اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
انصاف کی دیوی لوگوں کی دہلیز پر ہاتھ باندھے کھڑی ہوگی، اسمبلیوں میں ’’گھوڑوں‘‘ کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا جائے گا
دنیا میں کامیابی صرف ان ہی لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو اپنے نظریے کی صداقت، مستقل مزاجی، پختہ ارادوں اور عزم و یقین کے ساتھ منزل مراد کے حصول کے لیے طویل و صبر آزما جدوجہد کرتے ہیں، جو اپنے رات و دن کا آرام و سکون چھوڑ کر مشکل راستوں کا انتخاب کرتے اور خار مغیلاں پر چلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ قدرت بھی ایسے ہی جنوں میں سرشار لوگوں کو چن لیتی ہے جس پر اسے کامل اعتماد ہوتا ہے کہ یہ بندے میری مخلوق کی خدمت کرنے کے لائق اور مستحق ہیں۔ یہ فطری بات ہے کہ قدرت کے چنیدہ لوگوں ہی پر عوام الناس بھی اعتماد، یقین اور بھروسہ کرتے ہیں۔
ان کے نظریے کی سچائی، دیانت داری، کردار کی پختگی اور اپنے مقصد سے حقیقی وابستگی کے باعث لوگ ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں اور کامل یقین کے ساتھ ان کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور بالآخر منزل مراد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دنیا میں کم ہی لوگ ایسے گزرے ہیں جنہوں نے عوام کی طاقت اور ان کے اعتماد سے ناقابل یقین معرکے انجام دیے ہوں۔ گزشتہ سو برس کی تاریخ میں قائد اعظم، ماؤزے تنگ اور ذوالفقار علی بھٹو ہی ایسے قد آور لیڈر نظر آتے ہیں جنہیں اپنے لوگوں کا بھرپور اعتماد حاصل تھا اور انھوں نے اپنے ہمالیاتی عزم و ارادوں، نظریے کی سچائی اور عوام کی طاقت سے تاریخ کا دھارا بدل دیا۔ قائد اعظم نے انگریزوں سے طویل جدوجہد کے بعد نظریاتی اسلامی مملکت پاکستان حاصل کیا۔
ماؤزے تنگ نے تاریخی لانگ مارچ کے ذریعے نئے چین کی بنیاد رکھی اور ذوالفقار علی بھٹو نے نامساعد حالات کے باوجود عوام کو شعور و گویائی کی طاقت عطا کی اور ملک کو عالم اسلام کا ایٹمی قلعہ بنا دیا۔ آج پاکستان و چین کے لیڈر اپنے عظیم رہنماؤں کے فکر و فلسفے سے توانائی حاصل کرکے ملک و قوم کی خدمت کرنے کی خواہش ضرور رکھتے ہیں لیکن آج تک کوئی دوسرا جناح، ماؤ اور بھٹو جنم نہ لے سکا۔ اس کی بنیادی وجہ نظریے اور کردار کی کمزوری ہے اسی باعث لوگوں کی اکثریت آج کے لیڈروں پر اعتماد نہیں کرتی اور ان کی آواز پر لبیک نہیں کہتی، بالخصوص ہمارے مذہبی رہنماؤں کا حال تو بہت خستہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کی 65 سالہ تاریخ میں کوئی مذہبی رہنما اور جماعت اقتدار کے ایوانوں تک نہ پہنچ سکی۔ دینی و مذہبی رہنماؤں نے اپنے اپنے انداز میں ملک میں انقلاب برپا کرنے اور خود کو اکابر سیاستدانوں سے بڑا لیڈر ثابت کرنے کے لیے بہت پاپڑ بیلے لیکن خواہشوں کے باوجود کسی مولانا یا علامہ کو عوام الناس کا اعتماد اور تائید و حمایت حاصل نہ ہوسکی ان کی آرزوئیں ناتمام ہی رہیں، بقول شاعر:
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
اس کی ایک تازہ مثال برسوں بعد کینیڈا سے پاکستان آنے والے مولانا طاہرالقادری کے انقلاب تازہ لانے کے بلند بانگ دعوؤں سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے افسوس ناک انجام سے دی جاسکتی ہے۔ مولانا قادری نے کینیڈا کے ٹھنڈے ٹھار ماحول میں ایئرکنڈیشن کمروں میں بیٹھ کر نہایت غور و خوض و عرق ریزی کے بعد اپنے آبائی وطن پاکستان میں ایک منتخب جمہوری حکومت کو آناً فاناً ختم کرکے انقلاب نو کا جو زریں منصوبہ بنایا تھا وہ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مصداق محض 22 دنوں کے شور وغل کے بعد اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا۔ حضرت کا شوق جنوں لاحاصل رہا اور جولانی کوششیں نقش بر آب ثابت ہوئیں، ان کے جوش خطابت کے ڈھول کا پول کھل گیا اور خواب کی تعبیریں الٹی ہوگئیں۔ بقول شاعر:
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
آپ حضرت مولانا طاہرالقادری صاحب کے گزشتہ سال 23 دسمبر کو لاہور کے تاریخی مقام مینار پاکستان پر منعقدہ جلسے سے لے کے 15 جنوری تک اسلام آباد کے ڈی چوک پہنچنے تک کے ''سفر انقلاب'' کے دوران کیے گئے ان کے خطابات، تقاریر، انٹرویوز اور مختلف مواقعوں پر کی گئی گفتگو کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ مولانا نے ملک کے منتخب حکمرانوں کو کن کن غیر مناسب القابات سے نوازا، سیاستدانوں پر کیسے کیسے سنگین الزامات عائد کیے کہ جیسے ''ان کا دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں'' ارباب اقتدار کو کن کن ناموں سے پکارا اور خود کا اسلام کی کن برگزیدہ و قابل احترام ہستیوں سے تعلق جوڑنے کی کوشش، عوام الناس کو کیسے کیسے سنہرے خواب (حسب عادت) اور سبز باغ دکھائے اور لوگوں کو کیسی کیسی معصوم و دلفریب امیدیں دلائیں کہ جیسے حضرت کی ولولہ انگیز قیادت و پرجوش خطاب کے روحانی سائے میں شروع ہونے والا ''طوفانی لانگ مارچ'' کے ذریعے ملک میں یکدم ایسا انقلاب برپا ہوگا کہ ''ظالم وجابر'' حکمرانوں کا بوریا بستر گول ہوجائے گا، ہر جانب دودھ و شہد کی نہریں بہنے لگیں گی، کاخ امراء کے درودیوار ہل کے رہ جائیں گے۔
غربا و مساکین کی جھولیاں من و سلویٰ سے بھر جائیں گی، فقراء ریشم و کمخواب پہننے لگیں گے، غربت کا خاتمہ ہوجائے گا، بے روزگاروں کو نوکریوں کے پروانے مل جائیں گے، بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان مٹ جائے گا، انصاف کی دیوی لوگوں کی دہلیز پر ہاتھ باندھے کھڑی ہوگی، اسمبلیوں میں ''گھوڑوں'' کا داخلہ ممنوع قرار دے دیا جائے گا، آئین کی شق 62/63 کے تحت اب صرف ''فرشتے'' ہی اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ سکیں گے، ''یزیدی'' حکمرانوں سے نجات مل جائے گی اور ''حسینی قافلے'' کے شرکاء فتح کا جشن منائیں گے، لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہ ہوسکا۔ لیکن کیوں؟ اب مولانا تنہائی میں بیٹھے یقیناً لانگ مارچ کی ناکامی کے مضمرات پر غور وخوض کررہے ہوں گے، اپنے خواب شکستہ کی کڑیاں جوڑ جوڑ کے دل کو تسلیاں دے رہے ہوں گے اور شاید شکست آرزو سے توانائی حاصل کرکے پھر کسی ''سنہرے خواب'' کے تانے بانے بن رہے ہوں گے۔
مولانا اپنا دل بڑا اور خاطر جمع رکھیں کہ ''قافلہ حسینی'' کے سالار اعظم نے اسلام آباد کی کربلا ''ڈی چوک'' پر 5 اسٹار کنٹینر میں بیٹھ کر ''یزیدی حکومت'' سے جو ''معاہدہ فردا'' کیا ہے وہ یخ بستہ سرد موسم میں ٹھٹھرتے اور بارشوں میں بھیگتے ان کے چند ہزار مریدوں و پیروکاروں کی ''خواہش ناتمام'' کی حجت تمام کردے گا۔ معاہدے کے اعلان کے وقت مولانا طاہر القادری کی خوشی واقعی دیدنی تھی کہ جیسے انھوں نے ''مقدس مشن'' کی لاج رکھ لی ہو۔ مولانا اس بات پر شاداں و نازاں ہیں کہ ہر چند وہ اپنے دعوؤں کے مطابق 40 لاکھ کا مجمع اکٹھا نہ کرسکے اور نہ ہی ڈی چوک کو دنیا کا سب سے بڑا تحریر اسکوائر بنانے کا دعویٰ سچ ثابت کرسکے اس کے باوجود اپنے چند ہزار ''پابند مریدوں'' کی بار بار کی گئی التجاؤں میں جکڑی ثابت قدمی کے طفیل اپنے تئیں ''سابقہ'' قرار دیے گئے ''یزیدی حکمرانوں'' سے چار نکاتی کاغذی معاہدہ کرکے بہرحال اپنی عزت بچانے میں کامیاب ہوگئے لیکن آج انھیں چہار جانب سے کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ افسوس کہ مولانا طاہر القادری نے دنیا بھر میں اسلام کے مبلغ اور عالم دین کی حیثیت سے جو شہرت و عزت کمائی تھی وہ سیاست کے عشق جنوں کی نذر ہوگئی۔ بقول شاعر:
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی