سی پیک کے ثمرات عوام تک کیسے پہنچیں گے

سمندری نیٹ ورک کے ذریعے بندر گاہوں کو زمینی راستوں سے مربوط کرنے کا پروگرام ہے


[email protected]

میں کوئی معاشی ماہر ہوں نہ ہی جغرافیہ دان ہوں لیکن جب سے معلوم ہوا ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ، سی پیک اور سلک روڈ کے ساتھ ساتھ چینی ہماری زراعت کو بھی ''دیکھیں'' گے ،جھرجھری سے آئی ہے۔ اس کا انکشاف ''ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس'' کی دستاویزات کے منظر عام پر آنے کے بعد ہواجس کے مطابق آیندہ پندرہ برسوں میں ہزاروں ایکڑ زرعی اراضی چینی کمپنیوں کو لیز پر دی جائے گی جہاں بیجوں کی اقسام سے لے کر زرعی ٹیکنالوجی کے منصوبے تشکیل دیے جائیں گے۔ چین والے یہاں کھیتی باڑی بھی کریں گے اور اگر ایسا ہوا تو ہمارے کاشتکار چینیوں کے لیے کتے پکڑنے اور گدھوں کی کٹائی کا کام کریں گے ۔

چین سی پیک کے ذریعے اپنے کم ترقی یافتہ صوبوں کو ترقی دینا چاہتا ہے۔ پاکستان کا ہر محب وطن شہری یہی چاہتا ہے کہ سی پیک کامیاب ہو اور جلد سے جلد پاکستان کے عوام اس کے ثمرات سے فائدے حاصل کرسکیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ '' راہداریاں'' ہی ملکوں کی تقدیر بدلا کرتی ہیں۔ سولہو یں اور اٹھارہویں صدی کے دوران جہاز رانوںمیں ایک گیت رائج تھا کہ

''جس کے راستے محفوظ ہیں اس کی تجارت محفوظ ہے''

''جس کی تجارت محفوظ ہے اس کی دولت بڑھتی جاتی ہے''

''جس کے پاس دولت ہے وہی دنیا کا حکمران ہے''

اسی خیال سے برطانیہ،ا سپین، فرانس ، اٹلی ، جرمنی ،ہالینڈ اور پرتگال مال تجارت لے کر نکلے۔ بھارت اور امریکا اسی سوچ کے سبب دریافت ہوئے، راستوں اور منڈیوں پر کنٹرول کے لیے ملکوں اور قوموں کو غلام بنایا گیا۔

چین نے دُور کا سوچا اور اس نے روس اور یورپ کو اپنا رول ماڈل بنایا کیونکہ ان ممالک نے سمندروں تک رسائی کے بعد ہی ترقی کی،گرم پانی تک رسائی کا خیال تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تین سو سال سے روس کی پالیسی کا مرکزی نکتہ رہا ہے۔

جب ہمارے پاس تاریخ کے اتنے حوالے موجود ہیں تو کوئی پاگل ہی ہوگا جو ان راہداریوں کی مخالفت کرے گا، لیکن بات صرف اتنی سی ہے کہ حکمران عوام کے بارے میں بھی سوچیں۔ سب سے پہلے اس منصوبے کو سمجھنے کی ضرورت ہے : اس منصوبے کے تحت دو طرح کے عالمی رابطے قائم کرنا مقصود ہیں، اول سلک روڈ اکنامک زون ، دوم سمندری رابطہ یعنی میری ٹائم سلک روٹ۔ زمینی راستے کے منصوبوں میں سڑکیں، ریلوے ٹریکس، تیل اور گیس پائپ لائنز اور اس سے منسلک کئی دیگر منصوبے ہیں جن کے ذریعے چین کے علاقے سنکیانگ کو ابتداء میں وسطی ایشیا سے مربوط کر نے کا پلان ہے۔ بعدمیں اس انفراسٹرکچر کو پھیلا کر ماسکو، روٹرڈیم اور ونیس تک لے جانا مقصود ہے۔ یوں چین، منگولیا ، روس، وسط ایشیا، پاکستان اور بنگلہ دیش،انڈیا اور میانمار کو آپس میں ملانے کی بنیاد رکھ دی جائے گی۔

ادھر سمندری نیٹ ورک کے ذریعے بندر گاہوں کو زمینی راستوں سے مربوط کرنے کا پروگرام ہے تاکہ جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا سے لے کر مشرقی افریقہ تک اور بحیرہ قلزم تک تجارتی راستوں کا وسیع اور مربوط نظام قائم کر دیا جائے۔ یہ مجموعی خاکہ ہے اس عظیم منصوبے کا جسے چینی صدر نے ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے متعار ف کرایا۔

حکومت کے وزیر مشیر اور اسٹیک ہولڈرز اس وقت دعوے کر رہے ہیں کہ سی پیک سے نوجوانوں کے لیے 7لاکھ نوکریاں نکلیں گی، لاکھوں پاکستانی براہ راست کاروبار کر سکیں گے، راہداری کے ارد گرد کی زمینوں میں انڈسٹریاں لگائی جائیںگی اور پاکستان میں ٹرانسپورٹ کا بزنس بھی بڑھے گا مگرسوال یہ ہے کہ کیا یہ دعوے بجلی پانی و گیس کے بغیر ممکن ہے۔ سی پیک پاکستان کے لیے بہت بڑا پروجیکٹ ہے لیکن عوام کے مسائل بھی حل ہونے چا ہیے ورنہ سی پیک حکومت ِ پاکستان کے لیے گلے کی ہڈی ثابت ہوگا۔

سی پیک سے حاصل ہونے والی دولت پاکستان کے عوام پر ہی خرچ ہونی چاہیے۔ بے سمتی کے سفر میں ہم بہت سال اور بہت مواقع کھو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ ہمیں چینیوں کی طرح حقیقت پسند اور عملیت پسند ہونا چاہیے۔قوم کا عزم حکومت کی کمزور پالیسی کو بھی صحیح رخ پرڈال دیتاہے۔ اسٹیک ہولڈرز سے مشورہ اور شفافیت احساس حاکمیت کے بجائے احساس شراکت کے جذبات ہمارے لیے کئی آسانیاں لا سکتے ہیں ۔ شفافیت کرپشن کے الزامات کا بجائے خود جواب فراہم کرتی ہے۔ بہرکیف میرے خیال میںسی پیک کے ثمرات کا فائدہ عوام کو اُس دن ہو گا جب غریب کے بچے کو وہی تعلیم مل سکے گی جو امیر کے بچے کو لاکھوں روپے فیس ادا کر کے ملتی ہے۔جب غریب کے خاندان کو صحت کی وہی بنیادی سہولتیں میسر ہوں گی جو امیروں کی اولادوں کو پرائیویٹ اسپتالوں میں بے تحاشا رقم کے عوض ملتی ہیں۔

جس دن غریب کی زندگی میں بجلی پانی گیس کی سہولتیں اس قابل ہو جائیں گی کہ وہ اپنی ماہانہ آمدنی میں سے آسانی سے بل دے سکیں ، ورنہ یہ سی پیک اس ملک کے 20کروڑ عوام کے لیے بے معنی ہوجائے گا۔ ہم حکومت وقت اور آنے والی حکومتوں اور پاکستان کے پالیسی سازوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ سی پیک کے ثمرات کو 70ہزار افراد یا ایک لاکھ افراد تک محدود نہ رکھیں بلکہ اس کو غریب آدمی تک لے جانا پڑے گا اور اگر ایسا نہ ہو سکا تو یقین مانیے کہ یہ اکانومی اور سی پیک پاکستان کے لیے بے معنی ہو جائے گا، وزیر اعظم نے کہا کہ اگر ملک کے اندر امن و امان قائم نہیں ہوگا تویہ سی پیک کے ثمرات خواب بن کر رہ جائیں گے۔انھوں نے بالکل درست کہا۔ حکومتیں یا سیاسی و مذہبی جماعتیں غریب کی زندگی کے بارے میں اگر نہیں سوچیں گے تو انھیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آنے والے دنوں میں اُن کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں