بے بسی خوف سے جنم لیتی ہے

بادشاہ سلامت نے ان کی جان بخشی کا حکم بھیجا ہے


Aftab Ahmed Khanzada May 24, 2017

ہم سب آج بے بس ہیں، اس لیے کہ ہم سب خوفزدہ ہیں، بے بسی کا خوف سے کیا تعلق ہے آئیں اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس سے پہلے بے بسی کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں جب آپ کسی ایسی صورتحال سے دوچار ہوجاتے ہیں جس سے باہر نکلنے کی کوئی راہ آپ کو نہ سجھائی دے رہی ہو اور آپ کا ذہن اور عقل شل ہوکر آپ کا ساتھ دینے سے صاف انکار کررہے ہوں اور آپ کے اعصاب، ہمت، حوصلہ اور امید آپ کی دشمن بن چکی ہوں تو آپ بے بس ہوجاتے ہیں۔

بے بسی کا خوف سے تعلق ڈھونڈنے سے پہلے دنیا کے عظیم ناول نگاردوستوفیسکی کی زندگی کاایک حقیقی واقعہ اس ہی کی زبانی سنتے ہیں ''جن دنوں روس میں کارل مارکس کا اثر بڑھ رہا تھا، اشتراکی سرگرمیاں جاری تھیں 23 اپریل 1849ء کو ایک اشتراکی انجمن پر پولیس نے دھاوا بولااور سب ممبروں کو گرفتار کرلیا، ان میں میں بھی شامل تھا، کئی مہینوں کی مسلسل تھکادینے والی سماعت کے بعد اس سازشی مقدمے کا فیصلہ سنایاگیا اور ہر ایک کو موت کی سزا ملی، سزائے موت کا فیصلہ مجھے جیل کی کوٹھڑی میں سنایا گیا۔ اس پر عمل کب ہونے والا تھا یہ نہ بتایاگیا لیکن آدھے گھنٹے کے بعد ہی جیلر آیا اور مجھے تیار ہونے کا حکم دیا گیا بڑی نگہداشت سے مجھے صحن میں لایا گیا جہاں میرے انیس ساتھی اور موجود تھے۔

اس وقت صبح کے کوئی سات بجے ہوں گے، ہمیں گاڑیوں میں بٹھایا گیا۔ ایک گاڑی میں چار چار۔ ہر ایک گاڑی کے ساتھ ایک ایک سپاہی بھی تھا۔گاڑی کی شیشہ لگی کھڑکیاں برفباری سے دھندلی ہورہی تھیں۔ اس لیے باہرکا منظر کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ آخرکار ہم سین نوفسکی کے چوک میں پہنچے۔ ایک اونچا سا مچان تھا، جس پر ہم سب کو چڑھا دیا گیا۔ کھڑا کرنے کے بعد ہمیں پھر موت کا حکم پڑھ کر سنایاگیا۔ اس فیصلے میں متواتر بیس مرتبہ یہ منحوس لفظ دہرایا گیا تھا۔ میرے پاس کھڑے ساتھی نے سہمے ہوئے لہجے میں کہا۔ ''موت، موت'' ۔''میں نے بھی زیر لب کہا ''مو ت۔ موت'' لیکن ایک دم چونکا نہیں، نہیں ہمیں ہلاک نہیں کیا جائے گا۔

میری ساتھی نے سامنے اشارہ کیا ''وہ دیکھتے ہو سامنے کیا پڑے ہیں'' میں نے سہم کر کہا ''تابو ت'' میرے ساتھی نے آہ بھری ''ہاں تابو ت۔ جب ہم مر جائیں گے تو ان میں ہمار ی لاشیں۔ دوسرے نے ٹھٹھری ہوئی آواز میں کہا ''کتنی سردی ہے'' میں نے جواب دیا ''مجھے تو محسوس نہیں ہوتی۔ بادلوں میں سے سورج نکل آیا ہے'' میرے پاس کھڑے ساتھی نے پھر ایک آہ بھری ''سب سے پہلے پیڑوسکی اوراس کے دو ساتھیوں کو گولی کا نشانہ بنایا جائے گا۔ میں نے اپنے سامنے دیکھا ''یہ کون آرہا ہے'' میرے ساتھی نے جواب دیا ''پادری'' پادری آیا اور اس نے ہم سب کو مخاطب کیا ''میرے بچو! تم میں سے کون کون اپنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہتا ہے'' میں نے کہا ''مجھے کوئی اعتراف نہیں کرنا ہے'' پادری نے میرے ساتھی سے پوچھا ''تمہیں'' اس نے جواب دیا ''نہیں'' پادری نے دوسرے سے پوچھا ''تمہیں میرے بچے'' اس نے جواب دیا ''جی نہیں'' یک دم کوئی بلند آواز میں چلایا ''بندوقیں بھرلو'' اس کے بعد بندوقیں بھرنے کی آواز آئی میرے ساتھی نے مجھ سے پو چھا ''یہ تم کدھر دیکھ رہے ہو'' میں نے جواب دیا ''وہ سامنے گرجے کے چمکتے ہوئے کلس کو دیکھ رہا ہوں۔

سورج کی کرنوں میں کتنا چمک رہا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ کرنیں بھی وہیں سے آرہی ہیں جہاں میں چند منٹوں کے بعد پہنچ جاؤں گا''۔ ایک دم پھر آواز بلند ہوئی ''تیار ہوجاؤ۔ایک۔ دو۔ لیکن فوراً ہی گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز سنائی دی اور کوئی چلایا ''ٹھہرجاؤ۔ ٹھہر جاؤ'' گھڑ سوار سپاہی آیااور اس نے یہ اعلان کیا۔ ''بادشاہ سلامت نے ان کی جان بخشی کا حکم بھیجا ہے۔ یہ فرمان ملاحظہ فرمایے'' ''بعد میں معلوم ہوا کہ سزائے موت کا حکم ہمیں صرف ڈرانے کے لیے دیاگیا تھا کہ عمر بھر کے لیے سبق ہوجائے لیکن یہ سبق ہم میں سے بعض کے لیے بہت مہلک ثابت ہوا۔ گریگوریف کو جب بلی سے کھولا گیا تو اس کا دماغ صدمے کے باعث ماؤف ہوچکا تھا۔

اس کے علاوہ ہم میں سے ہر ایک پراس کا کچھ نہ کچھ اثر آخر عمر تک باقی رہا''ایڈمنڈ برک نے کہا تھا ''کوئی جذبہ خوف سے زیادہ کسی دماغ کی عقل کی طاقت استعمال کرنے کی صلاحیت مفلوج نہیں کرتا'' جب آپ کی عقل مفلوج ہوجاتی ہے تو آپ کے اندر خاموشیاں جنم لے لیتی ہیں اور پھر خاموشیاں اندھیروں کو جنم دے دیتی ہیں اور جب اندھیرے انسان کے اندر قبضہ کر لیتے ہیں تو باہر اندھیروں کے علاوہ آپ کو اورکچھ دکھائی نہیں دیتا ہے اسی لیے آج کے دور میں خوفزدہ کرکے بے بس کردینے کا عمل ہر طاقتور اور بااختیاروں کا انتہائی موثر اور پسندیدہ ہتھیار ہے کیونکہ یہ ہتھیار جن پر استعمال ہوتا ہے ان کو احساس تک نہیں ہوتا ہے کہ وہ سب سے زیادہ مہلک ہتھیار کا شکار بن چکے ہیں ایسے انسان بظاہر تو نارمل انسان لگتے ہیں لیکن وہ سب کے سب اصل میں صرف گوشت پوست کے لوتھڑے ہوتے ہیں جو سب بغیر لڑے ہارے ہوئے ہوتے ہیں بغیر مرے اپنی اپنی قبروں میں لیٹے ہوئے ہوتے ہیں کیونکہ ان سب نے فرارکا راستہ اختیار کیا ہوا ہوتا ہے اورسب کو صرف بے بسی میں ہی چین آرہاہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے اندرکے اندھیرے پھربھی چیختے رہتے ہیں آپ خود ایک چھوٹا سا تجر بہ کرکے دیکھ سکتے ہیں۔

بیس کرو ڑ بے بسوں میں سے آپ کسی ایک کوکچھ دیر کے لیے بہلا پھسلا کرکسی ہوٹل میں لے جائیے اور اس سے ادھر ادھر کی باتیں کرکے ایک سیدھا سادہ سا سوال پوچھ لیجیے کہ آپ کی زندگی کیسی گزر رہی ہے جیسے ہی آپ یہ سوال اس سے پوچھیں گے تو آپ یہ دیکھ کر حیران اور پریشان ہوجائیں گے کہ اس کے چہر ے کا رنگ ایک دم خوف سے تبدیل ہوگیا ہے، پھر آپ کی دی گئی تسلیوں اور پانی کا ایک ٹھنڈا گلاس پینے کے بعد جب وہ اپنے اندر کے خو ف کو ایک ایک کرکے میز پر سجائے گاتو کچھ دیر بعد آپ اتنے سارے خوفوں کو ایک ساتھ دیکھ کر خوفزدہ ہو کر ہوٹل سے نکل کر اندھا دھند نامعلوم سمت میں بھاگ رہے ہوں گے اور چند منٹوں بعد جب آپ پیچھے مڑ کر دیکھیں گے تو اس بے بس کے سارے خوف آپ کو پکڑنے کے لیے آپ کے پیچھے پیچھے دوڑلگا کر آرہے ہونگے اور آپ انھیں دیکھ کر یااللہ مدد یااللہ مدد کے نعرے لگا رہے ہونگے اور رہی بات طاقتوروں اور بااختیاروں کی تو وہ سب کے سب اپنی طاقت اور اختیار کے نشے میں دھت اونگھ رہے ہیں کیونکہ انھیں ان بیس کروڑ بے بسوں سے نہ تو کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی انھیں ان کی کوئی فکر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں