سیرت رسولؐ تاریخ کے تناظر میں
ڈاکٹر معین الحق کی کتاب ان کے انتقال کے بعد چھپی اور سیرت پر اس سال کی بہترین کتاب قرار دی گئی
ڈاکٹر سید معین الحق کو یہ احساس تھا کہ سیرت رسول اﷲ ؐ پر کسی مسلمان مصنف کی ایک جامع تالیف انگریزی میں ان مسلمان نوجوانوں کے لیے وقت کا تقاضا ہے جنہوں نے مغربی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان نوجوانوں کے لیے جن کی تعداد بڑھتی جارہی ہے یہ جاننا ضروری ہے کہ دور اولین کے مسلمان مورخوں اور علما نے رسول اﷲ ؐ کی سیرت پر کیا لکھا ہے اور آپؐ کے حالات اور واقعات کی کس طرح تشریح کی ہے اور ان کے بارے میں راسخ العقیدہ مسلمانوں کا نقطہ نظر کیا ہے۔ اس سوچ نے ڈاکٹر صاحب کو یہ فیصلہ کرنے پر آمادہ کیا کہ وہ یہ کام خود کریں گے۔ ان کی کتاب ''محمدؐ لائف اینڈ ٹائم'' اسی سوچ کا نتیجہ ہے۔
ڈاکٹر معین الحق کا تعلق شمالی ہند کے ایک علمی اور صوفی خانوادے سے تھا۔ وہ خود بھی علم کے جویا تھے۔ خاندانی روایات کی پیروی میں انھوں نے پوری عمر تاریخ کی تحقیق کی نذر کردی اور تشنگان علم کے لیے ایک بڑا علمی سرمایہ چھوڑ گئے۔ وہ لکھتے ہیں: ''قرآن اﷲ کا کلام ہے جو محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر وحی ہوا اور یہ اﷲ کے رسولؐ کی زندگی، ان کے کردار اور ان کے کارناموں کی سچی اور حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو کچھ اﷲ کے رسولؐ پر وحی کے ذریعے نازل ہوا ہے یا آیات قرآنی کی تشریح کے طور پر جس کی تلقین کی گئی ہے اس کا اظہار بھی حضورؐ کی عملی زندگی یعنی سنت رسولؐ سے ہوتا ہے۔ اس طرح قرآن رسول اﷲ ؐ کی سیرت نگاری کے لیے بنیادی ماخذ ہے لیکن قرآن میںآپؐ کی سیرت کے جو حوالے ہیں وہ مختصر ہیں، صرف چند صورتوں میں تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اس کیتفصیل احادیث، کتب سیرت اور تفاسیر قرآن میں بخوبی مل جاتی ہے جو سیرت رسولؐ کے دوسرے ماخذ ہیں۔ ان کے علاوہ اسماء الرجال جیسے اسلامی علوم بھی مطالعہ سیرت کے لیے کافی معلومات فراہم کرتے ہیں''۔
مسلمان سیرت نگاروں نے ان ہی ماخذ کی بنیاد پر رسول اﷲ ؐ کی سیرت بیان کی ہے اور ان کی ہی بنیاد پر آپؐ کے عمل کی تشریح و توضیح کی ہے۔ آپؐ دنیا کے تمام انسانوں سے افضل تھے۔ آپؐ کی ہستی نہ صرف سب انسانوں سے ارفع و اعلیٰ تھی بلکہ آپؐ اﷲ کے آخری رسول تھے۔
ڈاکٹر معین الحق لکھتے ہیں: ''تاریخ کے ایک طالب علم کو مغربی اہل قلم کی تصانیف اور مسلمان سیرت نگاروں کی تحریروں میں رسول اﷲ ؐ کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو کوئی رسول اﷲ ؐ کی زندگی کی پوری اور سچی تصویر پیش کرنا چاہتا ہے اس کو اس یقین کے ساتھ قلم اٹھانا پڑے گا کہ آپؐ پر حضرت جبرئیلؑ کے ذریعے وحی الٰہی کا نزول ہوتا تھا اور یہ کہ رسول اﷲ ؐ کی شخصیت کے روحانی پہلو کو آپؐ کی مادی زندگی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بات ضروری ہے کہ ان مسائل پر قرار واقعی زور دیا جائے جن کا تعلق بحیثیت رسول آپؐ کے کردار سے ہے یا وہ اس پر منتج ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو مادہ پرست لوگوں کو اساطیری نظر آئیں گے جیسے روح کا وجود اور اس کا لافانی ہونا، انسان کی اس دنیا میں زندگی کا اگلی دنیا کی زندگی سے تعلق، اخلاقی لغزشوں اور بداعمالیوں کی سزا اور یہ تصور کہ ان بنیادی قوانین کا سرچشمہ ذات خداوندی ہے جو اسلامی عقیدے اور اسلامی معاشرے کے نظریاتی ڈھانچے کی خصوصیات ہیں''۔
رسول اﷲ ؐ کے غیر مسلم سیرت نگاروں کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ آپؐ کو رسول تسلیم نہیں کرتے اور آپؐ کے روحانی پہلوؤں اور خدائے واحد سے آپؐ کے براہ راست تعلق کو نہیں مانتے۔ اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ قرآن آپؐ کی تصنیف ہے۔ ایسے معاملوں میں جہاں آپؐ نے کوئی پیش گوئی فرمائی ہے یا کوئی ایسی بات کہی ہے جس کے بارے میں آپؐ کی معلومات کا بظاہر کوئی ذریعہ نہیں تھا، وہ حقائق کی الٹی سیدھی توضیحات پیش کرتے ہیں یا پھر یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ یہ روایتیں بعد میں گھڑ لی گئی ہیں، یا ان میں تحریف ہوئی ہے۔ یہ بات ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ رسول اﷲ ؐ کی زندگی کی سچی اور مکمل عکاسی اس وقت تک کیسے ہوسکتی ہے جب تک اس مشن کو جس کی تکمیل کے لیے اپؐ کو اﷲ تعالیٰ نے مبعوث کیا تھا اچھی طرح سمجھ نہ لیا جائے۔ رسول اﷲ ؐ کے سیرت نگار کو آپ کے روحانی اور پیغمبرانہ کردار کو ایک تاریخی حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔
اسی طرح رسول اﷲ ؐ کی سیرت نگاری کے لیے جو دوسرا ماخذ ہے یعنی صحیح اور معتبر حدیثوں کا مجموعہ اور جس سے اولین سیرت نگاروں نے اپنی تصانیف کے لیے لٹریچر حاصل کیا ہے اسے تسلیم کرنا ہوگا۔ مغربی نقادوں کا اپنی تحریروں میں عام رجحان یہ ہے کہ وہ بعض حدیثوں کے متن کو اس لیے ناقابل قبول کہہ دیتے ہیں کہ ان کا موضوع ان کے خیالات اور تعصبات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
ڈاکٹر معین الحق لکھتے ہیں: ''اسلام پر لکھنے والے بعض بہت مشہور مغربی اسکالروں نے اصلی حدیث لٹریچر کی صداقت کے بارے میں جو خیالی اور احمقانہ تصریحات پیش کی ہیں اور جو ناروا عمومی انداز اختیار کیا ہے اگر اس کو قبول کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کے ابتدائی دور کی ساری تاریخ جھوٹ کا پلندہ ہے اور سبھی راوی اور علمائے حدیث چاہے وہ کتنے ہی سچے اور نیکوکار ہوں اور اپنی تحقیق و تفتیش میں انھوں نے خواہ کتنی ہی جانفشانی کیوں نہ کی ہو، بے اصول اور دروغ گو تھے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کو جو چیز حیرت میں ڈالتی ہے وہ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ اصلی حدیث لٹریچر پر معاندانہ تنقید کرنے والے ان ہی مغربی اسکالروں نے اسی لٹریچر کو ماخذ بناکر اس دور کے بارے میں کتابوں پر کتابیں لکھ ڈالی ہیں''۔
ڈاکٹر معین الحق نے اپنی کتاب میں اسلامی تاریخ کے طالب علموں اور عام قارئین کے لیے مستند ماخذ اور اسلام کے اولین دور سے تعلق رکھنے والے مسائل کی تشریحات پر مبنی رسول اللہؐ کی ایک جامع سوانح عمری پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام کا اولین دور ہر نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ کا سب سے درخشاں باب ہے۔ گزشتہ 14 سو سال میں اسلامی تہذیب و تمدن کی آبیاری اسی دور کی رہین منت ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے 1960 کی دہائیوں سے ہی سیرت پاکؐ پر تحقیق اور مطالعے کا کام شروع کردیا تھا اور اپنی علمی زندگی کے آخری سال اس مشن ہی کی تکمیل میں صرف کردیے۔ ڈاکٹر انصار زاہد جو معین الحق صاحب کے ساتھ کام کر رہے تھے بیان کرتے ہیں کہ جب انھوں نے اس کتاب کو تحریر کرنا شروع کیا تو باوضو ہوکر روزانہ پانچ گھنٹے پوری توجہ اور تن دہی سے کام کرتے، اس دوران انھیں عارضہ قلب بھی ہوا لیکن کام جاری رہا۔ مسودہ مکمل ہوا، ٹائپ بھی ہوا۔ انھوں نے ایک بار پڑھ بھی لیا۔ پھر یہ کام جس دن مکمل ہوا اور انھوں نے پیش لفظ کے طور پر ایک پیرا بھی لکھ لیا تو اس کے دوسرے دن جمعہ کی اذان کے ساتھ انھوں نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
ڈاکٹر معین الحق کی کتاب ان کے انتقال کے بعد چھپی اور سیرت پر اس سال کی بہترین کتاب قرار دی گئی اور صدارتی ایوارڈ کی مستحق ٹھہری۔ اب اس کتاب کا اردو میں بھی ترجمہ ہوگیا ہے۔
ڈاکٹر معین الحق کا تعلق شمالی ہند کے ایک علمی اور صوفی خانوادے سے تھا۔ وہ خود بھی علم کے جویا تھے۔ خاندانی روایات کی پیروی میں انھوں نے پوری عمر تاریخ کی تحقیق کی نذر کردی اور تشنگان علم کے لیے ایک بڑا علمی سرمایہ چھوڑ گئے۔ وہ لکھتے ہیں: ''قرآن اﷲ کا کلام ہے جو محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر وحی ہوا اور یہ اﷲ کے رسولؐ کی زندگی، ان کے کردار اور ان کے کارناموں کی سچی اور حقیقی تصویر پیش کرتا ہے۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ جو کچھ اﷲ کے رسولؐ پر وحی کے ذریعے نازل ہوا ہے یا آیات قرآنی کی تشریح کے طور پر جس کی تلقین کی گئی ہے اس کا اظہار بھی حضورؐ کی عملی زندگی یعنی سنت رسولؐ سے ہوتا ہے۔ اس طرح قرآن رسول اﷲ ؐ کی سیرت نگاری کے لیے بنیادی ماخذ ہے لیکن قرآن میںآپؐ کی سیرت کے جو حوالے ہیں وہ مختصر ہیں، صرف چند صورتوں میں تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ اس کیتفصیل احادیث، کتب سیرت اور تفاسیر قرآن میں بخوبی مل جاتی ہے جو سیرت رسولؐ کے دوسرے ماخذ ہیں۔ ان کے علاوہ اسماء الرجال جیسے اسلامی علوم بھی مطالعہ سیرت کے لیے کافی معلومات فراہم کرتے ہیں''۔
مسلمان سیرت نگاروں نے ان ہی ماخذ کی بنیاد پر رسول اﷲ ؐ کی سیرت بیان کی ہے اور ان کی ہی بنیاد پر آپؐ کے عمل کی تشریح و توضیح کی ہے۔ آپؐ دنیا کے تمام انسانوں سے افضل تھے۔ آپؐ کی ہستی نہ صرف سب انسانوں سے ارفع و اعلیٰ تھی بلکہ آپؐ اﷲ کے آخری رسول تھے۔
ڈاکٹر معین الحق لکھتے ہیں: ''تاریخ کے ایک طالب علم کو مغربی اہل قلم کی تصانیف اور مسلمان سیرت نگاروں کی تحریروں میں رسول اﷲ ؐ کی زندگی کے حالات کا مطالعہ کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو کوئی رسول اﷲ ؐ کی زندگی کی پوری اور سچی تصویر پیش کرنا چاہتا ہے اس کو اس یقین کے ساتھ قلم اٹھانا پڑے گا کہ آپؐ پر حضرت جبرئیلؑ کے ذریعے وحی الٰہی کا نزول ہوتا تھا اور یہ کہ رسول اﷲ ؐ کی شخصیت کے روحانی پہلو کو آپؐ کی مادی زندگی سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔
یہ بات ضروری ہے کہ ان مسائل پر قرار واقعی زور دیا جائے جن کا تعلق بحیثیت رسول آپؐ کے کردار سے ہے یا وہ اس پر منتج ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں سے بہت سے مسائل ایسے ہیں جو مادہ پرست لوگوں کو اساطیری نظر آئیں گے جیسے روح کا وجود اور اس کا لافانی ہونا، انسان کی اس دنیا میں زندگی کا اگلی دنیا کی زندگی سے تعلق، اخلاقی لغزشوں اور بداعمالیوں کی سزا اور یہ تصور کہ ان بنیادی قوانین کا سرچشمہ ذات خداوندی ہے جو اسلامی عقیدے اور اسلامی معاشرے کے نظریاتی ڈھانچے کی خصوصیات ہیں''۔
رسول اﷲ ؐ کے غیر مسلم سیرت نگاروں کے ساتھ یہ مسئلہ ہے کہ وہ آپؐ کو رسول تسلیم نہیں کرتے اور آپؐ کے روحانی پہلوؤں اور خدائے واحد سے آپؐ کے براہ راست تعلق کو نہیں مانتے۔ اسی وجہ سے وہ کہتے ہیں کہ قرآن آپؐ کی تصنیف ہے۔ ایسے معاملوں میں جہاں آپؐ نے کوئی پیش گوئی فرمائی ہے یا کوئی ایسی بات کہی ہے جس کے بارے میں آپؐ کی معلومات کا بظاہر کوئی ذریعہ نہیں تھا، وہ حقائق کی الٹی سیدھی توضیحات پیش کرتے ہیں یا پھر یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ یہ روایتیں بعد میں گھڑ لی گئی ہیں، یا ان میں تحریف ہوئی ہے۔ یہ بات ان کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ رسول اﷲ ؐ کی زندگی کی سچی اور مکمل عکاسی اس وقت تک کیسے ہوسکتی ہے جب تک اس مشن کو جس کی تکمیل کے لیے اپؐ کو اﷲ تعالیٰ نے مبعوث کیا تھا اچھی طرح سمجھ نہ لیا جائے۔ رسول اﷲ ؐ کے سیرت نگار کو آپ کے روحانی اور پیغمبرانہ کردار کو ایک تاریخی حقیقت کے طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔
اسی طرح رسول اﷲ ؐ کی سیرت نگاری کے لیے جو دوسرا ماخذ ہے یعنی صحیح اور معتبر حدیثوں کا مجموعہ اور جس سے اولین سیرت نگاروں نے اپنی تصانیف کے لیے لٹریچر حاصل کیا ہے اسے تسلیم کرنا ہوگا۔ مغربی نقادوں کا اپنی تحریروں میں عام رجحان یہ ہے کہ وہ بعض حدیثوں کے متن کو اس لیے ناقابل قبول کہہ دیتے ہیں کہ ان کا موضوع ان کے خیالات اور تعصبات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
ڈاکٹر معین الحق لکھتے ہیں: ''اسلام پر لکھنے والے بعض بہت مشہور مغربی اسکالروں نے اصلی حدیث لٹریچر کی صداقت کے بارے میں جو خیالی اور احمقانہ تصریحات پیش کی ہیں اور جو ناروا عمومی انداز اختیار کیا ہے اگر اس کو قبول کرلیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلام کے ابتدائی دور کی ساری تاریخ جھوٹ کا پلندہ ہے اور سبھی راوی اور علمائے حدیث چاہے وہ کتنے ہی سچے اور نیکوکار ہوں اور اپنی تحقیق و تفتیش میں انھوں نے خواہ کتنی ہی جانفشانی کیوں نہ کی ہو، بے اصول اور دروغ گو تھے۔ تاریخ کے ایک طالب علم کو جو چیز حیرت میں ڈالتی ہے وہ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ اصلی حدیث لٹریچر پر معاندانہ تنقید کرنے والے ان ہی مغربی اسکالروں نے اسی لٹریچر کو ماخذ بناکر اس دور کے بارے میں کتابوں پر کتابیں لکھ ڈالی ہیں''۔
ڈاکٹر معین الحق نے اپنی کتاب میں اسلامی تاریخ کے طالب علموں اور عام قارئین کے لیے مستند ماخذ اور اسلام کے اولین دور سے تعلق رکھنے والے مسائل کی تشریحات پر مبنی رسول اللہؐ کی ایک جامع سوانح عمری پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسلام کا اولین دور ہر نقطہ نظر سے اسلامی تاریخ کا سب سے درخشاں باب ہے۔ گزشتہ 14 سو سال میں اسلامی تہذیب و تمدن کی آبیاری اسی دور کی رہین منت ہے۔
ڈاکٹر صاحب نے 1960 کی دہائیوں سے ہی سیرت پاکؐ پر تحقیق اور مطالعے کا کام شروع کردیا تھا اور اپنی علمی زندگی کے آخری سال اس مشن ہی کی تکمیل میں صرف کردیے۔ ڈاکٹر انصار زاہد جو معین الحق صاحب کے ساتھ کام کر رہے تھے بیان کرتے ہیں کہ جب انھوں نے اس کتاب کو تحریر کرنا شروع کیا تو باوضو ہوکر روزانہ پانچ گھنٹے پوری توجہ اور تن دہی سے کام کرتے، اس دوران انھیں عارضہ قلب بھی ہوا لیکن کام جاری رہا۔ مسودہ مکمل ہوا، ٹائپ بھی ہوا۔ انھوں نے ایک بار پڑھ بھی لیا۔ پھر یہ کام جس دن مکمل ہوا اور انھوں نے پیش لفظ کے طور پر ایک پیرا بھی لکھ لیا تو اس کے دوسرے دن جمعہ کی اذان کے ساتھ انھوں نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
ڈاکٹر معین الحق کی کتاب ان کے انتقال کے بعد چھپی اور سیرت پر اس سال کی بہترین کتاب قرار دی گئی اور صدارتی ایوارڈ کی مستحق ٹھہری۔ اب اس کتاب کا اردو میں بھی ترجمہ ہوگیا ہے۔