فلک بوس ہمالیہ کا مسکن ۔ نیپال
اگر نیپال کے لیے پی آئی اے کی پرواز براہِ راست جاتی تو سفر ڈیڑھ دو گھنٹے میں طے ہوجاتا
آج کے دور میں مختلف ملکوں اور خِطّوں کے عوام کے لیے ایک دوسرے کے علم اور تجربے سے استفادہ کرنا (sharing of knowledge and experiences) ناگزیر ہوچکاہے۔ یہ وہ زینہ ہے جس پر پاؤں رکھ کر بڑے اہم ملکوں نے بلندی اور ترقی کی منازل طے کی ہیں۔کولمبو پلان اسٹاف کالج (CPSC)فنّی تربیّت کے فروغ کا وہ ادارہ ہے جو دنیا کے 26ممالک نے مل کر قائم کیا تھا۔
ابتدامیں اس کا ہیڈکواٹر سنگاپور میں تھا جو بعد میں منیلا شفٹ ہوگیا۔ اب اس کے ممبر ممالک کی تعداد 16ہے۔جس میں پاکستان، بھارت، کوریا، جاپان، فلپائن، ملائشیا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال بھی شامل ہیں۔ ممبر ممالک کو فنّی تعلیم و تربیّت کے سیکٹر میں جدید علوم، تجربات اور رجحانات سے آگاہ رکھنا اس کے مقاصد میں شامل ہے، یہ بات بلاتردید کہی جاسکتی ہے کہ CPSCسکل ڈویلپمنٹ کے میدان میں، ایشیا اور ایشیا پیسیفک کی سب سے بڑی اور مستند تنظیم ہے جو رکن ممالک کی آگہی کے لیے اعلیٰ معیار کے سیمینار اور کانفرنسیں بھی منعقد کراتی ہے۔
آجکل اس کی سربراہی نیپال کے ڈاکٹر ہری رام کے پاس ہے۔ موصوف اکتوبر 2016میں نیوٹیک کے زیرِاہتمام اسلام آباد میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس میں شریک ہوئے تھے اور بہت مثبت تاثر اور خوشگوار یادیں دامن میں سمیٹ کر لے گئے تھے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ نیپال میں ان کے منعقّد کردہ سیمینار میں پاکستان سے نیوٹیک کا سربراہ خود شریک ہو اور ان کے معیار اور حسنِ انتظام کاخود مشاہدہ کرسکے۔ چنانچہ ان کے اصرار پر راقم نے ایک دن کے لیے نیپال جانے کی حامی بھرلی۔
اگر نیپال کے لیے پی آئی اے کی پرواز براہِ راست جاتی تو سفر ڈیڑھ دو گھنٹے میں طے ہوجاتا، ایسا نہ ہونے کے باعث اومان ائرلائنز کا انتخاب کیا گیا جسکے ذریعے مسقط پہنچ کرائرپورٹ پر تین گھنٹے رکناپڑا اس لازمی قیام و آرام کے بعد نیپال کے لیے سفر کانئے سرے سے آغاز ہوا اور بارہ گھنٹے سفر میں رہنے کے بعد رات سات بجے کھٹمنڈو ائرپورٹ پر اترے تو ریسیو کرنے کے لیے CPSCکے افسر پھولوں سمیت موجود تھے۔ ہم ان کی معیّت میں بذریعہ کار منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ ائرپورٹ سے نکلتے ہی غربت اور پسماندگی کے مظاہر نظر آنے لگے۔
جنوبی ایشیا میں نیپال انگریزوں کی جارحیّت اور دست برد سے بچارہاتھا۔1815-16میں انگریز فوجوں نے اس کے خلاف بھی جارحیّت کی کوشش کی مگر نیپال کے دلیر اور لڑاکا گورکھاجوانوں نے انگریزی جارحیّت کا منہ توڑ جواب دیا۔ 1846 میں جنگ بہادر کَنور نے فاتح کی حیثیّت سے ''رانا سلطنت''کی بنیاد رکھی۔1951میں بھارت نے رانا سلطنت ختم کراکے بادشاہت قائم کرادی اور اس کے ساتھ کانگریس نام کی ایک کٹھ پتلی پارٹی بھی کھڑی کردی۔ جمہوریت کی ہوا چلی تو 1991میں شاہ مہندرا کو اس کے آگے سر جھکانا پڑااور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی۔
1996 میں نیپال کی کمیونسٹ پارٹی نے پرتشدد مظاہرے کیے جس میں بارہ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یکم جون2001کو ولی عہد شہزادہ دپندرا نے بادشاہ سمیت شاہی خاندان کے تمام افراد کو قتل کرکے خودکشی کرلی ۔کہاجاتا ہے کہ جیون ساتھی کے لیے شہزادے کے انتخاب سے والدین کو اتفاق نہ تھا۔ 2006میں پارلیمنٹ نے نیپال کو ہندو ریاست کے بجائے سیکولر ملک قرار دیا۔مئی 2008 میں بادشاہت ختم کردی گئی، ملک میں کمیونسٹ پارٹی سب سے بڑی پارٹی ہے اور آجکل مخلوط حکومت کے ساتھ برسرِاقتدار ہے۔ مگر ابھی تک نیپال سیاسی استحکام کی منزل حاصل نہیں کرپایا۔ سوا کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے۔کچھ علاقوں میں زراعت اچھی ہے مگر معیشت کا دارومدار سیّاحت اور بیرونِ ملک کام کرنے والے نیپالی ورکرز کی آمدنی پرہے۔آبادی کا 81%حصّہ ہندومذہب سے تعلق رکھتا ہے 9% بدھ مت اور 4.5% مسلمان ہیں۔
سیّاحوں میں زیادہ تر زائرین مندروں کی زیارت اور عبادت کے لیے آتے ہیں۔دنیا میں سب سے قدیم اور بڑے مندر وں کا مرکز بھی نیپال ہی ہے۔ غیر مذہبی سیّاح فلک بوس پہاڑ دیکھنے آتے ہیں ،کچھ پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے مہم جو بلند و بالا پہاڑوں کو سر کرتے ہوئے سر دے دیتے ہیں اور کچھ خوش قسمت بلند ترین چوٹیوں پر اپنے ملک کے جھنڈے گاڑ کر واپس جاتے ہیں ۔ پہاڑوں کا سردار، ایورسٹ اپنے شکوہ و جلال کے ساتھ اسی ملک میں ایستادہ ہے، جسکی تسخیر تمام مہم جوؤں کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ جسکے بارے میں اقبالؒ نے اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں لکھی گئی نظم میں کہا تھا:۔
؎ چوٹیاں تیری ثرّیا سے ہیں سرگرمِ سخن
توزمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہِ مہر عالم تاب پر
ائرپورٹ سے چالیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم منزل پر پہنچ گئے۔ ہماری منزل کھٹمنڈو سے باہر خوبصورت پہاڑی قصبہ دھولی خیل تھا جہاں میرا بل ہوٹل میں سیمینار منعقد ہورہاتھا۔ میزبانوں نے بلاشبہ مہمانوں میں سے نیوٹیک کے سربراہ کو سب سے زیادہ عزّت اور اہمیّت دی۔ اور سب سے بلندجگہ پر سب سے خوبصورت کمرے میں ٹھہرایاجہاں سے صبح صادق کی سپیدی میں فلک بوس پہاڑوں کا دیدار کیا جاسکتا تھا۔کمرے میں پہنچ کر ابھی سامان کھول ہی رہا تھا کہ دستک ہوئی، باہر نکل کر دیکھا تو سی پی ایس سی کے چیئرمین آئی سی ڈاکٹر جی کے گلدستہ لیے کھڑے تھے، میں نے ان کے خلوص اور محبّت کا شکریہ ادا کیا۔
بلندی کے باعث موسم ٹھنڈا تھا مگر میزبانوں نے کمرے اور لہو گرم رکھنے کے انتظامات کررکھے تھے، مگر راقم کو صرف کمرے کی گرمی سے دلچسپی تھی۔ صبح شاور کے پورے پریشر سے نکلنے والے گرم پانی نے ساری تھکاوٹ دور کردی۔ غسل کے بعد راقم ناشتے کے لیے طعام گاہ پہنچا تو CPSCکے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رام ھری آکر بڑے تپاک سے ملے، وہیں انھوں نے مجھے بتایا کہ ''افتتاحی اجلاس میں سوئٹزرلینڈ کے سفیر اور آپ مہمانانِ خصوصی ہوںگے اور افتتاحی اجلاس پندرہ منٹ کے بعد شروع ہوجائیگا''۔ چنانچہ میں ناشتہ چھوڑ کر کمرے کیطرف بھاگا، لباس تبدیل کیا اور ذہن میں تقریر کے لیے پوائنٹس مرتب کیے۔ برطانیہ، آسٹریلیا، کوریا اور بھارت سمیت اٹھارہ ملکوں کے مندوبین اور دیگر ماہرین سے ہال بھرا ہوا تھا، ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ سوئز سفیر اور راقم کی تقاریر کے بعد افتتاحی اجلاس ختم ہو گیا۔ چائے پر بہت سے ملکوں کے مندوبین آکر ملتے رہے جنہوں نے پاکستان میں سکل ڈویلپمنٹ کی سمت اور نئے initiatives پر بہت دلچسپی کا اظہار کیااور انھیں قابلِ تحسین قرار دیا۔
سہ پہر کو ڈی جی صاحب نے کھٹمنڈو کی سیّاحت کے لیے شوبھا نام کی ایک پڑھی لکھی گائیڈ ہمارے ساتھ مقرّر کردی ، دھولی خیل سے نکلے تو شوبھاکہنے لگی''کھٹمنڈو میں تو مندر ہی ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے سیّاح آتے ہیں''۔ سب سے پہلے ہم کٹھمنڈو سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی پر ایستادہ شیوابھگوان کا طویل قامت مجسّمہ دیکھنے گئے جو میلوں دور سے نظر آتا ہے۔
144فٹ بلند یہ مجسّمہ تانبے، زنک اور لوہے سے سات سال کی مدّت میں تیار کیا گیا۔ مضبوطی کے لیے اس کی بنیادیں سو فٹ گہری رکھی گئی ہیں۔ چند سال پہلے بھارت کے ایک ارب پتی تاجر نے اسے یہاں نصب کرایا ہے۔عقیدے اور عقیدت کے اظہار کے اپنے اپنے انداز ہیں۔ جسطرح مسلمان بڑے شوق اور عقیدت سے مسجدیں بنواتے ہیں اسی طرح ہندو مندروں اور بھگوانوں (gods) کے مجسّموں کی تعمیر پر بڑے شوق سے پیسے خرچ کرتے ہیں۔
اُدھر مقصداﷲ سبحانہ تعالیٰ کی خوشنودی اور مغفرت ہے، اِدھر بھی مقصد اپنے بھگوان کی خوشی اورsalvation ہے، اس کے بعد ہم سوامبھوناتھ مندر دیکھنے گئے۔ مندر تک پہنچنے کے لیے ہمیں 365سیڑھیاں چڑھنا تھیں، معرکہ جواں ہمتّی کا متقاضی تھا مگر شوبھا اور فیاض سومرو کے سامنے کمزوری دکھانا بھی راقم کو گوارا نہ تھا، لہٰذا ہمّت کرکے منزل پرپہنچ گئے، جہاں ہمیں داد دینے اور استقبال کرنے کے لیے بندروں کا بہت بڑا ہجوم موجود تھا میں نے شوبھا سے پوچھا کہ آج یہاں بندروں کا سالانہ کنونشن ہے یا انھوں نے دھرنا دے رکھّا ہے؟ کہنے لگی آپ کو اکثر مندروں پر بندروں کا جمگھٹا نظر آئیگا۔ کچھ اور مندر بھی دیکھے، بلاشبہ مندروں کی عمارات فنّ ِتعمیر کامنفرد نمونہ تھیں۔ مگر برطانوی نو مسلم یوسف اسلام کا یہ کہنا درست ہے کہ ''عظیم الشان مساجد جیسا حسن اور جلال دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں میں نظر نہیں آتا'' ۔
نیپال کے پڑھے لکھے لوگوں میں اس بات کا احساس قَوی ہوتا جارہا ہے کہ بھارت نیپال کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے بلکہ اکثر حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ آزادانہ سوچ رکھتا ہے اور آزادانہ پالیسیوں کو روا رکھنے کا خواہشمند ہے۔کھٹمنڈو یونیورسٹی (جو اپنے محلّ ِ و قوع کے باعث نیپال کی خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ہے) میں پہنچ کر اس احساس کی حدّت اور شدّت زیادہ محسوس ہوئی، جہاں کے پروفیسر اور نوجوان طلباء و طالبات اپنے علیحدہ تشخّص کے تحفّظ کی کُھل کر بات کرتے اور نیپال کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت پر ناپسندیدگی اور تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ ملک بڑا ہو یا چھوٹا، امیر ہو یا غریب اس کے نوجوانوں کی سوچ یکساں ہے، وہ اپنی تہذیب اور اپنے کلچر سے محبّت کرتے ہیں، آزادانہ پالیسیاں تشکیل دینے کے خواہشمند ہیں، آج کے نوجوان چاہے خود غربت کا شکار ہوں مگر وہ کسی امیر یا طاقتور ملک سے ڈکٹیشن لینے یا کسی کا کٹھ پتلی بننے کے لیے ہرگز تیّار نہیں ہیں۔
ابتدامیں اس کا ہیڈکواٹر سنگاپور میں تھا جو بعد میں منیلا شفٹ ہوگیا۔ اب اس کے ممبر ممالک کی تعداد 16ہے۔جس میں پاکستان، بھارت، کوریا، جاپان، فلپائن، ملائشیا، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال بھی شامل ہیں۔ ممبر ممالک کو فنّی تعلیم و تربیّت کے سیکٹر میں جدید علوم، تجربات اور رجحانات سے آگاہ رکھنا اس کے مقاصد میں شامل ہے، یہ بات بلاتردید کہی جاسکتی ہے کہ CPSCسکل ڈویلپمنٹ کے میدان میں، ایشیا اور ایشیا پیسیفک کی سب سے بڑی اور مستند تنظیم ہے جو رکن ممالک کی آگہی کے لیے اعلیٰ معیار کے سیمینار اور کانفرنسیں بھی منعقد کراتی ہے۔
آجکل اس کی سربراہی نیپال کے ڈاکٹر ہری رام کے پاس ہے۔ موصوف اکتوبر 2016میں نیوٹیک کے زیرِاہتمام اسلام آباد میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل کانفرنس میں شریک ہوئے تھے اور بہت مثبت تاثر اور خوشگوار یادیں دامن میں سمیٹ کر لے گئے تھے۔ اس لیے وہ چاہتے تھے کہ نیپال میں ان کے منعقّد کردہ سیمینار میں پاکستان سے نیوٹیک کا سربراہ خود شریک ہو اور ان کے معیار اور حسنِ انتظام کاخود مشاہدہ کرسکے۔ چنانچہ ان کے اصرار پر راقم نے ایک دن کے لیے نیپال جانے کی حامی بھرلی۔
اگر نیپال کے لیے پی آئی اے کی پرواز براہِ راست جاتی تو سفر ڈیڑھ دو گھنٹے میں طے ہوجاتا، ایسا نہ ہونے کے باعث اومان ائرلائنز کا انتخاب کیا گیا جسکے ذریعے مسقط پہنچ کرائرپورٹ پر تین گھنٹے رکناپڑا اس لازمی قیام و آرام کے بعد نیپال کے لیے سفر کانئے سرے سے آغاز ہوا اور بارہ گھنٹے سفر میں رہنے کے بعد رات سات بجے کھٹمنڈو ائرپورٹ پر اترے تو ریسیو کرنے کے لیے CPSCکے افسر پھولوں سمیت موجود تھے۔ ہم ان کی معیّت میں بذریعہ کار منزل کی جانب روانہ ہوگئے۔ ائرپورٹ سے نکلتے ہی غربت اور پسماندگی کے مظاہر نظر آنے لگے۔
جنوبی ایشیا میں نیپال انگریزوں کی جارحیّت اور دست برد سے بچارہاتھا۔1815-16میں انگریز فوجوں نے اس کے خلاف بھی جارحیّت کی کوشش کی مگر نیپال کے دلیر اور لڑاکا گورکھاجوانوں نے انگریزی جارحیّت کا منہ توڑ جواب دیا۔ 1846 میں جنگ بہادر کَنور نے فاتح کی حیثیّت سے ''رانا سلطنت''کی بنیاد رکھی۔1951میں بھارت نے رانا سلطنت ختم کراکے بادشاہت قائم کرادی اور اس کے ساتھ کانگریس نام کی ایک کٹھ پتلی پارٹی بھی کھڑی کردی۔ جمہوریت کی ہوا چلی تو 1991میں شاہ مہندرا کو اس کے آگے سر جھکانا پڑااور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دے دی۔
1996 میں نیپال کی کمیونسٹ پارٹی نے پرتشدد مظاہرے کیے جس میں بارہ ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ یکم جون2001کو ولی عہد شہزادہ دپندرا نے بادشاہ سمیت شاہی خاندان کے تمام افراد کو قتل کرکے خودکشی کرلی ۔کہاجاتا ہے کہ جیون ساتھی کے لیے شہزادے کے انتخاب سے والدین کو اتفاق نہ تھا۔ 2006میں پارلیمنٹ نے نیپال کو ہندو ریاست کے بجائے سیکولر ملک قرار دیا۔مئی 2008 میں بادشاہت ختم کردی گئی، ملک میں کمیونسٹ پارٹی سب سے بڑی پارٹی ہے اور آجکل مخلوط حکومت کے ساتھ برسرِاقتدار ہے۔ مگر ابھی تک نیپال سیاسی استحکام کی منزل حاصل نہیں کرپایا۔ سوا کروڑ کی آبادی کے اس ملک میں انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے۔کچھ علاقوں میں زراعت اچھی ہے مگر معیشت کا دارومدار سیّاحت اور بیرونِ ملک کام کرنے والے نیپالی ورکرز کی آمدنی پرہے۔آبادی کا 81%حصّہ ہندومذہب سے تعلق رکھتا ہے 9% بدھ مت اور 4.5% مسلمان ہیں۔
سیّاحوں میں زیادہ تر زائرین مندروں کی زیارت اور عبادت کے لیے آتے ہیں۔دنیا میں سب سے قدیم اور بڑے مندر وں کا مرکز بھی نیپال ہی ہے۔ غیر مذہبی سیّاح فلک بوس پہاڑ دیکھنے آتے ہیں ،کچھ پہاڑوں جیسا حوصلہ رکھنے والے مہم جو بلند و بالا پہاڑوں کو سر کرتے ہوئے سر دے دیتے ہیں اور کچھ خوش قسمت بلند ترین چوٹیوں پر اپنے ملک کے جھنڈے گاڑ کر واپس جاتے ہیں ۔ پہاڑوں کا سردار، ایورسٹ اپنے شکوہ و جلال کے ساتھ اسی ملک میں ایستادہ ہے، جسکی تسخیر تمام مہم جوؤں کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے۔ جسکے بارے میں اقبالؒ نے اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں لکھی گئی نظم میں کہا تھا:۔
؎ چوٹیاں تیری ثرّیا سے ہیں سرگرمِ سخن
توزمیں پر اور پہنائے فلک تیرا وطن
برف نے باندھی ہے دستارِ فضیلت تیرے سر
خندہ زن ہے جو کلاہِ مہر عالم تاب پر
ائرپورٹ سے چالیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم منزل پر پہنچ گئے۔ ہماری منزل کھٹمنڈو سے باہر خوبصورت پہاڑی قصبہ دھولی خیل تھا جہاں میرا بل ہوٹل میں سیمینار منعقد ہورہاتھا۔ میزبانوں نے بلاشبہ مہمانوں میں سے نیوٹیک کے سربراہ کو سب سے زیادہ عزّت اور اہمیّت دی۔ اور سب سے بلندجگہ پر سب سے خوبصورت کمرے میں ٹھہرایاجہاں سے صبح صادق کی سپیدی میں فلک بوس پہاڑوں کا دیدار کیا جاسکتا تھا۔کمرے میں پہنچ کر ابھی سامان کھول ہی رہا تھا کہ دستک ہوئی، باہر نکل کر دیکھا تو سی پی ایس سی کے چیئرمین آئی سی ڈاکٹر جی کے گلدستہ لیے کھڑے تھے، میں نے ان کے خلوص اور محبّت کا شکریہ ادا کیا۔
بلندی کے باعث موسم ٹھنڈا تھا مگر میزبانوں نے کمرے اور لہو گرم رکھنے کے انتظامات کررکھے تھے، مگر راقم کو صرف کمرے کی گرمی سے دلچسپی تھی۔ صبح شاور کے پورے پریشر سے نکلنے والے گرم پانی نے ساری تھکاوٹ دور کردی۔ غسل کے بعد راقم ناشتے کے لیے طعام گاہ پہنچا تو CPSCکے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر رام ھری آکر بڑے تپاک سے ملے، وہیں انھوں نے مجھے بتایا کہ ''افتتاحی اجلاس میں سوئٹزرلینڈ کے سفیر اور آپ مہمانانِ خصوصی ہوںگے اور افتتاحی اجلاس پندرہ منٹ کے بعد شروع ہوجائیگا''۔ چنانچہ میں ناشتہ چھوڑ کر کمرے کیطرف بھاگا، لباس تبدیل کیا اور ذہن میں تقریر کے لیے پوائنٹس مرتب کیے۔ برطانیہ، آسٹریلیا، کوریا اور بھارت سمیت اٹھارہ ملکوں کے مندوبین اور دیگر ماہرین سے ہال بھرا ہوا تھا، ڈائریکٹر جنرل کے علاوہ سوئز سفیر اور راقم کی تقاریر کے بعد افتتاحی اجلاس ختم ہو گیا۔ چائے پر بہت سے ملکوں کے مندوبین آکر ملتے رہے جنہوں نے پاکستان میں سکل ڈویلپمنٹ کی سمت اور نئے initiatives پر بہت دلچسپی کا اظہار کیااور انھیں قابلِ تحسین قرار دیا۔
سہ پہر کو ڈی جی صاحب نے کھٹمنڈو کی سیّاحت کے لیے شوبھا نام کی ایک پڑھی لکھی گائیڈ ہمارے ساتھ مقرّر کردی ، دھولی خیل سے نکلے تو شوبھاکہنے لگی''کھٹمنڈو میں تو مندر ہی ہیں جنھیں دیکھنے کے لیے سیّاح آتے ہیں''۔ سب سے پہلے ہم کٹھمنڈو سے بیس کلومیٹر کے فاصلے پر پہاڑی پر ایستادہ شیوابھگوان کا طویل قامت مجسّمہ دیکھنے گئے جو میلوں دور سے نظر آتا ہے۔
144فٹ بلند یہ مجسّمہ تانبے، زنک اور لوہے سے سات سال کی مدّت میں تیار کیا گیا۔ مضبوطی کے لیے اس کی بنیادیں سو فٹ گہری رکھی گئی ہیں۔ چند سال پہلے بھارت کے ایک ارب پتی تاجر نے اسے یہاں نصب کرایا ہے۔عقیدے اور عقیدت کے اظہار کے اپنے اپنے انداز ہیں۔ جسطرح مسلمان بڑے شوق اور عقیدت سے مسجدیں بنواتے ہیں اسی طرح ہندو مندروں اور بھگوانوں (gods) کے مجسّموں کی تعمیر پر بڑے شوق سے پیسے خرچ کرتے ہیں۔
اُدھر مقصداﷲ سبحانہ تعالیٰ کی خوشنودی اور مغفرت ہے، اِدھر بھی مقصد اپنے بھگوان کی خوشی اورsalvation ہے، اس کے بعد ہم سوامبھوناتھ مندر دیکھنے گئے۔ مندر تک پہنچنے کے لیے ہمیں 365سیڑھیاں چڑھنا تھیں، معرکہ جواں ہمتّی کا متقاضی تھا مگر شوبھا اور فیاض سومرو کے سامنے کمزوری دکھانا بھی راقم کو گوارا نہ تھا، لہٰذا ہمّت کرکے منزل پرپہنچ گئے، جہاں ہمیں داد دینے اور استقبال کرنے کے لیے بندروں کا بہت بڑا ہجوم موجود تھا میں نے شوبھا سے پوچھا کہ آج یہاں بندروں کا سالانہ کنونشن ہے یا انھوں نے دھرنا دے رکھّا ہے؟ کہنے لگی آپ کو اکثر مندروں پر بندروں کا جمگھٹا نظر آئیگا۔ کچھ اور مندر بھی دیکھے، بلاشبہ مندروں کی عمارات فنّ ِتعمیر کامنفرد نمونہ تھیں۔ مگر برطانوی نو مسلم یوسف اسلام کا یہ کہنا درست ہے کہ ''عظیم الشان مساجد جیسا حسن اور جلال دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں میں نظر نہیں آتا'' ۔
نیپال کے پڑھے لکھے لوگوں میں اس بات کا احساس قَوی ہوتا جارہا ہے کہ بھارت نیپال کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتا ہے بلکہ اکثر حکومتی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ آزادانہ سوچ رکھتا ہے اور آزادانہ پالیسیوں کو روا رکھنے کا خواہشمند ہے۔کھٹمنڈو یونیورسٹی (جو اپنے محلّ ِ و قوع کے باعث نیپال کی خوبصورت ترین عمارتوں میں سے ہے) میں پہنچ کر اس احساس کی حدّت اور شدّت زیادہ محسوس ہوئی، جہاں کے پروفیسر اور نوجوان طلباء و طالبات اپنے علیحدہ تشخّص کے تحفّظ کی کُھل کر بات کرتے اور نیپال کے اندرونی معاملات میں بھارتی مداخلت پر ناپسندیدگی اور تشویش کا اظہار کرتے رہے۔ ملک بڑا ہو یا چھوٹا، امیر ہو یا غریب اس کے نوجوانوں کی سوچ یکساں ہے، وہ اپنی تہذیب اور اپنے کلچر سے محبّت کرتے ہیں، آزادانہ پالیسیاں تشکیل دینے کے خواہشمند ہیں، آج کے نوجوان چاہے خود غربت کا شکار ہوں مگر وہ کسی امیر یا طاقتور ملک سے ڈکٹیشن لینے یا کسی کا کٹھ پتلی بننے کے لیے ہرگز تیّار نہیں ہیں۔