ریکوڈِک جیسے منصوبے کب تک ہماری اہلیت کا مذاق اڑاتے رہیں گے
یہاں معدنی ذخائر، دنیا کی قیمتی دھاتیں اور ماربل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ گیس کے خفیہ و جلی ٹھکانے ہیں۔
ریکوڈِک جیسے منصوبے چلانا ابھی ہمارے بس کی بات نہیں:ڈاکٹرعبدالقدیر خان۔ فوٹو: فائل
قدرت نے بلوچستان کی خوبصورت زمین اور سربلند پہاڑوں کو اپنے خزانوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔
یہاں معدنی ذخائر، دنیا کی قیمتی دھاتیں اور ماربل کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ گیس کے خفیہ و جلی ٹھکانے ہیں۔ سونے اور تانبے کی کانیں، زنک، لوہا اور قیمتی پتھر اس قدر ہیں کہ دنیا بھر میں ان کی کھپت ہو سکتی ہے۔ جڑی بوٹیاں، وائلڈ لائف، قسم قسم کے پھل، ڈرائی فروٹ، بھیڑ، بکریوں کے علاوہ سینکڑوں ایسی اشیاء گنوائی جا سکتی ہیں۔ گوادر بندرگاہ کو شامل کر لیں تو پھر سمندری خوراک کا کوئی انت نہیں ہے۔
لیکن... اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود وہ کیا وجوہات ہیں کہ بلوچستان آج بھی پسماندگی اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ہوا ہے؟ جس کا جواب بہت سادہ اور عام فہم ہے''نااہلی'' جی ہاں یہ ہماری نااہلی ہی تو ہے کہ ہزاروں میل دور بیٹھے ملک جانتے ہیں کہ بلوچستان کی سرزمین کے اندر چھپے خزانوں کی اہمیت اور مالیت کیا ہے، مگر ہم اپنی جہالت کے سبب اندرونی خلفشاروں میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے تھپیڑوں سے بالآخر ہمیں اس چیز کا ادراک تو ہو گیا کہ اس سرزمین کے نیچے لامحدود خزانہ موجود ہے، لیکن پھر یہ مسئلہ درپیش آیا کہ اس کو نکالا کیسے جائے، ہمارے پاس تو اتنی اہلیت ہی نہیں کہ ان خزانوں کا نکال کر ہم اپنے ملک و قوم کی تقدیر بدل سکیں۔
اس کام کے لئے پھر دنیا کے اہل لوگوں سے معاہدوں کی روش اپنا لی گئی۔ ان قوتوں نے اپنی مرضی سے بلوچستان کی سرزمین سے خزانے نکالے اور ہمیں آٹے میں نمک کے برابر حصے دے کر چلتے بنے۔ ہماری ''عقلی مندی'' کا یہ عالم رہا کہ ہم اس نمک کو بھی اپنی ''کامیابی'' قرار دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ہمارے اپنے کمیشن مافیا نے بھی اس دھرتی کے سپوتوں کا بھلا نہیں ہونے دیا اور اپنے تھوڑے سے فائدہ کیلئے اس ملک و قوم کو بھاری نقصان پہنچایا۔ ایسے خزانے اصولی' قانونی اور زمینی قوانین کے مطابق ریاستی ملکیت ہیں۔ یہ ادلتی' بدلتی صوبائی یا وفاقی حکومت اور حکمرانوں کا مال غنیمت نہیں کہ جس کو جب چاہیں' بیچ دیں اور خود باہر بھاگ جائیں۔
خزانے نکالنے کے ایسے ہی معاہدوں میں سے ایک معاہدہ ریکوڈِک کا بھی ہوا۔ رکودک یا انگریزی زدہ اردو میں ریکوڈِک بلوچستان میں ضلع چاغی میں ایران و افغانستان کی سرحد کے قریب ایک علاقہ ہے، جہاں دنیا کے عظیم سونے اور تانبے کے ذخائر موجود ہیں۔ مقامی زبان میں رکودک کا مطلب ہے ریت سے بھری چوٹی۔ یہاں کسی زمانے میں آتش فشاں پہاڑ موجود تھے، جو اب خاموش ہیں۔ دنیا کے پانچویں اور پاکستان و جنوبی ایشیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر چاغی میں موجود ہیں۔ تانبے کے یہ ذخائر چلی کے مشہور ذخائر سے بھی زیادہ ہیں۔
1970ء میں جیالوجیکل سروے آف پاکستان نے سب سے پہلے ریکوڈِک میں سونے اور تانبے کے ذخائر کا پتا لگایا۔ بے نظیر بھٹو نے اپنے دور اول میں نجکاری' غیر ملکی سرمایہ کاری اور صوبائی خودمختاری کی پالیسی اپنائی۔ جس کی بنیاد پر ریکوڈِک میں غیر ملکی کان کن کمپنیوں سے رابطے شروع ہوئے۔1991ء میں غیر ملکی جے وی (Joint-Venture) نے بلوچستان حکومت سے معاہداتی تحریک کیلئے کام کیا اور 1993ء میں بی ایچ پی نامی آسڑیلوی کمپنی اور جے وی نے بذریعہ بلوچستان ترقیاتی اتھارٹی بلوچستان حکومت سے 23 جولائی 1993ء میں مشترکہ طور پر کام کرنے کا معاہدہ کیا۔ جسے چاغی ہلز جوائنٹ وینچرز ایکسپلوریشن کا نام دیا گیا۔
بعد ازاں یہ معاہدہ چلی کی کمپنی اینٹو فگوسٹا اور کینیڈا کی کمپنی بیرک گولڈ کو فروخت کر دیا گیا۔ مذکورہ دونوں کمپنیوں نے آسٹریلیا میں ٹی تھیان کاپر کمپنی (ٹی سی سی) آسٹریلیا کے نام سے رجسٹریشن کرائی۔ دونوں کمپنیوں نے 2002ء ریکوڈِک کے لیے بلوچستان حکومت سے پہلی بار ایکسپلوریشن لائسنس حاصل کیا۔ اس کے بعد 2006ء میں مزید تین سال کیلئے اس کی تجدید کی گئی۔ 2008ء میں نئی صوبائی حکومت نے معاہدے کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے اپنے پہلے کابینہ اجلاس میں بہتر شرائط پر کرنے کا فیصلہ کیا۔
ٹی سی سی نے اگست 2010ء میں دو لاکھ صفحات پر مشتمل فزیبلٹی رپورٹ مکمل کرکے بلوچستان حکومت کے حوالے کی۔ ٹی سی سی کا دعوی ہے کہ فزی یبلٹی سٹیڈی پر مجموعی طور پر250 ملین امریکی ڈالر کی لاگت آئی ہے جبکہ منصوبے کی مجموعی لاگت 3 ارب 30کروڑ امریکی ڈالر56 سال میں خرچ کئے جائینگے۔ تاہم حکومت بلوچستان نے فزیبلٹی رپورٹ کو نامکمل قرار دیتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ٹی سی سی نے فروری 2008ء میں9 سو مربع کلومیٹر علاقہ کے بارے میں حتمی فزیبلٹی رپورٹ دینی تھی لیکن کمپنی 9 سو مربع کلومیٹر سے دستبردار ہو کریہ کہا کہ وہ صرف424 مربع کلومیٹر میں کام کریگی ۔
اس کے بعد 19 فروری 2011ء کو اس کمپنی کو 424 مربع کلومیٹر کے بارے میں حتمی رپورٹ دینی تھی مگر کمپنی424 مربع کلومیٹر کی بجائے صرف 5 مربع کلو میٹر کی فزیبلٹی رپورٹ دے سکی۔ اس طرح کمپنی نے بلا جواز ہزاروں مربع کلو میٹر اراضی رکھ کر بلوچستان کو خطیر نقصان سے دوچار کیا۔ بلوچستان حکومت نے کمپنی کی خام مال بیرون منتقلی کی خواہش کو مسترد کرتے ہوئے بلوچستان میں ہی ریفائنری لگانے کی شرط عائد کی۔ مذاکرات کی ناکامی کے بعد بلوچستان حکومت نے ٹی سی سی کے ایکسپورلیشن لائسنس کی مدت ختم ہونے کے بعد اس کی تجدید اور کمپنی کو مائننگ لائسنس دینے سے انکار کیا۔
تاہم ٹی سی سی نے موقف اختیار کیا کہ عالمی قوانین کے تحت ایکسپلوریشن کرنیوالی کمپنی کو ہی مائننگ کا لائسنس دیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ حکومت اور کمپنی میں معاہدہ صرف ڈرلنگ کیلئے ہوا تھا۔ تاہم آسٹریلوی کمپنی نے حکومت بلوچستان کو اعتماد میں لئے بغیر مزید کام کرنے کیلئے اطالوی کمپنی ٹی تھیان سے معاہدہ کر لیا اور کوشش کی کہ گوادر پورٹ کے ذریعے ریکوڈِک کا سونا اور تانبا کینیڈا، اٹلی اور برازیل کو فروخت کرے، جس سے بلوچستان کو کل آمدنی کا صرف 25 فیصد حصہ ملنا تھا۔ ماہرین کے مطابق ریکوڈِک کے مقام پر 2.2 ارب ٹن کے قریب سونا اور تانبے کے ذخائر ہیں، جس کی مالیت کئی سو ارب ڈالر بنتی ہے۔
جبکہ کمپنی نے ان ذخائر کی مالیت نصف سے بھی کہیں کم بتائی تھی۔ ریکوڈِک سے روزانہ کی بنیاد پرکئی ٹن سونا اور تانبا تقریباً 56سال تک نکالا جائے گا۔ تنازعات طے نہ پانے پر دونوں فریقین نے سپریم کورٹ آف پاکستان اور عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔ جس پر سپریم کورٹ نے بالآخر رواں ماہ 7جنوری کو بلوچستان حکومت کا موقف تسلیم کرتے ہوئے اس معاہدہ کو منرل ایکٹ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کالعدم کردیا۔
بلوچستان حکومت نے یہ فیصلہ بھی کیا ہے کہ صوبائی حکومت ریکوڈِک منصوبے پرخود کام کرے گی۔ اس سلسلہ میں سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ ہم نے منصوبے پر کام شروع کردیا ہے جس کیلئے رواں مالی سال کے بجٹ میں ریفائنری کیلئے850 ارب روپے رکھے گئے ہیںاور اس سے 2ہزار افراد کو براہ راست ملازمتوں کے مواقع ملیں گے، جبکہ 2 لاکھ افراد کیلئے مزید ملازمتیں اس منصوبے سے میسر ہوں گی۔ منصوبے کو چلانے کیلئے بورڈ آف ڈائریکٹر قائم کردیاگیا ہے جس کے چیئرمین وزیراعلیٰ بلوچستان اور سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک ہیں۔ قومی اقتصادی رابطہ کمیٹی بھی بلوچستان حکومت کو ریکوڈِک منصوبے کو خود چلانے کی اجازت دے چکی ہے۔
یہاں پر ایک سوال یہ ہے کہ آخر کو بلوچستان حکومت نے اس منصوبہ کو خود چلانے کا فیصلہ کیوں کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بلوچستان کی سرزمین سے نکلنے والے ذخائر ملک بھر کی ضروریات پوری کرتے ہیں لیکن ان خزانوں میں بلوچستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر سوئی اور ڈیرہ بگٹی سے نکلنے والی گیس سے گزشتہ 50 سال سے ملکی ضروریات کو پورا کیا جارہا ہے لیکن بد قسمتی سے بلوچستان کے تیس اضلاع میں سے اب تک صرف پانچ اضلاع کو گیس کی سہولت فراہم کی جارہی ہے۔
اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں چاغی میں واقع سونے اور تانبے کے ایک اور بڑے منصوبے سیندک کا ٹھیکہ دوہزار گیارہ تک چین کو دیا گیا تھا۔ معاہدے کے تحت منصوبے سے ہونے والی آمدنی کا 80فیصد چین جبکہ 19 فیصد اسلام آباد اور صرف ایک فیصد حصہ بلوچستان کودیا گیا۔ سرکاری ذرائع کے مطابق چین سیندک منصوبے کے تمام ذخائر وقت سے پہلے نکال کر لے جا چکا ہے۔ گیس اور سیندک جیسے منصوبوں کے تجربات کو ہی سامنے رکھ کر حکومت بلوچستان نے ریکوڈِک کا منصوبہ کسی غیر ملکی کمپنی کو دینے کی بجائے خود چلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کے لئے وہ کسی بھی غیر ملکی کمپنی سے تکنیکی معاونت حاصل کرے گی۔
صوبائی حکومت نے کوڑیوں کے دام ہونے والے معاہدے کا کیس توجیت لیا ہے، مگر یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کرپشن زدہ ماحول اور کمیشن مافیا کے راج میں ریکوڈِک منصوبے کو کس طرح چلایا جاتا ہے اور کیا ہم اس کو چلانے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں؟ چھوٹی چھوٹی اور جعلی کمپنیوںکو کمیشن کے زور پر بے دھڑک لائسنس دیئے گئے، جو ملک کو ریت کا بھائو دے کر سونا باہر لے جاتی رہیں۔ ان سب معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچستان کی مختلف پارٹیاں بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ریکوڈِک منصوبہ کو خود چلانے کے حق میں نہیں ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے ایک اجلاس کے دوران بعض اراکین بھی اس پر اعتراض کرچکے ہیں کہ یہ منصوبہ چلانا اوراسے مکمل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس کے علاوہ اہم بات یہ کہ ہمارے پاس وہ تکنیکی مہارت، ریفائنری، جدید آلات و مشینری ہی نہیں جس سے ان جواہرات کو باہر نکال کر قابل استعمال بنایا جا سکے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ابھی تک ہم انجینئرنگ شعبہ کی وہ فنی اور تکنیکی صلاحیت نہیں رکھتے کہ جس کی بدولت ہم چھپے ذخائر کو کسی دوسرے کی مدد کے بغیر حاصل کرسکیں۔ آج کے دور میں سیٹلائٹس کی مدد سے ریموٹ سنسنگ (Remote Sensing) کے آلات اور تکنیک استعمال کر کے انسان زمین پر فیلڈ ورک کیے بغیر قدرتی وسائل کا اندازہ لگا سکتا ہے۔
یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ امریکن ارضیاتی ماہرین (جن کا تعلقUSGS یعنی یونائیٹڈ سٹیٹس جیولوجیکل سروے سے تھا) نے افغانستان سمیت بہت سے ممالک کا معدنی سروے ریموٹ سنسنگ سے ہی کر رکھا ہے اور افغانستان میں فوج کے ساتھ ساتھ جیولوجسٹ بھی کام کر رہے ہیں۔ اس طرح انھوں نے جانا ہے کہ یہ سرزمین بہت سی دھاتوں، غیر دھاتوں اور نایاب منرلز جیسے لیتھیم(Lithium) کے بہت بڑے ذخائر رکھتی ہے۔ ریکوڈک اکیلی کہانی نہیں۔ ہمیں بھی ریموٹ سنسنگ پر بہت زور دینا چاہیے۔ جس سے نہ صرف منرلز بلکہ پانی، جنگلات، آبادی، برفباری، آب وہوا، تیل، گیس غرض کہ سارے مسائل اور وسائل پر بہتر گرفت حاصل کی جا سکتی ہے۔
بلوچستان کے خوبصورت پتھر جیسے چاغی کا آنکس(Onyx) ماربل اور لس بیلہ کی سبز اور لال سرپنٹین (Serpentine) جیسے شاندار پتھروں کو تراشنا پاکستان میں کسی کو نہیں آتا۔ کراچی میں جولوگ اس سے برتن، ظروف اور اینڈے بینڈے جانور تراشتے ہیں وہ فن کاری نہیں جانتے۔ یہی پتھر جب چین اور اٹلی جا کر تراشے جاتے ہیں تو انسان سبحان اللہ کہہ اٹھتا ہے۔ کاش اگر ہم خام پتھر باہر بھیجنے کے بجائے اسے دیدہ زیب برتنوں، مجسموں اور سجاوٹی اشیاء میں تراش کر باہر کے ملکوں کو بھیجنے کے قابل ہوجائیں تو کس قدر منافع ہو۔ہمیں ارضیاتی اور مائننگ انجینئرنگ کی تعلیم کو سنوارنا ہوگا۔
ارضیاتی سروے ، تفصیلی نقشہ بندی(Detailed Mapping) جیوفزیکل اور جیو کیمیکل سروے (Geophysical & Geochemical Survey) جہاں جہاں بھی ضروری ہوں، کرنے ہوں گے اور اس قسم کا سارا مواد (Data) خواہشمند اور کوالیفائیڈ لوگوں کو فراہم کرنا ہوگا۔ اسی طرح بہتر مالی فنڈنگ اور بینکنگ کی سہولیات بھی پیدا کرنا ہوں گی۔ ان کاموں کے لیے سالہا سال تک سنجیدہ کوششوں اور بے لوث محنت کی ضرورت ہے، جو ہم کو ہی کرنی ہوگی۔ ہمارے لئے کوئی اور نہیں کرے گا۔
سیندک اور ریکوڈک جیسے پراجیکٹس کے ذریعے ہم لوگوں کو روزگار اور سرکار کو آمدنی فراہم کریں اور ساتھ ساتھ تکنیکی مہارت اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر بھی کروائیں، تاکہ آگے چل کر ہم خود کفیل ہو سکیں۔ قومی اداروں' اثاثوں اور خزانوں کو نجکاری' غیر ملکی سرمایہ کاری اور صوبائی خودمختاری کے پردے میں اونے پونے دام بیچا نہ جائے بلکہ قومی سطح پر ایسی تکنیکی کمپنیاں بنائی جائیں جن کی مہارت اور مشینری غیر ملکی سرمایہ کار کمپنیوں سے سستی اور اچھی ہو۔
اگر پاکستان کے سائنسدان دنیا کا بہترین اور سستا ترین جوہری بم بنا سکتے ہیں تو ریکوڈِک خزانے سے مستفید ہونے کیلئے کیا کچھ نہیں کر سکتے؟ حکومت سرپرستی کرے اور انجینئرنگ کے شعبہ کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم زمین کے اندر چھپے خزانوں کو اپنے زورِ بازو پر مسخر نہ کر سکیں۔ مگر یہ سب کچھ صرف اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم اپنی اس دھرتی سے محبت اور وفاداری کا عہد نبھائیں گے۔
ریکوڈِک جیسے منصوبے چلانا ابھی ہمارے بس کی بات نہیں:ڈاکٹرعبدالقدیر خان
کیا پاکستان کے پاس ریکوڈک جیسے منصوبے چلانے کی صلاحیت ہے؟ اس سوال پر مایہ ناز ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ''ایکسپریس'' کو نفی میں جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ملکی ترقی حکمرانوں کی ترجیح میں ہی شامل نہیں۔ یہ سب لوگ مل کر صرف عوام کو دھوکا دے رہے ہیں۔50 ہزار میگاواٹ کے دعوئوں کے برعکس ہمیں آج تک تھرکول سے ایک واٹ بجلی بھی نہیں مل سکی۔ ریکوڈِک پر کام شروع ہوئے بھی خاصا وقت گزر چکا ہے اس کے باوجود ہمیں آج تک یہاں سے ایک اونس سونا یا کاپر تک نہیں ملا۔
ڈاکٹر ثمر مبارک کے دعوے درست نہیں۔ کروڑوں روپے اشتہارات پر لگا دیئے گئے لیکن قوم کو آج تک ایک ٹکے کا فائدہ نہیں ہوا۔ ایسے منصوبوں کے لئے کروڑوں، اربوں روپے جاری کئے جارہے ہیں جو صرف بڑی بڑی تنخواہوں پر صرف ہوتے ہیں، جو بچتے ہیں، وہ غائب ہو جاتے ہیں۔ نااہل لوگ بڑے بڑے پراجیکٹ سنبھال کر بیٹھ گئے ہیں، حالانکہ حقیقت تو یہ ہے ریکوڈِک جیسے منصوبے تاحال پاکستان کے بس کی بات ہی نہیں۔ اس کے لئے جدید آلات اور ماہرین درکار ہیں جو ہمارے پاس نہیں۔ اس کے علاوہ ریکوڈِک کے لئے جب جدید آلات باہر سے منگوائے جائیں گے تو اس میں بھی کمیشن کھایا جائے گا۔
انجینئرنگ اور ارضیات کے شعبہ میں بہتری کے سوال پر ڈاکٹر قدیر خان کا کہنا تھا کہ اس شعبہ کے قابل ترین افراد پر مشتمل ایک کمیٹی بنائی جائے جو فنی مہارت کے ساتھ ٹیکنالوجی کو بھی پاکستان میںمنتقل کرے۔ اور جب تک یہ ممکن نہیں ہوتا اس وقت تک ہمیں بیرون دنیا سے شفاف اور پختہ معاہدے کرنے چاہیں۔ آپ بھی کمائو اور دوسروں کو بھی کمانے دو۔ ریکوڈِک منصوبہ کی حتمی اور حقیقی مالیت کوئی نہیں بتا سکتا۔ اربوں اور کھربوں کی باتیں، اس وقت تک کوئی اہمیت نہیں رکھتیں جب تک کہ منصوبے کا مکمل سروے اور باقاعدہ کام شروع نہیں ہوتا۔