این جی اوز کا کردار

صرف سندھ میں چھتیس ہزار این جی اوز ہیں، جن میں بارہ ہزار کراچی میں اور چوبیس ہزار اندرون سندھ ہیں۔


Zuber Rehman May 22, 2017
[email protected]

PESHAWAR: عام طور پر این جی اوز کو غیر سرکاری تنظیم کے طور پر جانا جاتا ہے، لیکن آج کل اسے بیرون ملک سے فنڈنگ حاصل کرنے والے ادارے کے طور پر گردانتے ہیں، اور یہ بات درست بھی ہے۔

یہ مزدوروں، کسانوں، خواتین، بچوں، معذوروں، بے سہارا لوگوں، بیواؤں، مفت علاج کروانے کے لیے اور مفت تعلیم دلوانے کے لیے اپنی تنظیموں کو رجسٹرڈ کرواتی ہیں۔ اور لوگوں کی بھلائی کرنے کے لیے اس حد تک اپنی بھلائی میں لگ جاتی ہیں کہ ان کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں، بڑے اسپتالوں میں ان کا علاج ہوتا ہے، لاکھوں روپے کی گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں، ائیرکنڈیشن دفاتر ہوتے ہیں، سیکڑوں کے عملے ہوتے ہیں، جن کی کروڑوں روپے کی تنخواہیں ہوتی ہیں، فائیو اسٹار ہوٹل میں اجلاس، لنچ اور ڈنر کیے جاتے ہیں۔

ہزاروں میں سے دو چار ایسی این جی اوز بھی ہوتی ہیں جو مزدور طبقے کے نظریات پر اور ایمانداری سے عوام کی خدمت کرتی ہیں۔ لیکن ہزار میں سے دو چار کی ایسی کارکردگی واقعی قابل ستائش ہے، لیکن بحیثیت مجموعی این جی اوز کا کردار 'کھاؤ کماؤ' کا ہے۔ یہ کبھی بھی سماجی انقلاب کی بات نہیں کریں گے، جب بھی ان سے بات کرو تو یہ اصلاحات اور اسی نظام میں رہتے ہوئے بھلائی کی پیوندکاری کرنے کی بات کریں گے۔

بعض این جی اوز تو مزدور طبقے کی پرواہ نہیں کرتی کرتی ہیں۔ سندھ میں ایسی این جی اوز ہیں جو بنگالی مزدوروں کو اپنی یونین کا کارکن نہیں بناتیں اور دلیل دیتے ہیں کہ یہ مقامی نہیں ہیں۔ جب کہ خود یورپ اور عالم عرب میں جاکر ملازمت کرتے ہیں۔ ملک بھر میں لگ بھگ دو لاکھ سے زیادہ این جی اوز ہیں۔ ان میں ایسی این جی اوز ہیں جو براہ راست یو این او اور یونیسیف سے منسلک ہیں اور اربوں روپے کی فنڈنگ حاصل کرتی ہیں۔ بعض کو حکومت کے ذیلی اداروں سے زیادہ بجٹ مختص کیے جاتے ہیں۔

صرف سندھ میں چھتیس ہزار این جی اوز ہیں، جن میں بارہ ہزار کراچی میں اور چوبیس ہزار اندرون سندھ ہیں۔ یہ تنظیمیں کبھی بھی سرمایہ داری کے خلاف یا کمیونسٹ نظام کی حمایت میں کوئی بات نہیں کرتیں، بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے حیات کو طول دینے میں مددگار بنتی ہیں۔ نوے فیصد این جی اوز کارپوریٹ کلچر کا شکار ہیں۔

حکومت کی طرح ملک بھر میں یہ این جی اوز سماجی مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہیں۔ بیشتر این جی اوز اور اعلیٰ ملٹی ملین ڈالر کے منصوبوں میں کارپوریٹ ادارے کی طرز کا کردار ادا کررہی ہیں۔ اکثر انگریزی میں ہی بات کرنے سے ان کی عوام میں قبولیت تیزی سے گھٹتی جارہی ہے۔ این جی اوز کو چلانے والے ٹیکنو کریٹ اور کنسلٹنٹس کے ساتھ فائیو اسٹار ہوٹلوں کے ہال اور بورڈز روم میں بیٹھنے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ معاشرے کے ساتھ کھلی ناانصافی اور استحصال ہے۔

بیشتر این جی اوز معاشرے کے مظلوم طبقات کے حقوق کی بحالی کے لیے منصوبے تیار کرتی ہیں اور بیرونی ممالک کے ڈونرز سے فنڈز وصول کرتی ہیں۔ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں منصوبوں کی افتتاحی تقریب میں خواتین، بچوں، معذور افراد اور نوجوانوں کو درپیش مسائل کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے، اس حوالے سے تمام کام کاغذی دستاویزات اور صرف تصاویر میں نظر آتے ہیں، جب کہ مقامی سطح پر پسماندہ طبقات پر اثر انداز نہیں ہوتے، اس لیے این جی اوز اور فنڈ کو ٹھکانے لگانے کے لیے فائیو اسٹار ہوٹلوں میں سیمینار اور ورکشاپس کا انعقاد کرتی ہیں۔

ان تقریبات میں محنت کش اور غریب طبقات کے لوگ شریک نہیں ہوتے، بلکہ حکمران طبقات، سیاسی شخصیات کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا جاتا ہے اور انھیں بھی اسپانسر بنایا جاتا ہے۔ وہاں این جی اوز کی مافیا تشریف فرما ہوتی ہے، اس کے علاوہ فوٹو سیشن کے لیے مقامی سطح پر این جی اوز دورے کرتی ہیں اور متعلقہ حکومتی اراکین سے اجلاسوں کا سلسلہ جاری رکھتی ہیں۔ منصوبے کے مطلوبہ مقاصد حاصل کیے بغیر مختص فنڈ ختم ہوتے ہی این جی اوز کام کرنا بند کردیتی ہیں۔

پبلک پرائیوٹ پارٹنرشپ کے باعث حکومت اور این جی اوز سماجی مسائل حل نہ ہونے پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ حکومت کی ناراضگی اور این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ ہونے کا خوف طاری ہوتا ہے۔ حکومتی ادارے این جی اوز پر الزام تراشی کرتی ہیں جب کہ این جی اوز فنڈز کی کمی کا مسئلہ بتاتی ہیں۔ کچی آبادیوں میں غربت، جہالت اور بے روزگاری کے باعث خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ان علاقوں میں این جی اوز جانا پسند نہیں کرتیں۔

کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کارل مارکس اور اینگلز نے این جی اوز کو انقلاب کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا ہے۔ سرمایہ داری کے حیات کو طول دینے کے لیے دو راستے ہیں، ایک جارحانہ اور دوسرا مکارانہ شرافت۔ جارحانہ جیسے ہٹلر، مسولینی اور آج کل ٹرمپ، مودی کررہے ہیں، یعنی جبر کے ذریعے اور دوسرا سوشل ڈیمو کریسی، جیسے کہ برطانیہ، فرانس اور اسکینڈے نیوین ممالک ہیں۔ جارحانہ انداز میں سرمایہ داری کو بچانے کے لیے قتل و غارت گری کرنی پڑتی ہے۔

آج بھی مشرق وسطیٰ، مغربی افریقہ اور برصغیر میں یہ عمل اظہر من الشمس ہے۔ سوشل ڈیموکریسی کا رواج کوئی شرافت میں رائج نہیں ہوا، بلکہ سوشلسٹ انقلاب سے ان ملکوں کو بچانا تھا۔ چین میں جب انقلاب آیا تو ہانگ کانگ، تائیوان، مکاؤ، جنوبی کوریا کو انقلاب سے محفوظ رکھنے کے لیے یہاں امریکی سامراج نے یہاں کے ملکوں کو انڈسٹریلائزڈ اور ویلفیئر اسٹیٹ بنایا۔ اسی طرح روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہونے کے بعد یورپ کے سر پر سوشلسٹ انقلاب کا بھوت منڈلانا شروع ہوگیا، اس لیے سامراجیوں نے اسکینڈے نیوین ممالک سمیت مغربی یورپ کو ویلفیئر اسٹیٹ بنایا۔

اس کا بین ثبوت یہ ہے کہ سوشلسٹ بلاک کے خاتمے کے بعد اب یہ ویلفیئر اسٹیٹ، ویلفیئر نہ رہے۔ مثال کے طور پر سوئیڈن میں اسکول کے بچوں کو دودھ کی فراہمی بند کردی گئی، مزدوروں کی کٹوتی اور چھانٹی، پنشن میں کمی، کم مزدوروں سے زیادہ کام لینا وغیرہ، آج کل یورپ میں عام ہے۔ چونکہ اب سوشلسٹ بلاک نہیں رہا، چند سوشلسٹ ممالک ہیں، اس لیے عالمی سامراج آپس میں ہی گتھم گتھا ہورہے ہیں۔

عالمی طور پر سامراج کے دو مراکز بن چکے ہیں، ایک امریکا، برطانیہ، سعودی عرب، ترکی اور اسرائیل، تو دوسری جانب روس، چین، ایران، شام اور وسطی ایشیا کے ممالک ہیں۔ اب اس صورتحال میں عالمی سرمایہ داری اپنی زاید پیداوار کی وجہ سے انتہائی انحطاط کا شکار ہے۔ اب وہ اپنے ہی اداروں کے ذریعے اپنا کام نہیں کرپارہی ہے، اس لیے این جی اوز کو انقلاب کو روکنے کے لیے ہائر کیا ہوا ہے۔

سرمایہ دارانہ نظام میں مزید اصلاحات کی گنجائش ختم ہوچکی ہے، اب وہ اپنی موت کی جانب گامزن ہے، اس لیے این جی اوز ہو یا کوئی اور، دھوکا دہی کرنے والے اداروں کے ذریعے اس نظام کو بچایا نہیں جاسکتا ہے۔ اس کا انجام اور مسائل کا حل صرف اور صرف کمیونسٹ انقلاب یا امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔