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا، جب اخبارمیں انٹر ٹینمنٹ یعنی فلمی صفحہ دیکھتے تو جلدی سے پلٹ دیتے تھے کہ کہیں گھر کا کوئی فرد ہمیں یہ صفحہ پڑھتے یا دیکھتے ہوئے نہ دیکھ لے۔ خیر اب زمانہ بدل گیا ہے اور نیٹ کی سہولت ہر کسی کے پاس ہے جہاں آپ کتنا ہی 'صاف ستھرا' مواد پڑھیں، دائیں بائیں اوراوپر نیچے کہیں نہ کہیں آپ کو 'انٹرٹینمنٹ' کا سامان خود بخود میسر آجاتا ہے۔ ابھی ہم نے اپنا لیب ٹاپ تازہ ترین خبروں کے لیے آن کیا ہی تھا کہ سامنے ایک اداکارہ کی خوبصورت تصویر آگئی سو ہم اس اداکارہ کی خبر پڑھنے پر مجبور ہوگئے۔ خبر یہ تھی کہ
'' شادی کے لیے مخلص شخص کی تلاش میں ہوں، ریشم''ہمیں اس خبر پرسخت حیرت ہوئی کہ یہ اداکارہ اچھی خاصی عمرکی ہیں اور ایک طویل وقت فلم انڈسٹری میں گزار چکی ہیں جہاں اس ملک کے سب سے زیادہ ''روشن خیال '' لوگ ہوتے ہیں پھر بھی ان محترمہ کوکوئی ایک شخص بھی مخلص نہیں ملا؟
ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے نزدیک ''مخلص شخص'' کی کیا تعریف ہے لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ اس وقت دیر سے شادی کرنا یا اولاد کا نہ ہونا ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے اور یہ صرف مغربی نہیں مشرقی معاشرہ کا بھی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے اور اس کی بہت سی وجو ہات ہیں مثلاً کچھ لوگ اچھے سے اچھے اسٹیٹس یا بلند معیار زندگی حاصل کرے بغیر شادی کے لیے تیار نہیں ہوتے، کچھ سابق بھارتی صدر (جنھوں نے بھارت کو ایک ایٹمی قوت کا درجہ بھی دیا) کا ذہن رکھتے ہیں کہ جب ضرورت ایسے ہی پوری ہوجائے تو بھلا بچے پیدا کرکے انھیں پالنے کی جھنجٹ کیوں لی جائے۔
یہ تصور مغرب میں تو پوری طرح اپنایا جا چکا ہے البتہ اب مشرقی معاشرہ بھی ان کی نقالی کر رہا ہے۔ حال ہی میں 'دیٹس پرسنل' نامی کمپنی نے بھارت میں سیکس ٹوائے فروخت کرنے کی سروس شروع کردی ہے ،ایسا سامان بھارتی میڈیا خوب پیش کررہا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹس کیمطابق صرف بھارت کے دارالحکومت دلی میں ریپ کے واقعات اس قدر عام ہیں کہ اسے ملک کا 'ریپ کیپیٹل' بھی کہا جاتا ہے۔شادی دیر سے ہونا یا نہ ہونا واقعی اس وقت ایک اہم ترین معاشرتی مسئلہ ہے ہمارے ہاں اس کی دو اہم وجہ میں ایک سیکولر نظام تعلیم ہے اور دوسرا بڑھتی ہوئی مادہ پرستانہ ذہنیت ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں ایک بچہ سیکنڈری اسکول میں ہی دوران تعلیم بالغ ہو جاتا ہے یعنی اس مرحلے پر فطری لحاظ سے اسے اپنی تسکین پوری کرنے کی جائز حاجت ہوتی ہے۔
دیہی علاقوں میں تو لوگ یہ رحجان رکھتے ہیں کہ مذہبی لحاظ سے اولاد بالغ ہوجائے تو اس کے رشتے کی تلا ش کرو، چنانچہ ان علاقوں میں تلاش کا کام مکمل کرنے کے بعد اولاد کی شادی کردی جاتی ہے ویسے بھی ان علاقوں میں میٹرک کی تعلیم بھی کافی تصور کی جاتی ہے اور میڈیکل کے ماہرین کیمطابق بھی ابتدائی عمر میں شادی کردی جائے تو صحت اور بچوں کی پیدائش کے حوالے سے شادی کی یہ ہی عمر زیادہ بہتر ہوتی ہے، اگر تیس سال یا اس کے بعد کی جائے تو اولاد کے ہونے کے امکانات کم سے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اسی لیے دیہی علاقوں میں لوگوں کی اولادیں زیادہ تعداد میں ہوتی ہیں جب کہ شہری علاقوں میں زیادہ عمر میں آکر شادی کرنیوالے جوڑے مزاروں پر منت مانگتے یا کلینک کے چکرکاٹتے نظر آتے ہیں کہ کہیں سے تو انھیں اولاد کی نعمت ملے گی وہ بھول رہے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی کی ٹرین اس اسٹیشن سے گزر چکی ہے جہاں یہ نعمت وافر مقدار میں تھی۔
شہروں میں چونکہ زیادہ تر سیکولر نظام تعلیم ہے اور لوگ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی اولادیں اس نظام تعلیم سے ڈگریاں لے کر اچھی ملازمت اور عزت کمائیں چنانچہ ایک بڑی تعداد ایم اے وغیرہ یعنی سولہ سال کی تعلیم سے پہلے شادی کا سوچتی ہی نہیں یہاں تک کہ جن لڑکیوں کے لیے گھر بیٹھے اچھا رشتہ آجائے وہ بھی انکار کر دیتے ہیں کہ پہلے بیٹی ڈاکٹر بن جائے یا ماسٹر کی ڈگری تو لے لے۔
اس مرحلے کے بعد عموماً رشتے کا سوچتے ہیں اور بیٹی اس دوران مزید پڑھائی یعنی ایم فل، پی ایچ ڈی وغیرہ یا پھر ملازمت شروع کردیتی ہے یوں عمرکا ایک بڑا حصہ اس عمل کی نذرہوجاتا ہے پھر پسندکے رشتے تلاش کرنے پر مزید وقت گزر جاتا ہے کیونکہ ہم مادہ پرستی کے رحجان کے باعث ایک ایسا رشتہ چاہتے ہیں کہ جو شکل و صورت اور دولت غرض ہر لحاظ سے اچھا ہو۔خواتین میں عموماً یہ رحجان بڑھتا جارہا ہے کہ وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کریں بلکہ اس سے اور آگے بڑھ کرکچھ کر کے دکھائیں ، معاشی خودمختاری کی دہیلز تک پہنچیں، کوئی اچھی ملازمت وعہدہ وغیرہ حاصل کریں ، ظاہر ہے اس عمل میں ان کے راستے میں شادی اور بچے رکاوٹ بنتے ہیں چنانچہ ہم اگر اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ایسی خواتین کی یا تو شادی نہیں ہوئی یا ہوئی بھی ہے تو ان کے بچوں کی تعداد سنگل یا صفر ہے۔
بھارتی ریاست کیرالہ میں سب سے زیادہ اعلیٰ تعلیم کی شرح ہے اور وہاں بالکل یہی مسئلہ درپیش ہے۔ اعلیٰ تعلیم ، ملازمت اور عہدوں کے لیے گھر سے باہر بہت زیادہ وقت دینا ہوتا ہے جس میں گھریلو معاملات کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ حالیہ ایک خبر کے مطابق یورپ کے تقریباً سات ممالک کے سربراہوں کی کوئی ایک اولاد بھی نہیں ہے۔وقت پر شادی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے جس میں زندگی کے تمام رنگوں کا مزا ہے۔
ہمارے ایک قریبی دوست کا کہنا ہے کہ وہ چار بھائی بہن ہیں جس میں دو بہنیں بڑی ہیں۔ دونوں بہنوں کے اچھے اچھے رشتے آئے مگر والدین نے یہ کہ کر منع کر دیا کہ ابھی تو میٹرک کا رزلٹ بھی نہیں آیا، ابھی تو بی اے بھی نہیں ہوا، ایم اے تو کر لینے دو، وغیرہ وغیرہ، یوں تمام اچھے رشتے ہاتھ سے نکل گئے اب دونوں بہنیں ملازمت کر رہی ہیں، چونکہ بہنوں کی شادی نہیں ہوئی لہذا ہم بھائیوں کی شادی بھی نہیں ہوئی۔ میں سب سے چھوٹا ہوں میری عمر چالیس سال کے قریب ہو چکی ہے، میں اب سوچتا ہو کہ اگر میری آج اور ابھی شادی ہو بھی جائے تو تب بھی جس وقت میں ریٹائر ہونگا تو میرا کوئی بچہ بھی اس قابل نہیں ہوگا کہ اپنے پاؤں پرکھڑے ہوکر میرا سہارا بن سکے۔
اگر میری بہنوں کی شادی وقت پر ہوجاتی، میری شادی بھی بیس، پچیس سال کی عمر میں ہوجاتی تو آج میری اولاد میرا سہارا ہوتی مگر افسوس میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی! اب حال یہ ہے کہ ہم سب بہن بھائی جب ملازمت سے واپس گھر پہنچتے ہیں توتھکے ہوئے ہوتے ہیں، والدین بزرگ ہیں بیمار ہیں دن بھر ان کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہیں، ملازمت سے واپس آکر ہم اپنی تھکاوٹ دور کریں یا والدین کی خدمت کریں یا گھر کے کام کاج اورکھانا پکانا؟
فی الحال ایک عرصے سے ہوٹل سے کھانا لاکرکھاتے ہیں، ناشتے کے لیے بیکری کا رخ کرتے ہیں، بس زندگی ایک بوجھ بن گئی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ درست وقت پر درست فیصلے کرلیے جائیں تو عقلمندی ہے، جوانی میں تو گھومنا ، پھرنا انجوائے کرنا، مخلوط ماحول میں پڑھنا، ملازمت کرنا بہت اچھا لگتا ہے اور یہ بھی بہت اچھا لگتا ہے کہ کوئی اچھا 'اسٹینڈرڈ' والا جیون ساتھی مل جائے جس کے ساتھ شہزادوں والی زندگی گزرے۔
دوسری طرف والدین بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ ملازمت کے بعد شادی کریں۔ مگر یہ سب کس قیمت پر؟ زندگی فلمی منظرنامہ تو نہیں، راقم نے اپنے جس دوست کا ذکر کیا ہے اس قیمت پر؟ آخر اپنے پسند کے جیون ساتھی کے انتخاب کا درست وقت کیا ہے؟ آیئے غور کریں۔
'' شادی کے لیے مخلص شخص کی تلاش میں ہوں، ریشم''ہمیں اس خبر پرسخت حیرت ہوئی کہ یہ اداکارہ اچھی خاصی عمرکی ہیں اور ایک طویل وقت فلم انڈسٹری میں گزار چکی ہیں جہاں اس ملک کے سب سے زیادہ ''روشن خیال '' لوگ ہوتے ہیں پھر بھی ان محترمہ کوکوئی ایک شخص بھی مخلص نہیں ملا؟
ہمیں نہیں معلوم کہ ان کے نزدیک ''مخلص شخص'' کی کیا تعریف ہے لیکن ہمیں یہ ضرور معلوم ہے کہ اس وقت دیر سے شادی کرنا یا اولاد کا نہ ہونا ایک بہت بڑا معاشرتی مسئلہ بن چکا ہے اور یہ صرف مغربی نہیں مشرقی معاشرہ کا بھی ایک اہم مسئلہ بن چکا ہے اور اس کی بہت سی وجو ہات ہیں مثلاً کچھ لوگ اچھے سے اچھے اسٹیٹس یا بلند معیار زندگی حاصل کرے بغیر شادی کے لیے تیار نہیں ہوتے، کچھ سابق بھارتی صدر (جنھوں نے بھارت کو ایک ایٹمی قوت کا درجہ بھی دیا) کا ذہن رکھتے ہیں کہ جب ضرورت ایسے ہی پوری ہوجائے تو بھلا بچے پیدا کرکے انھیں پالنے کی جھنجٹ کیوں لی جائے۔
یہ تصور مغرب میں تو پوری طرح اپنایا جا چکا ہے البتہ اب مشرقی معاشرہ بھی ان کی نقالی کر رہا ہے۔ حال ہی میں 'دیٹس پرسنل' نامی کمپنی نے بھارت میں سیکس ٹوائے فروخت کرنے کی سروس شروع کردی ہے ،ایسا سامان بھارتی میڈیا خوب پیش کررہا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹس کیمطابق صرف بھارت کے دارالحکومت دلی میں ریپ کے واقعات اس قدر عام ہیں کہ اسے ملک کا 'ریپ کیپیٹل' بھی کہا جاتا ہے۔شادی دیر سے ہونا یا نہ ہونا واقعی اس وقت ایک اہم ترین معاشرتی مسئلہ ہے ہمارے ہاں اس کی دو اہم وجہ میں ایک سیکولر نظام تعلیم ہے اور دوسرا بڑھتی ہوئی مادہ پرستانہ ذہنیت ہے۔ مثلاً ہمارے ہاں ایک بچہ سیکنڈری اسکول میں ہی دوران تعلیم بالغ ہو جاتا ہے یعنی اس مرحلے پر فطری لحاظ سے اسے اپنی تسکین پوری کرنے کی جائز حاجت ہوتی ہے۔
دیہی علاقوں میں تو لوگ یہ رحجان رکھتے ہیں کہ مذہبی لحاظ سے اولاد بالغ ہوجائے تو اس کے رشتے کی تلا ش کرو، چنانچہ ان علاقوں میں تلاش کا کام مکمل کرنے کے بعد اولاد کی شادی کردی جاتی ہے ویسے بھی ان علاقوں میں میٹرک کی تعلیم بھی کافی تصور کی جاتی ہے اور میڈیکل کے ماہرین کیمطابق بھی ابتدائی عمر میں شادی کردی جائے تو صحت اور بچوں کی پیدائش کے حوالے سے شادی کی یہ ہی عمر زیادہ بہتر ہوتی ہے، اگر تیس سال یا اس کے بعد کی جائے تو اولاد کے ہونے کے امکانات کم سے کم ہوتے چلے جاتے ہیں۔
اسی لیے دیہی علاقوں میں لوگوں کی اولادیں زیادہ تعداد میں ہوتی ہیں جب کہ شہری علاقوں میں زیادہ عمر میں آکر شادی کرنیوالے جوڑے مزاروں پر منت مانگتے یا کلینک کے چکرکاٹتے نظر آتے ہیں کہ کہیں سے تو انھیں اولاد کی نعمت ملے گی وہ بھول رہے ہوتے ہیں کہ ان کی زندگی کی ٹرین اس اسٹیشن سے گزر چکی ہے جہاں یہ نعمت وافر مقدار میں تھی۔
شہروں میں چونکہ زیادہ تر سیکولر نظام تعلیم ہے اور لوگ بھی چاہتے ہیں کہ ان کی اولادیں اس نظام تعلیم سے ڈگریاں لے کر اچھی ملازمت اور عزت کمائیں چنانچہ ایک بڑی تعداد ایم اے وغیرہ یعنی سولہ سال کی تعلیم سے پہلے شادی کا سوچتی ہی نہیں یہاں تک کہ جن لڑکیوں کے لیے گھر بیٹھے اچھا رشتہ آجائے وہ بھی انکار کر دیتے ہیں کہ پہلے بیٹی ڈاکٹر بن جائے یا ماسٹر کی ڈگری تو لے لے۔
اس مرحلے کے بعد عموماً رشتے کا سوچتے ہیں اور بیٹی اس دوران مزید پڑھائی یعنی ایم فل، پی ایچ ڈی وغیرہ یا پھر ملازمت شروع کردیتی ہے یوں عمرکا ایک بڑا حصہ اس عمل کی نذرہوجاتا ہے پھر پسندکے رشتے تلاش کرنے پر مزید وقت گزر جاتا ہے کیونکہ ہم مادہ پرستی کے رحجان کے باعث ایک ایسا رشتہ چاہتے ہیں کہ جو شکل و صورت اور دولت غرض ہر لحاظ سے اچھا ہو۔خواتین میں عموماً یہ رحجان بڑھتا جارہا ہے کہ وہ نہ صرف اعلیٰ تعلیم حاصل کریں بلکہ اس سے اور آگے بڑھ کرکچھ کر کے دکھائیں ، معاشی خودمختاری کی دہیلز تک پہنچیں، کوئی اچھی ملازمت وعہدہ وغیرہ حاصل کریں ، ظاہر ہے اس عمل میں ان کے راستے میں شادی اور بچے رکاوٹ بنتے ہیں چنانچہ ہم اگر اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ایسی خواتین کی یا تو شادی نہیں ہوئی یا ہوئی بھی ہے تو ان کے بچوں کی تعداد سنگل یا صفر ہے۔
بھارتی ریاست کیرالہ میں سب سے زیادہ اعلیٰ تعلیم کی شرح ہے اور وہاں بالکل یہی مسئلہ درپیش ہے۔ اعلیٰ تعلیم ، ملازمت اور عہدوں کے لیے گھر سے باہر بہت زیادہ وقت دینا ہوتا ہے جس میں گھریلو معاملات کے لیے وقت نہیں ہوتا۔ حالیہ ایک خبر کے مطابق یورپ کے تقریباً سات ممالک کے سربراہوں کی کوئی ایک اولاد بھی نہیں ہے۔وقت پر شادی قدرت کا ایک انمول تحفہ ہے جس میں زندگی کے تمام رنگوں کا مزا ہے۔
ہمارے ایک قریبی دوست کا کہنا ہے کہ وہ چار بھائی بہن ہیں جس میں دو بہنیں بڑی ہیں۔ دونوں بہنوں کے اچھے اچھے رشتے آئے مگر والدین نے یہ کہ کر منع کر دیا کہ ابھی تو میٹرک کا رزلٹ بھی نہیں آیا، ابھی تو بی اے بھی نہیں ہوا، ایم اے تو کر لینے دو، وغیرہ وغیرہ، یوں تمام اچھے رشتے ہاتھ سے نکل گئے اب دونوں بہنیں ملازمت کر رہی ہیں، چونکہ بہنوں کی شادی نہیں ہوئی لہذا ہم بھائیوں کی شادی بھی نہیں ہوئی۔ میں سب سے چھوٹا ہوں میری عمر چالیس سال کے قریب ہو چکی ہے، میں اب سوچتا ہو کہ اگر میری آج اور ابھی شادی ہو بھی جائے تو تب بھی جس وقت میں ریٹائر ہونگا تو میرا کوئی بچہ بھی اس قابل نہیں ہوگا کہ اپنے پاؤں پرکھڑے ہوکر میرا سہارا بن سکے۔
اگر میری بہنوں کی شادی وقت پر ہوجاتی، میری شادی بھی بیس، پچیس سال کی عمر میں ہوجاتی تو آج میری اولاد میرا سہارا ہوتی مگر افسوس میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی! اب حال یہ ہے کہ ہم سب بہن بھائی جب ملازمت سے واپس گھر پہنچتے ہیں توتھکے ہوئے ہوتے ہیں، والدین بزرگ ہیں بیمار ہیں دن بھر ان کی دیکھ بھال کرنے والا بھی کوئی نہیں، ملازمت سے واپس آکر ہم اپنی تھکاوٹ دور کریں یا والدین کی خدمت کریں یا گھر کے کام کاج اورکھانا پکانا؟
فی الحال ایک عرصے سے ہوٹل سے کھانا لاکرکھاتے ہیں، ناشتے کے لیے بیکری کا رخ کرتے ہیں، بس زندگی ایک بوجھ بن گئی ہے۔اصل بات یہ ہے کہ درست وقت پر درست فیصلے کرلیے جائیں تو عقلمندی ہے، جوانی میں تو گھومنا ، پھرنا انجوائے کرنا، مخلوط ماحول میں پڑھنا، ملازمت کرنا بہت اچھا لگتا ہے اور یہ بھی بہت اچھا لگتا ہے کہ کوئی اچھا 'اسٹینڈرڈ' والا جیون ساتھی مل جائے جس کے ساتھ شہزادوں والی زندگی گزرے۔
دوسری طرف والدین بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم اور اعلیٰ ملازمت کے بعد شادی کریں۔ مگر یہ سب کس قیمت پر؟ زندگی فلمی منظرنامہ تو نہیں، راقم نے اپنے جس دوست کا ذکر کیا ہے اس قیمت پر؟ آخر اپنے پسند کے جیون ساتھی کے انتخاب کا درست وقت کیا ہے؟ آیئے غور کریں۔