حضور اکرمؐ … بڑے صاحب اخلاق
دین اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے۔
ربیع الاول حضور اکرمؐ کی ولادت کا بابرکت مہینہ ہے، مسلمانان پاکستان 12 ربیع الاول کو بڑے پرتپاک اور والہانہ انداز میں مناتے ہیں اور تقریباً پورے ماہ گلی گلی، قریہ قریہ محافل میلاد، لنگر، جلسے جلوسوں اور کانفرنسوں وغیرہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس سلسلے میں ٹی وی چینلز بھی اپنی نشریات اور پروگراموں کو خاص طور پر ترتیب دیتے ہیں۔ تقریبات کا یہ سلسلہ اقتدار کے ایوانوں تک جاری رہتا ہے۔ حضور اکرمؐ کی ذات بابرکات مسلمانوں سے اس بات کی متقاضی ہے کہ محض نبی کریمؐ کی ذات یا برکات پر ہی نہیں بلکہ آپ کی سیرت و صفات پر غور کریں، آپ کے اسوۂ حسنہ کی اتباع کریں، اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت ہر مسلمان پر فرض کی گئی ہے۔ قرآن اور سنت دونوں ہی شریعت کے بنیادی ماخذ ہیں جو اجماع اور قیاس کی بھی اساس ہیں۔ رسالت سے انکار زبان و عمل کے علاوہ یقین اور ایمان سے بھی ہوتا ہے۔
اسوۂ حسنہ نبیؐ کی سنت ترک کردینے یا اس کے خلاف من چاہی تاویلات پیش کرنے کا عمل بھی کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا ہے۔ دین اکبری میں بھی اصل فتنہ انکار رسالت کا تھا، اکبر بادشاہ کے خیال میں مذہب اور شریعتوں کا اختلاف ہندوستان کا سب سے بڑا مسئلہ تھا جس کی وجہ سے اس کے بقول ہندوستان بڑی طاقت نہیں بن سکا۔ آج مسلمانان پاکستان کی حالت بھی اس سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سب مانتے ہیں لیکن ان کے احکامات کو پس پشت ڈالا ہوا ہے، مذہبی برداشت و رواداری، صلہ رحمی، بھائی چارہ، اصول پسندی، انصاف پسندی کے جذبات کی جگہ فرقہ و لسانیت پرستی، خودپسندی، ذاتی انا اور عناد، اور شخصیت پرستی جیسے جذبات فروغ پا رہے ہیں۔ ان رویوں کی وجہ سے حکمرانوں اور مخصوص عزائم کے حامل طبقات اور شخصیات کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع مل رہا ہے کہ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد اور جماعتیں ہی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کر پا رہا ہے، اس پروپیگنڈے کے تحت دین اور سیاست کو دو مختلف سمتیں دی جا رہی ہیں جس سے ملک میں چنگیزی رجحانات میں اضافہ ہورہا ہے۔
دین اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے، جس میں دو افراد کے درمیان بات چیت کا آغاز ہی السلام علیکم یعنی سلامتی کی دعا سے ہوتا ہے۔ مساجد ہمیشہ سے اسلامی تعلیمات اور معاشرتی معاملات کا مرکز رہی ہیں۔ حضور اکرمؐ کے بعد خلفائے راشدین کی زریں مثالیں ہمارے سامنے ہیں کہ خلافت و امامت ساتھ ساتھ چلتی رہی ہیں بلکہ بہت خوش اسلوبی سے چلتی رہی ہیں، کچھ لوگ اس کو پرانے وقتوں کی باتیں قرار دے کر رد کردیتے ہیں، جن کے خیال میں خلافت کا نظام اور بے سود معیشت آج کے دور میں عملاً ناممکن ہیں اور سیاست اور مذہب الگ الگ چیزیں ہیں، لیکن ہمارے سامنے حضرت عمر فاروقؓ کے سنہری دور کی مثال موجود ہے جن کی مملکت کا حدود اربع 6 ملین مربع کلومیٹر کے قریب اور پاکستان سے سات گنا بڑا تھا، لیکن دنیا کی ایک مثالی جمہوریت کی تمام خوبیوں اور اسلام کی تعلیمات سے مزین رفاہی حکومت قائم تھی، جہاں گڈ گورننس، انصاف و مساوات تھی کیونکہ آغوش نبیؐ میں تربیت پانے والے خلیفہ نے آپؐ کی ذات کو مشعل راہ بنا کر اپنے آپ کو تمام دنیاوی آسائشوں اور راحتوں سے مبرا کرنے کے بعد گورنروں کو پابند کردیا تھا کہ وہ اعلی نسل کا گھوڑا استعمال نہیں کریں گے، نفیس لباس اور چھنا ہوا آٹا استعمال نہیں کریں گے، گھر کے دروازے پر کوئی چوکیدار نہیں رکھیں گے۔
مذہبی رواداری کا یہ عالم تھا کہ یروشلم فتح کیا تو نمازیں چرچ کے باہر ادا کیں، عیسائی جزامیوں کے لیے روزینہ مقرر کیے کیونکہ دنیا کے سب سے بڑے صاحب اخلاق حضور اکرمؐ کے اخلاق حسنہ اور تعلیمات آپ کے پیش نظر تھے جن کی تعلیم اور کردار برائی کے بدلے بھلائی تھا، غزوات میں دوسروں کے پیٹ پر ایک پتھر تو آپؐ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوتے تھے، کافر کی بیٹی کا سر بھی چادر سے ڈھک دیا کرتے تھے، چلتے وقت نگاہ نیچی رکھتے تھے، سلام میں پہل کرتے، مہمان نوازی خود کرتے، بیمار کی مزاج پرسی کرتے، کبھی کھل کر نہیں ہنستے، مسکرانے پر اکتفا کرتے، خواتین، بچوں، غلاموں، پڑوسیوں، بیماروں، یتیموں، اور جانوروں تک کا خیال رکھتے، اس کا درس بھی دیتے تھے۔ خلفائے راشدین کا کردار رسالتؐ پر یقین اور عمل کے اسی جذبے کی سچی تصویر تھا۔
اس قسم کے لاتعداد واقعات سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام امن و سلامتی، بھائی چارے اور برابری کا مذہب ہے، فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور دہشت گردی کا اسلام سے دور کا واسطہ نہیں۔ قیدیوں، بچوں، غلاموں، خواتین، مذہبی اقلیت سے متعلق اقوام عالم کے جو اعلامیے ہیں ان پر صدیوں پہلے نبیؐ نے عمل کرکے دکھایا اور رائج کیا جس کی پیروی بعد میں آنے والے مسلمان حکمرانوں نے بھی جاری رکھی۔ آج کل ایک منظم سازش کے تحت اسلام اور پیغمبر اسلام سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں، جس کے لیے نام نہاد مسلمانوں کو بھی استعمال میں لایا جارہا ہے۔
جس میں سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے لوگ شامل ہیں۔ ان کے علاوہ کاسمیٹک اور میڈیائی مولویوں کی خدمات کو بھی بروئے کار لایا جارہا ہے۔ گزشتہ ایک دہائی سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی ذات اقدس کو فلموں، خاکوں اور تحریروں سے مسخ کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔ زرق برق، روشن خیال، نام نہاد اسلامی اسکالرز اسلام کے Mis guided missiles کا کردار ادا کر رہے ہیں اور اسلام کو شوبزنس اور ماڈلنگ کی طرز میں پیش کیا جارہا ہے، لیکن مسلمانوں کے جسم میں روح محمدؐ اب بھی باقی ہے۔ ایک طرف علم دین اور عامر چیمہ جیسے کردار سامنے آتے رہتے ہیں تو دوسری طرف قومی اسمبلی کا اسپیکر یہ کہنے میں ذرا نہیں چوکتا کہ ''شاتم رسول میرے سامنے آیا تو اسے قتل کردوں گا، اعجاز الحق بھی گستاخ کو ہلاک کرنے کو جائز قرار دے دیتے ہیں۔ بشیر بلور کی طرف سے گستاخ کے سر کی قیمت مقرر کرنا یا ایرانی حکومت کی طرف سے سلمان رشدی کے قتل پر انعام کا اعلان اسی جذبے کی عکاسی کرتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے واضح حکم فرمایا ہے کہ اﷲ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو، جب کہ رسول اکرمؐ نے آخری خطبے میں واضح طور پر فرما دیا ہے، جو حکم اور وصیت دونوں کا درجہ رکھتا ہے کہ ''میں تمہارے درمیان قرآن اور سنت چھوڑے جارہا ہوں''۔ آپؐ نے سب سے پہلے اپنے چچا حضرت حمزہ کا خون معاف فرما کر عفو و درگزر کی مثال قائم کی اور فرما دیا، کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں، سوائے تقویٰ کے۔ لہٰذا حب رسولؐ کا تقاضا ہے کہ اتباع رسول میں تمام تر فروعی اختلافات، ترجیحات انا اور عناد کو ترک کرکے، ذات و شخصیات کی نفی کرکے قرآن اور سنت کو اپنایا جائے اور خلفا کے کردار و عمل سے بھی رہنمائی حاصل کی جائے۔ دودھ پینے والے مجنوں کے بجائے خون دینے والے مجنوں کا کردار ادا کیا جائے کیونکہ حدیث مبارکہ ہے کہ کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ رسولؐ کی ذات اقدس اپنے اہل و عیال اور مال و اسباب سے معتبر نہ جانے، یہ رحمت اللعالمینؐ سے سچی محبت کا تقاضا اور ایمان کی بنیاد ہے۔