جب برسوں کی محنت رنگ لائی
ان غیرمعمولی لوگوں کا احوال جو اپنے اداروں میں معمولی درجے سے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچے، کیا آج بھی ایسی ترقی ممکن ہے؟
ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں' جنہوں نے کسی ادارے میں کام کرتے کرتے اپنی پوری زندگیاں گزار دیں۔
انہوں نے اپنی زندگی کا بہترین حصہ' صلاحیتیں اور زندگی تک اس ادارے یا کمپنی کے لئے وقف کر دیں' لیکن اس کے جواب میں انہیں کیا ملتا ہے؟ کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے 20/30 برس قبل ایک معمولی کلرک' گارڈ یا بارورچی کی حیثیت سے کسی ادارے یا کمپنی میں ملازمت کا آغاز کیا اور اتنا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ اسی حیثیت میں کام کرتے ہوئے ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ سرکاری ملازمت اور ترقی کا توخیر اپنا مخصوص طریقہ کار ہوتا ہے' لیکن بڑے نجی اداروں اور کمپینوں میں بھی صورت حال اس سے زیادہ مختلف نہیں ہوتی۔
ممکن ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی اکثریت نے اپنی صلاحیتوں اور تعلیمی قابلیت میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہ کیا ہو' لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسے بڑے اداروں اور کمپنیوں میں ایسے مواقع موجود ہوتے ہیں کہ معمولی درجوں سے کام کا آغاز کرنے والے کارکن اپنی محنت اور قابلیت کی بدولت اسی ادارے میں وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کرتے ہوئے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچ سکیں؟ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ زیادہ تر اداروں میں ترقی کے مناسب مواقع نہیں ملتے اور موجودہ دور کی کارپوریٹ دنیا کا مزاج ایسا بن چکا ہے کہ معمولی عہدوں سے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچنا ناممکن دکھائی دیتا ہے' زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ ایک خاص عرصہ تک ملازمت کرنے کے بعد' ظاہری عزت و تکریم میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے وقت تحسین کے چند کلمات اور کچھ رقم تھما کر رخصت کر دیا جاتا ہے۔
تاہم اگر ماضی میں جھانک کر دیکھا جائے تو ایسے کچھ لوگوں اور اداروں کی مثالیں ضرور مل جاتی ہیں' جہاں کام کا آغاز کرنے والے معمولی کارکن کمپنی کے اعلیٰ ترین عہدوں تک پہنچے۔ ہمارے ہاں تو مالکان کی طرف سے اپنے قابل کارکنوں' جن کی محنت کی بدولت ان کے کاروبار کو بڑے پیمانے پر وسعت ملی' کی شایان شان پذیرائی کی کوئی ایسی مستحسن روایت نہیں ہے۔ ہاں ایسے لوگوں کی مثالیں بہر حال موجود ہیں' جنہوں نے خود چھوٹے پیمانے پر اپنے کام کا آغاز کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنے کاروبار کو بے پناہ وسعت دینے میں کامیاب ٹھہرے۔
تاہم مغرب میں ایسے ادارے اور کچھ ایسی مثالیں موجود ہیں' جہاں نچلے درجے میں کام کرنے والے کارکنان کی پذیرائی کی گئی اور قابل کارکنوں کو اونچے ترین عہدوں تک پہنچنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ایسی ہی ایک خوش نصیب شخصیت میکڈونلڈ کے سابق صدر فریڈ ٹرنر کی ہے' جو کہ کمپنی کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچے۔ ان کے انتقال پر بی بی سی نے حال ہی میں ایک تجزیاتی رپورٹ شائع کی ہے کہ کیا آج کی دنیا میں کسی کمپنی کے اعلیٰ ترین عہدے تک پہنچنے کے لئے کیا یہ اب بھی ایک حقیقت پسندانہ راستہ ہے؟
جیروڈبیسٹ ابھی 16 سال کا ہی تھا کہ اس کے والد نے یہ کہہ کر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہ دی کہ وہ اتنا ذہین نہیں ہے کہ وہ مزید تعلیم حاصل کرے۔ اگرچہ آج کل کے ماحول میں والدین اپنے بچوں کی اس طرح حوصلہ شکنی نہیںکرتے، لیکن اتفاقیہ طور پر جیروڈ کیلئے یہ بات کارگر ثابت ہوئی۔ پہلے پہل اس نے ایک بڑی کنسٹرکشن فرم میں محض چائے پلانے والے لڑکے کے طور پر ملازمت شروع کی۔ وہ اپنے خاندان والوں کو اپنی صلاحیت اور قابلیت دکھانا چاہتا تھا۔ 20 برس تک اس تعمیراتی فرم میں کام کرنے کے بعد، اب وہ اس فرم میں منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدے تک پہنچ چکا ہے اور فرم میں شراکت دار ہے۔ 80 ملازمین کی اس فرم کا سالانہ ٹرن اوور 70 ملین پائونڈ ہے۔ جیروڈ کا والد کامیاب تاجر تھا اور نوجوان جیروڈ، جوکہ سکول کی رگبی ٹیم کا کیپٹن اور بڑا اچھا سائیکلسٹ تھا، میں بھی ہمیشہ سے جدوجہد کے بعد کامیابی کی لگن پائی جاتی تھی۔
جیروڈ بیسٹ کا کہنا ہے، ''آپ میں اتنی اہلیت ہونی چاہیے کہ اپنے والد کے سامنے بیٹھ کر اپنی کمائی ہوئی دولت سے، ان کی دولت کا موازنہ کرسکیں۔ اس کے بجائے کہ آپ ہر وقت پیسوں کیلئے ان پر انحصار کرتے رہیں۔'' تاہم جیروڈبیسٹ کی زندگی کی کہانی، بڑی حد تک غیر معمولی ہے۔ اب کارپوریٹ دنیا میں کامیابی کیلئے سخت محنت اور کامن سینس جیسی روایتی خصوصیات کے بجائے سرمایہ داروں کو قائل کرنے کیلئے میٹھی گفتگو اور بڑے پیمانے پر منصوبہ سازی کی صلاحیتوں کی زیادہ قدر کی جاتی ہے۔
مینجمنٹ کے ماہر میتھیو گائیتھر کا کہنا ہے، ''آج کل کسی ادارے میں ترقی کیلئے فریڈ ٹرنر کی طرح نچلے ترین درجے سے کام کرکے، سب سے اوپر پہنچنا مشکل ہے۔ اب اس کا زیادہ تر انحصار کاروباری دنیا کے مکینزم کو سمجھنے، اور اس کی سوجھ بوجھ سے ہے۔ ترقی کیلئے نچلے درجے پر کام کرنے کی روایتی سوچ، اکثر کاروباروں میں محض وقت کا ضیاع گردانی جاتی ہے۔ بہت سی بڑی فرمیں اپنے ایگزیکٹوز کیلئے یہ لازم قرار دیتی ہیں کہ وہ کمپنی کے مکینزم کو سمجھنے کیلئے ایک یا دو ہفتے نچلے درجے پر ہونے والی سرگرمیوں کا جائزہ لیں، اور یہ بہت کافی ہے۔ چمنی کے کام کو جاننے کیلئے ضروری نہیں کہ آپ برسوں کسی چمنی میں صفائی کرنے والے شخص کی حیثیت سے کام کرتے رہیں۔''
عام طور پر ریٹیل اور کیٹرنگ کے کاروبار میں ایسے لوگوں کی قابل ذکر مثالیں مل جاتی ہیں جنہوں نے صارفین کی ضروریات کوسمجھتے ہوئے کاروبار میں کچھ بہتریاں تجویز کیں، جس کی وجہ سے ترقی کی صورت میں انہیں فرم میں ایگزیکٹو وغیرہ بناکر، ان کی غیر معمولی خدمات کا صلہ دیا گیا۔ تاہم ایسی مثالیں بہت نایاب ہیں، جب انتہائی نچلے درجے میں کام کرنے والے ملازم، فرم کے سب سے بڑے عہدے پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ ایسے لوگ جو ایک طرف کرشماتی صلاحیتوں کے حامل ہوں اور دوسری طرف اتنے مستقل مزاج کہ ایک ہی ادارے میں برسوں تک کام کرتے رہیں، کسی اجنبی نسل کے ہی لوگ ہوتے ہیں۔
اگر اس سلسلے میں ان سے بات کی جائے تو وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے ایک ''خاندان'' کے سربراہ کی طرح، بڑے اداروں کی سربراہی کی۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر کوئی باصلاحیت شخص اپنی پوری محنت کرتے ہوئے کسی ادارے میںوقت صرف کرتا ہے تو وہ بھی اونچے عہدے تک پہنچ سکتا ہے اور یہ محض کاروباری دنیا کا دلفریب نعرہ نہیں ہے۔ کسی اور کیلئے یہ مشورہ درست ثابت ہو یا غلط، لیکن ان کی اپنی ذات تک کہا جاسکتا ہے کہ یہ بات مکمل طور پر سچ ہے۔
ایک بڑی کاروباری فرم کے صدر مچل ٹریڈی کا کہنا ہے کہ جب وہ لوگوں کوبتاتا ہے کہ اس فرم میں کام کرتے ہوئے اسے 40 سال ہوگئے ہیں تو ان کی آنکھوں میں حیرت جھلکنے لگتی ہے۔ نو عمری میں ٹریڈی کا زیادہ وقت ساحل سمندر پر گزرتا تھا، جب وہ موسیقار بننے کے خواب دیکھتا تھا۔ اس نے اپنی فرم ہرٹز (Hertz) میں برانچ منیجر بننے کی درخواست، صرف اپنی ماں کو خوش کرنے کیلئے دی تھی۔ اسے بہت حیرت ہے کہ وہ اس ملازمت کو پسند کرنے لگا۔ اس نے دنیا گھومنے کیلئے ایک مختصر وقفہ لیا اور پھر اپنے معمول پر واپس آنے کے بعد بڑی مستقل مزاجی سے ترقی کے زینے چڑھتا گیا۔
وہ اعتراف کرتا ہے کہ اب دنیا اس دور سے بہت بدل چکی ہے، جس میں اس نے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ اس کا کہنا ہے، ''اب لوگ اپنے ادارے سے کم وفادار اور زیادہ پرجوش ہیں۔ وہ زیادہ انفرادیت پسند بھی ہیں۔ اب اپنی کمپنی کے ساتھ، لوگوں کا پہلے کی طرح جذباتی تعلق نہیں رہا۔'' تاہم وہ اپنے آپ کو ان نوجوان کیلئے رول ماڈل کے طور پر دیکھتا ہے، جن کی درسی تعلیم، ان کے زندگی بھر کے تجربے کی نسبت کم ہے۔
ایسی ہی ایک مثال سر سٹورٹ روز کی بھی ہے۔ Marks & Spenser کے سابق چیئرمین نے کام کا آغاز پائجمامے فروخت کرنے والے کارکن کے طور پر کیا تھا۔ اس کا والد اسے زبردستی میڈیکل سکول بھیجنا چاہتا تھا، بصورت دیگر اس نے جیب خرچ روک لینے کی دھمکی دی تھی۔ ان حالات میں یہ واحد جگہ تھی، جہاں اسے ملازمت مل سکی تھی۔ سرسٹیورٹ روز کا کہنا ہے، ''آج کل لوگ روایتی راستے پر چلتے ہیں۔ خاص طور پر وہ اپنے پورے کیریئر کی حتمی انداز میں منصوبہ بندی کرلیتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ اپنی منزل مقصود تک نہیں پہنچ سکتے تو ان کا رویہ اور زندگی بہت تلخ ہوجاتی ہے۔
ہم ایک بہت تیز رفتار معاشرے میںرہتے ہیں۔ ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اونچے ترین عہدے تک پہنچے، حالانکہ صرف ایک شخص ہی چیف ایگزیکٹو بن سکتا ہے۔ میں نے ایک ایسے ادارے میں کام کیا ہے، جہاں ایک لاکھ ملازمین ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ باقی 90 ہزار 9 سو 99لوگ، چیف ایگزیکٹو نہیں بن سکتے۔ علاوہ ازیں ہر شخص میں لیڈر شپ کی خصوصیات بھی نہیںہوتیں۔ اس لیے بڑی کمپنیوں کو کوئی ایسا راستہ تلاش کرنا چاہیے کہ ایسے لوگ جو بڑے عہدے تک نہیں پہنچ سکے، انہیں ان کی خدمات کے عوض مناسب مقام دیا جا سکے، تاکہ وہ اپنی قدر و اہمیت محسوس کریں۔''
1985ء میں 23 سالہ ٹریورمان نے گاڑیوںکی بین الاقوامی کمپنی نسان موٹر مینوفیکچرنگ (UK) لمیٹڈ میں پروڈکشن لین میں ٹیم لیڈر کی حیثیت سے اپنے کام کا آغاز کیا تھا۔ اس کا خاندان مالی طور پر زیادہ مستحکم نہیں تھا اور اپنے والد کے کہنے پر اس نے انجینئرنگ کے شعبے کا انتخاب کیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ ترقی کے مدارج طے کرتا گیا، یہاں تک کہ 2007ء میں یورپ کے لیے کمپنی کا وائس پریذیڈنٹ بنا دیا گیا۔ 2011ء میں اسے کمپنی کی گلوبل سپلائی چین کا وائس پریذیڈنٹ بنا دیا گیا۔ ٹریورمان کی اپنی کمپنی کے لیے ناقابل فراموش خدمات کی فہرست خاصی طویل ہے۔
مختصر یہ کہ اس نے کساد بازاری (Recession) کے بعد شمال مشرق کی اس بڑی صنعت کو دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں مدد دی جس کی وجہ سے برطانیہ میں اس انڈسٹری میں 3000 سے زائد نئی ملازمتوںکی جگہ بنی، جن میں سے بیشتر ملازمتوں کی گنجائش شمال مشرقی علاقے میں پیدا ہوئی۔ وہ علاقے جس نے اسے ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا تھا۔ ٹریورمان کا کہنا ہے: ''میں کوئی بہت اچھا طالب علم نہیں تھا۔ میں کمرہ جماعت میں بھی زیادہ دیر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا لیکن میں شروع سے ہی ایک عملی آدمی تھا۔'' انڈسٹری کے لیے اس کے کارناموں کی بدولت اسے بہت سے اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔
فریڈٹرنر' جن کا اسی ماہ 80 سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے' نے اپنے کیریئر کا آغاز میکڈونلڈ میں برگر کی تیاری کے عمل میں ایک کارکن کی حیثیت سے کیا اور پھر اپنی محنت اور قابلیت کی بدولت اس نچلے درجے سے کمپنی کے چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو کے عہدے تک پہنچنے۔
میکڈونلڈ کمپنی جو کہ اب ایک فاسٹ فوڈ ایمپائر (Empire) بن چکی ہے' کا آغاز 1940ء میں ہوا تھا۔ دو بھائیوں' رچرڈ اور موریس میکڈونلڈ نے کیلفورنیا میں ایک ریسٹورنٹ کی بنیاد رکھی تھی۔ تاہم میکڈونلڈ کو دنیا بھر میں پھیلانے اور مقبول بنانے کا کارنامہ' شکاگو سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر' رے راک نے سرانجام دیا۔ 1959ء میں ایک ریاست میں کمپنی کی اپنی الگ برانچ قائم کر کے' راک نے مختلف جگہوں پر مزید ایسی 100 برانچز کے قیام میں مدد فراہم کی۔ دو برس بعد' اسی نے 27 لاکھ ڈالر کے عوض ساری فرم خرید لی۔ 1984ء میں' اپنے انتقال تک' راک اسے دنیا کی سب سے بڑی ریسٹورنٹ کمپنی بنا چکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ہر آٹھ امریکیوں میں سے ایک ایسا ہوتا ہے' جس نے اپنی زندگی کے کسی مرحلے میں میکڈونلڈ میں کام کیا ہوتا ہے۔
راک نے اپنی فرم میں بڑے عہدوں پر ہاورڈ کے تعلیم یافتہ MBAs کو بھرتی کرنے کے بجائے' اپنی فرم کے ہی نچلے درجوں میں کام کرنے والے قابل اور محنتی افراد کو آگے آنے میں مدد فراہم کی۔ وہ کارپوریٹ دنیا میں رائج اس کلیشے کا قائل نہ تھا کہ اہم اور بڑے انتظامی عہدوں پر بہت پڑھے لکھے لوگوں کو کام کرنا چاہئے۔ فریڈٹرنر نے میکڈونلڈ میں اپنے کام کا آغاز راک کی قائم کی ہوئی پہلی برانچ سے کیا تھا' جہاں وہ خوراک کی تیاری میں مدد گار مشینری کو چلایا کرتا تھا۔
اس نچلے درجے سے کام کا آغاز کرتے ہوئے اس نے اپنی لیاقت اور قابلیت کو منوایا اور آہستہ آہستہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے' کمپنی کے سب سے اونچے عہدے تک اپنی جگہ بنائی۔ کہا جاتا ہے کہ ''معیار' خدمت اور صفائی''(Quality,Service and Cleanliness) کے رہنما اصولوں پر جو ماڈل میکڈونلڈ کو دیا گیا' اس کے پیچھے کام کرنے والے دماغوں میں ایک نام ٹرنر کا بھی تھا' جس نے میکڈونلڈ کو ایک گلوبل برانڈ بنانے میں مدد دی۔
فریڈ ٹرنر1968ء میں کمپنی کا پریذیڈنٹ اور چیف ایڈمنسٹریٹو آفیسر بن گیا اور 1974ء میں راک کی جگہ کمپنی کا چیف ایگزیکٹو بن گیا۔ اگلے 13 برسوں تک اس نے 3100 سے بھی زائد برانچیں قائم کر کے دنیا بھر میں میکڈونلڈ کی برانچوں کی تعداد تین گنا سے بھی زیادہ کر دی۔ اس طرح درجنوں نئی مارکیٹس میں مکیڈونلڈ نے اپنی جگہ بنا لی۔ 1961ء میں اس نے منیجرز' فرنچائزز اور دوسرے ملازمین کی تربیت کے لئے پہلی میکڈونلڈ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ اب دنیا بھر میں کمپنی کی ایسی سات یونیورسٹیاں قائم ہیں' جس میں سے ایک کمپنی کے ہیڈ کوارٹر میں بنائی گئی ہے' جسے 2004ء میں فریڈ ایل ٹرنر ٹریننگ سنٹر کا نام دے دیا گیا۔
فریڈرک لیو ٹرنر' جو کہ ایک ڈبل روٹی بیچنے والے معمولی تاجر کا بیٹا تھا' 6 جنوری1933ء کو پیدا ہوا۔ تعلیم حاصل کرنے اور دو برس تک فوج میں خدمات سرانجام دینے کے بعد' اس نے 1956ء میں میکڈونلڈ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا۔ 1977ء میں وہ کمپنی کاچیئرمین اورCEO منتخب ہوا اور 1987ء تک ان حیثیات میں کام کیا۔ 1990ء تک وہ کمپنی کے بورڈ کا چیئرمین رہا' بعدازاں اسے سینئر چیئرمین بنا دیا گیا۔ 2004ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد اسے اعزازی چیئرمین کا عہدہ دے دیا گیا۔ ٹرنر کا اسی ماہ کی چھ تاریخ کو انتقال ہوا ہے۔ تین بیٹیوں کے باپ' فریڈٹرنر کی بیوی پٹریشیا کا انتقال 2000ء میں ہوا تھا۔