ون بیلٹ ون روڈ فورم

چین اپنی ترقی کے تجربات میں تمام ممالک کو شریک کرنے کے لیے تیار ہے۔


Zamrad Naqvi May 22, 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

PESHAWAR: پچھلے ہفتے چین کے دارالحکومت بیجنگ میں ون بیلٹ ون روڈ کے عنوان سے فورم منعقد ہوا جس کا محفف ''او بور'' ہے۔ اس کانفرنس میں روس کے صدر ولادی میر پیوٹن اور ترکی کے صدر رجب طیب اردوان سمیت 29 ملکوں کے سربراہان اور 130ریاستوں کے1500 مندوبین شریک ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اجتماع تھا جس میں وزیراعظم نواز شریف اور پاکستان کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے ایک بڑے وفد کے ساتھ شرکت کی۔

روسی صدر نے فورم سے خطاب میں کہا کہ 21ویں صدی میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اوبور اہم منصوبہ ہے۔ برطانوی وزیر خزانہ نے کہا کہ برطانیہ چین کے نئے سلک روڈ منصوبے کا فطری شراکت دار ہے اور اس طرح کے منصوبے کا مضبوط حامی ہے۔ جب کہ وہائٹ ہاؤس کے مشیر نے کہا کہ امریکا چین کے انفراسٹرکچر روابط کے اس منصوبے کی حمایت کرتا ہے۔

آسٹریلیا کے وزیر تجارت نے کہا کہ چین کے اس منصوبے سے تجارتی مواقعے کی نئی راہیں کھل جائیں گی۔ ہم اس شاندار منصوبے کی تعریف کرتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پوری دنیا ہی اس منصوبے کی افادیت کی قائل ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ سب سربراہان مملکت اور اعلیٰ حکومتی نمائندے اس منصوبے کی تعریف نہ کرتے۔ اور تو اور تعریف کرنے والوں میں خود امریکا بھی شامل ہے۔

مغربی تجزیہ نگار بھی او بور منصوبہ پر اپنے تحفظات کے باوجود کوئی ٹھوس تنقید نہیں کر سکے سوائے اس کے کہ طویل مدت میں اس معاشی حکمت عملی کے بروئے کار آنے کی صورت میں دنیا کا عالمی معاشی مرکز ثقل تبدیل ہو سکتا ہے جو کہ اس وقت امریکا اور یورپ ہے۔

اس حقیقت کو اب تسلیم کر لیا گیا ہے کہ عالمی تجارت اوبور منصوبہ ملکوں اور قوموں کی معاشی ترقی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہے۔ پاکستان کی خوش حالی اور مضبوطی بھی اس منصوبے سے جڑی ہوئی ہے اس لیے یہ کوئی اچنھبے کی بات نہیں جب بیجنگ میں یہ کانفرنس ہو رہی تھی تو پاکستانی بلوچستان میں یک بعد دیگرے دو دہشتگرد دھماکے ہوئے جس میں کئی درجن قیمتی جانیں ضائع ہو گئیں۔

کہا جا رہا ہے کہ بھارت اس فورم میں شرکت نہ کرکے تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔ جب کہ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایک خطہ ایک سڑک پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس منصوبے میں شامل ممالک پر قرضوں کا ناقابل برداشت بوجھ آ جائے گا اور بھارت کسی بھی ایسے منصوبے میں شرکت نہیں کرے گا جس میں اسے اپنی خود مختاری پر سمجھوتہ کرنا پڑے۔ دوسری طرف بھارت نے بھرپور کوشش کی کہ روس کے صدر اس کانفرنس میں شرکت نہ کریں لیکن صدر پیوٹن نے اس کانفرنس میں بھرپور شرکت کر کے بھارت کو خفت سے دوچار کر دیا۔

ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ کتنا بڑا ہے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ یہ چینی منصوبہ تین براعظموں کو ملائے گا اس طرح یہ منصوبہ دنیا کی آدھی آبادی کو آپس میں جوڑنے کا باعث بنے گا۔ اس منصوبے نے ملکی سرحدوں کو بے معنی بنا کر بین الابراعظمی تعاون کا حقیقی معنوں میں آغاز کر دیا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس منصوبے پر موجودہ سال میں نو سو ارب ڈالر سرمایہ کاری کی منصوبہ بندی کر لی گئی ہے جب کہ چین ہر سال ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری مختلف ممالک میں کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ ان منصوبوں میں پاکستان کی گیس و تیل کی پائپ لائن اور روس کی بندر گاہ میں ریلوے کے منصوبے اور بنگلہ دیش میں پلوں کی تعمیر شامل ہے۔

چینی صدر نے فورم سے خطاب کرتے ہوئے اسے 21ویں صدی کا سب سے بڑا پراجیکٹ قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ منصوبہ امن و استحکام اور خوش حالی کا منصوبہ ہے جس کے تحت ایشیا افریقہ اور یورپ کے ساتھ سڑکوں بندر گاہوں اور ریلوے کے ذریعے روابط قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح سے 65ممالک ایک دوسرے سے جڑ جائیں گے۔

چینی صدر شی جن پنگ، ماؤزے تنگ کے بعد جو موجودہ چین کے بانی تھے، سب سے طاقتور صدر ہیں ان کی تقریر کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا جب انھوں نے یہ کہ مخاصمت اور سفارتی قوت کے اظہار کے پرانے طریقوں کو ختم کر کے ہمیں تعاون کا ایک آزادانہ موقع فراہم کرنا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہم دشمنیوں کے کھیل کی پرانی راہ پر نہیں چلیں گے بلکہ تعاون اور باہمی فائدے کا نیا ماڈل تعمیر کریں گے۔

چین اپنی ترقی کے تجربات میں تمام ممالک کو شریک کرنے کے لیے تیار ہے۔ انھوں نے کہا پوری دنیا کو امن ترقی اور عالمی انتظام و انصرام میں مشکلات کے سنگین چیلنجز درپیش ہیں۔ پچھلے چار سال میں 100سے زائد ملکوں کے درمیان تجارت 30کھرب ڈالر سے تجاوز کر گئی جب کہ ان ممالک میں چینی سرمایہ کاری50 ارب ڈالر تک جا پہنچی۔ انھوں نے اپنی تقریر میں سب سے انوکھی بات یہ کی جس کی دنیا صدیوں سے منتظر ہے کہ چین سلامتی اور استحکام کو نقصان پہنچانے کے لیے کوئی چھوٹا گروپ تشکیل دینے کا ارادہ نہیں رکھتا بلکہ ہم مشترکہ بقائے باہمی کے لیے ایک بڑا خاندان پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ یہ سوچ کمیونسٹ نظریے کی اساس ہے کہ پوری دنیا ایک خاندان میں بدل جائے اور عالمی وسائل اس خاندان کی مشترکہ ملکیت ہوں۔ اس میں کوئی امیر ہو نہ غریب بلکہ سب برابر کی حیثیت رکھتے ہوں۔ انھوں نے کہا ہم پرانی گھسی پٹی سیاسی و جغرافیائی بالادستی کی بحالی نہیں چاہتے۔ انھوں نے کہا کہ تمام ممالک کو ایک دوسرے کی خود مختاری وقار علاقائی سالمیت سماجی نظام ان کے اہم مفادات اور تحفظات و خدشات کااحترام کرنا چاہیے۔

سامراج کو سامراج اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے وسائل کو لوٹ کر قوموں اور ملکوں کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔ ماضی میں برطانوی سامراج اورحال کا امریکی سامراج یہی کر رہے ہیں۔ اس کے لیے وہ ملکوں کے درمیان لڑاؤ اور وسائل پر قبضہ کرو کی پالیسی ہتھیار کے طور پراستعمال کرتے ہیں۔

ٹرمپ کا حالیہ دورہ مڈل ایسٹ اسی لیے ہے کہ کس طرح مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوں کو دہشتگردی کے نام پر آپس میں لڑا کر اس خطے کے قدرتی وسائل پر قبضہ محفوظ بنایا جائے اس کے لیے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کا بادشاہ بنانا ضروری ہے۔ جب کہ چین نے اپنے عزائم واضع کر دیے ہیں کہ وہ کسی بھی طرح سامراج نہیں بننا چاہتا۔ نہ ہی وہ کچھ ملکوں کا گروپ بنانا چاہتا ہے۔

ہم ون بیلٹ ون روڈ سے اس صورت ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جب ملک میں گڈگورننس اور میرٹ کا نظام ہو جس کی نایابی کا ذکر موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ اور سابقہ چیف جسٹس بار بار کر چکے ہیں۔ موجودہ آرمی چیف نے بھی چند دن پیشتر ملک میں ناقص حکمرانی اور انصاف نہ ہونے کا ذکر کیا ہے۔

بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے لیے اگست ستمبر اہم مہینے ہیں۔

سیل فون:۔0346-4527997

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں