سعودی عرب میں ہونے والی کانفرنس اور اس کے اثرات
عرب خطے کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک بڑی عسکری قوت تشکیل دینا خوش آئند ہے
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں پہلی امریکا عرب اسلامی کانفرنس شروع ہو گئی ہے جس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سمیت 54 سربراہان مملکت شرکت کر رہے ہیں۔ وزیراعظم میاں محمد نواز شریف گزشتہ روز ریاض پہنچ گئے جہاں انھوں نے سعودی حکام سے ملاقاتیں کیں۔ امریکی صدر ٹرمپ اپنے پہلے 8روزہ غیرملکی دورے پر سب سے اول سعودی عرب پہنچے ہیں۔
ریاض میں شروع ہونے والی امریکا عرب اسلامی کانفرنس کا مقصد انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے خدشات کے پیش نظر سیکیورٹی پارٹنر شپ تشکیل دینا ہے ۔ امریکی صدر کے دورہ سعودی عرب کے حوالے سے تشکیل دی گئی سعودی حکومت کی سرکاری ویب سائٹ پر اجلاس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اسلامی ممالک کے سربراہان دنیا بھر میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خدشات پر قابو پانے اور بہتر سیکیورٹی تعلقات کے قیام کو یقینی بنانے کے طریقوں پر غور کریں گے۔
امریکی صدر اور ان کے اتحادی امید کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو کم کرنے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے یہ اجلاس ''عرب نیٹو فورس'' کی بنیاد رکھنے کا موقع فراہم کرے گا۔ سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے کہا کہ امریکا عرب اسلامی کانفرنس کے اختتام پر سعودی عرب کی میزبانی میں انسداد دہشت گردی مرکز قائم کیا جائے گا' کانفرنس دہشت گردی کے خلاف عالم اسلام اور مغرب کے درمیان ایک نئے اتحاد کی راہ ہموار کرے گی' دہشت گردوں' ان کے معاونت کاروں اور سہولت کاروں کے خلاف پوری قوت سے جنگ لڑیں گے' مغرب اور پوری دنیا کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اسلام مغرب کا دشمن نہیں۔
ادھر امریکا اور سعودی عرب نے اپنے تاریخی تعلقات کو مزید مضبوط کرنے کے لیے 350ارب ڈالرز کے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط کیے ہیں جن میں سے 110ارب ڈالر کے فوجی آلات اور ہتھیاروں کی خریداری کے معاہدوں پر فوری عمل کیا جائے گا' دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے دفاعی اور دہشت گردی میں مدد گار ثابت ہونے والے معاہدے آئندہ دس سال میں مکمل ہوں گے۔
سعودی عرب مختلف اسلامی ممالک کے تعاون سے خطے میں ایک بڑی عسکری قوت بنانا چاہتا ہے جسے سعودی حکام کے مطابق ''عرب نیٹو فورس'' بھی کہا جا رہا ہے۔ ریاض میں ہونے والی پہلی امریکا عرب اسلامی کانفرنس کا جو مقصد سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر نے بیان کیا ہے اس کے مطابق سعودی عرب خطے کی سلامتی اور تحفظ کے پیش نظر ایک بڑی سیکیورٹی فورس تشکیل دے رہا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے ایران' داعش اور القاعدہ کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔ عربوں اور ایران کے درمیان اختلافات نئے نہیں لیکن گزشتہ چند سالوں سے یہ اختلافات بڑھتے بڑھتے اس نہج پر آ پہنچے کہ دونوں ممالک کے درمیان نئی محاذ آرائی شروع ہو گئی ہے اور سعودی عرب ایران کو اپنی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ قرار دے رہا ہے۔ کچھ عرصہ پیشتر سعودی عرب اور یمن کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جس سے خطے کی صورت حال میں تناؤ اور کشیدگی نے جنم لیا' ان جھڑپوں کے بعد سعودی عرب نے اپنی سربراہی میں مختلف مسلمان ممالک کے تعاون سے ایک بڑی فوج بنانے کا اعلان کیا جس پر تیزی سے عملدرآمد شروع ہو چکا ہے۔
عرب خطے کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک بڑی عسکری قوت تشکیل دینا خوش آئند ہے لیکن دوسری جانب ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی مخاصمت کے پیش نظر یہ بہت سے خطرات کا بھی پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک جانب سعودی عرب کے پورے عرب خطے میں گہرے اثرات ہیں تو دوسری جانب ایران کا یمن' عراق' شام اور لبنان میں بھرپور اثرورسوخ موجود ہے' اس طرح مشرق وسطیٰ میں سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے ہیں۔
اب امریکا عرب اسلامی کانفرنس کا انعقاد کر کے سعودی عرب نے ایرانی اثرورسوخ سے نمٹنے کا واضح اعلان کر دیا ہے۔ داعش کی جانب سے دہشت گردی کی لہر نے بھی عرب خطے کے لیے بہت سے خطرات پیدا کر دیے ہیں اور عرب حکمران بڑی شدت سے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ خطے کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے دہشت گردی میں ملوث تنظیموں پر قابو پانا اشد ضروری ہے۔
ایران کی بھی یقیناً عرب اسلامی کانفرنس پر گہری نظر ہو گی اور ان تمام معاملات سے نمٹنے کے لیے وہ بھی کوئی نہ کوئی لائحہ عمل طے کرے گا۔ لہٰذا دونوں ممالک کو آنے والے خطرات کا بروقت ادراک کرتے ہوئے باہمی اختلافات اور رنجشوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بہتر تعلقات قائم کرنے کی جانب توجہ دینی چاہیے اسی میں پورے خطے کی سلامتی کا راز مضمر ہے۔ پاکستان کو اس سلسلے میں تعمیری کردار ادا کرنا چاہیے ، پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے کہ وہ ایران اور سعودی عرب کو قریب لانے کی کوشش کرے ،پاکستان کو اپنے قومی اور ریاست مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی تشکیل دینی چاہیے۔