چہرے نہیں سماج کو بدلو
آزادیاں تو حاصل کرلیں، اب تو مسائل حل ہوجانے چاہیے تھے۔ مگر ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ نظام نہیں بدلا۔ نظام کیا ہے؟
ریاستیں بنتی، بگڑتی، ٹوٹتی، بکھرتی اور جڑتی رہی ہیں۔ برصغیر ٹوٹ کر ہندوستان تک رہ گیا۔ ہندوستان ٹوٹ کر پاکستان بنا۔ اس عمل میں 28 لاکھ لوگ مارے گئے۔ پھر پاکستان ٹوٹ کر بنگلہ دیش بنا، جس میں لاکھوں لوگ مارے گئے۔ پھر لگتا ہے کہ بنگلہ دیش میں چکمہ علیحدگی چاہتے ہیں اور یہاں بھی لوگ مارے جارہے ہیں۔ عرب سامراج سے ترکی نے آزادی حاصل کی، اس عمل میں بھی بہت لوگ مارے گئے۔ اب وہی ترک حکمران کردوں کو مار رہے ہیں۔
ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ترکی بظاہر آزاد تو ہوگئے مگر ان ممالک میں بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، لاعلاجی، بے روزگاری اور بے گھری پہلے سے زیادہ آب و تاب سے براجمان ہے۔ آخر کیوں؟ آزادیاں تو حاصل کرلیں، اب تو مسائل حل ہوجانے چاہیے تھے۔ مگر ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ نظام نہیں بدلا۔ نظام کیا ہے؟ نظام یہ نہیں ہے کہ بش گئے، اوباما آگئے، قانسی چولر گئیں اور ارزگان آگئے، مجیب گئے تو ضیاالرحمن آگئے، نوازشریف گئے اور زرداری آگئے۔ یہ تو چہروں کی تبدیلیاں ہوئیں، نظام کا مطلب کیفیتی تبدیلی ہے۔
یعنی سرمایہ داری کو دفن کرکے ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہوگا جہاں ریاست صدارت، وزارت، عدالت، فوج، اسمبلی کا خاتمہ بالخیر ہو۔ عوام اپنے طور پر ریاست اور ان کے کارندوں سے بہتر طور پر سماج کو چلاسکتے ہیں۔ کشمیر میں جب زلزلہ آیا تھا اس وقت دنیا بھر سے امداد آئی جب کہ ان امدادی اشیاء اور رقوم پر ریاستی ادارے ٹوٹ پڑے اور بعد میں یہ امدادی سامان بازاروں میں فروخت ہوتا ہوا نظر آیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عوام ہی عوام کے لیے مددگار اور کارآمد بنتے ہیں جب کہ ریاست لوٹ مار کی آلہ کار ہے۔ اختیار، اقتدار، مال غنیمت، ہیروئن، اسلحہ کا بیوپار اور بھتہ خوری میں زیادہ حصے داری کے لیے یہ آپس میں الجھ جاتے ہیں۔
انقلابی دانشور ڈاکٹر لال خان نے ''پاکستان کی اصل کہانی'' نامی معرکۃالآراء کتاب میں ایک مقام پر یہ کہا کہ 1968-69 میں 139 دن ریاست خلا میں معلق تھی۔ سڑکوں، بازاروں، گلی کوچوں اور ذرایع آمدورفت غرض یہ کہ ہر چیز پر عوام کا قبضہ تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاست کے بغیر سماج نہ صرف چل سکتا ہے بلکہ بہتر طور پر چل سکتا ہے۔ جب 18 کروڑ عوام فوجی تربیت حاصل کرچکے ہوں گے تو پھر تنخواہ دار فوج کی کیا ضرورت ہوگی ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکمران طبقات کے دونوں دھڑے (برسر اقتدار اور اقتدار سے محروم) پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے ہچکچاہٹ، تذبذب اور خوف کا شکار رہتے ہیں۔ انھیں شاویز، چی گویرا، کاسترو، کم ال سنگ، ٹیسٹو، لفوان، ناصر، ہوچی منہ، قذافی، ترکئی اور حافظ الاسد کی طرح جرأت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے سامراجی سرمایے کی ضبطگی کی ہمت نہیں ہوتی۔
اسی لیے اپنی باری اور سامراجی مفادات کی تکمیل کے لیے تیار کھڑے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کاروں کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ پی پی یا مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آجائے گی، چونکہ پی پی پی میں ایسے کارکنان موجود ہیں جو طویل جدوجہد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے مہرے کے طور پر طاہر القادری اور پر عمران خان کو لائن میں لگائے رکھا ہوا ہے۔ دوسری جانب کراچی اور کوئٹہ میں مسلسل اَن دیکھے ہاتھوں نے خود اور کچھ پارٹیوں میں ان کے اپنے کارندوں کے ذریعے قتل و غارتگری کروائی جارہی ہے۔ ان عوامل میں صرف سیاسی پارٹیاں شامل نہیں بلکہ نوکر شاہی بھی شامل ہے۔ شاہ زیب کے قاتل شاہ رخ کو پکڑ لیا گیا ہے۔ مگر 2012-2008 تک کراچی میں 6000 سے زائد لوگوں کا ایک بھی قاتل نہیں پکڑا گیا۔
صحافی ولی بابر کے چھ گواہوں کو بھی چن چن کر مار دیا گیا۔کراچی آپریشن کے بیشتر پولیس افران مارے جاچکے ہیں، ان قاتلوں کی فوٹیج میڈیا کے پاس محفوظ ہونے کے باوجود قاتلوں کو سزا نہیں ملی۔ کوئٹہ میں گورنر راج قائم کرکے وہ کون سی جادوکی چھڑی ہے جس سے دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بلوچستان کو ساؤتھ کمانڈ رینجرز اور ایف سی کے حوالے کردیا گیا ہے جوکہ پہلے ہی سے تھا۔ اگر لشکر جھنگوی کا مرکز بولان اور مستونگ میں ہے تو وہاں آپریشن کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس دہشت گرد تنظیم کے سربراہ عثمان کو گرفتار کرکے قید میں رکھا گیا اور پھر کہا گیا کہ وہ بھاگ گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے بھاگا؟ بلوچستان میں معدنیات کے مفادات کے لیے نہ صرف سردار، جنرلز اور سیاسی لیڈران ہی حصے داری کے لیے ٹکراؤ میں ہیں بلکہ بیرونی ممالک امریکا، چین، انڈیا اور افغانستان کی نہ صرف گہری دلچسپی ہے بلکہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے مسلسل مداخلت بھی کرتے ہیں، رقم خرچ کرتے ہیں یہاں تک کہ حالات کو بدلنے میں معاونت بھی کرتے ہیں۔
کچھ حالات یوں بنتے جارہے ہیں کہ خفیہ ہاتھوں نے کوئٹہ، کراچی اور ملک بھر میں مار دھاڑ کے ذریعے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ عوام کو حقیقی انقلاب سے دور رکھا جاسکے۔ آئی جے آئی کو جتوانے کے لیے جنرلوں نے جو پیسے بانٹے اور عدالت نے جن تین جنرلوں کے خلاف فیصلہ بھی سنایا اس پر ابھی تک کوئی عمل نہیں ہوا۔ عدالتوں میں وکلا، اسٹاف کو رشوت دیے بغیر اپنا مقدمہ آگے نہیں بڑھاسکتے۔ طاہر القادری نے اپنی پوری تقریر میں کوئی غلط بات نہیں کی، مگر کرپشن کے سب سے بڑے اسباب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک (جو ایک ڈالر دے کر 14 ڈالر لے جاتے ہیں) پر چپ ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کے 300 مزدوروں اور کراچی بار کے کئی وکیلوں کو جلاکر مارنے والے قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔بلکہ کیس واپس لیے جانے کی اطلاع ہے، ان امور پر وہ سب خاموش ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اصلاحات کرنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں۔
آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور امریکا میں جب اصلاحات ناکام ہوچکی ہیں تو پھر پاکستان میں کیسے کامیاب ہوں گی۔ عوام ان حکمران طبقات کو خود مسترد کرتے جارہے ہیں اور متبادل کے طور پر جو عوام کو دھوکا دے رہے ہیں انھیں بھی عوام بے نقاب کررہے ہیں۔ کوئٹہ میں 120 شہریوں کے قتل کے خلاف پاکستان کے 80 شہروں میں مظاہرے ہوئے، کہیں بھی کسی نے تشدد کی راہ نہیں اپنائی۔ لاہور میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے پر بیٹھنے والوں سے جب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے نمایندے ملنے آئے تو عوام نے انھیں بھگادیا، یہ ہے عوام کا ردعمل۔ انتخابات سے بھی لوگ بیزار ہوچکے ہیں، محمود خان اچکزئی جنہیں ترقی پسند اور لبرل سمجھا جاتا ہے انھیں نگراں وزیراعظم کے لیے حکومت نے تجویز دی تو انھوں نے مسترد کردیا۔ محمود خان کے والد محترم عبدالصمد خان اچکزئی نے برصغیر کی آزادی میں حصہ لیا اور وہ معروف فریڈم فائٹر اور غفار خان کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اس لیے لوگوں کا محمود خان اچکزئی پر ایک حد تک اعتماد ہے، اسی لیے نگراں وزیراعظم کے لیے تجویز دی گئی تھی۔ یہ تمام تجاویز مسئلے کا حل نہیں۔ ریاست خود جبر کا ادارہ ہے۔ اگر انتخابات سے مسئلے حل ہوتے تو حکمراں کب کے انتخابات پر پابندی لگاچکے ہوتے۔ اس لیے مسئلے کا واحد حل ایک غیر طبقاتی، جدید سائنسی، امداد باہمی کے نظام میں مضمر ہے۔ جہاں کوئی ذخیرہ ہوگا اور نہ کوئی بھوکا مرے گا، دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے، صرف ایک ہی نسل انسانی ہوگی۔
(قارئین! میں گزشتہ مضامین کی کچھ توضیحات پیش کر رہا ہوں۔ انقلاب روس میں صرف 8 افراد مارے گئے جب کہ مضمون میں 8 ہزار افراد کے مرنے کے اعداد وشمار چھپے۔ پاکستان میں زچگی کے دوران ایک لاکھ 400 خواتین مرجاتی ہیں جب کہ مضمون میں ایک لاکھ 4000 خواتین کے پاکستان میں مرنے کی بات چھپی۔)
ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور ترکی بظاہر آزاد تو ہوگئے مگر ان ممالک میں بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، لاعلاجی، بے روزگاری اور بے گھری پہلے سے زیادہ آب و تاب سے براجمان ہے۔ آخر کیوں؟ آزادیاں تو حاصل کرلیں، اب تو مسائل حل ہوجانے چاہیے تھے۔ مگر ایسا اس لیے نہیں ہوا کہ نظام نہیں بدلا۔ نظام کیا ہے؟ نظام یہ نہیں ہے کہ بش گئے، اوباما آگئے، قانسی چولر گئیں اور ارزگان آگئے، مجیب گئے تو ضیاالرحمن آگئے، نوازشریف گئے اور زرداری آگئے۔ یہ تو چہروں کی تبدیلیاں ہوئیں، نظام کا مطلب کیفیتی تبدیلی ہے۔
یعنی سرمایہ داری کو دفن کرکے ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہوگا جہاں ریاست صدارت، وزارت، عدالت، فوج، اسمبلی کا خاتمہ بالخیر ہو۔ عوام اپنے طور پر ریاست اور ان کے کارندوں سے بہتر طور پر سماج کو چلاسکتے ہیں۔ کشمیر میں جب زلزلہ آیا تھا اس وقت دنیا بھر سے امداد آئی جب کہ ان امدادی اشیاء اور رقوم پر ریاستی ادارے ٹوٹ پڑے اور بعد میں یہ امدادی سامان بازاروں میں فروخت ہوتا ہوا نظر آیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ عوام ہی عوام کے لیے مددگار اور کارآمد بنتے ہیں جب کہ ریاست لوٹ مار کی آلہ کار ہے۔ اختیار، اقتدار، مال غنیمت، ہیروئن، اسلحہ کا بیوپار اور بھتہ خوری میں زیادہ حصے داری کے لیے یہ آپس میں الجھ جاتے ہیں۔
انقلابی دانشور ڈاکٹر لال خان نے ''پاکستان کی اصل کہانی'' نامی معرکۃالآراء کتاب میں ایک مقام پر یہ کہا کہ 1968-69 میں 139 دن ریاست خلا میں معلق تھی۔ سڑکوں، بازاروں، گلی کوچوں اور ذرایع آمدورفت غرض یہ کہ ہر چیز پر عوام کا قبضہ تھا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ ریاست کے بغیر سماج نہ صرف چل سکتا ہے بلکہ بہتر طور پر چل سکتا ہے۔ جب 18 کروڑ عوام فوجی تربیت حاصل کرچکے ہوں گے تو پھر تنخواہ دار فوج کی کیا ضرورت ہوگی ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ حکمران طبقات کے دونوں دھڑے (برسر اقتدار اور اقتدار سے محروم) پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں سے ہچکچاہٹ، تذبذب اور خوف کا شکار رہتے ہیں۔ انھیں شاویز، چی گویرا، کاسترو، کم ال سنگ، ٹیسٹو، لفوان، ناصر، ہوچی منہ، قذافی، ترکئی اور حافظ الاسد کی طرح جرأت مندی کا ثبوت دیتے ہوئے سامراجی سرمایے کی ضبطگی کی ہمت نہیں ہوتی۔
اسی لیے اپنی باری اور سامراجی مفادات کی تکمیل کے لیے تیار کھڑے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کاروں کو یہ یقین ہوگیا ہے کہ پی پی یا مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آجائے گی، چونکہ پی پی پی میں ایسے کارکنان موجود ہیں جو طویل جدوجہد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس لیے رنگ میں بھنگ ڈالنے کے لیے مہرے کے طور پر طاہر القادری اور پر عمران خان کو لائن میں لگائے رکھا ہوا ہے۔ دوسری جانب کراچی اور کوئٹہ میں مسلسل اَن دیکھے ہاتھوں نے خود اور کچھ پارٹیوں میں ان کے اپنے کارندوں کے ذریعے قتل و غارتگری کروائی جارہی ہے۔ ان عوامل میں صرف سیاسی پارٹیاں شامل نہیں بلکہ نوکر شاہی بھی شامل ہے۔ شاہ زیب کے قاتل شاہ رخ کو پکڑ لیا گیا ہے۔ مگر 2012-2008 تک کراچی میں 6000 سے زائد لوگوں کا ایک بھی قاتل نہیں پکڑا گیا۔
صحافی ولی بابر کے چھ گواہوں کو بھی چن چن کر مار دیا گیا۔کراچی آپریشن کے بیشتر پولیس افران مارے جاچکے ہیں، ان قاتلوں کی فوٹیج میڈیا کے پاس محفوظ ہونے کے باوجود قاتلوں کو سزا نہیں ملی۔ کوئٹہ میں گورنر راج قائم کرکے وہ کون سی جادوکی چھڑی ہے جس سے دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ بلوچستان کو ساؤتھ کمانڈ رینجرز اور ایف سی کے حوالے کردیا گیا ہے جوکہ پہلے ہی سے تھا۔ اگر لشکر جھنگوی کا مرکز بولان اور مستونگ میں ہے تو وہاں آپریشن کیوں نہیں کیا جاتا؟ اس دہشت گرد تنظیم کے سربراہ عثمان کو گرفتار کرکے قید میں رکھا گیا اور پھر کہا گیا کہ وہ بھاگ گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیسے بھاگا؟ بلوچستان میں معدنیات کے مفادات کے لیے نہ صرف سردار، جنرلز اور سیاسی لیڈران ہی حصے داری کے لیے ٹکراؤ میں ہیں بلکہ بیرونی ممالک امریکا، چین، انڈیا اور افغانستان کی نہ صرف گہری دلچسپی ہے بلکہ اپنے آلہ کاروں کے ذریعے مسلسل مداخلت بھی کرتے ہیں، رقم خرچ کرتے ہیں یہاں تک کہ حالات کو بدلنے میں معاونت بھی کرتے ہیں۔
کچھ حالات یوں بنتے جارہے ہیں کہ خفیہ ہاتھوں نے کوئٹہ، کراچی اور ملک بھر میں مار دھاڑ کے ذریعے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ عوام کو حقیقی انقلاب سے دور رکھا جاسکے۔ آئی جے آئی کو جتوانے کے لیے جنرلوں نے جو پیسے بانٹے اور عدالت نے جن تین جنرلوں کے خلاف فیصلہ بھی سنایا اس پر ابھی تک کوئی عمل نہیں ہوا۔ عدالتوں میں وکلا، اسٹاف کو رشوت دیے بغیر اپنا مقدمہ آگے نہیں بڑھاسکتے۔ طاہر القادری نے اپنی پوری تقریر میں کوئی غلط بات نہیں کی، مگر کرپشن کے سب سے بڑے اسباب آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک (جو ایک ڈالر دے کر 14 ڈالر لے جاتے ہیں) پر چپ ہیں۔ بلدیہ ٹاؤن کے 300 مزدوروں اور کراچی بار کے کئی وکیلوں کو جلاکر مارنے والے قاتلوں کو کوئی سزا نہیں ہوئی۔بلکہ کیس واپس لیے جانے کی اطلاع ہے، ان امور پر وہ سب خاموش ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سرمایہ داری میں رہتے ہوئے اصلاحات کرنا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں۔
آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ اور امریکا میں جب اصلاحات ناکام ہوچکی ہیں تو پھر پاکستان میں کیسے کامیاب ہوں گی۔ عوام ان حکمران طبقات کو خود مسترد کرتے جارہے ہیں اور متبادل کے طور پر جو عوام کو دھوکا دے رہے ہیں انھیں بھی عوام بے نقاب کررہے ہیں۔ کوئٹہ میں 120 شہریوں کے قتل کے خلاف پاکستان کے 80 شہروں میں مظاہرے ہوئے، کہیں بھی کسی نے تشدد کی راہ نہیں اپنائی۔ لاہور میں گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنے پر بیٹھنے والوں سے جب پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے نمایندے ملنے آئے تو عوام نے انھیں بھگادیا، یہ ہے عوام کا ردعمل۔ انتخابات سے بھی لوگ بیزار ہوچکے ہیں، محمود خان اچکزئی جنہیں ترقی پسند اور لبرل سمجھا جاتا ہے انھیں نگراں وزیراعظم کے لیے حکومت نے تجویز دی تو انھوں نے مسترد کردیا۔ محمود خان کے والد محترم عبدالصمد خان اچکزئی نے برصغیر کی آزادی میں حصہ لیا اور وہ معروف فریڈم فائٹر اور غفار خان کے ساتھیوں میں سے تھے۔ اس لیے لوگوں کا محمود خان اچکزئی پر ایک حد تک اعتماد ہے، اسی لیے نگراں وزیراعظم کے لیے تجویز دی گئی تھی۔ یہ تمام تجاویز مسئلے کا حل نہیں۔ ریاست خود جبر کا ادارہ ہے۔ اگر انتخابات سے مسئلے حل ہوتے تو حکمراں کب کے انتخابات پر پابندی لگاچکے ہوتے۔ اس لیے مسئلے کا واحد حل ایک غیر طبقاتی، جدید سائنسی، امداد باہمی کے نظام میں مضمر ہے۔ جہاں کوئی ذخیرہ ہوگا اور نہ کوئی بھوکا مرے گا، دنیا کی ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوں گے، صرف ایک ہی نسل انسانی ہوگی۔
(قارئین! میں گزشتہ مضامین کی کچھ توضیحات پیش کر رہا ہوں۔ انقلاب روس میں صرف 8 افراد مارے گئے جب کہ مضمون میں 8 ہزار افراد کے مرنے کے اعداد وشمار چھپے۔ پاکستان میں زچگی کے دوران ایک لاکھ 400 خواتین مرجاتی ہیں جب کہ مضمون میں ایک لاکھ 4000 خواتین کے پاکستان میں مرنے کی بات چھپی۔)