چینی سرمایہ کاری پاکستانی سماج اور سوشل میڈیا
اکیسویں صدی میں ثقافتی خصوصیات، بدلتے ہوئے معاشی حقائق کے زیادہ تابع ہوتی جارہی ہے
چین کی جانب سے پاکستان میں اربوں ڈالر سرمایہ کاری کے ابتدائی مراحل میں ہمارے یہاں بعض حلقوں کی جانب سے مختلف تحفظات یا خدشات کا اظہار کیا جارہا ہے۔ مثلاً چینی سرمایہ کاری سے پاکستان کے صنعت کار اور تاجر بہت متاثر ہوں گے۔ پاکستان میں چینی ہنرمند ، نیم ہنرمند افراد اور مزدوروں کی یلغار ہوجائے گی۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ چینی مردوں کی پاکستانی عورتوں سے شادیاں ہونے کے امکانات ہیں۔ اس طرح ایک مخلوط نسل کے بچے پاکستانی سماج کے انداز و اطوار پر اثرانداز ہوں گے۔کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستانیوں کو چینی زبان کی تعلیم سے پاکستان کی مقامی زبانیں نیچے ہوتی جائیں گی۔ اس خطے میں چینی زبان عام ہوئی تو چینی ثقافت بھی مقامی ثقافتوں پر حاوی ہونے لگے گی۔
ایسی باتیں زیادہ تر ان لوگوں سے سننے کو مل رہی ہیں جو پاکستان میں رہتے ہوئے خود مغربی انداز و اطوار اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے اکثر کے بچے انتہائی مہنگے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور اردو یا اپنی مادری زبان سے ٹھیک طرح واقف نہیں رہے۔ اردو لکھنے میں ہماری نئی نسل کے اکثر افراد اب رومن رسم الخط پر انحصار کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک کی سرکاری اور دفتری زبان انگلش ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں کے اکثر گھرانوں میں طرز رہائش مغربی ہے۔ بیرونِ ممالک سے تجارتی خط و کتابت ہمارے اکثر صنعتکار اور تاجر انگلش میں ہی کرتے ہیں۔ ان سب حقائق کے باجود اردو آج پاکستان کے ہر صوبے اور ہر خطے میں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔
اکیسویں صدی میں ثقافتی خصوصیات، بدلتے ہوئے معاشی حقائق کے زیادہ تابع ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے خطے کی کئی ثقافتی خصوصیات زراعت کی وجہ سے ہیں۔ پاکستان کو ایک زرعی ملک کہا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ ایک دور میں 70فیصد سے زیادہ تھا جو اب کم ہوکر 25 فیصد تک رہ گیا ہے۔ کاشتکاری کے لیے کھیتوں میں بیل ، ہل اور کنویں کی جگہ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل نے لے لی ہے۔ آمدورفت کے لیے بیل گاڑی اور تانگے کی جگہ اب موٹر سائیکلیں ، کاریں اور بسیں استعمال ہوتی ہیں۔ زرعی علاقوں میں مشینوں کے استعمال سے ثقافتی خصوصیات کی نمائندگی کرنے والی کئی رسمیں رفتہ رفتہ اپنا وجود کھورہی ہیں۔ فصل کٹنے کے موقع پر کئی رسموں یا میلوں کی حیثیت اب بس علامتی سی رہ گئی ہے۔
اس بیان سے مقصود یہ بتانا ہے کہ پاکستانی معاشرہ زرعی پس منظر رکھنے والی کئی خصوصیات پہلے ہی بھول چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی روایات اکیسویں صدی میں بھی باقی ہیں، ان روایات کے امین جب تک چاہیں گے کوئی بیرونی ثقافت انھیں ختم نہیں کرسکتی۔ لیکن ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی انڈسٹریلائزیشن ، شہروں کا پھیلاؤ اور نئے نئے بستے ہوئے شہر صدیوں پرانی روایات کو خود ہی قصہ پارینہ بنارہے ہیں۔ ملتان، لاہور، پشاور صدیوں سے آباد ہیں۔ ان تینوں شہروں میں محض پچاس سال میں آنے والی تبدیلی کا مشاہدہ کرنے والے بتائیں گے کہ سن 1960ء میں ان شہروں کی جو روایات تھیں ، آج ان میں سے کتنی باقی ہیں۔ صنعتوں کے قیام اور ان شہروں کے تیز رفتار پھیلاؤ نے ان شہروں سے منسوب کئی روایات کو بھلادیا ہے اور اب وہاں نئے کلچر تشکیل پارہے ہیں۔ لاہور میں پہلوانی اور اکھاڑوں پر کرکٹ اور اسٹیڈیم حاوی آگئے۔
ہمیں پاکستان میں چینی صنعتکار اور چینی ہنرمندوں کی آمد ، چینی زبان کی تعلیم، پاکستانیوں اور چینیوں کے باہمی میل جول سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستانی اپنے کلچر اور اپنی زبانوں کی حفاظت کرنا چاہیں گے تو کوئی بیرونی ثقافت اور زبان انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی ۔ یہی معاملہ پاکستان کی معیشت کا بھی ہے۔ پاکستانی قوم معاشی خود کفالت کا عزم کرلے اور اس کے تقاضے ٹھیک طرح پورے کرتی رہے تو پاکستان کو معاشی طاقت بننے سے کوئی ملک نہیں روک سکتا۔ لیکن اس کے لیے ہمیں خود اپنے رویوں کو تبدیل اور نیک نیتی سے کام کرنا ہوگا۔
قیام پاکستان سے آج تک پاکستان معاشی طور پر خودکفیل نہیں ہوسکا۔ خود کفالت تو ایک طرف کئی بار سنگین معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط تسلیم کرتے ہوئے قرضے لینے پڑے ہیں۔ مالیاتی اداروں کے علاوہ پاکستان نے دنیا کے کئی ملکوں سے بھی قرضے لیے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ڈالر، پاؤنڈز یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں لیے جانے والے یہ قرضے معاشی خودکفالت حاصل کرنے کے بجائے کئی غیر پیداواری مدوں پر بھی خرچ کیے گئے۔
پاکستان کے اقتصادی پالیسی سازوں اور مالیاتی منیجرز کی مختلف النوع کوششوں کے انداز پتہ نہیں کیسے تھے کہ پاکستان میں آج تک ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والا ریونیو، امپورٹ بل سے اوپر نہیں آسکا۔ اس مالیاتی خلا ء کو پورا کرنے کے لیے حکومت کی کافی مدد بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنی ترسیلاتِ زر کے ذریعے کرتے رہے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امپورٹ 35ارب ڈالر سے زائد اور ایکسپورٹ 18ارب ڈالر تک ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر بھی پہلے کی نسبت کم ہے۔
ایکسپورٹ میں اتنی زیادہ کمی کی بڑی وجہ پاکستان میں مہنگی اور کم دستیاب بجلی ہے۔ بجلی کی مہنگائی کی وجہ پاکستان میں وافر میسر قدرتی برقی وسائل کے بجائے تھرمل بجلی پر انحصار ہے۔ سن ستّر کے آخری برسوں سے اب تک بجلی کی طلب اور پیداوار میں توازن کے لیے مناسب سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ پچھلے چالیس برس میں آنے والی سب حکومتیں اس میں کسی نہ کسی طرح قصوروار ہیں۔ بہترین محلِ وقوع ، بیش بہا قدرتی وسائل اور وافر افرادی قوت کے باوجود پاکستان نے کوئی خاص ترقی نہیں کی ۔ پاکستانی روپے کی قدر ڈالر اور دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں سال بہ سال کم ہی ہوتی گئی۔ دوسری طرف ہمارے مغرب میں واقعہ ایک چھوٹی سی ریاست دبئی نے صرف اپنے محلِ وقوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پچھلے پچیس برسوں میں ترقی کی منزلیں نہایت تیز رفتاری سے طے کیں۔ ساٹھ اور ستّر کے عشروں میں دبئی اور کئی دوسری ریاستوں کے حکمران ترقی کرتے صاف ستھرے شہر کراچی کو انتہائی رشک کی نظروں سے دیکھا کرتے تھے۔
پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ پاکستان کا محلِ وقوع اور ہماری افرادی قوت ہے۔ اربوں ڈالر کے سیکڑوں پروجیکٹس کو چلانے کے انتظامات کے لیے یقینا ہزارہا چینی بھی پاکستان آئیں گے۔ ہمیں اپنے ان چینی دوستوں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے انھیں خوش آمدید کہنا چاہیے۔ چند ہزار یا چند لاکھ پاکستانیوں کے چینی زبان سیکھ لینے کو اردو یا مقامی زبانوں کے لیے خطرہ قرار نہیں دینا چاہیے،بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستان آنے والے چینیوں کو اردو سیکھنے پر راغب کریں۔
چین کے دارالحکومت کی بیجنگ یونیورسٹی میں اردو زبان کی تدریس پہلے ہی ہورہی ہے۔ چائنا پاکستان مشترکہ کاروباری منصوبوں اور چینی زبان کی تدریس سے خدشات کے بجائے امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہتر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ معیشت بہتر بنانے، روپے کی قدر بڑھانے اور بین الاقوامی تجارتی مرکز بننے کے لیے سی پیک کی شکل میں بہترین امکانات اور مواقع پاکستانی قوم کے سامنے ہیں، ہمیں ان مواقع کی قدر کرنی چاہیے۔
پاکستان کے دشمن خصوصاً بھارت اور چند دیگر ممالک سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان میں عدم استحکام ، بے یقینی اور بے چینی پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس کام کے لیے پروپگینڈے کو بطور ہتھیار بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بے یقینی اور شکوک و شبہات پھیلانا، پاکستانی قوم کے مختلف طبقات کے درمیان نا اتفاقی یا اختلافات کی خبریں اچھالنا، لوگوں کو کنفیوز اور بدظن کرنا دشمن کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اس کام کے لیے ہمارے دشمن یا مخالف عناصر سوشل میڈیا کو بھی بہت مہارت سے استعمال کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک نیا لیکن تیزی سے ابھرتا ہوا ذریعہ ابلاغ ہے۔ سوشل میڈیا نے کئی مقامات پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے زیادہ رسائی حاصل کرلی ہے۔ سوشل میڈیا کے محبِ وطن پاکستانی صارفین کو دشمن کی نیتوں اور ان کے پاکستان مخالف عزائم سے باخبر اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی خبروں یا دیگر معلومات پر بغیر تصدیق کے نہ تو یقین کرنا چاہیے اور نہ ہی انھیں آگے پھیلانا چاہیے ۔
ایسی باتیں زیادہ تر ان لوگوں سے سننے کو مل رہی ہیں جو پاکستان میں رہتے ہوئے خود مغربی انداز و اطوار اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسے لوگوں میں سے اکثر کے بچے انتہائی مہنگے انگلش میڈیم اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں اور اردو یا اپنی مادری زبان سے ٹھیک طرح واقف نہیں رہے۔ اردو لکھنے میں ہماری نئی نسل کے اکثر افراد اب رومن رسم الخط پر انحصار کرتے ہیں۔ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ملک کی سرکاری اور دفتری زبان انگلش ہے۔ پاکستان کے بڑے شہروں کے اکثر گھرانوں میں طرز رہائش مغربی ہے۔ بیرونِ ممالک سے تجارتی خط و کتابت ہمارے اکثر صنعتکار اور تاجر انگلش میں ہی کرتے ہیں۔ ان سب حقائق کے باجود اردو آج پاکستان کے ہر صوبے اور ہر خطے میں سمجھی اور بولی جاتی ہے۔
اکیسویں صدی میں ثقافتی خصوصیات، بدلتے ہوئے معاشی حقائق کے زیادہ تابع ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے خطے کی کئی ثقافتی خصوصیات زراعت کی وجہ سے ہیں۔ پاکستان کو ایک زرعی ملک کہا جاتا رہا ہے۔ پاکستان کی معیشت میں زراعت کا حصہ ایک دور میں 70فیصد سے زیادہ تھا جو اب کم ہوکر 25 فیصد تک رہ گیا ہے۔ کاشتکاری کے لیے کھیتوں میں بیل ، ہل اور کنویں کی جگہ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل نے لے لی ہے۔ آمدورفت کے لیے بیل گاڑی اور تانگے کی جگہ اب موٹر سائیکلیں ، کاریں اور بسیں استعمال ہوتی ہیں۔ زرعی علاقوں میں مشینوں کے استعمال سے ثقافتی خصوصیات کی نمائندگی کرنے والی کئی رسمیں رفتہ رفتہ اپنا وجود کھورہی ہیں۔ فصل کٹنے کے موقع پر کئی رسموں یا میلوں کی حیثیت اب بس علامتی سی رہ گئی ہے۔
اس بیان سے مقصود یہ بتانا ہے کہ پاکستانی معاشرہ زرعی پس منظر رکھنے والی کئی خصوصیات پہلے ہی بھول چکا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی روایات اکیسویں صدی میں بھی باقی ہیں، ان روایات کے امین جب تک چاہیں گے کوئی بیرونی ثقافت انھیں ختم نہیں کرسکتی۔ لیکن ہمیں ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ تیزی سے پھیلتی ہوئی انڈسٹریلائزیشن ، شہروں کا پھیلاؤ اور نئے نئے بستے ہوئے شہر صدیوں پرانی روایات کو خود ہی قصہ پارینہ بنارہے ہیں۔ ملتان، لاہور، پشاور صدیوں سے آباد ہیں۔ ان تینوں شہروں میں محض پچاس سال میں آنے والی تبدیلی کا مشاہدہ کرنے والے بتائیں گے کہ سن 1960ء میں ان شہروں کی جو روایات تھیں ، آج ان میں سے کتنی باقی ہیں۔ صنعتوں کے قیام اور ان شہروں کے تیز رفتار پھیلاؤ نے ان شہروں سے منسوب کئی روایات کو بھلادیا ہے اور اب وہاں نئے کلچر تشکیل پارہے ہیں۔ لاہور میں پہلوانی اور اکھاڑوں پر کرکٹ اور اسٹیڈیم حاوی آگئے۔
ہمیں پاکستان میں چینی صنعتکار اور چینی ہنرمندوں کی آمد ، چینی زبان کی تعلیم، پاکستانیوں اور چینیوں کے باہمی میل جول سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستانی اپنے کلچر اور اپنی زبانوں کی حفاظت کرنا چاہیں گے تو کوئی بیرونی ثقافت اور زبان انھیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی ۔ یہی معاملہ پاکستان کی معیشت کا بھی ہے۔ پاکستانی قوم معاشی خود کفالت کا عزم کرلے اور اس کے تقاضے ٹھیک طرح پورے کرتی رہے تو پاکستان کو معاشی طاقت بننے سے کوئی ملک نہیں روک سکتا۔ لیکن اس کے لیے ہمیں خود اپنے رویوں کو تبدیل اور نیک نیتی سے کام کرنا ہوگا۔
قیام پاکستان سے آج تک پاکستان معاشی طور پر خودکفیل نہیں ہوسکا۔ خود کفالت تو ایک طرف کئی بار سنگین معاشی مسائل کی وجہ سے پاکستان کو آئی ایم ایف اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی سخت شرائط تسلیم کرتے ہوئے قرضے لینے پڑے ہیں۔ مالیاتی اداروں کے علاوہ پاکستان نے دنیا کے کئی ملکوں سے بھی قرضے لیے ہیں۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ ڈالر، پاؤنڈز یا دیگر غیر ملکی کرنسیوں میں لیے جانے والے یہ قرضے معاشی خودکفالت حاصل کرنے کے بجائے کئی غیر پیداواری مدوں پر بھی خرچ کیے گئے۔
پاکستان کے اقتصادی پالیسی سازوں اور مالیاتی منیجرز کی مختلف النوع کوششوں کے انداز پتہ نہیں کیسے تھے کہ پاکستان میں آج تک ایکسپورٹ سے حاصل ہونے والا ریونیو، امپورٹ بل سے اوپر نہیں آسکا۔ اس مالیاتی خلا ء کو پورا کرنے کے لیے حکومت کی کافی مدد بیرونِ ملک مقیم پاکستانی اپنی ترسیلاتِ زر کے ذریعے کرتے رہے ہیں۔اس وقت صورتحال یہ ہے کہ امپورٹ 35ارب ڈالر سے زائد اور ایکسپورٹ 18ارب ڈالر تک ہے۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی ترسیلاتِ زر بھی پہلے کی نسبت کم ہے۔
ایکسپورٹ میں اتنی زیادہ کمی کی بڑی وجہ پاکستان میں مہنگی اور کم دستیاب بجلی ہے۔ بجلی کی مہنگائی کی وجہ پاکستان میں وافر میسر قدرتی برقی وسائل کے بجائے تھرمل بجلی پر انحصار ہے۔ سن ستّر کے آخری برسوں سے اب تک بجلی کی طلب اور پیداوار میں توازن کے لیے مناسب سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ پچھلے چالیس برس میں آنے والی سب حکومتیں اس میں کسی نہ کسی طرح قصوروار ہیں۔ بہترین محلِ وقوع ، بیش بہا قدرتی وسائل اور وافر افرادی قوت کے باوجود پاکستان نے کوئی خاص ترقی نہیں کی ۔ پاکستانی روپے کی قدر ڈالر اور دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں سال بہ سال کم ہی ہوتی گئی۔ دوسری طرف ہمارے مغرب میں واقعہ ایک چھوٹی سی ریاست دبئی نے صرف اپنے محلِ وقوع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پچھلے پچیس برسوں میں ترقی کی منزلیں نہایت تیز رفتاری سے طے کیں۔ ساٹھ اور ستّر کے عشروں میں دبئی اور کئی دوسری ریاستوں کے حکمران ترقی کرتے صاف ستھرے شہر کراچی کو انتہائی رشک کی نظروں سے دیکھا کرتے تھے۔
پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ پاکستان کا محلِ وقوع اور ہماری افرادی قوت ہے۔ اربوں ڈالر کے سیکڑوں پروجیکٹس کو چلانے کے انتظامات کے لیے یقینا ہزارہا چینی بھی پاکستان آئیں گے۔ ہمیں اپنے ان چینی دوستوں سے خوفزدہ ہونے کے بجائے انھیں خوش آمدید کہنا چاہیے۔ چند ہزار یا چند لاکھ پاکستانیوں کے چینی زبان سیکھ لینے کو اردو یا مقامی زبانوں کے لیے خطرہ قرار نہیں دینا چاہیے،بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم پاکستان آنے والے چینیوں کو اردو سیکھنے پر راغب کریں۔
چین کے دارالحکومت کی بیجنگ یونیورسٹی میں اردو زبان کی تدریس پہلے ہی ہورہی ہے۔ چائنا پاکستان مشترکہ کاروباری منصوبوں اور چینی زبان کی تدریس سے خدشات کے بجائے امکانات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بہتر منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ معیشت بہتر بنانے، روپے کی قدر بڑھانے اور بین الاقوامی تجارتی مرکز بننے کے لیے سی پیک کی شکل میں بہترین امکانات اور مواقع پاکستانی قوم کے سامنے ہیں، ہمیں ان مواقع کی قدر کرنی چاہیے۔
پاکستان کے دشمن خصوصاً بھارت اور چند دیگر ممالک سی پیک کو ناکام بنانے کے لیے پاکستان میں عدم استحکام ، بے یقینی اور بے چینی پھیلانا چاہتے ہیں۔ اس کام کے لیے پروپگینڈے کو بطور ہتھیار بڑے پیمانے پر استعمال کیا جارہا ہے۔ بے یقینی اور شکوک و شبہات پھیلانا، پاکستانی قوم کے مختلف طبقات کے درمیان نا اتفاقی یا اختلافات کی خبریں اچھالنا، لوگوں کو کنفیوز اور بدظن کرنا دشمن کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
اس کام کے لیے ہمارے دشمن یا مخالف عناصر سوشل میڈیا کو بھی بہت مہارت سے استعمال کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک نیا لیکن تیزی سے ابھرتا ہوا ذریعہ ابلاغ ہے۔ سوشل میڈیا نے کئی مقامات پر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے زیادہ رسائی حاصل کرلی ہے۔ سوشل میڈیا کے محبِ وطن پاکستانی صارفین کو دشمن کی نیتوں اور ان کے پاکستان مخالف عزائم سے باخبر اور چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ سوشل میڈیا پر آنے والی خبروں یا دیگر معلومات پر بغیر تصدیق کے نہ تو یقین کرنا چاہیے اور نہ ہی انھیں آگے پھیلانا چاہیے ۔