سیکیوریٹی کی مشکلات ہیں لیکن انتخابات کرانے کے سوا کوئی راستہ نہیں

الیکشن سے قبل اتحاد مشکل سے ہوں گے، خیبرپختونخوا میں تین چار جماعتیں مل کر حکومت بنائیں گی.


Rokhan Yousufzai/Shahid Hameed January 27, 2013
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا امیرحیدر خان ہوتی سے خصوصی انٹرویو۔ فوٹو: فائل

امیر حیدر خان ہوتی نے یکم اپریل 2008 ء کو خیبر پختونخوا کے کم عمر ترین وزیراعلیٰ کے طور پر صرف 37 سال کی عمر میں وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا تھا اور اس وقت کئی حلقے یہ سوال اٹھارہے تھے کہ اتنی کم عمری میں امیر حیدرخان ہوتی صوبے کا انتظام چلاپائیں گے یا نہیں؟

یہ سوال بھی موجود تھا کہ دہشت گردی اور عسکریت پسندی، جو ملاکنڈ ڈویژن میں لاوے کی طرح پک رہی ہے، اس کا خاتمہ وہ کرپائیں گے یا پھر حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا؟ تاہم آج جب کہ امیر حیدر ہوتی کی حکومت صوبے میں پانچ سال پورے کرنے جارہی ہے تو وہ اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ یہ ان کی حکومت ہی ہے جس نے ملاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندی کا خاتمہ کرتے ہوئے امن بھی قائم کیا، تاریخ کے بدترین سیلاب کی وجہ سے جو تباہی ہوئی اس سے بھی نمٹی اور صوبہ کو خیبرپختونخوا کی صورت میں پہچان دلوانے میں بھی کام یاب رہی۔

اے این پی جب 2008 ء کے انتخابات کے لیے میدان میں اتری تھی تو اس کا نعرہ تھا کہ صوبہ کو اس کا نام بھی دلوائیں گے اور صوبائی خود مختاری کا حصول بھی ممکن بنایاجائے گا اور آج جب پانچ سال کے بعد اے این پی کی حکومت اپنا دورانیہ مکمل کرتے ہوئے الیکشن کے لیے ایک مرتبہ پھر میدان میں جارہی ہے تو وہ اس بات کا کریڈٹ لے رہی ہے کہ جو اہداف اس نے 2008 ء کے انتخابات کے لیے اپنے منشور میں مقرر کیے تھے وہ تمام حاصل کرلیے گئے ہیں۔

خیبرپختونخوا میں اے این پی کی حکومت کے کپتان امیر حیدر ہوتی کا بھی یہی کہنا ہے کہ پانچ سال کے دوران نہ صرف یہ کہ تمام اہداف حاصل کیے گئے، بل کہ کئی ایسے اقدامات بھی کیے گئے جو ساٹھ سال میں نہیں ہوئے۔ کئی مقاصد کا حصول اگر ممکن ہوا تو کچھ کام ابھی بھی کرنے باقی ہیں اور امیر حیدر ہوتی بطور وزیر اعلیٰ اپنے ہی دور میں یہ کام بھی کرکے جانا چاہتے ہیں۔



امیرحیدر ہوتی کی قیادت میں خیبرپختونخوا میں کام کرنے والی اے این پی کی حکومت نے ان پانچ سال میں کیا اہداف حاصل کیے، صوبے میں کیا تبدیلی آئی، دہشت گردی پر کس حد تک قابو پایا جاسکا اور ایسے کون سے اہداف ہیں جن کا حصول اب تک نہیں ہوسکا اور باقی دنوں میں اے این پی اور امیر حیدر ہوتی کی حکومت ان کا حصول ممکن بنانا چاہتی ہے؟ یہ اور ان جیسے دیگر سوالات کے ساتھ ایکسپریس نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا امیر حیدر ہوتی کا تفصیلی انٹرویو کیا جو پیش خدمت ہے ۔

ایکسپریس: موجودہ حکومت نے اپنے پانچ سال میں اے این پی کے منشور کے مطابق کون سے اہداف حاصل کیے ہیں ؟ اور پانچ سال کے بعد موجودہ حکومت خو د کو کہاں دیکھتی ہے؟

امیر حیدر ہوتی: پارٹی 2008 ء کے انتخابات میں جو پروگرام لے کر عوام کے پاس گئی تھی، اس کے مطابق اس خطے کو شورش کی وجہ سے جو خطرات درپیش تھے، ان کا تدارک کرنا تھا کہ ان حالات کو کیسے درست کیا جائے گا اور امن کیسے قائم کیا جائے گا اور طے کیا گیا تھا کہ یہ سب سیاسی عمل کے ذریعے کیا جائے گا۔ دوسرا ہدف یہ تھا کہ پختون قوم اور صوبہ کے بسنے والوں کو قلم اور کتاب دی جائے گی، کیوںکہ تعلیم ہی کے ذریعے لوگوں کو جہالت کے اندھیروں سے نکلا جاسکتا ہے۔ تیسری اہم بات تھی صوبائی خود مختاری کا حصول، کہ صوبائی خودمختاری 1973 ء کے آئین کے مطابق حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی اور چوتھی بات صوبہ کو اس کا نام اور پہچان دلوانا تھا۔

ہماری حکومت میں صوبے کو نام مل گیا۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے پاکستان کے چاروں صوبوں کو اتنی خود مختاری مل گئی ہے کہ کسی نے اتنا سوچا بھی نہیں تھا۔ تعلیم کے شعبے میں ساٹھ سال میں پورے صوبے میں پبلک سیکٹر میں دس یونی ورسٹیاں تھیں اور ہم نے ان پانچ سال میں مزید آٹھ یونی ورسٹیاں قائم کیں، ساٹھ سال میں لڑکیوں کے 47 کالجز بنائے گئے، جب کہ ہم نے پانچ سال میں اتنے ہی منظور کیے، صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کے ذریعے مفت تعلیم دی جارہی ہے۔ قابل اور ذہین بچوں کے لیے ''ستوری دپختون خوا'' اسکیم لائی گئی۔ ہائیر ایجوکیشن کے لیے ہم نے ایک ارب سے پانچ ارب روپے تک بجٹ کو بڑھایا۔ ہمیں آج بھی سب سے بڑا چیلینج شورش کا درپیش ہے۔

سوات میں لگی آگ ہم بجھانا چاہتے تھے، لیکن جن کے ساتھ ہمارا واسطہ تھا وہ اس کو بجھانے کے بجائے بونیر، صوابی اور مردان تک لے آئے، جس کی وجہ سے ہم نے دکھی دل کے ساتھ ان کے خلاف کارروائی کی۔ آج بھی دو آپشنز ہیں کہ اتنا کچھ ہونے کے باوجود اور اے این پی نے اتنی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے، ہم کہتے ہیں کہ آج بھی سیاسی حل ہی بہتر ہے اور اگر نہ ہو تو سب سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے اس سلسلے میں حتمی فیصلہ کرنا ہوگا۔ اچھی بات یہ ہے کہ پانچ سال قبل لوگ کنفیوز تھے اور لوگ عسکریت پسندی کے خلاف کارروائی کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ آج بھی مشکلات اور چیلینجز ہیں، تاہم لوگ آج اس حوالے سے حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان میں احساس ہے کہ دہشت گرد اچھا نہیں کررہے۔

میڈیا نے ان لوگوں ایکسپوز کیا اور بہت مثبت کردار ادا کیا۔ حکومت اور سیکیوریٹی فورسزمیں پانچ سال میں بہترین ہم آہنگی رہی اور تمام فیصلے مشاورت سے مل کر کیے۔ تاہم ہم کہاں تک کام یاب رہے اس کا فیصلہ عوام کو کرنا ہے۔

ایکسپریس: صوبوں کو اٹھارویں ترمیم کے ذریعے اختیارات تو مل گئے۔ تاہم تین سال کے دوران صوبے ان کو پوری طرح اپنا نہیں سکے اور اب تک قانون سازی کا عمل جاری ہے۔ مسئلہ کہاں ہے؟

امیرحیدرہوتی: جب اٹھارویں ترمیم لائی جارہی تھی، اس وقت جب یہ بحث چلی تھی کہ صوبے یہ اختیارات اپناسکیں گے یا نہیں؟ تاہم یہ خیال تھاکہ اس حوالے سے صوبے قانون سازی میں وقت لیں گے اور اسی کو دیکھتے ہوئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس میں غیرضروری تاخیر ہوئی۔ اب بھی سو فی صد عمل درآمد میں کچھ وقت لگے گا۔ جو ٹائم فریم رکھا گیا تھا خیبرپختونخوا میں پروگریس اس کے مطابق ہے۔ تاہم اب زکوٰۃ، ورکرز ویلفیئر بورڈ کے حوالے سے صوبوں کی رائے ایک دوسرے سے مختلف ہے اور جب تک صوبے متفق نہ ہوں تو وقت لگے گا۔ یہ بہت بڑی ذمے داری ہے اور ہمیں اس کے لیے تیاری تیز کرنی چاہیے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی ذمے داری اگلے این ایف سی ایوارڈ تک مرکز کی ہے۔ تاہم ہم نے ہائیر ایجوکیشن کے محکمے اور وائس چانسلرز کو ہدایت کردی ہے کہ وہ اپنی تیاری مکمل کرلیں، تاکہ ہم تیار ہوں۔

ایکسپریس: آپ بھی قیام امن کے لیے مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور طالبان کی جانب سے بھی مذاکرات کی پیشکش کی گئی ہے، تو کیا اس حوالے سے مرکز کے ساتھ کوئی بات آگے بڑھی ہے، کیوںکہ فاٹا بھی مرکز کے کنٹرول میں ہے اور فرنٹیئر ریجنز کے علاقے بھی مرکز ہی کے زیر انتظام ہیں؟

امیرحیدرہوتی: مسئلہ فاٹا یا خیبرپختونخوا کا نہیں بل کہ پورے ملک کا ہے کیوںکہ پورا ملک متاثر ہورہا ہے، جس کی وجہ اس خطے کی مخصوص صورت حال اور یہاں پر بہت سی اندرونی اور بیرونی قوتوں کا ملوث ہونا ہے۔ وفاقی حکومت کے ساتھ بھی بات ہوئی ہے اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی کیوںکہ یہ مسئلہ ایک سیاسی جماعت کا نہیں اور نہ ہی کوئی ایک سیاسی جماعت یہ مسئلہ حل کرسکتی ہے۔ اسی لیے ہم چاہتے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں مل کر مشترکہ حکمت عملی بنائیں اور اس کے بعد عسکری قیادت کے ساتھ بات کی جائے، تاکہ موثر انداز میں اس حوالے سے کام کیا جاسکے۔

ایکسپریس: اگر یہ مسئلہ سب جماعتوں اور پورے ملک کا ہے، تو پھر اے این پی کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے؟ مرکز اور خیبرپختونخوا میں اے این پی اور پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومتیں ہیں، اس کے باوجود اے این پی کے راہ نمائوں اور کارکنوں ہی کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

حیدر ہوتی: اے این پی، فوج اور پولیس کو نشانہ اس لیے بنایا جارہا ہے کہ ان کو عسکریت پسند اپنے راستے کی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ عسکریت پسند جو اپنی سوچ ہم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں، اس میں وہ سب سے بڑی رکاوٹ اے این پی ہی کو سمجھتے ہیں۔ ہم نے قربانیاں دے کر کسی پر احسان نہیں کیا۔

ایکسپریس: اسفندیارولی خان نے دو مختلف مواقع پر مرکز اور مرکز کے کنٹرول میں کام کرنے والے اداروں سے کھل کر مطالبہ کیا کہ اب انھیں فاٹا میں عسکریت پسندوں کے خلاف کھل کر کارروائی کرنی پڑے گی۔ یہ مطالبہ اس انداز میں کیوں کیا گیا۔ کیا کہیں مرکز اور صوبائی حکومت کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان پیدا ہوگیا ہے یا کوئی اور مسئلہ ہے؟

امیر حیدر ہوتی: اسفندیارولی خان نے کہا تھا کہ اس ایشو کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ مزید غیرسنجیدہ رویہ درست نہیں ہوگا۔ مرکزی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے کوشش کرنی چاہیے اور جب سنجیدگی سے کام کرتے ہوئے تجاویز تیار کرلی جائیں تو یہ عسکری قیادت کے پاس لے جائی جانی چاہییں۔ جہاں تک فوج کے حوالے سے بات ہے تو یہ ہماری اپنی فوج ہے، وہ اس مسئلے کو اتنا ہی سنجیدہ لے رہی ہے جتنا ہم۔ فوج نے خود کہا ہے کہ اس وقت بیرونی کے بجائے اندرونی خطرات زیادہ ہیں اور ان کو ختم کرنے کے لیے ہمیں اپنی توجہ ادھر مرکوز کرنی پڑے گی۔

سوات میں اگر کام یاب کارروائی ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ سوات کے مقامی لوگوں نے اس کو سپورٹ کیا اور اپنا گھر بار چھوڑا، سیاسی جماعتوں نے اس کی پشت پناہی کی اور فوج نے اس وجہ سے بہترین کارروائی کی۔ اگر عوام اور سیاسی جماعتیں فوج کی پشت پر نہ ہوں تو پھر وہ کیسے کام کرے گی۔ سیاسی جماعتوں کو مل کر اس ایشو کے حوالے سے بیٹھنا ہوگا اور اس وجہ سے فوج زیادہ بہتر کام کرے گی۔ اب تو عمران خان بھی کہتے ہیں کہ عسکریت پسندی کا حل بات چیت اور بندوق کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ کچھ کے ساتھ بات چیت اور کچھ کے ساتھ بندوق کے ذریعے بات کرنی ہوگی۔

امیر حیدر ہوتی: اگر حکومت اور عسکریت پسندوں کے مذاکرات ہوتے ہیں تو کیا کام یابی کے امکانات ہیں اور کیا عسکریت پسندوں کے مطالبات تسلیم کیے جاسکتے ہیں؟

امیرحیدر ہوتی: مذاکرات ہوں گے تو مطالبات سامنے آئیں گے، جو اب تک سامنے نہیں آئے۔ تاہم میرے خیال میں اس کی تفصیل اور رولز آف گیم تب طے ہوں گے کہ جب سیاسی پارٹیاں طے کریں، لیکن کچھ باتوں پر سب پارٹیاں متفق ہیں، یعنی جس سے بھی مذاکرات ہوں گے وہ پاکستان کے وجود اور خود مختاری کو تسلیم کرے گا، وہ اس ملک کے آئین اور قانون کو تسلیم کریں گا۔ جو مذاکرات ہوں گے ان کا حتمی نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پاکستان اور اس کے لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ نہ ہم اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے دیں گے اور نہ ہی کسی دوسرے ملک کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال ہوگی۔ تیسری بات یہ ہے کہ وہ ہتھیار رکھیں اور تشدد کا راستہ ترک کریں۔ ان باتوں پر سب پارٹیاں متفق ہیں دیگر امور مل کر طے کرلیں گے۔ دوسری جانب سے کیا مطالبہ آتا ہے یہ تو مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے تو ہی پتا چلے گا۔

ایکسپریس: امریکا 2014 ء میں افغانستان سے جارہا ہے اور یہ تھیوری موجود ہے کہ وہ جانے سے قبل جنگ افغانستان سے پاکستان منتقل کرنا چاہتا ہے۔ کیا آپ بھی اس معاملے کو اسی نظر سے دیکھ رہے ہیں؟

امیرحیدرہوتی: بار بار یہ بات کی جارہی کہ یہ جنگ افغانستان سے گذشتہ کچھ سال سے پاکستان ہم لے آئے ہیں یا یہ جنگ اب آنے والی ہے، لیکن یہ درست نہیں۔ یہ جنگ گذشتہ کچھ سالوں میں نہیں بل کہ اس وقت منتقل ہوئی جب روس کے خلاف پاکستان کو لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کیا گیا۔ یہ اجتماعی غلطیاں ہیں۔ ان پر اب بحث کرنے کا فائدہ نہیں، کیوںکہ یہ باتیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ جہاں تک افغانستان سے امریکا کے جانے کا معاملہ ہے تو امریکا نے کس موقع پر کہا کہ ان کی پوری فوج 2014 ء میں افغانستان سے نکل جائے گی؟ اس سے تو ان کی افواج کے انخلاء کا عمل شروع ہوگا۔ اس کے بعد پتا چلے گا کہ کتنی فوج جاتی ہے اور کتنی رہتی ہے۔ اس کا جواب تو ہمیں 2014 ء ہی میں ملے گا۔

ایکسپریس: ملاکنڈ میں کام یاب آپریشن کی مثالیں تو دی جاتی ہیں، تاہم عملی طور پر اب بھی ملاکنڈ فوج کے کنٹرول میں ہے اور سول سیٹ اپ بھرپور طریقے سے کام نہیں کررہا۔ فوج کا ملاکنڈ ڈویژن سے کب انخلاء ہوگا اور کیا ملاکنڈ ڈویژن میں چھاؤنی بنے گی؟

امیرحیدرہوتی : فوج کو ملاکنڈ ڈویژن میں صوبائی حکومت کی درخواست پر بلایا گیا۔ ہم سے پہلی حکومت نے بھی بلایا، لیکن وہ لوگ اس بات کا اعتراف نہیں کرتے اور ہم مانتے ہیں کہ فوج ہماری درخواست پر آئی ہے اور، ہم نے اس کے کردار کو کم کرنا شروع کردیا ہے۔ دو سال قبل جب ہم ملاکنڈ ڈویژن جاتے تھے تو تمام سیکیوریٹی فوج ہی کرتی تھی اور وہ منظر پر ہوتی تھی۔ تاہم ایک سال سے اب سول انتظامیہ سارے انتظامات کرتی ہے۔ شانگلہ میں فوج پیچھے ہٹ گئی ہے اور سول انتظامیہ فعال ہے۔ سوات میں فوج موجود ضرور ہے۔ تاہم اب ان کی موجودگی اتنی نہیں ہے۔ جتنی پہلے تھی۔ فوج ایک حکمت عملی کے تحت پیچھے جارہی ہے اور سول انتظامیہ آگے آرہی ہے۔

اس میں کافی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ افغانستان کے صوبوں کنڑ اور نورستان میں وہ لوگ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں جو یہاں سے کارروائیوں کے نتیجے میں بھاگ گئے تھے۔ وہ ہمارے علاقوں میں کارروائی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ بارڈر تو فوج ہی کو سنبھالنا ہے پولیس یہ کام نہیں کرسکتی۔ جب تک ایسے چیلینجز ہیں۔ فوج کو ملاکنڈ میں رہنا ہوگا، جہاں تک کنٹونمنٹ کی بات ہے تو یہ امن کے وقت میں بھی ہوتے ہیں، تاکہ بوقت ضرورت فوج فوری طور پر حرکت میں آسکے۔ کنٹونمنٹ ملاکنڈ ڈویژن میں بننا ہے یا دیر میں؟ اس حوالے سے ابھی حتمی فیصلہ نہیں ہوا۔

ایکسپریس: صوبے میں ایپکس کمیٹی کی نئی روایت ڈالی گئی، جس میں گورنر، وزیراعلیٰ اور کورکمانڈر تینوں مل کر فیصلے کرتے ہیں۔ یہ تجربہ کیسا رہا اور آپ مرکز اور دیگر صوبوں کو کیا تجویز دیں گے کہ کیا وہ بھی اس طرح کا انتظام کرتے ہوئے اس سے فائدہ اٹھائیں؟

امیر حیدر ہوتی: میرے خیال میں یہ تجربہ نہایت کام یاب رہا۔ اس کا کریڈٹ جنرل مسعود اسلم کور کمانڈر پشاور اور سابق گورنر اویس احمد غنی کو جاتا ہے۔ یہ ان دونوں کا آئیڈیا تھا اور انہوں نے مجھ سے یہ تجویز شیئر کی۔ سیاست داں ایسی تجاویز سے اتفاق نہیں کرتے، تاہم ہمارے صوبے میں خاص صورت حال تھی اور ہم مشکل دور سے گزر رہے تھے، جس پر میں نے پارٹی قیادت اور سنیئر ساتھیوں سے مشورہ کیا اور کہا کہ ہم اس کا آغاز کرلیتے ہیں اگر نتائج اچھے نہ ہوئے تو واپس ہوجائیں گے۔ تاہم اس فیصلے کے نتیجے میں سب نے مل کر فیصلے کیے۔ مشاورت کی اور اس کا بہت بڑا فائدہ ہوا اور پاکستان میں جہاں پر بھی ایسی صورت حال سے لوگ دوچار ہوتے ہیں، جو ہمیں درپیش ہے تو اس میں یہ بہترین ارینجمنٹ ہے۔

ایکسپریس: بجلی کے خالص منافع کے حوالے سے موجودہ حکومت نے کوشش کی اور 110 ارب روپے کے بقایاجات کا حصول ممکن بنایا۔ تاہم 6 ارب کی سالانہ رقم غیرمنجمد نہیں ہوسکی اور 2004-05 ء سے اب تک کے 315 ارب کے بقایاجات بھی نہیں مل پائے۔ اس سلسلے میں آیا کوئی پیش رفت ہوئی ہے؟

امیرحیدرہوتی: بنیادی طور پر اس کے تین حصے تھے۔ ایک مسئلہ حل ہوگیا اور ہم نے 110 ارب کے بقایاجات کا حصول ممکن بنایا ،2004-05 ء اور اس سے آگے کے بقایاجات کے حصول کے لیے مرکز اور صوبہ مشاورت سے حل نکال لیں گے۔ جیسے 110 ارب کے حوالے سے مختلف آراء تھیں تاہم مشاورت سے مسئلہ حل ہوگیا۔ سب سے اہم مسئلہ 6 ارب کی رقم کو غیرمنجمد کرانا ہے جس سے صوبہ کے مسائل حل ہوں گے اور یہ آگے بڑھے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا 6 ارب روپے کی رقم اے جی این قاضی فارمولے کے تحت حاصل کی جائے گی، لیکن ملک کے مالی حالات ایسے نہیں ہیں کہ اس کے تحت ہمیں پیسہ مل سکے حالاںکہ یہ سب سے آئیڈیل ہے، ثالثی ٹربیونل کے فیصلے کے مطابق یہ رقم ہمیں ملنی چاہیے، بجلی کے 1991 ء کے نرخوں اور آج کے نرخوں کے مطابق ہمیں یہ رقم ملنی چاہیے یا ڈالر کی قیمت کے حساب سے، یہ مختلف فارمولے ہیں۔

ان پر کافی بات چیت ہوئی ہے اور سابق وزیراعظم سید یوسف رضاگیلانی کے دور میں اس حوالے سے بریک تھرو ہوگیا تھا اور حتمی نتیجے تک پہنچنے والے تھے، تاہم گیلانی صاحب کے جانے سے یہ سلسلہ رک گیا، اگر اس وقت تک وہ مسائل نہ آتے اور گیلانی صاحب مشکلات میں نہ پھنستے تو یہ مسئلہ کافی پہلے حل ہوچکا ہوتا۔ اگر یہ مسئلہ ہم حل نہ کرپائے تو یہ اس صوبے کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ اے این پی کی حکومت کی کوشش ہے کہ ہم اس رقم کو غیرمنجمد کریں اور حکومت میں نہ ہوئے تب بھی یہی کوشش ہوگی۔ اس وقت کئی مسائل موجود ہیں اور ایک ایشو کے بعد دوسرا ایشو سامنے آرہا ہے، تاہم ہماری تیکنیکی ٹیموں نے اپنا کام تقریباً مکمل کرلیا ہے اور اب سیاسی فیصلے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس: بجلی کے بحران پر کیسے قابو پایا جاسکتا ہے اور بجلی کے موجودہ بحران اور اس کے مرکز کے کنٹرول میں ہونے کے تناظر میں صوبائی حکومت 2100 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی جس پالیسی پر کام کررہی ہے، اس کا صوبہ کو کیا اور کیسے فائدہ پہنچے گا؟

امیرحیدرہوتی: ہم نے بجلی پیدا کرنے کی پالیسی سب سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے بنائی ہے۔ اس کے تحت ہم نے پانچ منصوبوں پر کام شروع کردیا ہے اور مزید پر بھی کام وقت کے ساتھ شروع ہوتا رہے گا۔ یہ تمام اسکیمیں اے ڈی پی کا حصہ ہیں اور ان کے لیے فنڈز موجود ہیں، ہمیں سو فی صد فائدہ تو تب ہی ہوسکتا ہے جب بجلی کی تقسیم ہمارے اپنے کنٹرول میں ہو جو کسی بھی صوبے میں نہیں ہے۔ اس لیے سردست تو یہ نئی بجلی بھی نیشنل گرڈ ہی میں جائے گی۔ تاہم ایسا بھی نہیں ہے کہ جو نئی بجلی ہم پیدا کررہے ہیں اس کا صوبے کو فائدہ نہیں ہوگا۔ نئے بجلی سسٹم میں شامل ہونے سے شارٹ فال میں کمی ہوگی اور یہ کریڈٹ بھی ہمارے صوبے کو جائے گا کہ یہ بجلی یہاں سے سسٹم میں جائے گی، کیوںکہ اب تک کوئی دوسرا صوبہ مزید بجلی سسٹم میں نہیں لاسکا۔

اگر یہ منصوبے نجی سیکٹر کے حوالے کیے جاتے تو پھر صوبہ کو صرف واٹر یوزر چارجز کی مد میں رقم ملتی۔ تاہم اب ہمیں بجلی کے خالص منافع کی مد میں اربوں روپے ملیں گے اور جن علاقوں میں یہ اسکیمیں بن رہی ہیں ان کو اور بھی فائدہ ہوگا۔ ہم نے بجلی کے منافع کی رقم سے وہ اضلاع جہاں پر یہ منصوبے ہیں، کا حصہ پانچ سے بڑھا کر دس فی صد کردیا ہے، جہاں تک بجلی کا معاملہ ہے تو یہ بات بڑی واضح ہے کہ جتنی سستی بجلی پانی سے سے مل سکتی ہے وہ تیل یا گیس سے نہیں ملتی، مگر یہاں پر سسٹم الٹا چل رہا ہے۔ زیادہ بجلی تیل سے پیدا کی جارہی ہے اور پانی سے کم جو ہم سب کی مشترکہ ناکامی ہے۔

جو لوگ نوے دنوں میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کی باتیں کررہے تھے، وہ بھی غلط ثابت ہوئیں، کیوںکہ چھوٹے سے چھوٹا ہائیڈل منصوبہ بھی مکمل ہونے میں پانچ سے چھے سال لیتا ہے۔ اس لیے ہمیں عبوری طور پر لوڈ شیڈنگ کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے تیل سے زیادہ گیس پر زور دینا چاہیے اور گیس سے بجلی پیدا کرنی چاہیے، جو پانی سے پیدا ہونے والی بجلی سے تو منہگی ہوگی، تاہم تیل سے پیدا کردہ بجلی سے ضرور سستی ہوگی۔ اس وقت بجلی کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ واپڈا پر مالیاتی بوجھ اور سرکلر ڈیٹ کا ہے، جو واپڈا کو کھارہا ہے، جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ ہے اور بجلی کے نرخوں میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

ایکسپریس: کیا اپنی بجلی کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لیے صوبائی حکومت پیسکو کو خریدنے کا ارادہ رکھتی ہے؟

امیرحیدر ہوتی: اس سلسلے میں صوبوں سے کہا گیا تھا کہ صرف ڈسٹری بیوشن کا کام ان کے حوالے کیا جاسکتا ہے۔ اب پیسکو کے اربوں روپے کے نقصانات ہیں۔ ایسے میں اگر ڈسٹری بیوشن کا کام لیا جائے تو اس کا مطلب تو سراسر نقصان ہوا۔ اس لیے ہم نے یہ رائے دی کہ بجلی کی تقسیم کے ساتھ پیداوار کا کام بھی صوبوں کو دیا جائے تو یہ مناسب رہے گا اور اگر ایسا کرلیا جائے تو پھر ہمارے صوبے کو اپنی پیداکردہ بجلی پر کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔

ایکسپریس: چشمہ رائٹ بنک کنال کا منصوبہ صوبہ کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ تاہم یہ منصوبہ موجودہ حکومت اپنے پانچ سال میں شروع بھی نہ کرسکی، مسئلہ کیا ہے؟

امیر حیدر ہوتی: کسی بھی منصوبے کے شروع ہونے میں کبھی اتنی تاخیر نہیں ہوئی، جتنی اس منصوبے کے حوالے سے ہوئی ہے، جس کی بڑی وجہ ہمارے حصہ کا وہ پانی ہے جو 1991 ء کے معاہدے کے تحت ہمارے حصہ میں تو آگیا۔ تاہم ہمارے پاس انفرااسٹرکچر نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے حصہ کا وہ پانی دیگر صوبے استعمال کررہے ہیں اور جو لابیز ہمارے حصہ کا پانی استعمال کررہی ہیں، وہ اس منصوبے کی مخالفت کررہی ہیں، تاکہ ہمیں اپنے حصہ کا پانی نہ مل سکے اور وہ اسے استعمال کرتے رہیں۔

مرکزی حکومت نے چشمہ رائٹ بنک کنال کا منصوبہ پی ایس ڈی پی میں شامل کیا، لیکن پھر وسائل کی کمی کی وجہ بتاتے ہوئے اس پر عمل نہ ہوا۔ اس منصوبے کی وجہ سے ہمارے صوبے میں مزید تین لاکھ ایکڑ اراضی قابل کاشت ہوجائے گی، جس سے صوبے کی مجموعی قابل کاشت اراضی بڑھ کر ساڑھے گیارہ لاکھ ایکڑ ہوجائے گی۔ ہم نے اس منصوبے کی اہمیت اور مرکز کی جانب سے اس منصوبے کے لیے فنڈز فراہم نہ کرنے پر یہ تجویز پیش کی کہ مرکز اور صوبہ ففٹی ففٹی کی بنیاد پر یہ منصوبہ شروع کریں، لیکن مرکز اس پر بھی راضی نہ ہوا، جس کی وجہ سے ہم نے عالمی بنک سے قرضہ لینے کا فیصلہ کیا اور ان کے ساتھ بات چیت بھی ہوئی۔

یہ قرضہ ہمارے لیے اس لیے بھی مناسب تھا کہ عالمی بنک نے یہ قرضہ ملاکنڈ ڈویژن میں لوگوں کی جلد ریکوری کے لیے منظور کیا تھا۔ تاہم یہ قرضہ جس وقت منظور ہوا اس وقت تک ملاکنڈ کے لوگوں کو واپس گئے ہوئے بھی ڈیڑھ سال ہوچکا تھا، جس کی وجہ سے ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم اپنے لوگوں کو بھکاری نہیں بناسکتے کہ انھیں قرضہ پر قرضہ اور رقم پر رقم دی جاتی رہے۔ اس لیے ہم نے ملاکنڈ ڈویژن کے لیے یہ قرضہ نہ لینے کا فیصلہ کیا اور عالمی بنک کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ یہ قرضہ ان اسکیموں کے لیے فراہم کیا جائے، جن سے صوبہ کی آمدن میں بھی اضافہ ہو اور اسی بنیاد پر ہم نے عالمی بنک سے درخواست کی کہ یہ قرضہ ہمیں چشمہ رائٹ بنک کنال کے لیے فراہم کیا جائے، جس سے انہوں نے ابتدائی میٹنگ میں اتفاق کیا اور اب چشمہ رائٹ بنک کنال کے لیے قرضہ کی فراہمی کا معاملہ عالمی بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں میں زیرغور ہے اور جوںہی یہ قرضہ وہاں سے منظور ہوتا ہے۔ چشمہ رائٹ بنک کنال پر کام شروع کردیا جائے گا۔

ایکسپریس: کیا ملک کے موجودہ حالات میں آپ کو عام انتخابات کا انعقاد ہوتا ہوا نظر آرہا ہے؟

امیرحیدرہوتی: عام انتخابات کے انعقاد کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ موجود ہی نہیں کیوںکہ ملک کا نظام اور جمہوریت انتخابات ہی کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ اس وقت موجودہ نظام کو جاری رکھنے کے حوالے سے دو آپشنز ہیں، یا تو موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں ایک سال کی توسیع کردی جائے، تاہم اس پر سیاسی جماعتیں متفق نہیں ہوں گی، جب کہ دوسرا راستہ عام انتخابات کے انعقاد کا ہے۔ عام انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے سیکیوریٹی کی مشکلات ضرور موجود ہیں اور اے این پی کو تو خصوصی طور پر مشکلات کا سامنا ہے لیکن الیکشن کرانے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔

کچھ لوگ نہیں چاہ رہے کہ عام انتخابات کا انعقاد ہو یا وہ انتخابات کے انعقاد میں تاخیر چاہتے ہیں جس کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں اور وہ ایسا کرتے ہوئے ملک کے ساتھ اچھا نہیں کررہے، کیوںکہ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کے لیے میدان میں اترنا چاہیے اور جس پارٹی کو عوام کا جتنا مینڈیٹ ملے اس کا احترام کیا جانا چاہیے، کیوںکہ یہی جمہوریت ہے اور یہی جمہوری طورطریقے اور رویے ہیں۔

ایکسپریس: آپ بطور وزیراعلیٰ پانچ سال مکمل کرنے جارہے ہیں، کیا آپ خود کو ایک کام یاب وزیراعلیٰ کے طور پر دیکھ رہے ہیں یا نہیں؟

ہنستے ہوئے: میں خود کیسے کہہ سکتا ہوں کہ میں ایک کام یاب وزیراعلیٰ تھا یا نہیں اور نہ ہی میں خود اپنی کارکردگی کے بارے میں رائے دے سکتا ہوں اس کا فیصلہ تو وقت، حالات اور عوام کو کرنا ہے کہ میں نے کس حد تک بطور وزیراعلیٰ اپنی ذمے داریاں نبھائی ہیں۔ تاہم ایک انسان کے طور پر میں نے اپنی صلاحیتوں سے بڑھ کر صوبے کے ان حالات میں کام کیا اور صوبہ کی عوام کی خدمت کی ۔

ایکسپریس: کیا صوبے میں نگران وزیراعلیٰ اور سیٹ اپ کے قیام کے سلسلے میں آپ نے اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کے ساتھ مشاورت کا آغاز کیا ہے اور اگر نہیں تو یہ مشاورت آپ کب شروع کرنے جارہے ہیں؟

امیرحیدرہوتی: اپوزیشن کے ساتھ نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے اب تک باقاعدہ طور پر تو کوئی بات نہیں ہوئی، تاہم غیر رسمی طور پر اس حد تک ضرور بات ہوئی ہے کہ مناسب موقع پر آپس میں مل بیٹھ کر نگراں وزیراعلیٰ اور دیگر سیٹ اپ کے حوالے سے بات کی جائے گی، چوںکہ موجودہ اسمبلیوں کا دورانیہ مارچ میں ختم ہورہا ہے۔ اس لیے فروری کا مہینہ اس کے لیے انتہائی موزوں ہوگا کہ حکومت اور اپوزیشن آپس میں مل بیٹھ کر اس پر مشاورت کریں اور اپنے صوبہ کی مخصوص روایات کی وجہ سے ہم انتہائی سہولت کے ساتھ اتفاق رائے تک پہنچ جائیں گے اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا فائدہ ہم سب کو ہوگا۔

ہم چاہتے ہیں کہ ایسے نام پر اتفاق ہو جو غیرجانب دار اور غیرمتنازعہ ہو۔ تاہم جہاں تک یہ بات ہے کہ کسی سیاست داں کو نگراں وزیراعلیٰ لایاجارہا ہے یا ریٹائرڈ جج یا بیوروکریٹ کو تو اس حوالے سے صرف اتنی ہی بات کہی جاسکتی ہے کہ چوںکہ ابھی تک اس حوالے سے اپوزیشن کے ساتھ مشاورت ہی شروع نہیں کی تو فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے۔ جو بھی ہوگا وہ مشاورت اور اتفاق رائے کے ذریعے ہی کیا جائے گا۔

ایکسپریس: کچھ عرصہ قبل آپ نے مردان میں عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آپ وزارت اعلیٰ کی پگڑی دوبارہ مردان لائیں گے۔ تو کیا اے این پی نے اکثریت حاصل کرنے کی صورت میں آپ ہی کو دوبارہ وزیراعلیٰ بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے؟

امیرحیدر ہوتی: میری کہی ہوئی بات کو غلط طور پر پیش کیا گیا۔ میں نے یہ کہا تھا کہ اے این پی نے 2008 ء کے انتخابات میں جتنی اور جہاں سے نشستیں حاصل کی تھیں۔ اب اس سے زاید نشستیں حاصل کرے گی، کیوںکہ جہاں پر پہلے اے این پی نے اپنے امیدوار میدان میں نہیں اتارے تھے۔ اب ان حلقوں سے بھی اے این پی کے امیدوار موجود ہوں گے، جیسے ہری پور، مانسہرہ، بٹ گرام، کوہستان، کوہاٹ، کرک اور ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ اور اب بات صرف وادی پشاور تک محدود نہیں رہے گی اور اﷲ تعالیٰ کو منظور ہوا تو ہم صوبے میں دوبارہ بھی حکومت بنائیں گے۔ تاہم یہ کہنا کہ اگر اے این پی دوبارہ اکثریت حاصل کرتے ہوئے صوبے میں حکومت بناتی ہے تو وزارت اعلیٰ کے لیے مجھے ہی چُنا جاتا ہے۔ ایسی بات ہے جس پر میں کہنا چاہتا ہوں کہ اے این پی کسی کی جاگیر نہیں۔ اے این پی جمہوری پارٹی ہے، اگر اے این پی کو آئندہ بھی صوبے میں حکومت بنانے کا موقع ملتا ہے تو اس کا فیصلہ پارٹی کرے گی کہ وزیراعلیٰ کون ہوگا۔

ایکسپریس: آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے آپ صوبہ میں کیا نقشہ دیکھ رہے ہیں؟

امیرحیدرہوتی: نظر یہ آرہا ہے کہ الیکشن سے قبل اتحاد مشکل سے ہوں گے اور الیکشن کے بعد حکومت سازی کے موقع پر زیادہ سہولت کے ساتھ پارٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد کریں گی۔ الیکشن سے قبل زیادہ سیٹ ایڈجیسٹمنٹ ہی ہوگی۔ اے این پی، جے یو آئی، مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی ذرا آگے نظر آرہی ہیں، جب کہ ان کے بعد جماعت اسلامی اور تحریک انصاف ہیں۔ تاہم ہم یہ دیکھ رہے کہ ممکنہ طور پر آئندہ عام انتخابات کے بعد صوبہ میں تین یا چار پارٹیاں مل کر ہی حکومت بنائیں گی کوئی ایک پارٹی یا دو پارٹیاں اس پوزیشن میں نہیں ہوں گی کہ وہ حکومت بنائیں۔

ایکسپریس: کیا آپ کی حکومت صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا ارادہ رکھتی ہے ؟

امیرحیدرہوتی: اب بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے لیے وقت نہیں رہا۔ ہم نے بلدیاتی نظام سے متعلق بل بھی پاس کیا ہے اور نظام بھی بحال کردیا ہے۔ تاہم جہاں تک بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا معاملہ ہے تو بلدیاتی انتخابات اب آئندہ حکومت ہی کرائے گی ۔

ایکسپریس: کیا آپ کو سابق سنیئر وزیر بشیر احمد بلور شہید کی کمی محسوس ہوتی ہے ؟

امیرحیدرہوتی (رنجیدہ لہجے میں): بشیر احمد بلور شہید کے ساتھ میرے دو طرح کے رشتے تھے، سیاسی اور ذاتی، اور میرا ان کے ساتھ ذاتی تعلق بڑا مضبوط تھا۔ میں کیا، جو لوگ بھی ان کی اہمیت اور دلیری سے واقف تھے اب وہ سب بشیر بلور کی کمی کو محسوس کریں گے۔ یہاں تک کہ ان کے مخالفین بھی غم زدہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں