ساٹھ سال
ہم مغرب کی تقلید کا اثر بہت جلدی قبول کرنے کے عادی ہیں
یہ تو آپ اورہم بھی جانتے ہیں کہ انسان خدا کی بہترین اوراس کی پسندیدہ تخلیق ہے اورکائنات کی ہر شے پر افضل ہے۔ اشرف المخلوقات کے درجے پرفائزہوتے ہوئے رب ذوالجلال نے حضرت انسان کے اندر مضبوط ارادے اور ذہانت جیسی لاثانی قوت استدلال سے اسے مالا مال کیا۔ زندگی کو بامقصد دھارے کی سوئی میں پروکرحضرت انسان کواس مثال سے سمجھانے کی کوشش کی کہ بے مقصد زندگی اس جہازکی مانند ہے جس کی نہ کوئی سمت ہے اور نہ کوئی منزل۔ سمندرکی موجوں کا تلاطم اس کو اپنی منزل سے بھٹکا کرکبھی بھی ساحل کی طرف گامزن نہیں کراسکتا۔افلاطون نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا ''اپنی زندگی کا بنظرغائرجائزہ لیجیے کہ کہیں آپ بے مقصد زندگی تو نہیں گزار رہے''۔
آج وقت ہے ایسے ہی بوڑھے بے سہارا افراد کا سماجی، معاشرتی اور معاشی زاویہ نگاہ سے مطالعہ اورغوروخوض کا۔ ہم مغرب کی تقلید کا اثر بہت جلدی قبول کرنے کے عادی ہیں۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم تعلیم کے ساتھ اسلامی اقدارکی روشنی میں سماجی ومعاشرتی تربیت سے قطعاً محروم و ناواقف ہیں ۔ محض مغرب زدہ اولڈ ہاؤسزکی طرز پر ماں کا عالمی دن منانے یا باپ کا عا لمی دن منانے ہی سے ہم اپنی عائلی اورخاندانی ذمے داریوں سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ والدین ہمارے لیے درسگاہیں اور زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ان کو ہر لمحے اپنی ساتھ ہی رکھیے۔کسی بھی حالت میں ان کو اپنے سے جدا مت کیجیے، ان کے سامنے اف تک مت کیجیے۔ان کو اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھیے۔ شاید آپ کو نہیں معلوم کہ یہ آپ کے رزق کے حصول کا دنیاوی وسیلہ اوربہترین ذریعہ ہیں۔ ان ہی کے دم سے گھروں میں روحانیت وبرکات ہیں ،کیونکہ آنے والے وقتوں میں آپ نے بھی بزرگ بننا ہے۔ اسی میں ہماری اسلامی تعلیمات کا راز پوشیدہ ہے۔
ہر سال یوم مئی منایا جاتا ہے، جلسے، ریلیوں ، سمینارز ، مزدور پاکٹ یونینز ، لیبر منسٹر حضرات خوب چکنی چپڑی تقاریر کرکے اور محنت کشوں کو سبز باغ دکھا کر اس دن کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ کم ازکم مالی پیکیج کا صرف اعلان ہی صادرفرما دیتے ، دینا کس نے ہے۔ مزدور یا محنت کش خواہ ان کا تعلق ہمارے وطن عزیز سے ہو یا بیرون دنیا کے کسی بھی ملک سے، مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا خطہ نہیں جہاں طبقاتی طور پر انتہائی نچلی سطح پر غریب لوگوں کی بستیاں آباد نہ ہوں ماسوائے ان ترقی یافتہ یورپین ممالک کے جہاں بزرگ افراد کے لیے حکومتی کی طرف سے سہولتوں کا باقاعدہ پیکیج فراہم کیا گیا ہو،درست اسلامی طریقہ بھی یہی ہے۔ مجموعی طور پر افرادی قوت کی سترفیصد آبادی ان ہی طبقہ پر منحصر ہوا کرتی ہے۔
کام کی نوعیت کے اعتبار سے ملک کی معیشت کے پیداواری عوامل کا ایک اہم رکن مزدور یا محنت کش کی مختلف اقسام ہیں جو ملک میں بنے ہوئے لیبر قوانین کے تحت آتے ہیں اور ان کی خلاصی کے لیے لیبر عدالتیں بھی موجود ہیں۔ ادارتی یا غیرادارتی لیبر، روزانہ اجرت، مستقل بنیادوں پرکام کرنے والی لیبر۔ ہنرمند یا غیر ہنرمند لیبر۔ دفاتر میں کام کرنے والے کم تعلیم یافتہ ٹائی اورکارڈ پٹہ پوشاک میں ملبوس محنت کش گوکہ ایسے طبقے کوکم اجرتوں پر افسر کا نام دیا گیا ہے یا تھرڈ پارٹی کی بنیاد پر اس کی سروسزہائرکی گئیں تاکہ ان کے مالی حقوق پر انتظامیہ اپنی مرضی مسلط کرسکے۔ برطانوی معاشی نظام کے تحت تیارکردہ سرکاری اورغیر سرکاری اداروں کے کارکنان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پینشن اور دیگر مالی مراعات کا نظام رائج تھا۔کم ازکم 35 سال کی مسلسل سروس کے ساتھ 60 سال کی عمر تک پہنچ جانا ادارے سے ریٹائرمنٹ یا سبکدوشی بن جاتا ہے۔
جس کے ساتھ ملازم کی جمع شدہ ماہانہ فنڈز اورمعقول رقم پینشن کی مد میں ادائیگی کے علاوہ ماہانہ بنیاد پر پینشن کی ادائیگی ۔ مرحوم کی صورت میں پینشن کی وصولی بیوہ کا حق ٹھہرا۔ ایک زمانہ تھا رشتہ کرتے وقت لڑکی والے سوال کیا کرتے تھے کہ لڑکا کیا کرتا ہے، سرکاری ملازمت کا سن کر ہاں کرنے میں دیر نہیں کیا کرتے تھے۔ اب تو سرکاری ملازمت کا حصول سیاسی یا روپے پیسے کے عوض ہی ملنے کا تصور ہے۔ ان فارغ التحصیل ملازمین کی اس رقم کا زیادہ تر حصہ نیشنل سیونگ سینٹرزمیں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ جو ماہانہ قلیل رقم منافعے کی شکل میں ملتی رہتی ہے اوراصل رقم بھی محفوظ رہتی ہے۔ ریاستی سرپرستی میں چلنے والا یہ واحد مالیاتی ادارہ ہے جو ریٹائرڈ پینشن یافتہ عمر رسیدہ افراد ان کی زندگی بھرکی کمائی ہوئی جمع پونجی اس امید پرجمع کرا دیتے ہیں کہ ہماری بقیہ عمرکی زندگی بسرکرنے میں مدد گار ثابت ہو سکے۔
یہ تو رہی ان افراد کی حالت زار جو خالصتاً سرکارکی پکی نوکری کے اسیر رہے لیکن ملازمین کی وہ کثیر تعداد جو حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے مالیاتی اداروں سے وابستگی اور جن کو یک دم قومی تحویل سے نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا۔ سوائے ٹائی اورگلے میں لٹکا ہوئے پٹے میں ادارے کی غلامی کے طوق کا شناختی کارڈ کے سوائے کسی قسم کی مالی مراعات کا فقدان کے سواکچھ نظر نہیں آتا۔ اونچا نام پھیکا پکوان۔ ان ملازمین کی حالت زار قابل رحم ہے۔ ملک کی ثانوی اوراعلیٰ عدالتوںمیں ایسے بے شمارکیسز التوا میں ہیں جن کے فیصلے کے انتظاراورامیدوآس کی بھری ہوئی گھٹڑی لیے کچھ تو دنیا ہی سے رخصت ہوگئے ۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہم نے اسی اخبار کے توسط سے ایک کالم لکھا تھا جس میں ماھانہ اور ششماہی بنیادوں پر دیا جانے والے منافعے کے ریٹ میں کمی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے حکومت وقت کی خدمت میں مفید تجاویز پر مبنی کچھ اپنی گزارشات پیش کی تھیں، خوشی ہوئی کہ ان گزارشات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انتظامیہ نے بیواؤں ، ریٹائرڈ پنشنرز کے لیے ''بہبود سرٹیفکیٹ '' کا اجرا کیا اوردوسری اسکیموں سے بہتر شرح منافع کا تعین کیا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جس مقصد کے لیے بہبود سرٹیفیکیٹس کے اجرا کی ضرورت تھی وہ تھی ملک کی بیواؤں اور سینئیر سیٹیزن کی مالی فلاح کی جاسکے۔ بہبود سرٹیفکیٹ پر بھی دوسرے سرٹیفکیٹس کی طرح منافعے کی شرح میں بتدریج کمی کرنا ریٹائرڈ اور عمر رسیدہ شہریوں پر معاشی ظلم نہیں تو اورکیا ہے۔
میرا مقصد یہاں کہنے کا صرف یہ ہے کہ جتنی زیادہ ممکن ہوسکے ان ریٹائرڈ افراد کا خیال رکھا جاسکے۔ سرکاری سطح پر صنعتی کارکنان کی اولڈ ایج ایمپلائزکے ادارے کی مجموعی کارکردگی قابل تعریف ہونے کی بجائے محض رسمی ہے ۔ قابل افسوس ہے یہ امرکہ ہمارے معاشرے میں ان بزرگ لوگوں کوکوئی ادارہ ( (overageکی وجہ سے ملازمت دینے سے قاصر ہے تاکہ انھیں مصروف رکھا جائے وگرنہ بیکاری ان کو ذہنی اورنفسیاتی اور دیگر جسمانی بیماریاں لاحق ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
نہ ہی حکومت اور نہ ہی کسی فلاحی ادارے کی طرف سے کسی قسم کا ان سینئیر سٹیزن کو مراعات کی مد میں سرپرستی حاصل ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ سر زمین پاکستان کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی ہے کہ موجودہ نام نہاد لوٹ مارکرتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام نے اس نظام کی کھٹیا کھڑی کردی۔ (Old is Gold)اولڈ ازگولڈ کے رہنما اصول کو اپناتے ہوئے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں ان کے عملی تجربات اور معلومات سے ضرور استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ ان کو محض موت کے خوف سے نجات حاصل کرنے میں مسجدوں تک محدود نہ کیجیے۔ اولاد پر بوجھ مت بننے دیجیے۔ان ریٹائرڈ افراد میں بہت سے ایسے بھی افراد کی خاصی تعداد ہوتی ہے جو صحت کے لحاظ سے موزوں ہونگے۔ میرے ارد گرد کے ماحول کے اکثر ریٹائرڈ افراد ملازمت کے حصول کے لیے پریشان رہتے ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔
آج وقت ہے ایسے ہی بوڑھے بے سہارا افراد کا سماجی، معاشرتی اور معاشی زاویہ نگاہ سے مطالعہ اورغوروخوض کا۔ ہم مغرب کی تقلید کا اثر بہت جلدی قبول کرنے کے عادی ہیں۔اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ہم تعلیم کے ساتھ اسلامی اقدارکی روشنی میں سماجی ومعاشرتی تربیت سے قطعاً محروم و ناواقف ہیں ۔ محض مغرب زدہ اولڈ ہاؤسزکی طرز پر ماں کا عالمی دن منانے یا باپ کا عا لمی دن منانے ہی سے ہم اپنی عائلی اورخاندانی ذمے داریوں سے سبکدوش نہیں ہوسکتے۔ والدین ہمارے لیے درسگاہیں اور زندگی کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ان کو ہر لمحے اپنی ساتھ ہی رکھیے۔کسی بھی حالت میں ان کو اپنے سے جدا مت کیجیے، ان کے سامنے اف تک مت کیجیے۔ان کو اپنے اوپر بوجھ نہ سمجھیے۔ شاید آپ کو نہیں معلوم کہ یہ آپ کے رزق کے حصول کا دنیاوی وسیلہ اوربہترین ذریعہ ہیں۔ ان ہی کے دم سے گھروں میں روحانیت وبرکات ہیں ،کیونکہ آنے والے وقتوں میں آپ نے بھی بزرگ بننا ہے۔ اسی میں ہماری اسلامی تعلیمات کا راز پوشیدہ ہے۔
ہر سال یوم مئی منایا جاتا ہے، جلسے، ریلیوں ، سمینارز ، مزدور پاکٹ یونینز ، لیبر منسٹر حضرات خوب چکنی چپڑی تقاریر کرکے اور محنت کشوں کو سبز باغ دکھا کر اس دن کا خاتمہ کر دیتے ہیں۔ کم ازکم مالی پیکیج کا صرف اعلان ہی صادرفرما دیتے ، دینا کس نے ہے۔ مزدور یا محنت کش خواہ ان کا تعلق ہمارے وطن عزیز سے ہو یا بیرون دنیا کے کسی بھی ملک سے، مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا میں کوئی بھی ایسا خطہ نہیں جہاں طبقاتی طور پر انتہائی نچلی سطح پر غریب لوگوں کی بستیاں آباد نہ ہوں ماسوائے ان ترقی یافتہ یورپین ممالک کے جہاں بزرگ افراد کے لیے حکومتی کی طرف سے سہولتوں کا باقاعدہ پیکیج فراہم کیا گیا ہو،درست اسلامی طریقہ بھی یہی ہے۔ مجموعی طور پر افرادی قوت کی سترفیصد آبادی ان ہی طبقہ پر منحصر ہوا کرتی ہے۔
کام کی نوعیت کے اعتبار سے ملک کی معیشت کے پیداواری عوامل کا ایک اہم رکن مزدور یا محنت کش کی مختلف اقسام ہیں جو ملک میں بنے ہوئے لیبر قوانین کے تحت آتے ہیں اور ان کی خلاصی کے لیے لیبر عدالتیں بھی موجود ہیں۔ ادارتی یا غیرادارتی لیبر، روزانہ اجرت، مستقل بنیادوں پرکام کرنے والی لیبر۔ ہنرمند یا غیر ہنرمند لیبر۔ دفاتر میں کام کرنے والے کم تعلیم یافتہ ٹائی اورکارڈ پٹہ پوشاک میں ملبوس محنت کش گوکہ ایسے طبقے کوکم اجرتوں پر افسر کا نام دیا گیا ہے یا تھرڈ پارٹی کی بنیاد پر اس کی سروسزہائرکی گئیں تاکہ ان کے مالی حقوق پر انتظامیہ اپنی مرضی مسلط کرسکے۔ برطانوی معاشی نظام کے تحت تیارکردہ سرکاری اورغیر سرکاری اداروں کے کارکنان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پینشن اور دیگر مالی مراعات کا نظام رائج تھا۔کم ازکم 35 سال کی مسلسل سروس کے ساتھ 60 سال کی عمر تک پہنچ جانا ادارے سے ریٹائرمنٹ یا سبکدوشی بن جاتا ہے۔
جس کے ساتھ ملازم کی جمع شدہ ماہانہ فنڈز اورمعقول رقم پینشن کی مد میں ادائیگی کے علاوہ ماہانہ بنیاد پر پینشن کی ادائیگی ۔ مرحوم کی صورت میں پینشن کی وصولی بیوہ کا حق ٹھہرا۔ ایک زمانہ تھا رشتہ کرتے وقت لڑکی والے سوال کیا کرتے تھے کہ لڑکا کیا کرتا ہے، سرکاری ملازمت کا سن کر ہاں کرنے میں دیر نہیں کیا کرتے تھے۔ اب تو سرکاری ملازمت کا حصول سیاسی یا روپے پیسے کے عوض ہی ملنے کا تصور ہے۔ ان فارغ التحصیل ملازمین کی اس رقم کا زیادہ تر حصہ نیشنل سیونگ سینٹرزمیں محفوظ کرلیا جاتا ہے۔ جو ماہانہ قلیل رقم منافعے کی شکل میں ملتی رہتی ہے اوراصل رقم بھی محفوظ رہتی ہے۔ ریاستی سرپرستی میں چلنے والا یہ واحد مالیاتی ادارہ ہے جو ریٹائرڈ پینشن یافتہ عمر رسیدہ افراد ان کی زندگی بھرکی کمائی ہوئی جمع پونجی اس امید پرجمع کرا دیتے ہیں کہ ہماری بقیہ عمرکی زندگی بسرکرنے میں مدد گار ثابت ہو سکے۔
یہ تو رہی ان افراد کی حالت زار جو خالصتاً سرکارکی پکی نوکری کے اسیر رہے لیکن ملازمین کی وہ کثیر تعداد جو حکومت کی سرپرستی میں چلنے والے مالیاتی اداروں سے وابستگی اور جن کو یک دم قومی تحویل سے نجی شعبے کے حوالے کردیا گیا۔ سوائے ٹائی اورگلے میں لٹکا ہوئے پٹے میں ادارے کی غلامی کے طوق کا شناختی کارڈ کے سوائے کسی قسم کی مالی مراعات کا فقدان کے سواکچھ نظر نہیں آتا۔ اونچا نام پھیکا پکوان۔ ان ملازمین کی حالت زار قابل رحم ہے۔ ملک کی ثانوی اوراعلیٰ عدالتوںمیں ایسے بے شمارکیسز التوا میں ہیں جن کے فیصلے کے انتظاراورامیدوآس کی بھری ہوئی گھٹڑی لیے کچھ تو دنیا ہی سے رخصت ہوگئے ۔
جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہم نے اسی اخبار کے توسط سے ایک کالم لکھا تھا جس میں ماھانہ اور ششماہی بنیادوں پر دیا جانے والے منافعے کے ریٹ میں کمی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے حکومت وقت کی خدمت میں مفید تجاویز پر مبنی کچھ اپنی گزارشات پیش کی تھیں، خوشی ہوئی کہ ان گزارشات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انتظامیہ نے بیواؤں ، ریٹائرڈ پنشنرز کے لیے ''بہبود سرٹیفکیٹ '' کا اجرا کیا اوردوسری اسکیموں سے بہتر شرح منافع کا تعین کیا، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ جس مقصد کے لیے بہبود سرٹیفیکیٹس کے اجرا کی ضرورت تھی وہ تھی ملک کی بیواؤں اور سینئیر سیٹیزن کی مالی فلاح کی جاسکے۔ بہبود سرٹیفکیٹ پر بھی دوسرے سرٹیفکیٹس کی طرح منافعے کی شرح میں بتدریج کمی کرنا ریٹائرڈ اور عمر رسیدہ شہریوں پر معاشی ظلم نہیں تو اورکیا ہے۔
میرا مقصد یہاں کہنے کا صرف یہ ہے کہ جتنی زیادہ ممکن ہوسکے ان ریٹائرڈ افراد کا خیال رکھا جاسکے۔ سرکاری سطح پر صنعتی کارکنان کی اولڈ ایج ایمپلائزکے ادارے کی مجموعی کارکردگی قابل تعریف ہونے کی بجائے محض رسمی ہے ۔ قابل افسوس ہے یہ امرکہ ہمارے معاشرے میں ان بزرگ لوگوں کوکوئی ادارہ ( (overageکی وجہ سے ملازمت دینے سے قاصر ہے تاکہ انھیں مصروف رکھا جائے وگرنہ بیکاری ان کو ذہنی اورنفسیاتی اور دیگر جسمانی بیماریاں لاحق ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
نہ ہی حکومت اور نہ ہی کسی فلاحی ادارے کی طرف سے کسی قسم کا ان سینئیر سٹیزن کو مراعات کی مد میں سرپرستی حاصل ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال یہ سر زمین پاکستان کو نہ جانے کس کی نظر کھا گئی ہے کہ موجودہ نام نہاد لوٹ مارکرتا ہوا سرمایہ دارانہ نظام نے اس نظام کی کھٹیا کھڑی کردی۔ (Old is Gold)اولڈ ازگولڈ کے رہنما اصول کو اپناتے ہوئے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ہمیں ان کے عملی تجربات اور معلومات سے ضرور استفادہ حاصل کرنا چاہیے۔ ان کو محض موت کے خوف سے نجات حاصل کرنے میں مسجدوں تک محدود نہ کیجیے۔ اولاد پر بوجھ مت بننے دیجیے۔ان ریٹائرڈ افراد میں بہت سے ایسے بھی افراد کی خاصی تعداد ہوتی ہے جو صحت کے لحاظ سے موزوں ہونگے۔ میرے ارد گرد کے ماحول کے اکثر ریٹائرڈ افراد ملازمت کے حصول کے لیے پریشان رہتے ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔