بارش
بارش میں تاریخ پر نظر گئی تو ایک صحابی ابوذرغفاریؓ ذہن میں آگئے۔
لاہور:
صبح دم بارش برسنے کی آوازسنائی دی۔ساتھ ساتھ مٹی کی وہ نایاب خوشبو جسکے سامنے فرانس کی بہترین خوشبوبھی ادنیٰ معلوم ہوتی ہے۔ باہر دیکھا تو پانی کے قطرے موتیوں کی طرح سبزے پرگرکے جذب ہوتے جارہے تھے۔ شائد قطرہ کی زندگی میں مٹی میں ہی ضم ہونا لکھا ہے۔ اسی سے سبزہ اورزندگی کی نموہوتی ہے۔ شیشہ کھولا تو لازوال موسیقی کی آوازکانوں میں رس گھولنے لگی۔بارش برسنے کی آفاقی آواز۔ایک ایساسُراورتال جسکی نقل کوئی بھی نہیں کرسکتا۔یہ قدرت کی اپنے ہاتھ سے ترتیب دی ہوئی آفاقی دھن ہے۔کبھی نہ ختم ہونے والی۔ہمیشہ لازوال۔
دوماہ سے زندگی کی ترتیب پرسنجیدہ غورکررہا ہوں۔ ایک داناانسان سے سوال کیاکہ آخر،انسان کی زندگی میں بے ترتیبی کیسے کم کی جاسکتی ہے۔جواب بہت سادہ مگر پُر تاثیرتھا۔روزوشب کوقدرت کے حساب سے گزارنے شروع کردو۔ صبح دم اُٹھنے کی عادت ڈال لو۔خودبخودکئی معاملات ڈگرپرآجائیں گے۔مشورہ سادہ تو تھا مگرعمل کرنابہت کٹھن۔ اندھیرے کو نور میں بدلنے کاوقت۔جب شب کی تاریکی ایک چادرکی طرح آسمان سے اُٹھائی جارہی ہوتی ہے اور اُجالا دھیرے دھیرے سامنے آتاہے۔
پہلے چنددن توکافی تکلیف ہوئی۔ مگراب عادت سی بن گئی ہے۔جب کسی کوبتاتاہوں کہ رات کے کھانے پرساڑھے نوکے بعد نہیں ٹھہرسکتا،توکئی لوگ عجیب سے سوال کرتے ہیں۔ پوچھتے ہیں،کہ خیریت،کوئی دیگر مصروفیت ہے۔ میرا جواب اب حددرجہ پختہ ہوتا جارہا ہے۔ جلد سونا چاہتا ہوں۔اسی وجہ سے کامران نشاط کے کھانے پردودن قبل جانے میں ناکام رہا۔ اشعر شاہ، زاہد اور راجہ آصف کے پیہم اصرارکے باوجودنہ جاسکا۔
خیربات توآج کی ہورہی تھی۔بارش دیکھ کرمحسوس کرنے کوبھی دل چاہا۔فیصلہ کیاکہ لارنس گارڈن جایاجائے اورفطرت کوطلوع ہوتے دیکھاجائے۔لارنس گارڈن، جسے اب باغِ جناح کہاجاتاہے،سوسال سے زیادہ عرصہ پہلے اس خوبصورت باغ کوبنانے والالارنس ہی تھا۔ کافر فرنگی جو لاہورکوایساتحفہ دے گیا، جو شہر کے حسن کی وجہ بن گیا۔ اب اس کانام باغ جناح رکھ ڈالاگیا۔ معلوم نہیں کیوں، کیونکہ نام تواس کاہوناچاہیے جس نے وہ عظیم کام کیاتھا۔
شائد ہم بڑے کام کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے لہذاپرانے بلکہ قدیم منصوبوں سے چھیڑخانی کرکے انھیں دوبارہ کوئی نام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔شہروں کے ساتھ بھی مشکل ساسلوک کیاگیا۔لائل پوراچانک فیصل آبادبن گیا۔منٹگمری کا نام بدل کرساہیوال رکھا گیا۔ کیمبل پورپُراسرار طورپراَٹک کے نام سے منسوب ہوگیا۔مگراصل دادتوسرلائل اوران جیسے لوگوں کودینی چاہیے جنھوں نے نئے شہربنائے۔اس خطہ کو آبادکیااورپھرواپس چلے گئے۔
لارنس گارڈن میں چلنا شروع کیاتوہلکی ہلکی پھوارمسلسل جاری تھی۔پانی کے قطروں سے لباس بھیگ گیا۔تھوڑی دیرکے بعدایسے معلوم ہونے لگا کہ بارش کے رم جھم گرتے ہوئے موتی،جسم پرنہیں بلکہ روح پربرس رہے ہیں۔ایک نیا جہان نوجس میں حیرت انگیزخوبصورتی تھی۔جس طرف بھی دیکھا،سبزہ اورفطرت بغلگیرنظرآئے۔
ایک صدی سے زیادہ بوڑھے مگر توانا درخت،اس شہرکے وہ نگہبان ہیں۔ دور سڑک پرایک بوڑھاآدمی پیلے رنگ کی بنیان پہن کرقدرتی پانی سے دھلی ہوئی سڑک کومزیدصاف کرنے کی بے جان سی کوشش کر رہا تھا۔اس اجنبی اور بے نام بوڑھے اہلکار کا ریاست سے کیا رشتہ ہے۔ہماری ریاست اصل میں کیا ہے۔کیاکبھی اس جیسے کمزوراورلاغرطبقہ کی قسمت بدل پائیگی۔
اگر سویڈن، برطانیہ اورڈنمارک میں ریاست واقعی ماں جیسی ہے، تو ہمارے کرخت معاشرے میں یہ سوتیلی ماں کیسے بن گئی۔ جس میں نہ کسی کے حقوق ہیں اورنہ کوئی اپنی ذمے داری پوری کرنے میں سنجیدہ ہے۔مقام حیرت ہے کہ ہم اپنے آپکو انسان گردانتے ہیں۔حالانکہ ہمارے جیسے ممالک میں تو انسان توصرف چندسوہی ہوتے ہیںباقی انسان نماوہ مخلوق ہے جوہرطرح کے استحصال کاشکار ہے۔ عجیب امریہ بھی ہے کہ جولوگ ہمیں بربادکررہے ہیں،ہمیں باور کروارہے ہیں کہ وہی ہمارے محسن ہیں۔مزیدستم اور کیاہوگا۔
بارش میں تاریخ پرنظرگئی تو ایک صحابی ابوذرغفاریؓ ذہن میں آگئے۔ان کانام طالبعلم نے برگزیدہ علماء کی زبان سے بہت کم سنا۔پڑھے لکھے لوگ توخیرادراک ہی نہیں کرسکتے کہ وہ عظیم شخص کیاتھا۔یہ حضرت غفار یؓ ہی تھے جنھوں نے اسلام کے اقتصادی نظام کوغریب کے فائدے کے لیے اُجاگرکیا۔انھوں نے کہاتھا"اگریہ سبزمحل حکومت کے پیسے سے تعمیرکررہے ہوتوخیانت ہے۔ اور اگر اپنی ذاتی دولت کواستعمال کررہے ہوتویہ سرفہ ہے۔دونوں چیزیں آقاؐ نے ممنوع فرمائی تھیں"۔
غورسے دیکھیں توفلاحی اسلامی اقتصادی نظام کی بنیاد حضرت ابوذرغفاریؓ کے ذہن میں راسخ تھی۔دنیاکے تمام فلاحی اقتصادی ماہرین حضرت ابوذرؓکے خیالات کوبے حدسنجیدہ لیتے ہیں۔ آج پوری دنیامیں تمام فلاحی ریاستیں دراصل اسلام کے عظیم پیغام پرہی عمل کررہی ہیں۔بارش میں سوچ کادھاراحددرجہ مدوجزر کا شکارہوگیا۔اپنے ہی سوالات سے گھبراکرگھرواپس آگیا۔ پانی اورسنجیدہ سوالات سے شرابور۔اکثرایسے سوالات ہیں جنکے جواب میرے پاس نہیں۔دانالوگوں سے پوچھتا رہتا ہوں۔ساجدعمرگل،ڈاکٹرارشدبٹ اورفرخ گوئندی اس فہرست میں شامل ہیں۔
دودن قبل گوئندی صاحب کے پبلشنگ ہاؤس جانے کااتفاق ہوا۔حددرجہ اعلیٰ چھپی ہوئی کتابیں دیکھ کرعجیب سی مسرت ہوئی۔ایسی خوشی جوبہت کم نصیب ہوتی ہے۔فرح گوئندی بھی حیرت انگیزشخص ہے۔جوانی میں پہلے اپنے آپ سے لڑتا رہا اور پھر طویل عرصہ غریب آدمی کے حقوق کے لیے شمشیرزن رہا۔آج بھی یہی حال ہے۔اسے ناکامی یاکامیابی سے کوئی سروکارنہیں۔ایک مخصوص سوچ کااسیر ہے اوراسی طرح زندگی گزاررہاہے۔
عجیب سی بات بتائی۔ پبلشنگ ہاؤس میں کام کرنے والے اس کے ملازم نہیں بلکہ خود مختارشراکت دارہیں۔عجیب ساکاروباری ماڈل۔ شائد اسی لیے مہینوں ملک سے باہربھی رہ لیتاہے اورغیرموجودگی میں کام بھرپورطریقے سے چلتا رہتا ہے۔ اس نمونہ کاچھاپہ خانہ آج تک دیکھنے میں نہیں آیا۔وہیں بیٹھے ہوئے ایک برگزیدہ شخص نے سوال کیاکہ ہمارے ملک یعنی پاکستان کے کیاحالات ہیں۔اس سوال کامیرے پاس اپنی سوچ کے مطابق ایک جواب ہے۔
میرا جواب ایک سوال میں چھپا ہوتاہے۔وہ ہے کہ آپ کونسے پاکستان کی بات کررہے ہیں۔امیرکے یاغریب کے۔اکثرلوگ اس سوال کے بعد کچھ زیادہ نہیں پوچھتے۔حقیقت یہ ہے کہ اس پیارے ملک میں کئی ملک آبادہیں۔امیرکاپاکستان اس کے اورخاندان کے لیے امریکا سے بھی بہترہے۔غریب کاپاکستان بالکل مختلف ہے۔تمام عمرڈھورڈنگرکی طرح دوسروں کابوجھ اُٹھا اُٹھا کر عالم عدم کوروانہ ہوجاتاہے۔شائدآپ کومعلوم ہو،بلکہ آپکو ضرورمعلوم ہوناچاہیے۔نئی لینڈکروزر کی موجودہ قیمت دو کروڑکے نزدیک ہے۔لاہورمیں دوکنال کے اچھے گھرکی قیمت انیس کروڑسے لے کربائیس کروڑتک ہے۔
حقیقت عرض کررہاہوں۔نہیں یقین آتا،توکسی سے بھی پوچھ کردیکھ لیجیے۔سڑکوں پر لینڈکروزر ہرطرف نظرآرہی ہیں۔ دوچار کنال کے گھرہرطرف نظرآتے ہیں۔ امیر کا پاکستان، غریب کے خواب سے بھی زیادہ خوبصورت،محفوظ اور پرآسائش ہے۔اس کے برعکس،وہ طبقہ اکثریت میں موجود ہے جسکی شناخت پلاسٹک کے کارڈسے بڑھ کرکچھ بھی نہیں ہے۔بحث سے پہلے یہ جانناضروری ہے کہ سوال کرنے والاکس پاکستان کی بات کررہاہے۔
کالم کوجلدختم کرناچاہتاہوں کیونکہ دوپہرکوعرفان شامی کے لیے کھانے کاانتظام کیاگیاہے۔سماجی تقریبات کو بہانے سے ٹالتارہتاہوں۔مگرکل دوپہر،فیصل آبادسے ڈاکٹرگابا کا فون آیاکہ ظہرانے میں ضرور حاضرہونا ہے۔ شامی اور ڈاکٹر گابا دونوں میڈیکل کالج کے کلاس فیلو ہیں۔گاباسے میری بات تقریباًدویاتین دہائیوں کے بعد ہوئی۔یاشائداس سے بھی زیادہ۔گابا،میراشہردارہے اور امراض قلب کاایک مستند ڈاکٹر ہے۔ طالبعلمی کے زمانے سے ہی ایک سنجیدہ اور محتاط انسان۔کاروباری خاندان سے تعلق رکھنے کے باوجود، روایتی کاروباری شخص بننے سے انکارکردیا۔کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج میں آگیا۔
یاد ہے، انتہائی کم گومگرمحنتی انسان تھااورہے۔ظہرانے کی وجہ یہ ہے کہ عرفان شامی کا تبادلہ ازبکستان میں بطور سفیر ہوا ہے۔ شامی،میری طرح ڈاکٹری چھوڑکرسرکارکی نوکری میں آگیا تھا۔فارن سروس میں آنے کے بعدبہترین مقامات پر تعینات رہاہے۔شامی کوتوخیرکیڈٹ کالج حسن ابدال سے ہی جانتاہوں۔بچپن سے لے کرآج تک جتنی ذہنی توانائی شامی میں دیکھی ہے،کسی اورمیں نہیں دیکھ پایا۔
باہردیکھتاہوں تولگتاہے کہ بارش مکمل طورپرتھم چکی ہے۔مگراصل بات یہ ہے کہ قیمتی قطروں کی یہ پھوارمیری روح اوروجدان میں منتقل ہوچکی ہے!