اختلافات نہیں تحفظات
امریکا کی یہ خواہش تھی کہ بھارت سرد جنگ میں اس کا حلیف بنے۔
یہ کوئی ساٹھ برس پہلے کی بات ہے، اپوزیشن رہنما میاں افتخار الدین مرحوم مختلف عوامی اجتماعات، نجی محفلوں اور دستورساز اسمبلی میں پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت اور SEATO اور CENTO میں شمولیت پر کڑی تنقید کیا کرتے تھے۔
ریاستی مقتدر اشرافیہ کے کل پرزے اکثر و بیشتر انھیں ہدف تنقید بناتے رہتے تھے۔ ان کا واضح موقف تھا کہ کسی معاہدے کا اس وقت تک حصہ نہیں بننا چاہیے، جبتک قومی مفادات کے تحفظ کا کلی یقین نہ ہوجائے۔ مگر ہوا کے گھوڑے پر سوار ریاستی منصوبہ سازوں کو امریکا کے ساتھ تعلقات میں چہار سو ہرا ہی ہرا نظر آرہا تھا، اس لیے ہر اس شخص کو غدار اور ملک دشمن قرار دے دیا جاتا تھا، جو ان کے فیصلوں سے ذرا سا بھی اختلاف کرنے کی جسارت کرتا۔
لیکن معاملات اس وقت حد سے گزر گئے جب 11 مارچ 1957ء کو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ہیوریس ہلڈرتھ نے ایک تقریب میں تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، میاں افتخار الدین مرحوم کا نام لے کر ان کے نظریات پر کڑی نکتہ چینی کی۔ اس موقع پر نہ تو کسی پارلیمنٹیرین کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ سفارتی آداب کی اس خلاف ورزی پر صدائے احتجاج بلند کرتا اور نہ ہی اس وقت کے ذرائع ابلاغ نے اس واقعے پر احتجاجی مضامین اور اداریے شائع کرنے کی جسارت کی۔ اس طرز عمل سے یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان میں ہر وہ شخص قابل مذمت قرار پاتا ہے، جو ریاست کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرے اور ان کی شفافیت کے بارے میں سوالات اٹھائے۔
امریکا کی یہ خواہش تھی کہ بھارت سرد جنگ میں اس کا حلیف بنے۔ مگر پنڈت نہرو کی زیر قیادت بھارت اس دو قطبی جنگ کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں تھا۔ لہٰذا امریکا مجبوراً پاکستان کی طرف مائل ہوا، تاکہ روس کو گرم پانیوں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک پہنچنے سے روک سکے۔
یہ بات پاکستانی منصوبہ سازوں کو سمجھنا چاہیے تھی، مگر انھوں نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر امریکا کے ساتھ ہر معاہدے میں شرکت کا فیصلہ کرلیا، خواہ وہ پاکستان کے مفاد میں ہو یا نہ ہو۔ اس سلسلے میں سیٹو اور سینٹو کے دفاعی معاہدے نمایاں تھے۔ سیٹو (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن) اور سینٹو (سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن) کے معاہدے آگے پیچھے 1955ء میں تشکیل پائے تھے اور بالترتیب 1977ء اور 1979ء میں ختم ہوگئے۔
ان معاہدوں میں پاکستان کو شامل کرانے کی بنیاد لیاقت علی خان نے امریکا کا دورہ کر کے رکھی اور پھر بعد میں وزیراعظم پاکستان چوہدری محمد علی کا کلیدی کردار تھا، جن کی زیرقیادت سینئر بیوروکریٹس کا ایک مخصوص گروہ پاکستان کو امریکا کا حلیف بنانے پر تلا ہوا تھا۔ بیوروکریٹس کا یہی ٹولہ ان سیاستدانوں کی کردار کشی بھی کرواتا تھا، جو ملک کو آزاد و خودمختار وفاقی جمہوریہ بنانے کے خواہشمند تھے اور اس قسم کے معاہدوں کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔
نوجوان قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ SEATO جنوب مشرقی ایشیائی ممالک پر مشتمل دفاعی معاہدہ تھا، جو بنیادی طور پر کمیونسٹ چین کا بحرہند میں داخلہ روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔ مگر اس میں پاکستان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔CENTO سوویت یونین کو گرم پانیوں اور مشرق وسطیٰ میں داخلے سے روکنا تھا۔ ان دونوں معاہدوں سے پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ اس موضوع پرآج تک کھل کر بحث نہیں ہوئی۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی کے ابتدائی برسوں میں سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے ساتھ ہی سرد جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔ گویا سرمایہ داری نے کمیونزم کی سیاسی قوت کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس عمل میں انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور سرمایہ کی عالمگیریت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ سردجنگ کے خاتمے کے بعد امریکا واحد عالمی قوت کے طور پر سامنے آیا۔
تزویراتی نکتہ نظر سے وہ آج بھی عالمی قوت ہے، لیکن معاشی استحکام کے لیے تیز رفتار دوڑ نے عالمی سطح پر اقتصادی قوتوں کے کئی مراکز قائم کردیے۔ خاص طور پر یورپ میں ارتکاز کے بعد معاشی ترقی کا محور ایشیا منتقل ہوگیا۔ اس وقت چین اور بھارت کے علاوہ انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور تائیوان معاشی ترقی کی دوڑ میں لگے ہیں، جب کہ پاکستان نظر نہیں آرہا۔
لہٰذا اس تناظر میں چین کو ایک کمیونسٹ ملک سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ آج اس کا ان سیاسی، معاشی اور سماجی نظریات اور طرز حکمرانی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، جو مارکسی روایات کا حصہ ہیں۔ اس کے تمام تر اقدامات وہی ہیں، جو ایک ابھرتی ہوئے سرمایہ دار ملک اور استعماری قوت کے ہوا کرتے ہیں، یعنی خام مال کا حصول اور مصنوعات کی عالمی منڈیوں تک رسائی، اور ان پر بالادستی قائم کرنے کے لیے ہر ممکنہ حربہ کا استعمال۔ تجارتی رسل رسائل پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کی کوششیں کرنا اور مختلف خطوں اور علاقوں پر اپنی سیاسی و ثقافتی بالادستی قائم کرنا شامل ہیں۔
ایسی صورتحال میں ایک ترقی پذیر ملک کی قیادت کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ کسی ابھرتی ہوئی استعماری قوت کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی معاہدے کرتے وقت اپنے قومی تشخص، معاشی و معاشرتی نظام اور ثقافتی اقدار کے تحفظ کے بارے میں بھی پیشگی حکمت عملیاں تیار کرے۔ مگر شاید فرط جذبات میں اس جانب توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔
اس میں شک نہیں کہ سماجی ترقی کے لیے معاشی استحکام ضروری ہوتا ہے۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں کہ ترقی پذیر ملک کو کسی نہ کسی ترقی یافتہ ملک کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ مگر اپنا قومی وقار، اپنے وسائل کو داؤ پر نہیں لگایا جاتا۔ ملائشیا نے 1966ء میں جاپان سے وہ ٹیکنالوجی حاصل کی جسے چھوڑ کر وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ لیکن صنعتی ترقی کی طرف آنے کے لیے اس نے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔
بھارت جس کے ساتھ ہر سطح پر ہماری مسابقت ہے، اس نے بھی موجودہ سطح تک پہنچنے کے لیے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کو اولین ترجیح بنایا۔ انڈین انسٹیٹیوف آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی پورے بھارت میں 28 کے قریب برانچیں ہیں، جس کا تعلیمی معیار امریکی تعلیمی ادارے MIT سے کسی طور کم نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، مگر پاکستان کی مقتدر اشرافیہ جس کے Genes میں غلامی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، سیاسی عزم و بصیرت سے عاری ہونے کے سبب ہر بار ایک نئے آقا کی تلاش میں رہتی ہے۔ اس میں نہ دوراندیشی ہے اور نہ اہلیت کہ بدلتے عالمی منظرنامے کی ترجیحات کو سمجھ سکے۔
یہی سبب ہے کہ پچاس کے عشرے میں جس طرح امریکا کے دام الفت میں گرفتار ہوئے، اسی انداز میں آج چین کے عشق کا بھوت سوار ہے۔ کل بھی ان اہل دانش کو احمق، بے وقوف اور ملک دشمن قرار دیا جارہا تھا، جو مختلف نوعیت کے تحفظات کا اظہار کررہے تھے، آج بھی حکومت اور حکومت نواز حلقے احتیاط کا مشورہ دینے والوں کو جاہل، کم عقل اور ملک دشمن قرار دے رہے ہیں۔
دراصل ہمارے حکمرانوں کا معاملہ اس دُم کے مصداق ہے، جو بارہ برس تک نلکی میں رکھنے کے بعد بھی سیدھی نہ ہوسکی۔ 70 برسوں کے دوران نئے اداروں کی تشکیل تو درکنار، انگریز دور سے ورثے میں ملنے والے اداروں کو بھی محفوظ نہ رکھ سکے۔
امریکا کے ساتھ ساٹھ برس کے قریبی تعلقات میں اپنے ملک کے لیے ایسے کون سے ٹھوس فوائد حاصل کرلیے جو اب چین سے لے لیں گے۔ جو رپورٹس آرہی ہیں، ان سے تو صاف ظاہر ہے کہ تمام تر فوائد چین کو حاصل ہوں گے اور مونگ پھلی کے جو چند دانے ملیں گے، وہ اشرافیہ کی جیب میں چلے چاہیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
اس ملک کے متوشش شہریوں کی صرف یہی خواہش ہے کہ چین کے ساتھ نئے اقتصادی معاہدے کرتے ہوئے، وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں، جو ماضی میں ہوچکی ہیں۔ کسی طاقت کی الفت میں اس قدر نہ بڑھا جائے کہ اپنا تشخص ملیامیٹ ہوجائے۔ ہمارے حکمرانوں کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ ڈپلومیسی میں کوئی تعلق نہ شہد سے میٹھا ہوتا ہے، نہ ہمالیہ سے بلند اور نہ سمندروں سے گہرا۔ تعلقات کا انحصار باہمی مفادات کے حصول پر ہوتا ہے۔
چین کو مشرق وسطیٰ اور شمال مشرقی افریقہ تک رسائی کے لیے گوادر کی بندرگاہ کی ضرورت ہے، اس کے لیے سرمایہ کاری کررہا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس عمل سے مقامی صنعتکاروں، سرمایہ کاروں اور عوام کے لیے کیا فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں کسی منصوبے سے اختلاف نہیں ہے، اس کے مندرجات پر تحفظات ہیں۔
ریاستی مقتدر اشرافیہ کے کل پرزے اکثر و بیشتر انھیں ہدف تنقید بناتے رہتے تھے۔ ان کا واضح موقف تھا کہ کسی معاہدے کا اس وقت تک حصہ نہیں بننا چاہیے، جبتک قومی مفادات کے تحفظ کا کلی یقین نہ ہوجائے۔ مگر ہوا کے گھوڑے پر سوار ریاستی منصوبہ سازوں کو امریکا کے ساتھ تعلقات میں چہار سو ہرا ہی ہرا نظر آرہا تھا، اس لیے ہر اس شخص کو غدار اور ملک دشمن قرار دے دیا جاتا تھا، جو ان کے فیصلوں سے ذرا سا بھی اختلاف کرنے کی جسارت کرتا۔
لیکن معاملات اس وقت حد سے گزر گئے جب 11 مارچ 1957ء کو پاکستان میں تعینات امریکی سفیر ہیوریس ہلڈرتھ نے ایک تقریب میں تمام سفارتی آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، میاں افتخار الدین مرحوم کا نام لے کر ان کے نظریات پر کڑی نکتہ چینی کی۔ اس موقع پر نہ تو کسی پارلیمنٹیرین کو یہ جرأت ہوئی کہ وہ سفارتی آداب کی اس خلاف ورزی پر صدائے احتجاج بلند کرتا اور نہ ہی اس وقت کے ذرائع ابلاغ نے اس واقعے پر احتجاجی مضامین اور اداریے شائع کرنے کی جسارت کی۔ اس طرز عمل سے یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان میں ہر وہ شخص قابل مذمت قرار پاتا ہے، جو ریاست کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کرے اور ان کی شفافیت کے بارے میں سوالات اٹھائے۔
امریکا کی یہ خواہش تھی کہ بھارت سرد جنگ میں اس کا حلیف بنے۔ مگر پنڈت نہرو کی زیر قیادت بھارت اس دو قطبی جنگ کا حصہ بننے پر آمادہ نہیں تھا۔ لہٰذا امریکا مجبوراً پاکستان کی طرف مائل ہوا، تاکہ روس کو گرم پانیوں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے ذخائر تک پہنچنے سے روک سکے۔
یہ بات پاکستانی منصوبہ سازوں کو سمجھنا چاہیے تھی، مگر انھوں نے آنکھوں پر پٹی باندھ کر امریکا کے ساتھ ہر معاہدے میں شرکت کا فیصلہ کرلیا، خواہ وہ پاکستان کے مفاد میں ہو یا نہ ہو۔ اس سلسلے میں سیٹو اور سینٹو کے دفاعی معاہدے نمایاں تھے۔ سیٹو (ساؤتھ ایسٹ ایشیا ٹریٹی آرگنائزیشن) اور سینٹو (سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن) کے معاہدے آگے پیچھے 1955ء میں تشکیل پائے تھے اور بالترتیب 1977ء اور 1979ء میں ختم ہوگئے۔
ان معاہدوں میں پاکستان کو شامل کرانے کی بنیاد لیاقت علی خان نے امریکا کا دورہ کر کے رکھی اور پھر بعد میں وزیراعظم پاکستان چوہدری محمد علی کا کلیدی کردار تھا، جن کی زیرقیادت سینئر بیوروکریٹس کا ایک مخصوص گروہ پاکستان کو امریکا کا حلیف بنانے پر تلا ہوا تھا۔ بیوروکریٹس کا یہی ٹولہ ان سیاستدانوں کی کردار کشی بھی کرواتا تھا، جو ملک کو آزاد و خودمختار وفاقی جمہوریہ بنانے کے خواہشمند تھے اور اس قسم کے معاہدوں کے خلاف آواز اٹھاتے تھے۔
نوجوان قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ SEATO جنوب مشرقی ایشیائی ممالک پر مشتمل دفاعی معاہدہ تھا، جو بنیادی طور پر کمیونسٹ چین کا بحرہند میں داخلہ روکنے کے لیے کیا گیا تھا۔ مگر اس میں پاکستان کو بھی شامل کیا گیا تھا۔CENTO سوویت یونین کو گرم پانیوں اور مشرق وسطیٰ میں داخلے سے روکنا تھا۔ ان دونوں معاہدوں سے پاکستان نے کیا حاصل کیا؟ اس موضوع پرآج تک کھل کر بحث نہیں ہوئی۔
بیسویں صدی کی آخری دہائی کے ابتدائی برسوں میں سوویت یونین کے تحلیل ہونے کے ساتھ ہی سرد جنگ کا خاتمہ ہوگیا۔ گویا سرمایہ داری نے کمیونزم کی سیاسی قوت کو پیچھے دھکیل دیا۔ اس عمل میں انفارمیشن اور سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی اور سرمایہ کی عالمگیریت نے کلیدی کردار ادا کیا۔ سردجنگ کے خاتمے کے بعد امریکا واحد عالمی قوت کے طور پر سامنے آیا۔
تزویراتی نکتہ نظر سے وہ آج بھی عالمی قوت ہے، لیکن معاشی استحکام کے لیے تیز رفتار دوڑ نے عالمی سطح پر اقتصادی قوتوں کے کئی مراکز قائم کردیے۔ خاص طور پر یورپ میں ارتکاز کے بعد معاشی ترقی کا محور ایشیا منتقل ہوگیا۔ اس وقت چین اور بھارت کے علاوہ انڈونیشیا، ملائشیا، فلپائن، تھائی لینڈ، جنوبی کوریا اور تائیوان معاشی ترقی کی دوڑ میں لگے ہیں، جب کہ پاکستان نظر نہیں آرہا۔
لہٰذا اس تناظر میں چین کو ایک کمیونسٹ ملک سمجھنا بہت بڑی غلطی ہے۔ آج اس کا ان سیاسی، معاشی اور سماجی نظریات اور طرز حکمرانی سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے، جو مارکسی روایات کا حصہ ہیں۔ اس کے تمام تر اقدامات وہی ہیں، جو ایک ابھرتی ہوئے سرمایہ دار ملک اور استعماری قوت کے ہوا کرتے ہیں، یعنی خام مال کا حصول اور مصنوعات کی عالمی منڈیوں تک رسائی، اور ان پر بالادستی قائم کرنے کے لیے ہر ممکنہ حربہ کا استعمال۔ تجارتی رسل رسائل پر مکمل کنٹرول قائم کرنے کی کوششیں کرنا اور مختلف خطوں اور علاقوں پر اپنی سیاسی و ثقافتی بالادستی قائم کرنا شامل ہیں۔
ایسی صورتحال میں ایک ترقی پذیر ملک کی قیادت کے لیے لازمی ہوتا ہے کہ وہ کسی ابھرتی ہوئی استعماری قوت کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی معاہدے کرتے وقت اپنے قومی تشخص، معاشی و معاشرتی نظام اور ثقافتی اقدار کے تحفظ کے بارے میں بھی پیشگی حکمت عملیاں تیار کرے۔ مگر شاید فرط جذبات میں اس جانب توجہ دینے کی زحمت گوارا نہیں کی جارہی۔
اس میں شک نہیں کہ سماجی ترقی کے لیے معاشی استحکام ضروری ہوتا ہے۔ اس بات میں بھی دو رائے نہیں کہ ترقی پذیر ملک کو کسی نہ کسی ترقی یافتہ ملک کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ مگر اپنا قومی وقار، اپنے وسائل کو داؤ پر نہیں لگایا جاتا۔ ملائشیا نے 1966ء میں جاپان سے وہ ٹیکنالوجی حاصل کی جسے چھوڑ کر وہ آگے بڑھنا چاہتا تھا۔ لیکن صنعتی ترقی کی طرف آنے کے لیے اس نے اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے پر توجہ دی۔
بھارت جس کے ساتھ ہر سطح پر ہماری مسابقت ہے، اس نے بھی موجودہ سطح تک پہنچنے کے لیے تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کو اولین ترجیح بنایا۔ انڈین انسٹیٹیوف آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی پورے بھارت میں 28 کے قریب برانچیں ہیں، جس کا تعلیمی معیار امریکی تعلیمی ادارے MIT سے کسی طور کم نہیں ہے۔
کہتے ہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، مگر پاکستان کی مقتدر اشرافیہ جس کے Genes میں غلامی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، سیاسی عزم و بصیرت سے عاری ہونے کے سبب ہر بار ایک نئے آقا کی تلاش میں رہتی ہے۔ اس میں نہ دوراندیشی ہے اور نہ اہلیت کہ بدلتے عالمی منظرنامے کی ترجیحات کو سمجھ سکے۔
یہی سبب ہے کہ پچاس کے عشرے میں جس طرح امریکا کے دام الفت میں گرفتار ہوئے، اسی انداز میں آج چین کے عشق کا بھوت سوار ہے۔ کل بھی ان اہل دانش کو احمق، بے وقوف اور ملک دشمن قرار دیا جارہا تھا، جو مختلف نوعیت کے تحفظات کا اظہار کررہے تھے، آج بھی حکومت اور حکومت نواز حلقے احتیاط کا مشورہ دینے والوں کو جاہل، کم عقل اور ملک دشمن قرار دے رہے ہیں۔
دراصل ہمارے حکمرانوں کا معاملہ اس دُم کے مصداق ہے، جو بارہ برس تک نلکی میں رکھنے کے بعد بھی سیدھی نہ ہوسکی۔ 70 برسوں کے دوران نئے اداروں کی تشکیل تو درکنار، انگریز دور سے ورثے میں ملنے والے اداروں کو بھی محفوظ نہ رکھ سکے۔
امریکا کے ساتھ ساٹھ برس کے قریبی تعلقات میں اپنے ملک کے لیے ایسے کون سے ٹھوس فوائد حاصل کرلیے جو اب چین سے لے لیں گے۔ جو رپورٹس آرہی ہیں، ان سے تو صاف ظاہر ہے کہ تمام تر فوائد چین کو حاصل ہوں گے اور مونگ پھلی کے جو چند دانے ملیں گے، وہ اشرافیہ کی جیب میں چلے چاہیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
اس ملک کے متوشش شہریوں کی صرف یہی خواہش ہے کہ چین کے ساتھ نئے اقتصادی معاہدے کرتے ہوئے، وہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں، جو ماضی میں ہوچکی ہیں۔ کسی طاقت کی الفت میں اس قدر نہ بڑھا جائے کہ اپنا تشخص ملیامیٹ ہوجائے۔ ہمارے حکمرانوں کے ذہن میں یہ بات رہنی چاہیے کہ ڈپلومیسی میں کوئی تعلق نہ شہد سے میٹھا ہوتا ہے، نہ ہمالیہ سے بلند اور نہ سمندروں سے گہرا۔ تعلقات کا انحصار باہمی مفادات کے حصول پر ہوتا ہے۔
چین کو مشرق وسطیٰ اور شمال مشرقی افریقہ تک رسائی کے لیے گوادر کی بندرگاہ کی ضرورت ہے، اس کے لیے سرمایہ کاری کررہا ہے۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اس عمل سے مقامی صنعتکاروں، سرمایہ کاروں اور عوام کے لیے کیا فوائد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں کسی منصوبے سے اختلاف نہیں ہے، اس کے مندرجات پر تحفظات ہیں۔