اس کو کیا کہیے

اپنی جان کی فکرکرنا بھی رب العزت سے شکر ادا کرنے کے زمرے میں آتا ہے سو شکر ادا کرتے رہیے کہ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔


Shehla Aijaz May 22, 2017
[email protected]

KARACHI: اس نے گیارہویں جماعت کا امتحان دیا تھا، لمبی پڑھائی کرنے کے بعد بورہوگیا تھا، یار دوستوں نے سیروتفریح کا پروگرام بنایا تو وہ بھی چل دیا۔کھیل، ہنسی مذاق میں اچھا وقت گزر گیا اور وہ خوشی خوشی گھر لوٹ آیا۔ ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ پیر میں اکڑاؤ سا محسوس ہوا۔ گھر والوں سے کہا تو پہلا شک یہی گزرا کہ بچے پر اثر ہوگیا ہے۔

جھاڑ پھونک میں خاصا وقت برباد کردیا، بچہ اسکوٹر پر سوار کہیں جارہا تھا کہ اسے محسوس ہوا کہ اس کا پیر جیسے کام نہیں کر رہا وہ گھبرا گیا اس نے وہیں اسکوٹر چھوڑی اور فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا اس کی حالت دیکھ کر لوگوں نے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ پیر اکڑ گیا ہے اور پھر جیسے اس کا پاؤں مڑنے لگا، لوگوں نے فوراً اس کے گھر فون کیا کہ آپ کے بچے کی طبیعت خراب ہے اسے جلدی اسپتال لے کر جائیے۔

فون سن کر گھر والے دوڑے دوڑے آئے اور اسے لے کر اسپتال چلے، جہاں ایک نئی کہانی شروع ہوئی۔ بچے کو دل کا مرض ہے، گھر والے حیران کہ اچھا شریف بچہ نہ پان، نہ چھالیہ نہ سگریٹ نہ گٹکا۔ نہ کبھی پہلے شکایت کی پھر یہ دل کا مرض۔ بہرحال لاکھ، ڈیڑھ لاکھ علاج معالجے کی مد میں پہلے اسپتال میں جمع کروائے کیونکہ یہ اسپتال والوں کی اہم شرط تھی بچے کی حالت اس طرح کی ہوگئی کہ اسے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا۔

بچے کے ایک عزیز نے اسے دیکھا تو سمجھ گئے کہ اس میں اب جان نہیں لیکن اسپتال والے بھی خوب، یہاں تک کہ رات کے چار بج گئے اور تب جاکر اسپتال والوں نے ڈکلیئر کیا کہ بچہ مر گیا، گھر والے محبت سے مجبور اسے دوسرے اسپتال لے کر گئے تو پتا چلا کہ بچہ تو دو گھنٹے پہلے ہی مر چکا تھا اور وہ کسی بھی طرح سے دل کے عارضے میں مبتلا نہ تھا بلکہ اسے ٹیٹنس ہوچکا تھا جس نے اس کی جان لے لی۔

ٹیٹنس۔۔۔۔ یہ کیا بلا ۔۔۔۔ پتا چلا کہ بچے کو پکنک کے دوران معمولی سی چوٹ لگ گئی تھی جسے اس نے نظرانداز کردیا تھا اس معمولی چوٹ کے کھلے حصے سے جراثیم اندر سرائیت کرگئے اور مناسب وقت پر توجہ اور ویکسین نہ دینے کے باعث مرض اپنی آخری اسٹیج پر پہنچ گیا۔

جسم میں تشنج اور اکڑاؤ اس کی واضح علامت تھی جسے اسپتال والوں نے نظر انداز کیا اور ظاہر ہے کہ اس کی وجہ وہ لاکھوں روپے تھے جو انھوں نے اس کے والدین سے وصول کیے، حالانکہ یہ نہایت عام سی علامات ہیں جو ایک سائنس کے عام سے طالب علم کی سمجھ میں باآسانی سما سکتی ہیں۔ اس بچے کی خدا کی جانب سے اتنی ہی عمر لکھی تھی لیکن اس نے اپنے اردگرد کے بہت سے لوگوں کو بہت کچھ سمجھادیا کہ بے توجہی کسی بھی جانب سے کسی بھی طرح کی ہو، اس کے نتائج صفر ثابت ہوسکتے ہیں۔

ٹیٹنس (Tetanus) ایک بیکٹیریا (جس کا نام کلوسٹرڈیم ٹیٹنائی ہے) کی وجہ سے ہوتا ہے یہ عام طور پر مٹی میں پایا جاتا ہے اور انسانی جسم میں اس وقت سرائیت کرتا ہے جب چوٹ یا کسی وجہ سے جسم کا کوئی حصہ کٹ جائے یا زخمی ہوجائے یہاں تک کہ معمولی سی کیل سی پیر میں چبھ جائے اس پر توجہ نہ دی جائے تو اس چوٹ کے کھلے حصے سے یہ بیکٹیریا جسم میں داخل ہوجاتا ہے اس کو پھلنے پھولنے میں چند دن بھی لگ سکتے ہیں اور ہفتہ بھی اس کے بعد یہ اپنی علامات ظاہر کرنا شروع کردیتا ہے جس میں جسم میں درد، اکڑاؤ، تشنج اور ایک بہت اہم اور آخری علامت یہ ہے کہ انسان کا چہرہ جیسے جم جاتا ہے اسی لیے اس بیماری کو لاک جا بھی کہتے ہیں اس مقام پر آکر انسانی جسم میں مداخلت کا نظام کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔

اسی لیے ضروری ہے کہ جب کسی کو چوٹ لگے اور اس نے اے ٹی ایس کا انجکشن نہ لگوایا ہو تو فوری طور پر لگوا لے، یہ نہایت ضروری ہے کم ازکم ایک بار اس کا لگوانا بہت ضروری ہے۔ یہ ٹیٹنس کے مرض کی مدافعت میں نہایت کارگر ثابت ہوتا ہے، صرف چوٹ لگنے یا کٹنے کی صورت میں ہی نہیں بلکہ جلنے کی صورت میں اس مرض کے لاحق ہونے کا خطرہ ہوسکتا ہے اگر توجہ نہ دی جائے کیونکہ مٹی میں شامل یہ جراثیم جسم کے کھلے اور حساس زخمی مقامات کے ذریعے سرائیت کرتے اس کے دماغ اور نروس سسٹم پر اثر انداز ہوکر اپنی علامات ظاہر کرتے ہیں۔

پرانے زمانے میں جب ٹیٹنس کے نام سے شناسائی نہ تھی تو لوگ چوٹ لگنے اور خاص کر زنگ آلود کیل یا کسی ہتھیار سے چوٹ یا کٹ لگنے کی صورت میں زخم کو جراثیم کو محفوظ کرنے کے لیے خاص ترکیب استعمال کرتے تھے یہ ترکیب گو خاصی پرانی ہے لیکن آج بھی زہریلے مواد کو ناکارہ بنانے کے لیے کارگر ہے کیونکہ ٹیٹنس کے جراثیم سرائیت کرتے ہی اپنا زہر اگلنا شروع کردیتے ہیں، کسی صاف کورے کاٹن کے سفید چھوٹے سے کپڑے کے ٹکڑے میں تھوڑا سا نمک رکھ کر اسے فولڈ کرکے کسی اسٹیل یا تانبے کے چمچے یا چھوٹی کٹوری میں رکھیں اور اس پر چند قطرے سرسوں کا تیل ٹپکا کر اس میں پانی کے کچھ قطرے اس طرح ڈالیں کہ کاٹن کا ٹکڑا اچھی طرح تیل اور پانی سے بھیگ جائے اور پھر اسے آگ پر پکائیے۔

خیال رہے کہ آگ دھیمی ہوکاٹن کا ٹکڑا دھیمی آنچ پر اچھی طرح پکتے پکتے خشک ہو جائے گا پانی اور تیل آگ پر پکنے کے بعد نمک کی موجودگی میں زہر کے لیے تریاق کا کام دے گا۔ کوشش کریں کہ ٹکڑا بالکل خشک نہ ہو کچھ نم اور ہلکا سا گرم جو برداشت کیا جاسکے صاف ہاتھوں سے اٹھا کر زخم پر رکھ کر اس پر پٹی باندھ دیں اور صبح کھول دیں، یاد رہے کہ یہ صورت معمولی کٹ یا کیل لگ جانے کی صورت میں استعمال کیا جائے، زیادہ گہرے گہرے اور بڑے گھاؤ کے لیے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے اور زخم کو دھول مٹی سے بچایا جائے۔

چند برسوں پہلے کی بات ہے جب ایک ڈاکٹر کے چھوٹے بھائی کے پیر میں لوہے کی کیل چبھ گئی تھی نوجوان نے جوانی کے زعم میں توجہ نہ دی اور چند دنوں میں نوجوان ٹیٹنس میں مبتلا ہوکر جان سے گزر گیا، ہم اپنے اردگرد بہت سی چھوٹی چھوٹی بے پرواہیاں دیکھتے ہیں، غفلتیں برتتے ہیں یہ درست ہے کہ بیماریاں اوپر والے کی جانب سے آتی ہیں اور وہی شفا بھی دیتا ہے لیکن اپنی جان کی فکرکرنا بھی رب العزت سے شکر ادا کرنے کے زمرے میں آتا ہے سو شکر ادا کرتے رہیے کہ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔