عہد حاضر کے مسائل اور تاریخ

ملک میں جمہوریت کے پنپ نہ سکنے کا ایک سبب ریاست اور معاشرے میں پایاجانے والا فکری عدم توازن بھی ہے


Muqtida Mansoor May 25, 2017
[email protected]

HARIPUR: ڈاکٹر سید جعفر احمد پاکستان کے ان معدودے چند سیاسی دانشوروں میں سے ایک ہیں، جو غیر جانبداری اور حقیقت پسندی کے ساتھ ملک کی سیاسی و سماجی صورتحال کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب مطالعہ وسیع ہو، فکری رجحان واضح ہو اور خود احتسابی کا جوہر موجود ہو۔ وہ حال ہی میں جامعہ کراچی کے پاکستان اسٹڈیز سینٹر کے ڈائریکٹر کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ اس عہدے پر رہتے ہوئے انھوں نے کئی نادر علمی، ادبی اور تحقیقی نسخوں کی اشاعت کا بندوبست کیا۔ اپنے ادارے کے تحقیقی مجلے Pakistan Perspective اور پاکستان شناسی کے ساتھ سہ ماہی ارتقا اور تاریخ کی اشاعت کو یقینی بنایا۔ اپنے ادارے کے تحت مختلف موضوعات پر وقتاً فوقتاً سیمینار اور سمپوزیم منعقد کیے۔

ظاہر ہے ادارہ جاتی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے بعد اپنی تخلیقات کے لیے وقت کم بچتا ہے، مگر وہ اس پہلو سے غافل نہیں ہوئے اور تمام تر ادارہ جاتی مصروفیت میں سے وقت نکال کر مضامین اور مقالے بھی تحریر کرتے رہے ان کی کئی کتابیں شایع ہوکر قبولیت عام و خاص حاصل کرچکی ہیں۔ زیر نظر کتاب Pakistan: Historical Legacy, Contemporary Issuesان کے گزشتہ دس سے پندرہ برسوں کے دوران لکھے گئے تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب میں چار ابواب ہیں، جن میں تاریخ، جمہوریت، وفاقیت اور صوبائی خود مختاری اور پاکستان دور حاضر میں شامل ہیں۔ ان ابواب میں مضامین کی کل تعداد 39ہے، جو تمام سنجیدہ تحقیق کا مظہر ہیں۔

تاریخ کے باب میں9 مضامین ہیں، جن میں فکر انگیز سوالات اور موضوعات پر قلم اٹھایا گیا ہے۔ خاص طور پر یہ سوال کہ برصغیر کی مذہبی جماعتوں نے پاکستان کے مطالبے کی کیوں مخالفت کی؟اس کا مفصل جواب انھوں نے اس باب کے دوسرے مضمون"Why did Religious Groups Opposed the Pakistan Demand" میں دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ کے مسلم قومیت کے تصور اور مذہبی جماعتوں کے تصور قومیت میں بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں دو کلیدی اصطلاحات یعنی ''امت'' اور ''ملت'' کے مفاہیم کو سمجھنا ہوگا۔ساتھ ہی وہ کہتے ہیں کہ جو مذہبی گروہ مسلم لیگ کے تصور قومیت کے مخالف تھے،ان کے ہندوستان میں مسلمانوں کے مقام وحیثیت کے بارے میں خیالات کا جاننا بھی ضروری ہے۔ اسی باب میں 1940کی قرارداد کے پس پشت محرکات اورمعروضی حالات پر بھی انھوں نے کھل کر بحث کی ہے۔ جناح کے تصورِ قومی ریاست اور بنگالی قیادت کے سیاسی رجحانات پر بحث کر کے تقسیم ہند کے منطقی جواز تک پہنچنے کی کوشش کی ہے۔

جمہوریت کے باب میں 17 مضامین ہیں۔ ان میں جمہوریت کی راہ پر،آزاد خیالوں کی پسپائی،آمریت کی بنیاد، ادارہ جاتی عدم توازن اور جمہوریت کے امکانات، جمہوریت کے لیے خواب، جمہوریت کو درپیش چیلنجز، انتخابات اور قومی ایجنڈا اور دراب پٹیل: شہری آزادیوں کی تمنا، سمیت کئی اہم موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں 9مضامین ہیں، جن میں قائد اعظم اور وفاقی طرز حکمرانی، قرارداد لاہور اور صوبائی خود مختاری، وفاقیت کی اہمیت اور رکاوٹیں، وفاقیت کو درپیش چیلنجز، صوبائی خودمختاری پرہمارا تاریخی بیانیہ، ڈاکٹر فیروز احمد :ایک دانشور اور سرگرم کارکن شامل ہیں۔ آخری باب میں گلوبلائزیشن، قومی ریاستیں اور مسلمان تارکین وطن کے حوالے سے چیلنجز ، سیکیولرازم، حجاب اور سیکیولرازم اور حقوق انسانی کی نئی جہتیں جیسے موضوعات پر بحث کی گئی ہے۔

اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں 1857کی جنگ آزادی سے مسلمانوں کی موجودہ سیاسی تاریخ کی کڑیاں جوڑنے کی کوشش کی گئی۔ کیونکہ برصغیر کے مسلمانوں میں اس واقعے کے بعد ہی اپنی شناخت کا تصور اجاگر ہوا۔ ایک طرف سرسید کی جدید تعلیم کے لیے اصلاحی تحریک شروع ہوئی، تو دوسری طرف علمائے ہند کے ایک گروہ نے اس سانحے کو مسلمانوں کی فکری کمزوریوں کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے ان کی دینی تربیت پر زور دیا۔1866میں دارالعلوم دیوبندکا قیام اور نو برس بعد 1875میں علی گڑھ کے مقام پر اینگلومحمڈن اورینٹیل کالج کی بنیاد نے مسلمانانِ ہند کو دوفکری رویوں میں منقسم کردیا۔ یہی دونوں رویے اس وقت سے قیام پاکستان سے قبل ایک دوسرے سے متصادم نظر آتے ہیں۔

ان جماعتوں، تنظیموں اورانفرادی حیثیت میں خطیبوں کے جو الزامات مسلم لیگ اور اس کی قیادت پر وقتاً فوقتاً لگائے گئے ان کا خالص علمی انداز میں جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔ انھیں مسلم لیگ کے دیگر رہنماؤں کے عقائد اور نظریات پر بھی اعتراضات رہے ہیں۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے اس پوری صورتحال کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لینے کی کوشش کی ہے اور اس دوران انھوں نے کسی بھی مرحلے پر جانبداری کو اپنے اوپر مسلط نہیں ہونے دیا۔

1940کی قرارداد لاہور کے بارے میں بحث کے دوران وہ ان تمام دستاویزات سے رہنمائی حاصل کرتے نظر آتے ہیں، جو اس حوالے سے مختلف نقطہ ہائے نظرکو پیش کرتی ہیں۔ انھی دستاویزات کی روشنی میں وہ یہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اگست1947میں جو ملک وجود میں آیا، وہ اس قرارداد کی روح سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ اس موضوع پر ان کے مضمون سے ایک اور بات سامنے آتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کے بیانیے کا مقصد اصل میں تو یہ باورکرانا تھا کہ برصغیر میں ہندو اور مسلمان دو الگ حقیقتیں ہیں، لیکن جب مسلم ریاست کے مطالبے کا موقع آیا، تو مسلم لیگ نے مسلم اکثریتی صوبوں پر مشتمل الگ ریاست کا تصور پیش کیا۔اس طرح آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنے ہی مقبول بیانیہ کو درحقیقت رد کردیا۔

آئین سازی میں تاخیر کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس مسئلے کو مسلم لیگی قیادت نے سنجیدگی کے ساتھ نہیں لیا ۔بیشتر رہنما یہ سمجھ رہے تھے کہ جس طرح بانی پاکستان نے تن تنہا ملک کے قیام کو یقینی بنالیا،اسی طرح وہ آئین سازی بھی کردیں گے، مگر قائد اعظم کو زندگی نے اتنی مہلت نہیں دی کہ وہ آئین سازی کے عمل کو اپنی نگرانی میں شروع کرواتے۔آئین سازی میں تاخیرکا ایک سبب یہ بھی سامنے آتا ہے کہ مسلم لیگی قیادت نظام حکمرانی کے بارے میں کنفیوژن کا شکار تھی اور یہ طے نہیں کر پارہی تھی کہ نظام کی نوعیت کیا ہو۔ گوکہ بانی پاکستان نے اپنی11اگست کی تقریر میں واضح اشارے دیدیے تھے۔

اب جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے، تو اس معاملے میں بھی لیگی قیادت اور بیوروکریسی کے درمیان بعد المشرقین تھا۔ ڈاکٹر جعفر کے مطابق ملک میں جمہوریت کے پنپ نہ سکنے کا ایک سبب ریاست اور معاشرے میں پایاجانے والا فکری عدم توازن بھی ہے۔ پاکستان جب وجود میں آیا تو اس کا ایک صوبہ (مشرقی پاکستان) آبادی کے لحاظ سے مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں سے بڑا تھا۔ سول اورملٹری بیوروکریسی کا تعلق مغربی حصے سے تھا جب کہ مڈل کلاس سیاست کا مرکز و منبع مشرقی پاکستان تھا۔ یوں اکثریت کے غالب آجانے کے خوف کے نتیجے میں پیرٹی کا اصول جیسا غیر جمہوری اقدام سامنے آتا ہے اور پھر بنگال کی علیحدگی۔ لیکن یہ توازن آج بھی بگڑا ہوا ہے۔ موجودہ پاکستان میں بھی وہی صورتحال ہے کہ ایک صوبہ اپنی آبادی کے لحاظ سے بقیہ تین صوبوں سے بڑا ہے، جس کی وجہ سے کم و بیش وہی مسائل درپیش ہیں جو 1971سے پہلے متحدہ پاکستان کو درپیش تھے۔

مجموعی طورپر دیکھا جائے تو یہ کتاب پاکستان کے ماضی، حال اور مستقبل کا عمیق علمی جائزہ ہے۔ جس میں ہر قسم کی جانبداری کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، حقائق کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک منصف کی ذہانت اوردور اندیشی کا یہی کمال ہوتا ہے کہ وہ اپنی ذاتی پسند یا نہ پسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، حاصل شدہ شواہد کا باریک بینی کے ساتھ مطالعہ کرے اور پھر انتہائی غیرجانبداری کے ساتھ جائزہ لے کر اسے سینہ قرطاس پر منتقل کرے۔ ڈاکٹر جعفر کی یہی خوبی ہے کہ وہ جذبات کی رو میں بہہ کر نہ مطالعہ کرتے ہیں اور نہ ہی ان کی کسی تحریر سے اس نوعیت کی کوئی جانبداری جھلکتی ہے۔ اس کتاب کو رائل بک کمپنی نے شایع کیا ہے۔ کتاب کی قیمت 1295روپے ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں