ریلوے بہتر ہوئی تو ہے مگر
پونے چار سال میں ریلوے پر مسافروں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور مسافر دوبارہ ریلوے سفر کو ترجیح دینے لگے ہیں
FAISALABAD:
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اپنے محکمے کی کارکردگی بہتر بنانے کے ساتھ سیاسی میدان میں بھی خاصے سرگرم ہیں اور شریف برادران کے ساتھ وفاداری نبھاتے ہوئے ان کے مخالفین کو بھی ایسا جواب دیتے ہیں کہ مخالفین جواب میں محکمہ ریلوے پر تنقید شروع کر دیتے ہیں اور وزیر ریلوے کی کارکردگی پر سوال اٹھانے لگتے ہیں اور خواجہ سعد رفیق کو حکومت کے مخالفین کو دونوں محاذوں پر جواب دینا پڑ رہا ہے۔
جہاں تک وزیر ریلوے کی کارکردگی اور سابق وزیر ریلوے غلام احمد بلور کے ہاتھوں ریلوے کی تباہی اور پونے چار سالوں میں ریلوے کی بحالی کا تعلق ہے اس کا غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو بلاشبہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان ریلوے میں کافی حد تک بہتری آئی ہے مگر ابھی وزیر ریلوے کو باقی عرصے میں بہت کام کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ محکمہ ریلوے میں مزید بہتری لانے کی ضرورت ہے۔ پونے چار سال میں ریلوے پر مسافروں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور مسافر دوبارہ ریلوے سفر کو ترجیح دینے لگے ہیں جس کا واضح ثبوت ریلوے کا خسارے سے نکل کر اپنے پاؤں پرکھڑا ہو جانا، مال گاڑیوں کی بحالی اور ریلوے آمدنی میں اضافہ ہے۔ پاکستان ریلوے کو نئے انجن اور نئی بوگیاں میسر آ رہی ہیں جو اگرچہ کم اور مطلوبہ تعداد کے مطابق تو نہیں مگر حوصلہ افزا ضرور ہیں۔
محکمہ ریلوے کو محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل سے تو بہت بڑا نقصان پہنچا ہی تھا مگر باقی تباہی سابق دور میں ہوئی جس کے نتیجے میں عوام کا ریلوے سے اعتماد ختم ہو گیا تھا اور مسافروں نے ریلوے کا آرام دہ سفر چھوڑ کر مجبوراً پبلک ٹرانسپورٹ میں طویل سفر شروع کر دیا تھا مگر اب خواجہ سعد رفیق کی محنت رنگ لائی ہے اور ٹرینوں پر رش بڑھا ہے اور ہفتوں قبل سفر کے لیے ریزرویشن کرانا پڑتی ہے اور ٹرینوں سے بھی ریلوے کی آمدنی بڑھی ہے تاہم ٹرینوں کی تاخیر جاری ہے۔ سابق دور میں بند کیے جانے والے اندرون ملک ریلوے ٹریک کھلنا شروع ہو گئے ہیں اور نئی ٹرینیں بھی کراچی اسلام آباد کے درمیان چلائی گئی ہیں اور ریلوے کے حالیہ اقدام سے چاروں صوبوں کو ایک ایسی ٹرین میسر آ گئی ہے جو کوئٹہ سے راولپنڈی تک چلا کرتی تھی جسے اب پشاور تک وسعت دے دی گئی ہے۔
راقم نے ذوالفقار علی بھٹو دور میں ایسی ٹرین چلانے کی تجویز دی تھی جو چاروں صوبوں کو کور کرے جو کوئٹہ ایکسپریس ہو سکتی تھی مگر چالیس سال بعد ریلوے کو ایسی ٹرین کا خیال آ ہی گیا اور اب کوئٹہ سے چلنے والی جعفر ایکسپریس سندھ اور پنجاب سے گزر کر کے پی کے کے دارالحکومت پشاور تک جا کر ایسی ٹرین بن گئی ہے جو چاروں صوبوں میں سفر کرے گی۔
حال ہی میں طویل روٹ پر چلنے والی ان ٹرینوں میں جن کی بوگیاں بہت پرانی ہو گئی تھیں ان میں نئی بوگیاں لگائے جانے سے وہ گاڑیاں باہر سے ہی خوبصورت نظر نہیں آتیں بلکہ اندر کا حال بھی بہت بہتر ہو گیا ہے۔ نئی بوگیوں میں اے سی لوئر اور اکانومی کلاس کی بوگیوں کی برتھیں نہ صرف ایک جیسی ہیں بلکہ دونوں میں پردے اور نئے پنکھے لگائے گئے ہیں اور اکانومی کلاس کے باتھ روم دیکھ کر یقین نہیں آتا کہ یہ اکانومی کلاس کے واش روم ہیں۔ کراچی ایکسپریس کے بزنس کلاس میں پانی کے کولر، کمپارٹمنٹس میں لگی ایل سی ڈیز اور واش روم میں ٹوائلٹ ٹشو رول دیکھ کرخوشگوار حیرت ہوتی ہے، جب کہ پہلے ایسا نہیں تھا۔ نئی بوگیوں میں واش رومز کی تعداد چار کی بجائے تین بھی ہے اور اکانومی کلاس میں روشنی کا انتظام بہتر ہے مگر واش روم کے واٹر ٹینک چھوٹے ہونے سے پانی جلد ختم ہو جاتا ہے۔
ریلوے نے اپنی ٹرینوں سے ریستوران بھی ختم کرنا شروع کر دیے ہیں جس کی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ وہاں بغیر ٹکٹ مسافر سفر کرتے ہیں، یہ معقول جواز نہیں ہے۔ ٹرینوں میں ریستوران ختم کرنے سے نشستوں کی تعداد اور ریلوے کی آمدنی تو بڑھ جائے گی مگر مسافروں کو پریشانی ہو گی۔ ٹرینوں کے ریستوران کا کھانا مہنگا مگر پلیٹ فارموں پر لگے اسٹالوں سے پھر بھی بہتر ہوتا ہے جس کی وجہ سے اب ٹرین میں سوار تمام مسافر اسٹالوں سے خریداری کرنے پر مجبور ہوں گے جہاں چائے تک اچھی نہیں ملتی اور کھانا بھی محدود اور مہنگا ہوتا ہے۔ ریلوے سفر تفریح نہیں بلکہ ضرورت اور مجبوری ہے اور طویل سفر کے لیے ٹرینوں کو ترجیح دینی پڑتی ہے مگر ٹرینوں اور پلیٹ فارموں پر لوٹ مچی ہوتی ہے جو کنٹریکٹ پر دیے جاتے ہیں اور ٹرینوں، ریلوے بوگیوں اور اسٹالوں پر جو اشیا فروخت ہوتی ہیں وہ بہت مہنگی فروخت کی جاتی ہیں جنھیں کوئی پوچھنے اور چیک کرنے والا نہیں ہوتا اور لوگ مجبوری میں خریداری کرتے ہیں۔
ریلوے ریستوران کے علاوہ ٹرینوں میں گارڈز، چیکرز اور پولیس اہلکاروں کو جو جگہ حاصل ہوتی ہے اس میں متعلق افراد بغیر ٹکٹ مسافروں کو سفر کراتے ہیں اور ایسے مسافروں سے کرایہ خود وصول کرتے ہیں اور ایسے مسافروں کو متعلقہ اسٹیشنوں کے گیٹ خود کراس کروا کر ریلوے کو نقصان پہنچاتے آئے ہیں۔ ریلوے ریستوران میں بعض مسافر ٹکٹ لے کر محض سیٹ مل جانے کے لیے بھی سفر کرتے ہیں اور سب بغیر ٹکٹ نہیں ہوتے تو بغیر ٹکٹ مسافروں کو وہاں چیک کیوں نہیں کیا جاتا جس کے ذمے دار متعلقہ چیکر ہیں اس بنیاد پر ریلوے ریستوران ختم نہیں ہونے چاہئیں۔
ریلوے سفر میں مسافروں کو کرائے پر گرم شالیں، تکیے اور چادریں بھی دی جاتی ہیں جن کے منہ مانگے کرائے وصول کیے جاتے ہیں جن کے نرخ مقرر نہیں ہیں اور ریلوے نے اپنے ٹھیکیداروں کو ریلوے مسافروں کو لوٹنے کی مکمل چھوٹ دے رکھی ہے۔ جب ریلوے کے کرائے مقرر ہیں تو ٹرینوں میں فروخت ہونے والی اشیا اور پلیٹ فارموں پر کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں اور معیار بھی طے ہونا ضروری ہے تا کہ مسافر لٹنے سے بچ سکیں۔ پاکستان ریلوے کا بہتری کی طرف سفر جاری ہے اور ریلوے مسافروں کو سہولتیں بھی فراہم کر رہی ہے اب اکنامی کلاس کی نئی بوگیوں میں بھی دوران سفر صفائی بھی کرائی جانے لگی ہے مگر ریلوے سفر کو محفوظ بنانے کی زیادہ ضرورت ہے۔
گزشتہ عرصے میں ٹریک اور ریلوے پھاٹکوں پر حادثات بھی بڑھے ہیں جو اگر متعلقہ ریلوے عملے کی غفلت سے ہی ہوں مگر بدنام محکمہ ریلوے ہوتا ہے اور وزیر ریلوے ہی کو ذمے دار قرار دے کر مخالفین ان سے استعفیٰ مانگتے ہیں مگر خامیوں کی نشاندہی کے ساتھ اچھی کارکردگی کو بھی کچھ نہ کچھ سراہا جانا چاہیے۔ ریلوے ملازمین میں احساس ذمے داری پیدا کرکے حادثات کا تدارک کیا جا سکتا ہے۔ حادثے کے بعد کارروائی سے پہلے حادثے کا سدباب ہونا ضروری اور غفلت پر سزا بھی ہونی چاہیے۔