عیسیٰ گل سے صنم فقیر تک وہ سخت جان ہنستی رہی
معتوب ٹھہرائی جانے والی تیسری جنس کو زندگی کے مرکزی دھارے سے جوڑنے کی جدجہد میں مصروف خواجہ سراکی کہانی.
یہ ایک دل سوز داستان ہے۔ ایک ایسے فرد کی داستان، جسے اکائی تسلیم کرنے کے بجائے معاشرے نے معتوب ٹھہرایا، رد کردیا کہ وہ اوروں سے مختلف تھا، الگ نظر آتا تھا۔
فرسودہ روایات کے پروردہ، جمود کے شکار اِس معاشرے کا رویہ قابل فہم تھا، متوقع تھا، مگر معتوب ٹھہرائے جانے والے نے جو راستہ چُنا، جو راہ اختیار کی، وہ چونکا دیتی ہے کہ اِس کے وسیلے یہ کہانی، اپنے حزنیہ ابتدائیے سے منہ موڑ کر طربیہ اختتامیے کی جانب بڑھنے لگتی ہے!
احباب کی جانب سے گھر بدر کیے جانے والا عیسیٰ گل آج سندھ بھر کے خواجہ سرائوں کی امید بن کر اُن کے خواب پورے کرنے کے لیے میدان عمل میں برسر پیکار ہے کہ اب اُس کی حیثیت بدل گئی ہے۔ اوروں نے بھی اُسے قبول کر لیا ہے کہ اب وہ صنم فقیر کے نام سے جانا جاتا ہے، بلکہ جانی جاتی ہے، احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
خواجہ سراؤں کی برادری سے تعلق رکھنے والی صنم فقیر سماجی کارکن کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہیں۔ اُنھوں نے 2002 میں ''صنم فقیر ویلفیئر ایسوسی ایشن'' کی بنیاد رکھی۔ دس برس سے اِس تنظیم کے پلیٹ فورم سے وہ ضلع سکھر کی سطح پر خواجہ سرائوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر خود کو محدود نہیں رکھا، سیلاب متاثرین کے لیے بھی کام کیا۔
اُن کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے صنم کو اکتوبر2009 میں حکومت سندھ نے ''فوکل پرسن'' مقرر کیا۔ اُنھوں نے اپنی کمیونٹی کی موثر انداز میں ترجمانی کی۔ گوکہ ابتدا میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن دھیرے دھیرے حالات میں بہتری آنے لگی۔ خصوصاً سپریم کورٹ کے فیصلے نے اِس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صنم مستقبل میں الیکشن میں کھڑے ہونے کا ارادہ ہے، اور اس ضمن میں خاصی پُرامید ہیں۔
''قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں'' اِس ضرب المثل کی زندہ تصویر صنم فقیر کی داستان حیات ہے۔
10اپریل 1975کو سکھر کے علاقے نواں گوٹھ میں مقیم عالم دین اور مسجد کے پیش امام، حاجی سعد محمد شاہ کے گھر گونجنے والی قلقاریوں کو عیسیٰ گل کا نام دیا گیا، بیٹے کے طور پر قبول کیا گیا، اور اِسی حیثیت میں اُس کے مستقبل کے لیے دعائیں کی گئیں۔ مگر حقیقتاً نومولود کی قسمت میں عیسیٰ گل ہونا نہیں لکھا تھا۔ یہ نام اُس کے اندروں سے، احساسات سے میل نہیں کھاتا تھا، جو اُس کے ذہن میں تلاطم برپا کیے رکھتے۔
وقت نے شعور پیدا کیے، جو تبدیلیوں کی طرف لے گیا۔ ایسی تبدیلیاں، جن کی اُسی کی روح متمنی تھی، دل متقاضی تھا۔ رویہ رجحانات بدلنے لگے۔ اِس عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اور یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ شاید اِسی تنقید نے صنم فقیر میں حالات کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا کی۔
اہل خانہ اور دیگر عزیزوں کی جانب سے، صنم کی بول چال میں آنے والی تبدیلیوں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ طعنے دیے گئے۔ سرد آہ بھرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں،''اِس رویے کی وجہ سے مجھے شدید ذہنی دبائو کا سامنا کرنا پڑا، تاہم والد صاحب نے ایک اچھے استاد اور دوست کی حیثیت سے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا۔ اُنھوں نے مجھے قرآن پاک پڑھایا۔ وہ بھائیوں اور دیگر عزیز و اقارب کی جانب سے طعنہ زنی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے تھے۔ عزیز و اقارب اور محلے والے مجھے خواجہ سرا یا خُسرا کہتے تھے، اِس وجہ سے میری والدہ شدید پریشانی سے دوچار رہتیں۔ بعض اوقات تو بہن بھائیوں کا سلوک بھی انتہائی ناروا ہوتا۔''
المیہ یہی تمام نہیں ہوتا۔ اِس کرب کے اور بھی کئی پہلو ہیں۔ صنم فقیر کہتی ہیں،''میں جب اپنے گھر میں رہتی تھی، تو اپنے بھائیوں سے کہتی کہ مجھے بھی کسی کام پر لگادو، مگر وہ شرمندگی کے باعث گھر سے قدم نکالنے سے منع کرتے تھے، تاکہ اُن کی معاشرے میں بدنامی نہ ہو۔'' 1994 کا سال ایک درد ناک یاد کی صورت صنم کے ذہن میں محفوظ ہے کہ اُسی برس اُنھیں شفقت پدری سے محروم ہونا پڑا۔ اُن کے بہ قول،''والد کے انتقال کے بعد دیگر معاملات کی طرح کلام پاک حفظ کرنے کا سلسلہ بھی رک گیا۔ میں صرف 10سپارے حفظ کرسکی۔ پھر میں نے گھر سے پائوں باہر نکالا، مختلف ہوٹلوں، دکانوں اور گھروں میں مزدوری کی۔''
خود کو تسلیم کروانے کے لیے مظلوم صنم نے کتنی جدوجہد کی ہوگی۔ اِس کا تصور بھی محال ہے۔ اِس تجربے کو الفاظ میں سمونا لگ بھگ ناممکن ہے۔ صنم بتاتی ہیں،''گھر سے نکلنے کے بعد مجھے نہ تو خواجہ سرا تسلیم کرتے تھے اور نہ ہی گھر والے۔ اس دوران میں نے مختلف ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کیا۔ مجھے 30روپے یومیہ ملتے تھے۔ ایک ہوٹل پر میں نے تین دن کام کیا، لوگوں کی بڑی تعداد مجھے دیکھنے اور چھیڑنے آتی تھی۔ اِس پر ہوٹل کے مالک نے یہ کہہ کر ملازمت سے فارغ کردیا کہ میرا کاروبار متاثر ہو رہا ہے، لہٰذا آپ کل سے مت آنا۔''
رد کیے جانے کے عمل نے کیا اِس دُکھی وجود کو توڑ ڈالا، نہیں۔ بتاتی ہیں، ''اُس دن میں تو اپنے آپ کو انتہائی بے بس اور لاچار سمجھ رہی تھی۔ تاہم اﷲ تعالیٰ نے مجھ میں ہمت پیدا کی، اور میں نے اپنی جدوجہد کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔'' پھر 2004 کا سال آیا، اور کرب ساتھ لایا کہ اُسی برس والدہ نے آنکھیں موندلیں۔ ''والدہ کی رحلت کے بعد کوئی میرا پرسان حال نہیں تھا۔ بہن بھائی اور دیگر احباب کے طعنوں نے مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا، اور دل برداشتہ ہوکر میں نے خاندان والوں کے ساتھ تعلقات قطع کرلیے۔''
پڑھنے لکھنے کا صنم کو بہت شوق تھا، لیکن درس گاہ کا ماحول اُس کے لیے کبھی سازگار نہیں رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ اُسی ماحول نے اُسے دوسروں سے الگ ہونے کا احساس دلایا۔ دس بہن بھائیوں میں نویں، صنم ماضی کھنگالتے ہوئے بتاتی ہیں،''میں نے 1981 میں گورنمنٹ پرائمری اسکول نواں گوٹھ میں داخلہ لیا۔ چند سال بعد لوگوں کی تنقید اور مذاق سے مجھے معلوم ہوا کہ مجھ میں کوئی ایسی کمی ہے، جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے چھیڑخانی کرتے ہیں۔ جُوں جُوں وقت گزرتا گیا، میں سمجھ دار ہوتی گئی۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ مجھے 'خُسرا' کیوں کہا جاتا ہے۔''
اب انھوں نے اپنے جیسے انسانوں کو کھوجنا شروع کیا۔ ''میں نے گھروالوں سے چھپ کر خواجہ سرائوں کی زندگی پر نظر ڈالنے کی لیے اُن سے رابطے کیے۔ ان کو بہت قریب سے دیکھا۔'' دھیرے دھیرے نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے لگیں۔ ''ابتدائی دنوں میں مجھے ناچ گانا نہیں آتا تھا۔ میں چھپ کر سینیر خواجہ سرائوں کو دیکھتی تھی۔ بزرگ خواجہ سرائوں کی دیکھ بھال کرنے کے علاوہ ان کی خدمت کرتی تھی۔''
خواجہ سرائوں کے مسائل کا اُنھیں ادراک تھا۔ اُن کی دقتوں سے بہ خوبی آگاہ تھیں۔ اِس تعلق سے پریشان بھی رہتیں۔ اپنی برادری کے مسائل حل کرنے کے لیے بالآخر اُنھوں نے عملی اقدامات کا فیصلہ کیا۔ چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیا۔ ابتدا میں تو صنم کی کوششوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، مگر دھیرے دھیرے اُن کی پرخلوص جدوجہد کو برادری میں تسلیم کیا جانے لگا۔ یوں وہ سفر شروع ہوا، جس نے بعد میں ''صنم فقیر ویلفیئر ایسوسی ایشن'' کی شکل اختیار کی۔ وہ میڈیا کی نظروں میں آئیں۔ حکومت اُن کی جانب متوجہ ہوئی۔
اِسی تنظیم کی پلیٹ فورم سے اُنھوں نے سوات، سکھر، روہڑی، قمبر، شہداد کوٹ اور حیدرآباد میں بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی بحالی کے لیے کام کیا۔ پہلے تو اِس اقدام پر تعجب کا اظہار کیا گیا۔ معتوب ٹھہرائی جانے والی جنس کو سماجی میدان میں سرگرم دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے، مگر اُن کے خلوص نے اپنی جگہ بنا ہی لی۔ بتاتی ہیں،''میں نے مردان میں لگائے جانے والے متاثرین کے کیمپ میں لوگوں کی مشکلات دیکھ کر اپنا زیور تک بیچ دیا، تاکہ خواتین کی مشکلات کچھ کم ہوسکیں۔ ہمارے دیگر ساتھیوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔''
صوبائی حکومت کی جانب سے خواجہ سراؤں کی دیکھ بھال کے لیے فوکل پرسن مقرر ہونے کے بعد صنم کی مصروفیات میں یک دم اضافہ ہوگیا ہے۔ سندھ کے دوردراز علاقوں میں مصروف رہتی ہیں۔ کبھی کسی کی جائیداد کا مسئلہ، تو کبھی پولیس، کورٹ کچہری۔ اِن تمام مسائل کو حل کرنے میں اپنا حصہ ادا کرنا انھیں بہت اچھا لگتا ہے۔
ملک کے موجودہ حالات کے متعلق صنم فقیر کے خیالات کچھ اِس طرح ہیں،''بنیادی مسئلہ کرپشن ہے۔ آج ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن، لوٹ مار کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ فقیر سے لے کر ملک کے اعلیٰ ایوانوں میں موجود شخصیات تک، سب صرف اپنے خاندان یا ذات کی حد تک سوچتے ہیں۔ سیاست دانوں کی کارکردگی پر انتہائی افسوس ہوتا ہے۔ ہمارے کئی سیاست داں تو ایسے ہیں، جنھیں قومی ترانہ تک نہیں آتا۔'' اُن کے نزدیک ملک کی ترقی اور بیرونی قرضہ اتارنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک اکائونٹ کھولے، تمام صاحب حیثیت افراد سے ایک ایک لاکھ روپے سے کروڑوں روپے خصوصی فنڈ میں حاصل کیے جائیں، اور پانچ سال بعد اس اکائونٹ سے رقم نکال کر تمام بیرونی قرض دہندگان کو ادائیگی کر دی جائے۔ ''اگر حکومت یہ اکائونٹ کھولتی ہے، تو سب سے پہلے ایک لاکھ روپے میں اکائونٹ میں جمع کرائوں گی!''
پکی محب وطن ہیں۔ کہتی ہیں،''پاکستان نے ہمیں شناخت دی ہے۔ تمام شہریوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی خوش حالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔'' یقین رکھتی ہیں کہ اسمبلی میں خواجہ سراؤں کی آمد واضح تبدیلی لائے گی۔ ''اگر حکومت ہم خواجہ سرائوں کو ملک کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچاتی ہے، تو اِس سے کرپشن میں واضح کمی ہوگی، کیوں کہ ہماری کوئی اولاد نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہم بینک بیلینس بنانے کے شوقین ہیں۔ میں نے سنجیدگی سے فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر حصہ لوں گی۔ ویسے تو حکومت کو خواتین کی طرح خواجہ سرائوں کے لیے بھی یوسی، تعلقہ، ضلع، صوبائی اور قومی اسمبلی میں نشستیں مختص کرنا چاہییں، تاکہ ملک بھر میں موجود خواجہ سرا اپنے مسائل حل کراسکیں۔''
کس پارٹی کا انتخاب کریں گی؟ اس سوال کے جواب میں کہتی ہیں،''میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اُس پارٹی میں شامل ہوں گی، جو سچائی کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہو۔'' خواہش ہے کہ پاکستان کو وہ مقام دلائیں، جو اِس ریاست کا حق ہے۔ ''میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے موقع دے۔ دیکھیں، ملک میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔ وہ کرپشن، لوٹ مار کی وجہ سے پیچھے ہیں، انھیں اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ یہی لوگ ملک کو ترقی، خوش حالی کی جانب گام زن کرسکتے ہیں، اور اگر اﷲ نے مجھے موقع دیا، تو میں ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے دن رات ایک کردوں گی۔''
خواجہ سرائوں کو شناختی کارڈ اور شناخت دینے کے حوالے سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فیصلے کے بارے میں صنم فقیر کہتی ہیں، اُن کا فیصلہ پنجرے میں بند پرندے کو آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ ''سکھر سمیت ملک کے تمام خواجہ سرا افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ تصور کرتے ہیں، جس کے ذریعے ہمیں شناخت ملی۔ ہم نے اِسی کے فیصلے کے طفیل سکھر کے خواجہ سرائوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا کر دیے۔''
خواجہ سراؤں کی بابت معاشرے میں پایا جانے والا منفی تاثر موضوع گفت گو بنا، تو صنم کہنے لگیں،''لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ خواجہ سرا ناچ گانے کے علاوہ 'برے کام' بھی کرتے ہیں، اس لیے انھیں تمام شعبوں میں نظرانداز کیا جاتا ہے، مگر میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔'' اُن کے مطابق اِس وقت ضلع سکھر میں دو سو سے زاید خواجہ سرا ہیں، جن کی فلاح و بہبود کے لیے وہ کام کر رہی ہیں۔ ''ہم نے اُن تمام خواجہ سرائوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے لیے تعلیم، خصوصاً کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ایک لیب بنائی ہے، جہاں خواجہ سرا آکر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ خواجہ سرا برادری ایڈز، ٹی بی، پولیو اور دیگر موذی امراض ختم کرنے کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔''
غیر سرکاری تنظیموں کی کارکردگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے صنم فقیر کا کہنا تھا،''دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ جو اِسے نیکی سمجھ کر کرے گا، اس کی کوششوں کا نتیجہ مثبت آئے گا۔ مگر بہت سی این جی او اپنے مفاد کے لیے کام کرتی ہیں، جس سے عوامی مسائل حل نہیں ہوتے۔''
صنم فقیر محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی آئیڈیل شخصیت قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں، اُنھوں نے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے کلیدی کردار ادا کیا، شدید خطرات کے باوجود پاکستان آئیں۔ ''محترمہ کو معلوم تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، مگر اُنھوں نے ملک و قوم کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ دیا۔ ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔''
بچپن کی شرارتیں یاد کرتے ہوئے اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ بتاتی ہیں،''میں گھر کی خواتین کے ساتھ شادی کی تقریبات میں شرکت کرتی۔ بارات کے ساتھ جاتی۔ آگے آگے رہتی، اور اِس دوران خوب شرارتیں کرتی۔ میں چپکے سے دو خواتین کے دوپٹے ایک دوسرے سے باندھ دیتی تھی۔ جب وہ اٹھ کر چلتیں، تو نیچے گرجاتیں۔ اس شرارت سے مجھے بہت مزا آتا تھا۔ کئی بار اس پر ڈانٹ بھی پڑی۔''
کرکٹ صنم فقیر کا پسندیدہ کھیل ہے۔ انھوں نے خواجہ سرائوں کی باقاعدہ کرکٹ ٹیم بھی بنائی ہوئی ہے۔ ایران اور افغانستان کی سیر کر چکی ہیں، تاہم اُن کی رائے میں بہترین تفریحی مقامات پاکستان ہی میں ہیں۔ سردی کے ابتدائی ایام میں گھومنا اور سبزیاں کھانا انھیں اچھا لگتا ہے۔ جب بھی گھر والوں کی یاد ستاتی ہے، تو وہ ٹیلی فون پر اپنی بہنوں، بھانجیوں، بھانجوں سے بات کر لیتی ہیں۔
زندگی میں سب سے زیادہ افسوس کب ہوتا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں صنم نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا،''جب ہم کسی علاقے میں کرائے کا مکان حاصل کرنے جاتے ہیں، تو لوگ ہمیں دھتکار دیتے ہیں، اُس وقت بہت دُکھ ہوتا ہے۔ ویسے تو وہ اپنی شادی بیاہ کی تقریبات میں ہمیں مدعو کرتے ہیں، مگر جب بات آتی ہے مکان کرائے پر دینے کی، اپنے محلے میں جگہ دینے کی، تو وہ گریز کرتے ہیں۔ اِسی طرح جب ضعیف العمر خواجہ سرائوں کی زندگی دیکھتی ہوں، تو بہت دُکھ ہوتا ہے۔ سوچتی ہوں کہ کوئی ایسا سسٹم مرتب کیا جائے، جس میں تمام بزرگ خواجہ سرائوں کو رہایشی اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اُن کی دیکھ ریکھ کی جائے۔''
صنم زندگی سے مطمئن ہیں۔ ''میں جو کچھ ہوں، جیسی ہوں، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ اِس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں اپنی زندگی سے انتہائی مطمئن ہوں، اور آج بھی شہریوں، خصوصاً بزرگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کردار ادا کر رہی ہوں، تاکہ دنیا و آخرت میں کوئی مقام مل سکے۔'' روز مرہ کے معمولات کچھ یوں ہیں۔ ''میں صبح کا آغاز اﷲ کے بابرکت نام سے کرتی ہیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد کلام پاک کی تلاوت کرتی ہوں۔ ملکی حالات پر نظر رکھنے کے لیے اخبارات پڑھنے کے علاوہ ٹاک شوز ضرور دیکھتی ہوں، اور رفاہی کاموں کے لیے کسی بھی تقریب میں مدعو کیے جانے پر ضرور شرکت کرتی ہوں۔''
فرسودہ روایات کے پروردہ، جمود کے شکار اِس معاشرے کا رویہ قابل فہم تھا، متوقع تھا، مگر معتوب ٹھہرائے جانے والے نے جو راستہ چُنا، جو راہ اختیار کی، وہ چونکا دیتی ہے کہ اِس کے وسیلے یہ کہانی، اپنے حزنیہ ابتدائیے سے منہ موڑ کر طربیہ اختتامیے کی جانب بڑھنے لگتی ہے!
احباب کی جانب سے گھر بدر کیے جانے والا عیسیٰ گل آج سندھ بھر کے خواجہ سرائوں کی امید بن کر اُن کے خواب پورے کرنے کے لیے میدان عمل میں برسر پیکار ہے کہ اب اُس کی حیثیت بدل گئی ہے۔ اوروں نے بھی اُسے قبول کر لیا ہے کہ اب وہ صنم فقیر کے نام سے جانا جاتا ہے، بلکہ جانی جاتی ہے، احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔
خواجہ سراؤں کی برادری سے تعلق رکھنے والی صنم فقیر سماجی کارکن کے طور پر اپنی شناخت رکھتی ہیں۔ اُنھوں نے 2002 میں ''صنم فقیر ویلفیئر ایسوسی ایشن'' کی بنیاد رکھی۔ دس برس سے اِس تنظیم کے پلیٹ فورم سے وہ ضلع سکھر کی سطح پر خواجہ سرائوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کر رہی ہیں، مگر خود کو محدود نہیں رکھا، سیلاب متاثرین کے لیے بھی کام کیا۔
اُن کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے صنم کو اکتوبر2009 میں حکومت سندھ نے ''فوکل پرسن'' مقرر کیا۔ اُنھوں نے اپنی کمیونٹی کی موثر انداز میں ترجمانی کی۔ گوکہ ابتدا میں مسائل کا سامنا کرنا پڑا، لیکن دھیرے دھیرے حالات میں بہتری آنے لگی۔ خصوصاً سپریم کورٹ کے فیصلے نے اِس ضمن میں کلیدی کردار ادا کیا۔ صنم مستقبل میں الیکشن میں کھڑے ہونے کا ارادہ ہے، اور اس ضمن میں خاصی پُرامید ہیں۔
''قدرت کے کھیل نرالے ہوتے ہیں'' اِس ضرب المثل کی زندہ تصویر صنم فقیر کی داستان حیات ہے۔
10اپریل 1975کو سکھر کے علاقے نواں گوٹھ میں مقیم عالم دین اور مسجد کے پیش امام، حاجی سعد محمد شاہ کے گھر گونجنے والی قلقاریوں کو عیسیٰ گل کا نام دیا گیا، بیٹے کے طور پر قبول کیا گیا، اور اِسی حیثیت میں اُس کے مستقبل کے لیے دعائیں کی گئیں۔ مگر حقیقتاً نومولود کی قسمت میں عیسیٰ گل ہونا نہیں لکھا تھا۔ یہ نام اُس کے اندروں سے، احساسات سے میل نہیں کھاتا تھا، جو اُس کے ذہن میں تلاطم برپا کیے رکھتے۔
وقت نے شعور پیدا کیے، جو تبدیلیوں کی طرف لے گیا۔ ایسی تبدیلیاں، جن کی اُسی کی روح متمنی تھی، دل متقاضی تھا۔ رویہ رجحانات بدلنے لگے۔ اِس عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اور یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ شاید اِسی تنقید نے صنم فقیر میں حالات کا مقابلہ کرنے کی قوت پیدا کی۔
اہل خانہ اور دیگر عزیزوں کی جانب سے، صنم کی بول چال میں آنے والی تبدیلیوں کو آڑے ہاتھوں لیا گیا۔ طعنے دیے گئے۔ سرد آہ بھرتے ہوئے وہ بتاتی ہیں،''اِس رویے کی وجہ سے مجھے شدید ذہنی دبائو کا سامنا کرنا پڑا، تاہم والد صاحب نے ایک اچھے استاد اور دوست کی حیثیت سے قدم قدم پر میرا ساتھ دیا۔ اُنھوں نے مجھے قرآن پاک پڑھایا۔ وہ بھائیوں اور دیگر عزیز و اقارب کی جانب سے طعنہ زنی پر سخت برہمی کا اظہار کرتے تھے۔ عزیز و اقارب اور محلے والے مجھے خواجہ سرا یا خُسرا کہتے تھے، اِس وجہ سے میری والدہ شدید پریشانی سے دوچار رہتیں۔ بعض اوقات تو بہن بھائیوں کا سلوک بھی انتہائی ناروا ہوتا۔''
المیہ یہی تمام نہیں ہوتا۔ اِس کرب کے اور بھی کئی پہلو ہیں۔ صنم فقیر کہتی ہیں،''میں جب اپنے گھر میں رہتی تھی، تو اپنے بھائیوں سے کہتی کہ مجھے بھی کسی کام پر لگادو، مگر وہ شرمندگی کے باعث گھر سے قدم نکالنے سے منع کرتے تھے، تاکہ اُن کی معاشرے میں بدنامی نہ ہو۔'' 1994 کا سال ایک درد ناک یاد کی صورت صنم کے ذہن میں محفوظ ہے کہ اُسی برس اُنھیں شفقت پدری سے محروم ہونا پڑا۔ اُن کے بہ قول،''والد کے انتقال کے بعد دیگر معاملات کی طرح کلام پاک حفظ کرنے کا سلسلہ بھی رک گیا۔ میں صرف 10سپارے حفظ کرسکی۔ پھر میں نے گھر سے پائوں باہر نکالا، مختلف ہوٹلوں، دکانوں اور گھروں میں مزدوری کی۔''
خود کو تسلیم کروانے کے لیے مظلوم صنم نے کتنی جدوجہد کی ہوگی۔ اِس کا تصور بھی محال ہے۔ اِس تجربے کو الفاظ میں سمونا لگ بھگ ناممکن ہے۔ صنم بتاتی ہیں،''گھر سے نکلنے کے بعد مجھے نہ تو خواجہ سرا تسلیم کرتے تھے اور نہ ہی گھر والے۔ اس دوران میں نے مختلف ہوٹلوں اور دکانوں پر کام کیا۔ مجھے 30روپے یومیہ ملتے تھے۔ ایک ہوٹل پر میں نے تین دن کام کیا، لوگوں کی بڑی تعداد مجھے دیکھنے اور چھیڑنے آتی تھی۔ اِس پر ہوٹل کے مالک نے یہ کہہ کر ملازمت سے فارغ کردیا کہ میرا کاروبار متاثر ہو رہا ہے، لہٰذا آپ کل سے مت آنا۔''
رد کیے جانے کے عمل نے کیا اِس دُکھی وجود کو توڑ ڈالا، نہیں۔ بتاتی ہیں، ''اُس دن میں تو اپنے آپ کو انتہائی بے بس اور لاچار سمجھ رہی تھی۔ تاہم اﷲ تعالیٰ نے مجھ میں ہمت پیدا کی، اور میں نے اپنی جدوجہد کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا۔'' پھر 2004 کا سال آیا، اور کرب ساتھ لایا کہ اُسی برس والدہ نے آنکھیں موندلیں۔ ''والدہ کی رحلت کے بعد کوئی میرا پرسان حال نہیں تھا۔ بہن بھائی اور دیگر احباب کے طعنوں نے مجھے گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا، اور دل برداشتہ ہوکر میں نے خاندان والوں کے ساتھ تعلقات قطع کرلیے۔''
پڑھنے لکھنے کا صنم کو بہت شوق تھا، لیکن درس گاہ کا ماحول اُس کے لیے کبھی سازگار نہیں رہا۔ سچ تو یہ ہے کہ اُسی ماحول نے اُسے دوسروں سے الگ ہونے کا احساس دلایا۔ دس بہن بھائیوں میں نویں، صنم ماضی کھنگالتے ہوئے بتاتی ہیں،''میں نے 1981 میں گورنمنٹ پرائمری اسکول نواں گوٹھ میں داخلہ لیا۔ چند سال بعد لوگوں کی تنقید اور مذاق سے مجھے معلوم ہوا کہ مجھ میں کوئی ایسی کمی ہے، جس کی وجہ سے لوگ مجھ سے چھیڑخانی کرتے ہیں۔ جُوں جُوں وقت گزرتا گیا، میں سمجھ دار ہوتی گئی۔ پھر مجھے معلوم ہوا کہ مجھے 'خُسرا' کیوں کہا جاتا ہے۔''
اب انھوں نے اپنے جیسے انسانوں کو کھوجنا شروع کیا۔ ''میں نے گھروالوں سے چھپ کر خواجہ سرائوں کی زندگی پر نظر ڈالنے کی لیے اُن سے رابطے کیے۔ ان کو بہت قریب سے دیکھا۔'' دھیرے دھیرے نئے ماحول سے ہم آہنگ ہونے لگیں۔ ''ابتدائی دنوں میں مجھے ناچ گانا نہیں آتا تھا۔ میں چھپ کر سینیر خواجہ سرائوں کو دیکھتی تھی۔ بزرگ خواجہ سرائوں کی دیکھ بھال کرنے کے علاوہ ان کی خدمت کرتی تھی۔''
خواجہ سرائوں کے مسائل کا اُنھیں ادراک تھا۔ اُن کی دقتوں سے بہ خوبی آگاہ تھیں۔ اِس تعلق سے پریشان بھی رہتیں۔ اپنی برادری کے مسائل حل کرنے کے لیے بالآخر اُنھوں نے عملی اقدامات کا فیصلہ کیا۔ چھوٹے پیمانے پر کام شروع کیا۔ ابتدا میں تو صنم کی کوششوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، مگر دھیرے دھیرے اُن کی پرخلوص جدوجہد کو برادری میں تسلیم کیا جانے لگا۔ یوں وہ سفر شروع ہوا، جس نے بعد میں ''صنم فقیر ویلفیئر ایسوسی ایشن'' کی شکل اختیار کی۔ وہ میڈیا کی نظروں میں آئیں۔ حکومت اُن کی جانب متوجہ ہوئی۔
اِسی تنظیم کی پلیٹ فورم سے اُنھوں نے سوات، سکھر، روہڑی، قمبر، شہداد کوٹ اور حیدرآباد میں بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہونے والوں کی بحالی کے لیے کام کیا۔ پہلے تو اِس اقدام پر تعجب کا اظہار کیا گیا۔ معتوب ٹھہرائی جانے والی جنس کو سماجی میدان میں سرگرم دیکھ کر لوگ حیران رہ گئے، مگر اُن کے خلوص نے اپنی جگہ بنا ہی لی۔ بتاتی ہیں،''میں نے مردان میں لگائے جانے والے متاثرین کے کیمپ میں لوگوں کی مشکلات دیکھ کر اپنا زیور تک بیچ دیا، تاکہ خواتین کی مشکلات کچھ کم ہوسکیں۔ ہمارے دیگر ساتھیوں نے بھی بھرپور ساتھ دیا۔''
صوبائی حکومت کی جانب سے خواجہ سراؤں کی دیکھ بھال کے لیے فوکل پرسن مقرر ہونے کے بعد صنم کی مصروفیات میں یک دم اضافہ ہوگیا ہے۔ سندھ کے دوردراز علاقوں میں مصروف رہتی ہیں۔ کبھی کسی کی جائیداد کا مسئلہ، تو کبھی پولیس، کورٹ کچہری۔ اِن تمام مسائل کو حل کرنے میں اپنا حصہ ادا کرنا انھیں بہت اچھا لگتا ہے۔
ملک کے موجودہ حالات کے متعلق صنم فقیر کے خیالات کچھ اِس طرح ہیں،''بنیادی مسئلہ کرپشن ہے۔ آج ملک میں بڑھتی ہوئی کرپشن، لوٹ مار کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ فقیر سے لے کر ملک کے اعلیٰ ایوانوں میں موجود شخصیات تک، سب صرف اپنے خاندان یا ذات کی حد تک سوچتے ہیں۔ سیاست دانوں کی کارکردگی پر انتہائی افسوس ہوتا ہے۔ ہمارے کئی سیاست داں تو ایسے ہیں، جنھیں قومی ترانہ تک نہیں آتا۔'' اُن کے نزدیک ملک کی ترقی اور بیرونی قرضہ اتارنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک اکائونٹ کھولے، تمام صاحب حیثیت افراد سے ایک ایک لاکھ روپے سے کروڑوں روپے خصوصی فنڈ میں حاصل کیے جائیں، اور پانچ سال بعد اس اکائونٹ سے رقم نکال کر تمام بیرونی قرض دہندگان کو ادائیگی کر دی جائے۔ ''اگر حکومت یہ اکائونٹ کھولتی ہے، تو سب سے پہلے ایک لاکھ روپے میں اکائونٹ میں جمع کرائوں گی!''
پکی محب وطن ہیں۔ کہتی ہیں،''پاکستان نے ہمیں شناخت دی ہے۔ تمام شہریوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی خوش حالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔'' یقین رکھتی ہیں کہ اسمبلی میں خواجہ سراؤں کی آمد واضح تبدیلی لائے گی۔ ''اگر حکومت ہم خواجہ سرائوں کو ملک کے اعلیٰ ایوانوں تک پہنچاتی ہے، تو اِس سے کرپشن میں واضح کمی ہوگی، کیوں کہ ہماری کوئی اولاد نہیں ہے۔ اور نہ ہی ہم بینک بیلینس بنانے کے شوقین ہیں۔ میں نے سنجیدگی سے فیصلہ کیا ہے کہ آیندہ انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر حصہ لوں گی۔ ویسے تو حکومت کو خواتین کی طرح خواجہ سرائوں کے لیے بھی یوسی، تعلقہ، ضلع، صوبائی اور قومی اسمبلی میں نشستیں مختص کرنا چاہییں، تاکہ ملک بھر میں موجود خواجہ سرا اپنے مسائل حل کراسکیں۔''
کس پارٹی کا انتخاب کریں گی؟ اس سوال کے جواب میں کہتی ہیں،''میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اُس پارٹی میں شامل ہوں گی، جو سچائی کے ساتھ ملک و قوم کی خدمت کا جذبہ رکھتی ہو۔'' خواہش ہے کہ پاکستان کو وہ مقام دلائیں، جو اِس ریاست کا حق ہے۔ ''میری دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے موقع دے۔ دیکھیں، ملک میں اچھے لوگوں کی کمی نہیں۔ وہ کرپشن، لوٹ مار کی وجہ سے پیچھے ہیں، انھیں اعتماد دینے کی ضرورت ہے۔ یہی لوگ ملک کو ترقی، خوش حالی کی جانب گام زن کرسکتے ہیں، اور اگر اﷲ نے مجھے موقع دیا، تو میں ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے دن رات ایک کردوں گی۔''
خواجہ سرائوں کو شناختی کارڈ اور شناخت دینے کے حوالے سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے فیصلے کے بارے میں صنم فقیر کہتی ہیں، اُن کا فیصلہ پنجرے میں بند پرندے کو آزاد کرنے کے مترادف ہے۔ ''سکھر سمیت ملک کے تمام خواجہ سرا افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنی زندگی کا اہم ترین فیصلہ تصور کرتے ہیں، جس کے ذریعے ہمیں شناخت ملی۔ ہم نے اِسی کے فیصلے کے طفیل سکھر کے خواجہ سرائوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنا کر دیے۔''
خواجہ سراؤں کی بابت معاشرے میں پایا جانے والا منفی تاثر موضوع گفت گو بنا، تو صنم کہنے لگیں،''لوگوں میں یہ تاثر ہے کہ خواجہ سرا ناچ گانے کے علاوہ 'برے کام' بھی کرتے ہیں، اس لیے انھیں تمام شعبوں میں نظرانداز کیا جاتا ہے، مگر میں یہ بتانا چاہتی ہوں کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔'' اُن کے مطابق اِس وقت ضلع سکھر میں دو سو سے زاید خواجہ سرا ہیں، جن کی فلاح و بہبود کے لیے وہ کام کر رہی ہیں۔ ''ہم نے اُن تمام خواجہ سرائوں کو معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے لیے تعلیم، خصوصاً کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ ایک لیب بنائی ہے، جہاں خواجہ سرا آکر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ خواجہ سرا برادری ایڈز، ٹی بی، پولیو اور دیگر موذی امراض ختم کرنے کے لیے بھی کام کر رہی ہے۔''
غیر سرکاری تنظیموں کی کارکردگی پر اظہار خیال کرتے ہوئے صنم فقیر کا کہنا تھا،''دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہر انسان کا فرض ہے۔ جو اِسے نیکی سمجھ کر کرے گا، اس کی کوششوں کا نتیجہ مثبت آئے گا۔ مگر بہت سی این جی او اپنے مفاد کے لیے کام کرتی ہیں، جس سے عوامی مسائل حل نہیں ہوتے۔''
صنم فقیر محترمہ بے نظیر بھٹو کو اپنی آئیڈیل شخصیت قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں، اُنھوں نے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے کلیدی کردار ادا کیا، شدید خطرات کے باوجود پاکستان آئیں۔ ''محترمہ کو معلوم تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، مگر اُنھوں نے ملک و قوم کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ دیا۔ ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔''
بچپن کی شرارتیں یاد کرتے ہوئے اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ بتاتی ہیں،''میں گھر کی خواتین کے ساتھ شادی کی تقریبات میں شرکت کرتی۔ بارات کے ساتھ جاتی۔ آگے آگے رہتی، اور اِس دوران خوب شرارتیں کرتی۔ میں چپکے سے دو خواتین کے دوپٹے ایک دوسرے سے باندھ دیتی تھی۔ جب وہ اٹھ کر چلتیں، تو نیچے گرجاتیں۔ اس شرارت سے مجھے بہت مزا آتا تھا۔ کئی بار اس پر ڈانٹ بھی پڑی۔''
کرکٹ صنم فقیر کا پسندیدہ کھیل ہے۔ انھوں نے خواجہ سرائوں کی باقاعدہ کرکٹ ٹیم بھی بنائی ہوئی ہے۔ ایران اور افغانستان کی سیر کر چکی ہیں، تاہم اُن کی رائے میں بہترین تفریحی مقامات پاکستان ہی میں ہیں۔ سردی کے ابتدائی ایام میں گھومنا اور سبزیاں کھانا انھیں اچھا لگتا ہے۔ جب بھی گھر والوں کی یاد ستاتی ہے، تو وہ ٹیلی فون پر اپنی بہنوں، بھانجیوں، بھانجوں سے بات کر لیتی ہیں۔
زندگی میں سب سے زیادہ افسوس کب ہوتا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں صنم نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے کہا،''جب ہم کسی علاقے میں کرائے کا مکان حاصل کرنے جاتے ہیں، تو لوگ ہمیں دھتکار دیتے ہیں، اُس وقت بہت دُکھ ہوتا ہے۔ ویسے تو وہ اپنی شادی بیاہ کی تقریبات میں ہمیں مدعو کرتے ہیں، مگر جب بات آتی ہے مکان کرائے پر دینے کی، اپنے محلے میں جگہ دینے کی، تو وہ گریز کرتے ہیں۔ اِسی طرح جب ضعیف العمر خواجہ سرائوں کی زندگی دیکھتی ہوں، تو بہت دُکھ ہوتا ہے۔ سوچتی ہوں کہ کوئی ایسا سسٹم مرتب کیا جائے، جس میں تمام بزرگ خواجہ سرائوں کو رہایشی اور علاج معالجے کی سہولیات فراہم کی جائیں۔ اُن کی دیکھ ریکھ کی جائے۔''
صنم زندگی سے مطمئن ہیں۔ ''میں جو کچھ ہوں، جیسی ہوں، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہوں۔ اِس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے۔ میں اپنی زندگی سے انتہائی مطمئن ہوں، اور آج بھی شہریوں، خصوصاً بزرگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کردار ادا کر رہی ہوں، تاکہ دنیا و آخرت میں کوئی مقام مل سکے۔'' روز مرہ کے معمولات کچھ یوں ہیں۔ ''میں صبح کا آغاز اﷲ کے بابرکت نام سے کرتی ہیں۔ نماز کی ادائیگی کے بعد کلام پاک کی تلاوت کرتی ہوں۔ ملکی حالات پر نظر رکھنے کے لیے اخبارات پڑھنے کے علاوہ ٹاک شوز ضرور دیکھتی ہوں، اور رفاہی کاموں کے لیے کسی بھی تقریب میں مدعو کیے جانے پر ضرور شرکت کرتی ہوں۔''