معاملہ سیاست اور شہریت کا
پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس وقت کے نام نہاد اسٹیک ہولڈر فوجی حکمرانوں کی باقیات ہیں
لانگ مارچ کی ابھی ابتدا بھی نہ ہوئی تھی کہ الیکٹرانک میڈیا پر شہریت اور سیاست کا معاملہ ہمہ وقت موضوع بحث بنا ہوا تھا اور ہنوز جاری ہے۔ دوسرا اہم موضوع اس مارچ کے ایجنڈے پر تھا جو آج بھی جاری ہے اور اس کی بازگشت لگتا ہے کہ مہینوں پر محیط ہو گی مگر پاکستان کی اسمبلی کے موجودہ 20 ارکان جن میں کئی وفاقی وزراء بھی اس دہری شہریت کے مالک ہیں، ان کی کسی نے باز پرس نہ کی کہ وہ کس ملک کے کہنے پر یہاں کے وزارتی منصب پر فائز ہیں، ایسا لگا کہ جیسے ان کو اس کی خبر ہی نہیں ہے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں جمہوری معاشرے کے تصور سے یہ لوگ نا آشنا ہیں کہ انصاف کے میزان میں ہر امیدوار یا وزیر کا یکساں وزن کر کے ان کو بھی ہدف بنایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے عوام میں شکوک و شبہات کی لہر دوڑ گئی اور وہ یہ محسوس کرنے لگے کہ الیکٹرانک میڈیا پر جو لوگ زبان دانی کے جوہر دکھا رہے ہیں وہ دشنام طرازی میں کسی خاص مکتب کے ترجمان ہیں اور پوشیدہ طور پر یہ ان کی سیاسی سوچ کے ترجمان ہیں۔ نکتہ چینی اور انصاف پر مبنی اوزان ڈالنے کی ضرورت ہے، صرف ایسا نہیں کہ اس ملک میں ہمہ اوقات گیسولین کے نرخ بڑھتے رہتے ہیں بلکہ یہ مبصرین عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ملامت کا پلڑا گراں کر رہے ہیں اور ان لوگوں کی قصیدہ خوانی میں مصروف ہیں جو الیکشن کے گر پر دسترس، اثر و رسوخ اور موروثی سیاست کے چیمپئن ہیں۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ اس وقت کے نام نہاد اسٹیک ہولڈر فوجی حکمرانوں کی باقیات ہیں اور تبصرہ نگاروں کی نظر میں یہی عوام کے ہر دل عزیز رہنما ہیں جس سے اس بات کی بو آتی ہے کہ یہ بھی ان حضرات کی ناقص کارکردگی کی پردہ پوشی میں ہر طرح کے شراکت دار ہیں۔ یہی لوگ بلوچستان میں گورنر راج کے بھی شدید مخالف ہیں مگر یہ کھل کر ان کی حمایت سے قاصر ہیں کیونکہ حالیہ دنوں میں دالبندین کے شہر ضلع چاغی سے ایک بزنس مین کو کوئٹہ کی سی آئی ڈی لاک اپ سے برآمد کیا گیا، اس کا تمام تر سہرا بلوچستان کے سابق حکمرانوں کے سر ہی آئے گا کیونکہ یہ واردات گورنر راج کے نفاذ کے بعد چند دنوں میں ہی عوام کے سامنے آئی ہے۔ جب کسی ملک میں قانون کے رکھوالے ہی قانون کو پامال کر رہے ہوں تو عوام کس پر تکیہ کریں، فیض صاحب بہت پہلے اس کی تصویر کشی کر چکے ہیں۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
پولیس کے یہ اعلیٰ افسران بغیر صوبائی حکومتی سرپرستی کے یہ جرأت نہیں کر سکتے، جس صوبے کا وزیر اعلیٰ یہ کہتا ہو کہ ڈگری تو ڈگری ہوتی ہے جعلی ہو یا اصلی، تو پھر مباحثہ کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام لیڈروں کے ہاتھوں یرغمال ہیں، ہر روز پاکستانی معیشت تباہی کی جانب گامزن ہے، تیل کی قیمتیں بڑھا کر ملک میں صنعتی تباہی کے ذمے دار ہیں، پاکستانی مال کی لاگت اس قدر زیادہ ہو گئی ہے کہ مقامی منڈی میں بھی اس کی قیمت امپورٹڈ مال سے زیادہ ہو چکی ہے، خصوصیت کے ساتھ ٹیکسٹائل کا شعبہ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے مگر کسی کو ملک کی پسماندگی کی فکر نہیں کہ آخر یہ قافلہ کہاں ٹھہرے گا۔ مگر طاہر القادری کے کارواں پر ایک ٹی وی اسٹیشن پر ایک صاحب بصیرت تو یہ فرما رہے تھے کہ ان لوگوں کے ساتھ لال مسجد والوں جیسا سلوک کیا جانا چاہیے، کس قدر پستی اور غیر انسانی نظریات کے پھیلاؤ پر یہ اپنی زبان دانی کی داد چاہتے ہیں۔ کیونکہ جو لوگ بھی اسلام آباد میں جمع تھے وہ اس ملک کے شہری تھے اور اپنے حقوق کی آواز بلند کر رہے تھے آپ کو اتفاق اور اختلاف کا حق ہے مگر کسی کو نابود کر دیا جائے، کوئلے اور راکھ کا ڈھیر بنا دیا جائے، کیا یہ جمہوری انداز گفتگو ہے؟
بعض تبصرہ نگار جو مختلف جگہوں پر لنگر انداز ہیں اور خود کو جمہوری ناخدا سمجھتے ہیں مسلسل عوام کو گمراہ کرنے میں مصروف ہیں کہ جو بھی معاہدہ حکومت اور لانگ مارچ کے قائد کے مابین ہوا ہے اس پر عملدرآمد نہ ہو گا، غالباً ان کو سیاست کی ابجد پڑھ لینی چاہیے۔ حکومتوں کے بااختیار لوگوں اور مخالفین میں جب بھی کوئی سمجھوتا ہوتا ہے اس پر عملدرآمد تو ضرور ہوتا ہے، خواہ وہ حکومت رہے یا جائے کیونکہ اگر سمجھوتے پر عملدرآمد نہ ہوا تو پھر دوسرے مارچ کا آپشن مخالف کے پاس موجود ہوتا ہے یعنی دوسرے مارچ کے لیے راہ ہموار ہو جاتی ہے۔ موسم بھی مارچ کا ہمنوا ہو گا۔
اس منظم اور جمہوری مارچ کا وہی انداز تھا جو قائد اعظم کے قول کا عکاس تھا اتحاد، تنظیم اور یقین محکم۔ خواہ ہم اس سے اختلاف کریں یا اتفاق، سردی کی سختی بارش کا امتحان اور اسلام آباد میں نہ کوئی ڈال ٹوٹی اور نہ کوئی دکان لوٹی گئی بلکہ روزنامہ ''ایکسپریس'' کی خبر کے مطابق نہ قرب و جوار میں کوئی جرم ہوا۔ یہ تھے ثمرات لوگوں کی ہمت کے۔ اب رہ گیا سیاسی لیڈروں میں ایک فطری بات ہے، اس مارچ کا شدید ردعمل متوقع تھا خاص طور سے مذہبی جماعتوں میں کیونکہ اس مارچ نے ایک نئی سیاسی جہت کو جنم دے دیا سیاسی پارٹیوں کی 30 اور چالیس برسوں کی حکمت عملی وہ بیداری عوام میںنہ پیدا کر سکی جو اس مارچ نے پیدا کر دی۔ مارچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری دنیا کے پرنٹ میڈیا کے صفحہ اول پر خبریں اور دنیا بھر کے چینلوں پر خبروں نے وہ رنگ جمایا جو پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کے نصیب میں نہ آیا۔
ظاہر ہے یہ عمل ایک قسم کی سیاسی پارٹی کی عوامی کانفرنس تھی۔ یہ مارچ بھارت کے انا ہزارے کے اجتماع سے بڑا تھا اور پرجوش بھی، اب یقینی طور پر ایک اعتدال پسند فلاحی ریاست کے تصور سے مالا مال پارٹی کے قیام کی ابتدا ہے، اسلام آباد میں ڈاکٹر طاہر القادری کی تقریر کے دوران اکثر یہ دیکھا گیا کہ 20 منٹ یا آدھے گھنٹے تک انگریزی زبان میں تقریر کی گئی تا کہ دنیا اس تقریر کی روح کو سمجھے جس میں انسانی حقوق اور مذہبی رواداری کی روح جلوہ گر تھی، اسلام کا پر امن عالمی پیغام بھی موجود تھا، مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ان کی آواز گونج رہی تھی، انگریزی، اردو زبان پر یکساں عبور مخالفت کرنے والے مخالفت کا جواز رکھتے ہیں، مگر ان حضرات نے پاکیٔ داماں کی حکایت حد سے بڑھا دی، نہ دامن کو دیکھا اور نہ اپنی قبا کے بند نظر آئے بلکہ بعض لوگ تو الزام تراشی میں مغربی سر پرستی کی باتیں ان کے خلاف کرتے رہے، مغرب کو بھلا کسی اور حکمران کی کیا ضرورت ہے جب کہ ڈرون حملوں کے لیے 2 برسوں کے لیے ایک بہترین حلیف حزب مخالف اور حزب اختلاف موجود ہے، ان کی مخالفت میں سچائی نہیں بلکہ یہ حضرات تو محض عوام کو دھوکا دینے کے لیے امریکا مخالف بیان دیتے ہیں، کون نہیں جانتا کہ کینیڈا میں عوام کو کیا کیا سہولتیں میسر ہیں، نئی نسل بھاگنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے، کبھی ریفرنڈم کرا کے دیکھ لیں عوام کی حقیقت سامنے آ جائے گی، صرف کینیڈا کے ایجنڈے کا نام لے کر گفتگو کو طوالت اور عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔
البتہ اس مارچ سے پنجاب کی حکومت کو زبردست سیاسی دباؤ برداشت کرنا پڑا ہے اور آنے والے وقت میں پنجاب میں طاہر القادری اعتدال پسند لوگوں کو اور ہمنوا بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس مارچ نے عمران خان کو محدود اور نواز شریف کی قوت کو کم کر دیا ہے، آنے والا وقت ایک نئی ابھرتی سیاست کو پنجاب کی سر زمین پر جلوہ گر دیکھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی نے عوامی تحریک سے معاہدہ کر کے نواز شریف کی سیاسی قوت میں ایک دراڑ ڈال دی ہے اب (ن) لیگ کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ وہ دائیں بازو کی مذہبی پارٹیوں کو ہمنوا بنا کر پنجاب کے سیاسی دنگل میں اتریں کیونکہ فنکشنل لیگ سندھ میں (ن) لیگ کو مزید مراعات نہ دے سکے گی، کیونکہ اس کو قوم پرستوں کو چند سیٹیں دینی پڑیں گی۔