نشتر پارک خودکش حملہ 7برس بعد بھی تفتیش کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی

گرفتار4ملزمان میں سے ایک بری، ٹریبونل بھی مقررہ میعاد میں کام مکمل نہیں کرسکا

100سے زائد گواہوں کے بیانات قلمبند نہ ہوسکے، گرفتار 4 ملزمان میں سے ایک بری، ٹریبونل بھی مقررہ میعاد میں کام مکمل نہیں کرسکا فوٹو فائل

جشن میلاد النبیؐ کے موقع پر نشتر پارک میں ہونے والے جلوس میں خود کش حملے کی تفتیش 7 برس بعد بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی۔

100 سے زائد گواہوں کے بیانات تاحال قلمبند نہیں کیے جاسکے ، گرفتار کیے جانے والے 4 ملزمان میں سے ایک کو بری کیا جاچکا ، واقعے کے بعد بنایا جانے والا ٹریبونل بھی اپنی مقررہ میعاد میں کام مکمل نہیں کرسکا تھا اور جسٹس رحمت حسین جعفری نے ریمارکس دیے تھے کہ پولیس نے جس انداز میں تفتیش کرتے ہوئے مقدمہ بنایا ہے اسے کسی بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکتا۔

تفصیلات کے مطابق 11 اپریل 2006 کو 12 ربیع الاول کے موقع پر نشتر پارک میں منعقدہ جلسے میں خود کش حملے کے نتیجے میں 63 افراد جاں بحق اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے ، واقعے میں جاں بحق ہونے والوں میں سنی تحریک کے مرکزی قائدین بھی شامل تھے ، واقعے کی تفتیش 7 برس بعد بھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی، واقعے کا مقدمہ الزام نمبر 71/06 سولجر بازار تھانے میں قتل اور انسداد دہشت گردی کی دفعہ سمیت دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا۔




مقدمے کی تفتیش میں سست روی کا یہ عالم ہے کہ 7 برس بیت جانے کے بعد اب تک گواہوں کے بیانات بھی قلمبند نہیں کیے جاسکے جن کی تعداد 100 سے زائد ہے، مقدمے کی سماعت کا انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 5 میں آغاز ہوا جوکہ کچھ عرصے بعد عدالت نمبر 2 منتقل کردی گئی، بعدازاں کیس عدالت نمبر ایک میں آگیا جس کے جج بشیر کھوسو ہیں، مقدمے میں 14 مذہبی جماعتوں کو نوٹس جاری کیے گئے لیکن صرف ایک جماعت نے کیس کی پیروی کی، واقعے کے بعد پولیس نے کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے 4 ملزمان سلطان محمود عرف سیف اللہ ، مفتی ذاکر حسین ، امین اور رحمت اللہ کو گرفتار کیا جبکہ مقدمے میں کچھ ملزمان کو مفرور بھی ظاہر کیا گیا۔

ملزم امین کو 19 اگست 2009 کو رہا کردیا گیا جبکہ دیگر ملزمان کو صوبے کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا جس کے بعد ایک ملزم سلطان محمود کو سکھر جیل سے اب تک عدالت میں پیش نہیں کیا گیا ، مقدمے کی سماعت 7 فروری کو ہوگی، اس سے قبل واقعے کی تحقیقات کیلیے بنائے جانے والے ایک رکنی ٹریبونل جسٹس رحمت حسین جعفری کو درخواست کے باوجود بھی مقررہ میعاد سے زائد وقت نہیں دیا گیا،مقدمے کی سماعت کے دوران جسٹس رحمت جعفری نے ریمارکس دیے تھے کہ پولیس نے جس انداز میں تفتیش کی اور کیس بنایا ہے وہ کسی بھی عدالت میں ثابت نہیں کیا جاسکتا، غور طلب امر یہ ہے کہ آج 7 برس گزرجانے کے باوجود تفتیش کسی منطقی انجام کو نہیں پہنچ پائی۔
Load Next Story