اخلاقیات کہاں سے آتی ہیں
تاریخ میں کچھ نام ایسے ملتے ہیں جن کا اخلاق بلند ترین معیار ہے۔
عصر نو میں سیاسی، معاشرتی، معاشی، سماجی ہر معاملے میں اخلاقیات کا بہت اہم کردار ہے، اس کے بغیر کسی بھی نوعیت کی کوشش درست محسوس نہیں ہوتی، اور یہ بات کافی حد تک درست نظر آتی ہے۔ معلوم تاریخ میں جتنے بھی نظام ترتیب پائے ہیں ان کی بنیاد مجموعی طور پراخلاقیات ہی ہے، الہامی اور غیر الہامی مذاہب میں بھی ان کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔
دنیا کا جدید نظام بھی 'بظاہر' اخلاقیات کا نمونہ نظر آتا ہے۔ مشرقی انسان جس طرح مغرب کے مناظر دیکھ کر مبہوت ہوتا ہے وہیں بسا اوقات وہاں کے اخلاقی نظام سے بھی شدید متاثر ہو آتا ہے اور کامیابی کے تمام گُر اس ہی سلسلے سے ترتیب دینے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تمام اخلاقیات کا درجہ برابر ہوتا ہے اور یہ کہ اخلاقیات کہاں سے آتی ہیں؟ کیا انسانوں کے تیار شدہ قانونی اور اخلاقی معاملات خدا کے ترتیب دیے ہوئے اخلاقی نظام سے یکساں ہیں؟ اور کیا ان کے لیے کسی خارجی رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے یا پھر یہ انسان اپنی ذات کے فیصلوں سے بھی اس مقامِ اخلاقیات تک کا سفر کر سکتا ہے جو خدا کی عطا کر دہ ہیں؟
تاریخ میں کچھ نام ایسے ملتے ہیں جن کا اخلاق بلند ترین معیار ہے، تمام اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور نیت کا معاملہ ایک 'خاص قسم' کی رہنمائی کی طرف اور یہ رہنمائی 'عقائد' سے وابستہ ہوتی ہے، اور یہ ہی دونوں چیزیں مذہب کی فراہم کردہ ہیں، اس کے بغیر کوئی بھی عمل ناقص ہے اور انسان کی ذاتی کوشش کا نتیجہ اور بے اجر ہے۔ عہد حاضر کے تمام اخلاقی نظام اسی 'بے اجری' کا شکار اور کسی بھی قسم کی روحانیت سے خالی ہیں، کیونکہ ان کے پیچھے کوئی 'خارجی' رہنمائی موجود نہیں ہے بلکہ یہ صرف ایک 'عقلی جذبہ' کے تحت انجام دیے جاتے ہیں۔
اب اس جذبے کو سو میں سے جتنے بھی نمبر عطا کردیے جائیں ان کا انجام دنیا کے علاوہ کہیں نہیں ہے جب کہ عقیدے اور ایمان کے ساتھ چھوٹا سے عمل بھی بڑے بڑے کارناموں پر حاوی آجاتا ہے، ایک شخص کلمہ ادا کرتا ہے اور تلوار اٹھا کر جنگ میں شریک ہوتا ہے اور جان مالک کے حضور پیش کردیتا ہے اور جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اب کوئی مسلمان یہ سوال کرے کہ اس بندے نے تو کوئی عمل کیا ہی نہیں ہے، اس کو جنت کا حق دار کیوں ٹھہرا دیا گیا؟ اس کو تو عبادات کا علم نہیں، نماز، روزہ، حج زکوٰۃ تو کچھ پورے نہیں کیے، انسانوں اور مذاہب کا احترام تو سیکھا نہیں، عائلی زندگی کس طرح برتنی ہے، معلوم نہ تھا، معاشی معاملات کا تو اس کو خیال بھی نہیں گزرا تھا، سڑک کا حق، پڑوسی کے حق کا فرق بھی پتہ نا تھا، تو پھر یہ جنت میں کس طرح گیا؟ تو یقیناً سوال کرنے والے کی نیت کا فتور اور درجہ ایمان کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔
موجودہ عہد اس طرح کے سوالات سے بھرا پڑا ہے اور ان سوالات کی بڑی وجہ مغرب کی تما م چیزوں کو ظاہری طور پر دیکھنا اور ان کو اسی طرح سمجھنا ہے جس طرح وہ مسلمان معاشروں میں رائج رہی ہیں، اور اس میں سب سے اہم شے اخلاقیات ہیں جس کی ظاہری شکل و صورت نے بہتوں کو گمراہ کیا۔ مغرب میں رائج نظام اخلاقیات کی بنیادیں 'جرمانے' کے تحت کام کرتی ہیں، چند کیمرے کی آنکھوں یا پھر کسی مشینی انداز کے سسٹم کے ذریعے نظر رکھ کر نافذ کی جاتی ہیں جو کہ ہر وقت انسان کو پکڑے جانے کے خوف میں مبتلا رکھتا ہے، جب کہ اسلام کا سارا نظام، جزا وسزا کے تصور پر تعمیر ہے۔ دنیا میں بچ جانے کے باوجود آخرت کی جواب دہی تمام جرمانوں پر بھاری ہے۔
ہمارے معاشرے میں آج کل ایک نظریے کا بڑے پیمانے پر آغاز ہوا ہے کہ عبادات، نماز، روزے، حج، زکوٰۃ کے ذریعے سے صرف خدا کو راضی نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ اخلاقیات کا بھی معیار بہت بلند ہو، جب تک اس معراج کو نہیں پہنچیں گے کامیابی کا سوال نہیں ہوگا۔ اس نظریے کے حامل حضرات کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اخلاقیات کا مرکز انسان کی 'ذات' ہے اور اگر چند انسان مل کر کوئی اخلاقی نظام ترتیب دے لیتے ہیں تو وہ 'آفاقی' ہوجاتا ہے۔ مغرب نے تمام اخلاقی نظام کی بنیاد خدا کو نکال کر رکھی ہے، جب آپ یہ کہتے ہیں کہ وہاں کے لوگ اس معیار پر پورے اترتے ہیں جن کی توقع اﷲ تعالی مسلمانوں سے کرتا ہے تو آپ انتہائی معصومیت کے ساتھ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ اخلاقیات کا کوئی پیمانہ خدا نے تخلیق نہیں کیا ہے بلکہ انسانی ذہن کے ارتقا اور وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ انسانوں نے زندگی گزارنے کے چند اصول مختص کرلیے اور ان کی بدولت زندگی بہت خوبصورت انداز کے ساتھ گزاری جاسکتی ہے، یعنی انسان کو کسی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے وہ 'خیروشر' کے درمیان خود تمیز کر سکتا ہے، اگر اخلاقیات ہی صرف دین ہوتا تو نبی کی ہدایت اور الہامی کتابوں کی ضرورت نہ ہوتی۔
عیسائی راہب ہرقل کا اس بات کا اعلان کہ ہاں یہ نبی سچا ہے، حضرت ابوبکرؓ کا معراج کے موقع پر آپ کی صداقت کی گواہی دینا کیا یکساں ہے۔ ہاں ہمارا ایمان ہے اﷲ کی ذات چاہے تو کسی کو بھی بخش سکتی ہے لیکن ساتھ ساتھ قرآن ہی کا واضح حکم ہے کہ یہ رعایت کلمہ گو مسلمان کے لیے ہے، نیکی بھی اس وقت تک نیکی ہے جب تک وہ ہدایت کی رہنمائی میں ہو، رمضان کے روزے فرض ہیں، عید کے دن حرام ہوجاتا ہے، اور حرام اس لیے نہیں کہ عیدکا دن ہے، اس لیے کہ یہ 'حکم' ہے۔حسن عسکری مرحوم نے رینے گینوں کے افکار پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا تھا کہ جدید تعلیم یافتہ حضرات جب مغرب کے اخلاقی نظام کی تعریف کریں تو ہمارے علمائے اکرام کو چاہیے کہ خاص احتیاط کریں، گورے سے مرعوبیت بہت پرانی ہے ہر دور میں کچھ لوگوں نے یہ کوشش کی ہے کہ ثابت کردیا جائے ۔
جس طرح وہ دنیا کی تعمیر و ترقی میں ہم مسلمانوں سے بہت آگے ہیں ممکن ہو آخرت میں بھی آگے نکل جائیں، اس رویے نے دو سو سال کی تاریخ میں لاکھوں صفحے کالے کروائے ہیں لیکن امت کے ایمان میں کمزروی کے باوجود اس سوچ کو قبولیت عام حاصل نہیں ہوئی اور نہ ہوگی۔ رہی بات کہ اﷲ تعالی ان کی اخلاقی خوبیوں کا کیا صلہ دے گا، تو اس بات پر متتفقہ رائے اہل علم کی یہ پائی جاتی ہے کہ ان کے بہترین اعمال کا نتیجہ ان کو دنیا میں سکون اور آرام و آسائش کی صورت میں دے دیا جاتا ہے، آخرت میں تب بھی کچھ نہیں رکھا جاتا۔ دوسری طرف مسلمان کی تمام تر کوششوں کا حاصل آخرت کی کامیابی ہے، اور جہاں تک بات ہے کہ ہمارے علما کرام اس طرح کے سوالات کا جواب کیوں نہیں دیتے، اس کی وجہ یہ ہے کے ایک آدمی نے امام مالکؒ سے اﷲ تعالیٰ کے عرش کے متعلق عجیب وغریب سوالات کیے، انھوں نے جواب دینے کے بجائے سر کو جھکا لیا اور تھوڑی دیرکے بعد انتہائی غم کی حالت میں کہا کہ یہ شخص مجھے گمراہوں میں سے نظر آتا ہے اس کو ہماری مجلس سے رخصت کردیا جائے۔ آج بھی کچھ لوگ اس طرح کے سوالات لے کر حاضر ہوتے ہیں مگر وہ خوش نصیب ہیں کیونکہ انھیں مسکرا کر ٹال دیا جاتا ہے، شاید اس لیے کہ ہدایت کا دروازہ ابھی ان کے لیے بند نہیں ہوا۔