گرین شرٹس کو چیمپئنز ٹرافی کا سخت چیلنج درپیش
انگلش کنڈیشنز میں ٹاپ آرڈر کی ناکامی کا خدشہ ہے۔
ISLAMABAD:
پاکستان ٹیم کااگلا امتحان چیمپئنز ٹرافی ہے تاہم اس ایونٹ کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ورلڈ کپ 2019ء میں براہ راست رسائی کے لیے گرین شرٹس کو عالمی رینکنگ میں اپنی موجودہ آٹھویں پوزیشن ستمبر تک برقرار رکھنا ہوگی جبکہ دوسری صورت میں اپنی تاریخ میں پہلی بار کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا ہوگا۔
ویسٹ انڈیز میں پاکستان ٹیم نے سیریز تو جیت لی لیکن مجموعی کارکردگی قابل رشک نہیں رہی،کیریبیئنزجزائر میں پچز یواے ای سے ملتی جلتی اور سپنرز کے لیے سازگار تھیں،اس کے باوجود میزبان ٹیم نے گرین شرٹس کی کئی کمزوریاں آشکار کردیں، انگلینڈ کی کنڈیشنز قطعی مختلف اور ہمیشہ کی طرح مشکل ہونگی،پچز پر باؤنس، ہوا میں نمی کی موجودگی میں سوئنگ کو کھیلنا پاکستانی بیٹنگ لائن کے لیے کبھی آسان نہیں رہا، پاکستان کا چیمپئنز ٹرافی میں ریکارڈ بھی اچھا نہیں، پہلا ٹائٹل جیتنے کے منتظر گرین شرٹس صرف 2بار سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
گزشتہ ایونٹ بھی انگلینڈ میں ہی کھیلا گیا تھا،پاکستان ٹیم تینوں میچز میں شکست کے بعد گھر واپس لوٹ آئی تھی،اس بار مصباح الحق اور یونس خان جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کا ساتھ بھی میسر نہیں،منتخب سکواڈ میں اپنے طور پر سلیکٹرز نے بہترین پلیئرز منتخب کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن انفرادی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث شرجیل خان کی جگہ پانے والے اظہر علی وکٹ پر قیام تو شاید طویل کرسکیں لیکن سکور بورڈ پر رنز بنانے میں دشواری محسوس کریں گے۔
احمد شہزاد کم بیک کے بعد دورۂ ویسٹ انڈیز کے دوران تینوں فارمیٹ میں فارم کے متلاشی اور ٹیم سے زیادہ اپنے لئے کرکٹ کھیلتے نظر آئے،ون ڈے میچزمیں اہداف حاصل کرنے کے لیے ان کو اس خول سے باہر نکلنا ہوگا، محمد حفیظ کی سوئنگ بولنگ پر کمزوریوں سے کون واقف نہیں،بابر اعظم کم تجربہ کار ہونے کے باوجود سکور بورڈ کو متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،اننگز کو اچھے رن ریٹ سے آگے بڑھانے کے لیے شعیب ملک کا کردار اہم ہوگا، انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتیں اور تجربہ دونوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔
پہلے میگا ایونٹ میں بطور کپتان میدان میں اترنے والے سرفراز احمد کی بیٹنگ اور کیپنگ میں بہتر کارکردگی ٹیل اینڈرز کا حوصلہ بھی جوان کرسکتی ہے، پاکستان ٹیم مینجمنٹ کے لیے سب سے اہم فیصلہ عمر اکمل کا بیٹنگ آرڈر ہوگا، غیر معیاری فٹنس کی بنیاد پر دورہ ویسٹ انڈیز کے لیے سکواڈ سے ڈراپ کئے جانے والے نوجوان بیٹسمین کو پاور ہٹر کے طور متعارف کروانے کا خواب دیکھا جارہا ہے،تاہم ان سے کارکردگی کی توقع اسی صورت میں کی جاسکتی ہے کہ ٹاپ آرڈر بڑے سکور کے لیے اچھا پلیٹ فارم فراہم کرے۔
عماد وسیم کا بیٹ بھی رنز اگلنا بھول چکا ہے،بولنگ کے ساتھ بیٹنگ میں بھی گزشتہ دورہ انگلینڈ کی عمدہ کارکردگی دہرانے میں کامیاب ہوئے تو ٹیم کا فائدہ ہوگا، ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے اس بار بھی ٹاپ آرڈر کی ناکامی کا خدشہ موجود ہے، غیر معمولی ذہنی مضبوطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، پیسرز میں محمد عامر کے ساتھ حسن علی انگلش کنڈیشنز میں موزوں ثابت ہوسکتے ہیں، غیر مستقل مزاج وہاب ریاض اور جنید خان میں سے کسی ایک کو شامل کرنے کا فیصلہ بڑے غوروفکر کے بعد کرنا ہوگا،عماد وسیم، شعیب ملک، محمد حفیظ کی موجودگی میں سپنر شاداب خان کو شامل کرنے کا فیصلہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
اسکواڈ میں فخر زمان اور فہیم اشرف بھی موجود ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ٹور سلیکشن کمیٹی ناکام تجربہ کار کھلاڑیوں کو ہی کمزور مہم کا حصہ بنانے کی پالیسی پر کاربند رہتی یا نئے ٹیلنٹ کو آزمانے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے، ہیڈ کوچ مکی آرتھر محدود اوورز کے میچز میں بے خوف کرکٹ کا راگ ایک عرصہ سے الاپ رہے ہیں لیکن سست روی سے رنز بنانے کے باوجود وکٹیں گنوادینے کی بیماری کاعلاج کرنے کے لیے کوئی نسخہ تلاش نہیں کرسکے۔
دوسری جانب لارڈز ٹیسٹ 2010 کے دوران اسٹنگ آپریشن کے ذریعے سامنے آنے والے سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے دنیائے کرکٹ میں ایک ہنگامہ برپا کیا، شاہد آفریدی کی اچانک دستبرداری کے بعد کپتان مقرر کئے جانے والے سلمان بٹ، روشن مستقبل کی نوید تصور کیے جانے والے پیسر محمد عامر اور گلین میگرا سے موازنے کے مستحق سمجھے جانے والے محمد آصف کٹہرے میں کھڑے کردیئے گئے، آئی سی سی کی جانب سے پابندی عائد ہوئی، برطانوی کراؤن کورٹ نے جیل بھجوایا، پاکستان کرکٹ پر نحوست کے بادل چھائے ہوئے تھے،مختلف حلقوں کی طرف سے آئی سی سی کی رکنیت معطل کردینے کے مطالبے سامنے آرہے تھے۔
اس صورتحال میں کمان سنبھالنے والے مصباح الحق نے ٹیم کو ایک یونٹ میں ڈھالا،اپنی دفاعی حکمت عملی کی وجہ سے ہمیشہ ہدف تنقید بنائے جانے کے باوجود انہوں نے محدود وسائل اور کم ٹیلنٹ کے حامل کھلاڑیوں میں فائٹنگ سپرٹ کو بیدار کیا،دھیرے دھیرے لیکن مستقل مزاجی سے بہتری کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے نہ صرف تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ بحال کی بلکہ بڑی ٹیموں کو ٹکر دینے کی صلاحیت بھی حاصل کی،انگلینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز کی فتوحات نے کپتان اور کھلاڑیوں کے اعتماد میں اضافہ کیا۔
کبھی بڑا کرکٹر ہونے کا دعویٰ نہ کرنے والے مصباح الحق نے ایک محنتی طالب علم جیسا رویہ برقرار رکھتے ہوئے کھیل کے ہر شعبے میں اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھی اور یوں کامیابیوں کی تاریخ رقم کرتے گئے، انہوں نے بطور کپتان فتوحات کے سفر میں عمران خان کو پیچھے چھوڑا، 50 سے زائد ٹیسٹ میچز میں قیادت کرنے والے پہلے پاکستانی بھی بنے، سب سے زیادہ سیریز فتوحات کے ساتھ ایشیا کے کامیاب ترین کپتان بھی بنے۔
پاکستان کی ٹیم 6سال بعد لارڈز کے میدان پر ایکشن میں نظر آئی تو سپاٹ فکسنگ کے منحوس سائے تعاقب کررہے تھے، اس سکینڈل کے ایک کردار محمد عامر کی ''خدمات'' بھی مصباح الحق کو فراہم کرکے عجیب سی صورتحال پیدا کردی گئی لیکن کپتان نے سیریز کے پہلے معرکے میں ہی شاندار سنچری داغ کر یاسر شاہ کی معاونت سے میزبان ٹیم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا،مسلسل 2شکستوں کے بعد اوول ٹیسٹ کی فتح نے پاکستان کو تاریخ میں پہلی بارآئی سی سی رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن پر قبضہ جمانے کا موقع فراہم کیا، مصباح الحق نے قذافی سٹیڈیم میں آئی سی سی کی جانب سے گُرز وصول کیا۔
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں پے درپے شکستوں نے ٹیم و رینکنگ میں تنزلی کا شکار کر دیا، اگلا امتحان دورۂ ویسٹ انڈیز تھا، کپتان مصباح الحق کے کٹھن سفر میں بھرپور ساتھ دینے والے یونس خان نے بھی اس کو کیریئر کی آخری سیریز قرار دے دیا تھا،سینئر بیٹسمین ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز اور سنچریز کا ریکارڈ تو پہلے ہی اپنے نام کرچکے تھے لیکن 10 ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنے والا پہلا پاکستانی بننے کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے وہ خود اور شائقین بھی بے تاب تھے، انہوں نے اپنا یہ مشن مکمل کیا۔
مصباح الحق جاتے جاتے بھی تاریخ رقم کرنے کے خواہاں تھے،انہیں بھی یہ موقع مل گیا،پاکستان نے تیسرے ٹیسٹ میں سنسنی خیز مقابلے بعد کھیل کے آخری لمحات میں فتح سمیٹ کر ویسٹ انڈیز میں پہلی بار سیریز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا، بیٹنگ میں غیر مستقل مزاجی کے باوجود یاسر شاہ اور انٹرنیشنل ڈیبیو کرنے والے محمد عباس کی عمدہ کارکردگی نے فتوحات کی راہ ہموار کرتے ہوئے سینئرز کی آخری سیریز یادگار بنائی، سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد پاکستان کرکٹ کی عمارت کو سہارا دینے والے یہ دونوں ستون اب دستیاب نہیں ہوں گے، ان کا خلا پرکرناآسان نہیں ہوگا۔
ڈومیسٹک کرکٹ کے عمدہ پرفارمرز میں کامران اکمل، آصف ذاکر، فواد عالم، عثمان صلاح الدین، افتخار احمد، عمر صدیق، نعیم الدین، اکبرالرحمان، عبدالرحمان مزمل، عامر سجاد ، عمر امین اور فخر زمان موجود ہیں،ان میں سے بیشتر عمر کے اس حصے میں ہیں کہ مستقبل میں طویل عرصہ تک قومی ٹیم کے کام نہیں آسکتے،کامران اکمل اور فواد عالم پہلے بھی کئی بار آزمائے اور ڈراپ کئے جاچکے،سینئرز کے جانشین کا انتخاب کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ وہ تکنیک میں بہتر ہونے کے ساتھ ذہنی طور پر بھی مضبوط ہوں۔
یونس خان اور مصباح الحق دباؤ میں اچھی کارکردگی دکھانے کی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہی سٹارز کا درجہ پانے میں کامیاب ہوئے،نئے پلیئرز میں سے بھی توقعات کا بوجھ اٹھانے والے کو ہی ٹیم میں جگہ پکی کرنے کا موقع ملے گا،اس خلا کو پر کرنے کے لیے موزوں بیٹسمین نظر نہیں آئے تو قومی ٹیسٹ ٹیم کا بھی وہی حال ہوگا جو سنگا کارا اور جے وردنے کے بعد سری لنکا کا ہورہا ہے،بنگلہ دیش کے ساتھ معاملات طے پانے کا کوئی امکان نہیں۔
اتفاق سے پاکستان کی اگلی سیریز بھی آئی لینڈرز سے ہی متوقع ہے،اس سے قبل سلیکٹرز اور کوچز کو نہ صرف سینئرز کے متبادل بلکہ ٹیسٹ کپتان کا اہم فیصلہ بھی کرنا ہے، ٹوئنٹی 20اور ون ڈے ٹیموں کی قیادت کرنے والے سرفراز احمد کو تیسرے فارمیٹ میں ذمہ داری سپرد کرنے کے ارادے ظاہر کئے جارہے ہیں، تاہم پی سی بی حکام میں اس حوالے سے اختلاف رائے موجود ہے،اس اہم فیصلے سے قبل بڑی سنجیدگی سے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ٹیم کااگلا امتحان چیمپئنز ٹرافی ہے تاہم اس ایونٹ کی ایک اہمیت یہ بھی ہے کہ ورلڈ کپ 2019ء میں براہ راست رسائی کے لیے گرین شرٹس کو عالمی رینکنگ میں اپنی موجودہ آٹھویں پوزیشن ستمبر تک برقرار رکھنا ہوگی جبکہ دوسری صورت میں اپنی تاریخ میں پہلی بار کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا ہوگا۔
ویسٹ انڈیز میں پاکستان ٹیم نے سیریز تو جیت لی لیکن مجموعی کارکردگی قابل رشک نہیں رہی،کیریبیئنزجزائر میں پچز یواے ای سے ملتی جلتی اور سپنرز کے لیے سازگار تھیں،اس کے باوجود میزبان ٹیم نے گرین شرٹس کی کئی کمزوریاں آشکار کردیں، انگلینڈ کی کنڈیشنز قطعی مختلف اور ہمیشہ کی طرح مشکل ہونگی،پچز پر باؤنس، ہوا میں نمی کی موجودگی میں سوئنگ کو کھیلنا پاکستانی بیٹنگ لائن کے لیے کبھی آسان نہیں رہا، پاکستان کا چیمپئنز ٹرافی میں ریکارڈ بھی اچھا نہیں، پہلا ٹائٹل جیتنے کے منتظر گرین شرٹس صرف 2بار سیمی فائنل تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
گزشتہ ایونٹ بھی انگلینڈ میں ہی کھیلا گیا تھا،پاکستان ٹیم تینوں میچز میں شکست کے بعد گھر واپس لوٹ آئی تھی،اس بار مصباح الحق اور یونس خان جیسے تجربہ کار کھلاڑیوں کا ساتھ بھی میسر نہیں،منتخب سکواڈ میں اپنے طور پر سلیکٹرز نے بہترین پلیئرز منتخب کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن انفرادی کارکردگی پر نظر ڈالی جائے تو سپاٹ فکسنگ سکینڈل میں ملوث شرجیل خان کی جگہ پانے والے اظہر علی وکٹ پر قیام تو شاید طویل کرسکیں لیکن سکور بورڈ پر رنز بنانے میں دشواری محسوس کریں گے۔
احمد شہزاد کم بیک کے بعد دورۂ ویسٹ انڈیز کے دوران تینوں فارمیٹ میں فارم کے متلاشی اور ٹیم سے زیادہ اپنے لئے کرکٹ کھیلتے نظر آئے،ون ڈے میچزمیں اہداف حاصل کرنے کے لیے ان کو اس خول سے باہر نکلنا ہوگا، محمد حفیظ کی سوئنگ بولنگ پر کمزوریوں سے کون واقف نہیں،بابر اعظم کم تجربہ کار ہونے کے باوجود سکور بورڈ کو متحرک رکھنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں،اننگز کو اچھے رن ریٹ سے آگے بڑھانے کے لیے شعیب ملک کا کردار اہم ہوگا، انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی صلاحیتیں اور تجربہ دونوں کو بروئے کار لانا ہوگا۔
پہلے میگا ایونٹ میں بطور کپتان میدان میں اترنے والے سرفراز احمد کی بیٹنگ اور کیپنگ میں بہتر کارکردگی ٹیل اینڈرز کا حوصلہ بھی جوان کرسکتی ہے، پاکستان ٹیم مینجمنٹ کے لیے سب سے اہم فیصلہ عمر اکمل کا بیٹنگ آرڈر ہوگا، غیر معیاری فٹنس کی بنیاد پر دورہ ویسٹ انڈیز کے لیے سکواڈ سے ڈراپ کئے جانے والے نوجوان بیٹسمین کو پاور ہٹر کے طور متعارف کروانے کا خواب دیکھا جارہا ہے،تاہم ان سے کارکردگی کی توقع اسی صورت میں کی جاسکتی ہے کہ ٹاپ آرڈر بڑے سکور کے لیے اچھا پلیٹ فارم فراہم کرے۔
عماد وسیم کا بیٹ بھی رنز اگلنا بھول چکا ہے،بولنگ کے ساتھ بیٹنگ میں بھی گزشتہ دورہ انگلینڈ کی عمدہ کارکردگی دہرانے میں کامیاب ہوئے تو ٹیم کا فائدہ ہوگا، ماضی کے تجربات کو دیکھتے ہوئے اس بار بھی ٹاپ آرڈر کی ناکامی کا خدشہ موجود ہے، غیر معمولی ذہنی مضبوطی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہی مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے، پیسرز میں محمد عامر کے ساتھ حسن علی انگلش کنڈیشنز میں موزوں ثابت ہوسکتے ہیں، غیر مستقل مزاج وہاب ریاض اور جنید خان میں سے کسی ایک کو شامل کرنے کا فیصلہ بڑے غوروفکر کے بعد کرنا ہوگا،عماد وسیم، شعیب ملک، محمد حفیظ کی موجودگی میں سپنر شاداب خان کو شامل کرنے کا فیصلہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
اسکواڈ میں فخر زمان اور فہیم اشرف بھی موجود ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ٹور سلیکشن کمیٹی ناکام تجربہ کار کھلاڑیوں کو ہی کمزور مہم کا حصہ بنانے کی پالیسی پر کاربند رہتی یا نئے ٹیلنٹ کو آزمانے کا حوصلہ پیدا کرتی ہے، ہیڈ کوچ مکی آرتھر محدود اوورز کے میچز میں بے خوف کرکٹ کا راگ ایک عرصہ سے الاپ رہے ہیں لیکن سست روی سے رنز بنانے کے باوجود وکٹیں گنوادینے کی بیماری کاعلاج کرنے کے لیے کوئی نسخہ تلاش نہیں کرسکے۔
دوسری جانب لارڈز ٹیسٹ 2010 کے دوران اسٹنگ آپریشن کے ذریعے سامنے آنے والے سپاٹ فکسنگ سکینڈل نے دنیائے کرکٹ میں ایک ہنگامہ برپا کیا، شاہد آفریدی کی اچانک دستبرداری کے بعد کپتان مقرر کئے جانے والے سلمان بٹ، روشن مستقبل کی نوید تصور کیے جانے والے پیسر محمد عامر اور گلین میگرا سے موازنے کے مستحق سمجھے جانے والے محمد آصف کٹہرے میں کھڑے کردیئے گئے، آئی سی سی کی جانب سے پابندی عائد ہوئی، برطانوی کراؤن کورٹ نے جیل بھجوایا، پاکستان کرکٹ پر نحوست کے بادل چھائے ہوئے تھے،مختلف حلقوں کی طرف سے آئی سی سی کی رکنیت معطل کردینے کے مطالبے سامنے آرہے تھے۔
اس صورتحال میں کمان سنبھالنے والے مصباح الحق نے ٹیم کو ایک یونٹ میں ڈھالا،اپنی دفاعی حکمت عملی کی وجہ سے ہمیشہ ہدف تنقید بنائے جانے کے باوجود انہوں نے محدود وسائل اور کم ٹیلنٹ کے حامل کھلاڑیوں میں فائٹنگ سپرٹ کو بیدار کیا،دھیرے دھیرے لیکن مستقل مزاجی سے بہتری کی جانب سفر جاری رکھتے ہوئے نہ صرف تیزی سے گرتی ہوئی ساکھ بحال کی بلکہ بڑی ٹیموں کو ٹکر دینے کی صلاحیت بھی حاصل کی،انگلینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف سیریز کی فتوحات نے کپتان اور کھلاڑیوں کے اعتماد میں اضافہ کیا۔
کبھی بڑا کرکٹر ہونے کا دعویٰ نہ کرنے والے مصباح الحق نے ایک محنتی طالب علم جیسا رویہ برقرار رکھتے ہوئے کھیل کے ہر شعبے میں اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش جاری رکھی اور یوں کامیابیوں کی تاریخ رقم کرتے گئے، انہوں نے بطور کپتان فتوحات کے سفر میں عمران خان کو پیچھے چھوڑا، 50 سے زائد ٹیسٹ میچز میں قیادت کرنے والے پہلے پاکستانی بھی بنے، سب سے زیادہ سیریز فتوحات کے ساتھ ایشیا کے کامیاب ترین کپتان بھی بنے۔
پاکستان کی ٹیم 6سال بعد لارڈز کے میدان پر ایکشن میں نظر آئی تو سپاٹ فکسنگ کے منحوس سائے تعاقب کررہے تھے، اس سکینڈل کے ایک کردار محمد عامر کی ''خدمات'' بھی مصباح الحق کو فراہم کرکے عجیب سی صورتحال پیدا کردی گئی لیکن کپتان نے سیریز کے پہلے معرکے میں ہی شاندار سنچری داغ کر یاسر شاہ کی معاونت سے میزبان ٹیم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا،مسلسل 2شکستوں کے بعد اوول ٹیسٹ کی فتح نے پاکستان کو تاریخ میں پہلی بارآئی سی سی رینکنگ میں نمبر ون پوزیشن پر قبضہ جمانے کا موقع فراہم کیا، مصباح الحق نے قذافی سٹیڈیم میں آئی سی سی کی جانب سے گُرز وصول کیا۔
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں پے درپے شکستوں نے ٹیم و رینکنگ میں تنزلی کا شکار کر دیا، اگلا امتحان دورۂ ویسٹ انڈیز تھا، کپتان مصباح الحق کے کٹھن سفر میں بھرپور ساتھ دینے والے یونس خان نے بھی اس کو کیریئر کی آخری سیریز قرار دے دیا تھا،سینئر بیٹسمین ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز اور سنچریز کا ریکارڈ تو پہلے ہی اپنے نام کرچکے تھے لیکن 10 ہزار رنز کا سنگ میل عبور کرنے والا پہلا پاکستانی بننے کا اعزاز حاصل کرنے کے لیے وہ خود اور شائقین بھی بے تاب تھے، انہوں نے اپنا یہ مشن مکمل کیا۔
مصباح الحق جاتے جاتے بھی تاریخ رقم کرنے کے خواہاں تھے،انہیں بھی یہ موقع مل گیا،پاکستان نے تیسرے ٹیسٹ میں سنسنی خیز مقابلے بعد کھیل کے آخری لمحات میں فتح سمیٹ کر ویسٹ انڈیز میں پہلی بار سیریز جیتنے کا اعزاز حاصل کیا، بیٹنگ میں غیر مستقل مزاجی کے باوجود یاسر شاہ اور انٹرنیشنل ڈیبیو کرنے والے محمد عباس کی عمدہ کارکردگی نے فتوحات کی راہ ہموار کرتے ہوئے سینئرز کی آخری سیریز یادگار بنائی، سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے بعد پاکستان کرکٹ کی عمارت کو سہارا دینے والے یہ دونوں ستون اب دستیاب نہیں ہوں گے، ان کا خلا پرکرناآسان نہیں ہوگا۔
ڈومیسٹک کرکٹ کے عمدہ پرفارمرز میں کامران اکمل، آصف ذاکر، فواد عالم، عثمان صلاح الدین، افتخار احمد، عمر صدیق، نعیم الدین، اکبرالرحمان، عبدالرحمان مزمل، عامر سجاد ، عمر امین اور فخر زمان موجود ہیں،ان میں سے بیشتر عمر کے اس حصے میں ہیں کہ مستقبل میں طویل عرصہ تک قومی ٹیم کے کام نہیں آسکتے،کامران اکمل اور فواد عالم پہلے بھی کئی بار آزمائے اور ڈراپ کئے جاچکے،سینئرز کے جانشین کا انتخاب کرتے ہوئے دیکھنا ہوگا کہ وہ تکنیک میں بہتر ہونے کے ساتھ ذہنی طور پر بھی مضبوط ہوں۔
یونس خان اور مصباح الحق دباؤ میں اچھی کارکردگی دکھانے کی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہی سٹارز کا درجہ پانے میں کامیاب ہوئے،نئے پلیئرز میں سے بھی توقعات کا بوجھ اٹھانے والے کو ہی ٹیم میں جگہ پکی کرنے کا موقع ملے گا،اس خلا کو پر کرنے کے لیے موزوں بیٹسمین نظر نہیں آئے تو قومی ٹیسٹ ٹیم کا بھی وہی حال ہوگا جو سنگا کارا اور جے وردنے کے بعد سری لنکا کا ہورہا ہے،بنگلہ دیش کے ساتھ معاملات طے پانے کا کوئی امکان نہیں۔
اتفاق سے پاکستان کی اگلی سیریز بھی آئی لینڈرز سے ہی متوقع ہے،اس سے قبل سلیکٹرز اور کوچز کو نہ صرف سینئرز کے متبادل بلکہ ٹیسٹ کپتان کا اہم فیصلہ بھی کرنا ہے، ٹوئنٹی 20اور ون ڈے ٹیموں کی قیادت کرنے والے سرفراز احمد کو تیسرے فارمیٹ میں ذمہ داری سپرد کرنے کے ارادے ظاہر کئے جارہے ہیں، تاہم پی سی بی حکام میں اس حوالے سے اختلاف رائے موجود ہے،اس اہم فیصلے سے قبل بڑی سنجیدگی سے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔