بھارت کا ’’پاگل‘‘ جج
جسٹس کرنان کی وسل بلوئنگ سے یہ سچائی بھی اجاگر ہوئی کہ بھارتی عدلیہ میں ذات پات کا نظام بدرجہ اتم موجود ہے۔
پچھلے دنوں جب عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کیس کے سلسلے میں عبوری فیصلہ سنایا، تو بھارتیوں نے اسے اپنی فتح سے تعبیر کیا۔
فیصلہ سن کر بھارتی میڈیا تو جیسے دیوانہ سا ہوگیا اور خوشی کے شادیانے بجانے لگا۔ وہ یہ سچائی فراموش کر بیٹھا کہ بھارتی عدلیہ کے ایوانوں میں کہیں زیادہ عجیب و غریب ڈراما کھیلا جارہا ہے۔ یہ ڈراما اجاگر کرتا ہے کہ بھارتی عدلیہ کرپشن، تعصّب اور اقربا پروری کے امراض میں گھرا ایک گھٹیا ادارہ بن چکا۔
ڈرامے کاآغاز 23 جنوری 2017ء کو ہوا۔ اس دن کلکتہ ہائی کورٹ کے جج، چنا سوامی سوامی ناتھن کرنان نے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا۔ خط میں جسٹس کرنان نے واضح کیا کہ بھارتی عدلیہ کے اعلیٰ جج کرپشن سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایسے بیس ججوں کے نام بھی لکھ ڈالے جن میں سپریم کورٹ کے حاضر و سابق جج شامل تھے۔ جسٹس کرنان نے وزیراعظم مودی سے استدعا کی کہ ان کرپٹ ججوں کے خلاف تفتیش شروع کی جائے۔ اس خط نے بھارت میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔
بعض بھارتیوں نے جسٹس کرنان کو دلیر آدمی اور ''وسل بلوئر'' قرار دیا جو طاقتور مگر کرپٹ بھارتی عدلیہ کی خامیاں اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ دیگر بھارتیوں نے دعویٰ کیا کہ جسٹس کا دماغ خراب ہے اور وہ بھارتی عدلیہ کو بدنام کرنے کے درپے ہے۔ یہ بحث جاری تھی کہ سپریم کورٹ باغی جسٹس کرنان کے خلاف میدان میں اتر آیا۔
بھارتی چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے 8 فروری کو فیصلہ سنایا کہ جسٹس کرنان نے خط لکھ کر عدلیہ کو بدنام کرنا چاہا ہے۔ چناں چہ یہ جرم ''توہین عدالت'' قرار پایا۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے جسٹس کرنان کو حکم دیا کہ وہ بنفس نفیس حاضر ہو کے اپنی صفائی پیش کریں۔مگر وہ مقررہ تاریخ (13 فروری) کو سپریم کورٹ میں پیش نہ ہوئے۔بنچ نے ''ملزم'' کو موقع دیتے ہوئے اگلی تاریخ (10 مارچ) مقرر کردی۔
جب جسٹس کرنان اس دن بھی حاضر نہ ہوئے، تو بنچ نے ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے اور مغربی بنگال کی پولیس کو حکم دیا کہ ملزم کو گرفتار کرکے بروز 31 مارچ عدالت میں پیش کیا جائے۔ جسٹس کرنان کو عدالتی و انتظامی کام کرنے سے بھی روک دیا گیا۔
لیکن سپریم کورٹ کے ججوں کی مخالفانہ مہم سے جسٹس کرنان قطعاً خوفزدہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے 10 مارچ کی سہ پہر ہی اپنے گھر میں عارضی عدالت قائم کرلی۔ انہوں نے عدالت لگا کر سپریم کورٹ کے ساتوں ججوں کو متعصب قرار دیا۔ نیز یہ حکم بھی جاری کیا کہ ساتوں ججوں نے ان کے خلاف تعصب برتا ہے لہٰذا ججوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔جسٹس کرنان نے یہ حکم بھی دیا کہ ان کی توہین کرنے پر ساتوں جج چودہ کروڑ روپے بطور ہرجانہ ادا کریں۔ چند دن بعد جب پولیس نے انہیں سپریم کورٹ بنچ کی جانب سے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری پیش کیا تو جسٹس نے اسے ''غیر قانونی'' اور ''غیر آئینی'' قرار دیا۔
بھارت کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ہائی کورٹ کا ایک جج اپنے ہی ساتھیوں کی کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ۔ جسٹس کرنان نے یہ قدم اسی لیے اٹھایا کہ وہ ایک دیانتدار جج ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں کرپشن کا دور دورہ دیکھا، تو اسے طشت ازبام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کا تعلق تامل ناڈو کے ایک غریب دلت خاندان سے ہے۔ والد استاد تھے۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم و تربیت دینے پر صدارتی انعام بھی پایا مگر اس زمانے میں استاد کی تنخواہ بہت تھوڑی تھی۔ اس لیے جسٹس کرنان کے والد کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔ جب کرنان نوجوان ہوئے، تو وہ بھی کھیت میں والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔
بچپن کا زمانہ یاد کرتے ہوئے کرنان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ ان کے گھرانے میں بھوک کا راج تھا۔ اکثر رات کو کھانا نہ ہوتا۔ لہٰذا پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جسٹس صاحب اور ان کے تیرہ چودہ بہن بھائیوں کو مینڈک، سانپ اور دوسرے کیڑے مکوڑے پکا کر چٹ کرنا پڑتے۔ قابل ذکر بات یہ کہ نہایت مشکل زندگی کے باوجود باپ کی توجہ پا کر جسٹس کرنان نے پڑھائی جاری رکھی۔ آخر اعلیٰ تعلیم پاکر وہ وکیل بن گئے۔ 2009ء میں انہیں مدراس ہائی کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔
مسٹر کرنان ایک ذہین، منکسر مزاج اور تجربے کار وکیل ہیں۔ اسی لیے انہیں جج بنایا گیا۔ مگر ہائی کورٹ پہنچ کر جلد انہیں پتا چل گیا کہ وہاں ذات پات کی تقسیم کا دور دورہ ہے۔ بیشتر جج اعلیٰ ہندو ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا انہیں یہ بات پسند نہیں آئی
کہ نچلی (دلت) ذات سے تعلق رکھنے والا ایک ''اچھوت'' ان کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ کرنان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ روزمرہ معاملات میں ساتھی جج ان سے تعصب برتنے لگے۔ کبھی انہیں ''نااہل'' ہونے کا طعنہ دیا جاتا۔ کبھی دانستہ ان کی فائلیں روک لی جاتیں۔ ہائی کورٹ کے جج اور انتظامیہ یہ دیکھ کر بھی ناک بھوں چڑھاتی کہ جسٹس کرنان ایک پائی رشوت تک قبول نہ کرتے۔ انہوں نے کسی رشتے دار کو بھرتی نہ کرایا۔ کسی جاننے والے کا ناجائز کام نہیں کیا۔ وہ میرٹ پر فیصلہ سناتے تھے اور طاقتور سے طاقتور شخصیت کا دباؤ قبول نہ کرتے۔
دوسری طرف ہائی کورٹ میں رشوت اور اقربا پروری کا چلن عام تھا۔ ''کمیشن'' دے کر سائل تقریباً ہر جج سے اپنی مرضی کا فیصلہ لے سکتا تھا۔ جب جسٹس کرنان نے کرپشن کی گرم بازاری دیکھی تو وہ اس پر تنقید کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر ساتھی ججوںکی نفرت مزید بڑھ گئی۔ وہ پھر ان کی توہین کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔یہ حقیقت ہے کہ جس ادارے میں کرپٹ اور نااہل لوگ زیادہ ہوں اور وہاں کوئی ایمان دار اور اہل شخص آنکلے، تو وہ ان میں ایڈجسٹ نہیں ہوپاتا۔ کرپٹ لوگ اسے دیوانہ اور سنکی قرار دیتے اور اس سے دور دور رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ مدراس ہائی کورٹ میں بعینہ یہی معاملہ جسٹس کرنان کے ساتھ پیش آیا۔ ساتھی ججوں نے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ جسٹس اصرار کرتے تھے کہ وہ نیکی کی راہ پر گامزن ہوجائیں۔
فروری 2016ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے جسٹس کرنان کو کلکتہ ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کردیا۔ تاہم انہوں نے یہ حکم قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یوں ان کی اپنے سپریم کورٹ سے جنگ چھڑگئی۔ آخر تب کے بھارتی چیف جسٹس، ٹی ایس ٹھاکر نے جسٹس کرنان سے ملاقات کی۔ آخر وہ بادل نخواستہ کلکتہ جانے پر رضا مند ہوگئے۔ تاہم کلکتہ ہائی کورٹ میں بھی کرپشن کی گنگا بہہ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر جسٹس کرنان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے وزیراعظم بھارت کو خط لکھ ڈالا تاکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کرپٹ ججوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوسکے۔
جسٹس کرنان اور سپریم کورٹ کے مابین جنگ میں ڈرامائی موڑ آتے گئے۔ 28 مارچ کو انھوں نے ایک حکم نامے کے ذریعے سپریم کورٹ کے ساتوں ججوںکو بیرون ملک جانے سے روک دیا۔ یہ حکم بھی دیا کہ یکم مئی کو ساتوں جج ان کی عدالت میں پیش ہوں۔ سپریم کورٹ بنچ اس سے قبل انہیں یکم مئی کو پیش ہونے کا حکم جاری کرچکا تھا۔یکم مئی کو بنچ نے قرار دیا کہ جسٹس کرنان کی ذہنی حالت درست نہیں لہٰذا ان کا طبی معائنہ کرایا جائے اور معائنے کی رپورٹ 7 مئی کو بنچ کے سامنے رکھی جائے۔ یہ حکم نامہ آنے کے چند گھنٹے بعد جسٹس کرنان نے اپنی عارضی عدالت سے دہلی پولیس کو حکم جاری کیا کہ ساتوں ججوں کو گرفتار کرکے ماہرین نفسیات سے ان کا معائنہ کرائے تاکہ جانا جاسکے، کیا وہ ہوش مند ہیں یا دیوانے؟
جسٹس کرنان میڈیا میں اعلیٰ عدلیہ کی کرپشن مسلسل عیاں کر رہے تھے۔ اس امر نے سپریم کورٹ کے ججوں کو چراغ پا کردیا۔ چناں چہ 9 مئی کو انہوں نے توہین عدالت کا مجرم جانتے ہوئے انھیں چھ ماہ قید کی سزا سنادی۔ بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ہائی کورٹ کے کسی حاضر جج کو سزا سنائی گئی۔ اب پولیس جسٹس کرنان کو تلاش کررہی ہے تاہم وہ تادم تحریراس کے قابو میں نہیں آسکے۔
حالات اور واقعات سے عیاں ہے کہ بھارتی عدلیہ میں کرپشن کی ریل پیل ہے۔ جس کے پاس پیسہ اور اثرورسوخ ہے، وہ سنگین جرم کرکے بھی سزا سے بچ جاتا ہے ۔جبکہ غریب اور کمزور جھوٹے مقدمے میں بھی جیل جاپہنچتا ہے اور اس کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ بھارتی عدلیہ کی کمزوریوں کے باعث ہی بھارت کی سیاست میں امیر مجرم شامل ہوچکے۔ وفاقی اور ریاستی اسمبلیوں میں ایسے ارکان کی اکثریت ہے جن پر مختلف مقدمے چل رہے ہیں۔
جسٹس کرنان کی وسل بلوئنگ سے یہ سچائی بھی اجاگر ہوئی کہ بھارتی عدلیہ میں ذات پات کا نظام بدرجہ اتم موجود ہے۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم مودی ان کی شکایات کا نوٹس لیتے اور کم از کم کمیشن بٹھا دیتے جو کرپٹ ججوں کے خلاف تفتیش کرتا۔ مگر بھارتی سپریم کورٹ لٹھ لے کر جسٹس کرنان کے پیچھے پڑگیا اور آخر انہیں پسپا کردیا۔وجہ یہی کہ بیشتر جج ہندو طبقے کی اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اعلیٰ ذات کے یہ ہندو کم تعداد میں ہیں مگر اپنی دولت و اثرو رسوخ کے بل بوتے پر انہوں نے بھارت پر قبضہ کررکھا ہے۔ اگر کوئی نچلی ذات کا شخص ان کی طاقت و حیثیت کو چیلنج کرے، تو وہ اس کا جینا حرام کردیتے ہیں۔ اس دعویٰ کا ثبوت جسٹس کرنان کی صورت ہمارے سامنے ہے۔
فیصلہ سن کر بھارتی میڈیا تو جیسے دیوانہ سا ہوگیا اور خوشی کے شادیانے بجانے لگا۔ وہ یہ سچائی فراموش کر بیٹھا کہ بھارتی عدلیہ کے ایوانوں میں کہیں زیادہ عجیب و غریب ڈراما کھیلا جارہا ہے۔ یہ ڈراما اجاگر کرتا ہے کہ بھارتی عدلیہ کرپشن، تعصّب اور اقربا پروری کے امراض میں گھرا ایک گھٹیا ادارہ بن چکا۔
ڈرامے کاآغاز 23 جنوری 2017ء کو ہوا۔ اس دن کلکتہ ہائی کورٹ کے جج، چنا سوامی سوامی ناتھن کرنان نے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا۔ خط میں جسٹس کرنان نے واضح کیا کہ بھارتی عدلیہ کے اعلیٰ جج کرپشن سے لتھڑے ہوئے ہیں۔ انہوں نے ایسے بیس ججوں کے نام بھی لکھ ڈالے جن میں سپریم کورٹ کے حاضر و سابق جج شامل تھے۔ جسٹس کرنان نے وزیراعظم مودی سے استدعا کی کہ ان کرپٹ ججوں کے خلاف تفتیش شروع کی جائے۔ اس خط نے بھارت میں ہنگامہ کھڑا کردیا۔
بعض بھارتیوں نے جسٹس کرنان کو دلیر آدمی اور ''وسل بلوئر'' قرار دیا جو طاقتور مگر کرپٹ بھارتی عدلیہ کی خامیاں اجاگر کرنا چاہتا ہے۔ دیگر بھارتیوں نے دعویٰ کیا کہ جسٹس کا دماغ خراب ہے اور وہ بھارتی عدلیہ کو بدنام کرنے کے درپے ہے۔ یہ بحث جاری تھی کہ سپریم کورٹ باغی جسٹس کرنان کے خلاف میدان میں اتر آیا۔
بھارتی چیف جسٹس کی سربراہی میں بننے والے سپریم کورٹ کے سات رکنی بنچ نے 8 فروری کو فیصلہ سنایا کہ جسٹس کرنان نے خط لکھ کر عدلیہ کو بدنام کرنا چاہا ہے۔ چناں چہ یہ جرم ''توہین عدالت'' قرار پایا۔ سپریم کورٹ کے ججوں نے جسٹس کرنان کو حکم دیا کہ وہ بنفس نفیس حاضر ہو کے اپنی صفائی پیش کریں۔مگر وہ مقررہ تاریخ (13 فروری) کو سپریم کورٹ میں پیش نہ ہوئے۔بنچ نے ''ملزم'' کو موقع دیتے ہوئے اگلی تاریخ (10 مارچ) مقرر کردی۔
جب جسٹس کرنان اس دن بھی حاضر نہ ہوئے، تو بنچ نے ان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے اور مغربی بنگال کی پولیس کو حکم دیا کہ ملزم کو گرفتار کرکے بروز 31 مارچ عدالت میں پیش کیا جائے۔ جسٹس کرنان کو عدالتی و انتظامی کام کرنے سے بھی روک دیا گیا۔
لیکن سپریم کورٹ کے ججوں کی مخالفانہ مہم سے جسٹس کرنان قطعاً خوفزدہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے 10 مارچ کی سہ پہر ہی اپنے گھر میں عارضی عدالت قائم کرلی۔ انہوں نے عدالت لگا کر سپریم کورٹ کے ساتوں ججوں کو متعصب قرار دیا۔ نیز یہ حکم بھی جاری کیا کہ ساتوں ججوں نے ان کے خلاف تعصب برتا ہے لہٰذا ججوں کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔جسٹس کرنان نے یہ حکم بھی دیا کہ ان کی توہین کرنے پر ساتوں جج چودہ کروڑ روپے بطور ہرجانہ ادا کریں۔ چند دن بعد جب پولیس نے انہیں سپریم کورٹ بنچ کی جانب سے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری پیش کیا تو جسٹس نے اسے ''غیر قانونی'' اور ''غیر آئینی'' قرار دیا۔
بھارت کی عدالتی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ہائی کورٹ کا ایک جج اپنے ہی ساتھیوں کی کرپشن کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ۔ جسٹس کرنان نے یہ قدم اسی لیے اٹھایا کہ وہ ایک دیانتدار جج ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں کرپشن کا دور دورہ دیکھا، تو اسے طشت ازبام کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ ان کا تعلق تامل ناڈو کے ایک غریب دلت خاندان سے ہے۔ والد استاد تھے۔ بچوں کو اعلیٰ تعلیم و تربیت دینے پر صدارتی انعام بھی پایا مگر اس زمانے میں استاد کی تنخواہ بہت تھوڑی تھی۔ اس لیے جسٹس کرنان کے والد کھیتی باڑی بھی کرتے تھے۔ جب کرنان نوجوان ہوئے، تو وہ بھی کھیت میں والد کا ہاتھ بٹانے لگے۔
بچپن کا زمانہ یاد کرتے ہوئے کرنان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ ان کے گھرانے میں بھوک کا راج تھا۔ اکثر رات کو کھانا نہ ہوتا۔ لہٰذا پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے جسٹس صاحب اور ان کے تیرہ چودہ بہن بھائیوں کو مینڈک، سانپ اور دوسرے کیڑے مکوڑے پکا کر چٹ کرنا پڑتے۔ قابل ذکر بات یہ کہ نہایت مشکل زندگی کے باوجود باپ کی توجہ پا کر جسٹس کرنان نے پڑھائی جاری رکھی۔ آخر اعلیٰ تعلیم پاکر وہ وکیل بن گئے۔ 2009ء میں انہیں مدراس ہائی کورٹ کا جج مقرر کردیا گیا۔
مسٹر کرنان ایک ذہین، منکسر مزاج اور تجربے کار وکیل ہیں۔ اسی لیے انہیں جج بنایا گیا۔ مگر ہائی کورٹ پہنچ کر جلد انہیں پتا چل گیا کہ وہاں ذات پات کی تقسیم کا دور دورہ ہے۔ بیشتر جج اعلیٰ ہندو ذاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ لہٰذا انہیں یہ بات پسند نہیں آئی
کہ نچلی (دلت) ذات سے تعلق رکھنے والا ایک ''اچھوت'' ان کی صفوں میں شامل ہوگیا۔ کرنان کے ساتھی بتاتے ہیں کہ روزمرہ معاملات میں ساتھی جج ان سے تعصب برتنے لگے۔ کبھی انہیں ''نااہل'' ہونے کا طعنہ دیا جاتا۔ کبھی دانستہ ان کی فائلیں روک لی جاتیں۔ ہائی کورٹ کے جج اور انتظامیہ یہ دیکھ کر بھی ناک بھوں چڑھاتی کہ جسٹس کرنان ایک پائی رشوت تک قبول نہ کرتے۔ انہوں نے کسی رشتے دار کو بھرتی نہ کرایا۔ کسی جاننے والے کا ناجائز کام نہیں کیا۔ وہ میرٹ پر فیصلہ سناتے تھے اور طاقتور سے طاقتور شخصیت کا دباؤ قبول نہ کرتے۔
دوسری طرف ہائی کورٹ میں رشوت اور اقربا پروری کا چلن عام تھا۔ ''کمیشن'' دے کر سائل تقریباً ہر جج سے اپنی مرضی کا فیصلہ لے سکتا تھا۔ جب جسٹس کرنان نے کرپشن کی گرم بازاری دیکھی تو وہ اس پر تنقید کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر ساتھی ججوںکی نفرت مزید بڑھ گئی۔ وہ پھر ان کی توہین کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتے۔یہ حقیقت ہے کہ جس ادارے میں کرپٹ اور نااہل لوگ زیادہ ہوں اور وہاں کوئی ایمان دار اور اہل شخص آنکلے، تو وہ ان میں ایڈجسٹ نہیں ہوپاتا۔ کرپٹ لوگ اسے دیوانہ اور سنکی قرار دیتے اور اس سے دور دور رہتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ مدراس ہائی کورٹ میں بعینہ یہی معاملہ جسٹس کرنان کے ساتھ پیش آیا۔ ساتھی ججوں نے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا کیوں کہ جسٹس اصرار کرتے تھے کہ وہ نیکی کی راہ پر گامزن ہوجائیں۔
فروری 2016ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے جسٹس کرنان کو کلکتہ ہائی کورٹ میں ٹرانسفر کردیا۔ تاہم انہوں نے یہ حکم قبول کرنے سے انکار کردیا۔ یوں ان کی اپنے سپریم کورٹ سے جنگ چھڑگئی۔ آخر تب کے بھارتی چیف جسٹس، ٹی ایس ٹھاکر نے جسٹس کرنان سے ملاقات کی۔ آخر وہ بادل نخواستہ کلکتہ جانے پر رضا مند ہوگئے۔ تاہم کلکتہ ہائی کورٹ میں بھی کرپشن کی گنگا بہہ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر جسٹس کرنان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے وزیراعظم بھارت کو خط لکھ ڈالا تاکہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے کرپٹ ججوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوسکے۔
جسٹس کرنان اور سپریم کورٹ کے مابین جنگ میں ڈرامائی موڑ آتے گئے۔ 28 مارچ کو انھوں نے ایک حکم نامے کے ذریعے سپریم کورٹ کے ساتوں ججوںکو بیرون ملک جانے سے روک دیا۔ یہ حکم بھی دیا کہ یکم مئی کو ساتوں جج ان کی عدالت میں پیش ہوں۔ سپریم کورٹ بنچ اس سے قبل انہیں یکم مئی کو پیش ہونے کا حکم جاری کرچکا تھا۔یکم مئی کو بنچ نے قرار دیا کہ جسٹس کرنان کی ذہنی حالت درست نہیں لہٰذا ان کا طبی معائنہ کرایا جائے اور معائنے کی رپورٹ 7 مئی کو بنچ کے سامنے رکھی جائے۔ یہ حکم نامہ آنے کے چند گھنٹے بعد جسٹس کرنان نے اپنی عارضی عدالت سے دہلی پولیس کو حکم جاری کیا کہ ساتوں ججوں کو گرفتار کرکے ماہرین نفسیات سے ان کا معائنہ کرائے تاکہ جانا جاسکے، کیا وہ ہوش مند ہیں یا دیوانے؟
جسٹس کرنان میڈیا میں اعلیٰ عدلیہ کی کرپشن مسلسل عیاں کر رہے تھے۔ اس امر نے سپریم کورٹ کے ججوں کو چراغ پا کردیا۔ چناں چہ 9 مئی کو انہوں نے توہین عدالت کا مجرم جانتے ہوئے انھیں چھ ماہ قید کی سزا سنادی۔ بھارتی عدلیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ ہائی کورٹ کے کسی حاضر جج کو سزا سنائی گئی۔ اب پولیس جسٹس کرنان کو تلاش کررہی ہے تاہم وہ تادم تحریراس کے قابو میں نہیں آسکے۔
حالات اور واقعات سے عیاں ہے کہ بھارتی عدلیہ میں کرپشن کی ریل پیل ہے۔ جس کے پاس پیسہ اور اثرورسوخ ہے، وہ سنگین جرم کرکے بھی سزا سے بچ جاتا ہے ۔جبکہ غریب اور کمزور جھوٹے مقدمے میں بھی جیل جاپہنچتا ہے اور اس کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے۔ بھارتی عدلیہ کی کمزوریوں کے باعث ہی بھارت کی سیاست میں امیر مجرم شامل ہوچکے۔ وفاقی اور ریاستی اسمبلیوں میں ایسے ارکان کی اکثریت ہے جن پر مختلف مقدمے چل رہے ہیں۔
جسٹس کرنان کی وسل بلوئنگ سے یہ سچائی بھی اجاگر ہوئی کہ بھارتی عدلیہ میں ذات پات کا نظام بدرجہ اتم موجود ہے۔ہونا یہ چاہیے تھا کہ وزیراعظم مودی ان کی شکایات کا نوٹس لیتے اور کم از کم کمیشن بٹھا دیتے جو کرپٹ ججوں کے خلاف تفتیش کرتا۔ مگر بھارتی سپریم کورٹ لٹھ لے کر جسٹس کرنان کے پیچھے پڑگیا اور آخر انہیں پسپا کردیا۔وجہ یہی کہ بیشتر جج ہندو طبقے کی اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اعلیٰ ذات کے یہ ہندو کم تعداد میں ہیں مگر اپنی دولت و اثرو رسوخ کے بل بوتے پر انہوں نے بھارت پر قبضہ کررکھا ہے۔ اگر کوئی نچلی ذات کا شخص ان کی طاقت و حیثیت کو چیلنج کرے، تو وہ اس کا جینا حرام کردیتے ہیں۔ اس دعویٰ کا ثبوت جسٹس کرنان کی صورت ہمارے سامنے ہے۔