ڈونلڈ ٹرمپ کی ریاض آمد
صدر ٹرمپ نے ریاض میں جو تقریر کی وہ ایران کے خلاف زبردست محاذ آرائی کی تصویر تھی
دنیا کے سیاسی حلقوں کو ڈونلڈ ٹرمپ کی ریاض آمد کا خاصا انتظار تھا، بالآخر اتوار 21 مئی کو دنیا کی اہم جمہوری ریاست، امن سلامتی اور انسانی حقوق کے علمبردار سعودی دارالحکومت ریاض پہنچے ،ان کے ساتھ ان کی اہلیہ اور کابینہ کے اراکین اور ان کے مشیر خاص ان کے داماد بھی تھے۔ سعودی عرب کے حکمران شاہ سلیمان اور ان کی کابینہ کے اراکین نے والہانہ استقبال کیا۔
صدر ٹرمپ نے ریاض میں جو تقریر کی وہ ایران کے خلاف زبردست محاذ آرائی کی تصویر تھی۔کیونکہ انھیں ریاض میں ایک بہت بڑے کاروباری سودے کی ڈیل کرنی تھی سو وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ فوری طور پر انھوں نے 110 بلین ڈالرکا اسلحہ فروخت کیا اور آیندہ دس برسوں میں 350 بلین ڈالر کا سودا کیا جس پر امریکی وہائٹ ہاؤس کے سیکریٹری ریکس ٹیلرسن نے دستخط کیے۔ بقول ٹرمپ کے یہ ایرانی خطرات سے بچاؤ کے لیے اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے تھے۔ اس کے علاوہ بلیک ہاک (Black Hawk) ہیلی کاپٹرکی اسمبلنگ پلانٹ کی تیاری کا معاہدہ تھا، ظاہر ہے یہ ایسی ڈیل تھی جس کے خلاف ٹرمپ خود اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکی عوام کو بے وقوف بناتے رہے کیونکہ مسٹر ٹرمپ عوام کو بھائی چارے کا درس دیتے رہے، وہ ہمیشہ پراکسی وار کے ذریعے سے ہی اسلحہ فروخت کرتے ہیں۔ پاکستان میں اس تقریر پر کسی لیڈر کا کوئی واضح ردعمل نہ آیا۔
ماسوائے عمران خان کے جنھوں نے علاقے میں بگڑتی ہوئی مستقبل کی صورتحال پر واضح بیان دیا اور یاد دلایا کہ موجودہ صورتحال خارجہ حکمت عملی کے اعتبار سے بہتر نہیں ہے، عالمی صورت پر اگر کوئی تبصرہ سامنے آیا تو جس کو غیر جانبدار تبصرہ کہہ سکتے ہیں وہ مسٹر کوفی عنان کا ہے جو اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل تھے۔ بقول کوفی عنان مسٹر ٹرمپ کی ایران کے خلاف جارحانہ تقریر اچھا عمل نہ تھا بقول ان کے ایران سے گفت وشنید کی پالیسی جاری رکھنے کی ضرورت ہے، جو مشرق وسطیٰ کی کلیدی اہم جمہوری قوت ہے۔ اس کو الگ تھلگ کرکے مسائل کو خراب کرنا ہے۔ ایسے موقعے پرکوفی عنان کا بیان بہت اہمیت کا حامل ہے جب کہ مسٹر ٹرمپ کے بیان پر ایرانی حکومت کا موقف یہ تھا کہ اس کے وزارت خارجہ نے پریس ٹی وی پر یہ بیان دیا کہ دنیا جانتی ہے کہ نائن الیون کرنے والے کون تھے اور دنیا میں اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنے والے لوگوں کو کون اسلحہ اور تربیت فراہم کر رہا ہے۔ صدر بش نے حکومت بدلنے کا بیرونی فلسفہ عام کیا جس کو Regime Change رجیم چینج نام دیا گیا۔
بہرحال افسوس کا مقام ہے ہر قسم کی قتل وغارت گری مسلم ممالک میں ہورہی ہے اور اس کی پشت پناہی کون کررہا ہے۔ پاکستان نے سی پیک کا معاہدہ کیا چین اور روس کو قریب کیا مگر اب پھرکون سا رخ اختیار کرے گا ،کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ جب جوانی کے دن تھے تو تحریکیں چلائیں اور پاکستان کو امریکی غلامی سیٹو اور سینٹو سے نجات دلائی، مسٹر ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو آزادی کا رخ دکھایا مگر اب پھر امریکی اثرات گھیرا تنگ کر رہے ہیں۔ ہمیں یاد ہے زیادہ دن نہیں ہوئے جب اسلامی فوجی اتحاد بنا تو یہ بات ہمارے اخباروں میں آئی تھی کہ یہ اتحاد پاکستان، ایران اور سعودی عرب میں دوستانہ تعلقات قائم کرنے میں مدد دے گا، مگرکچھ ایسا لگ رہا ہے یہ معاملہ کھٹائی میں پڑگیا اور صرف ایرانی بارڈر ہی پرسکون تھا وہ بھی اختلاف کی سمت جا رہا ہے، خدا کرے کہ حکومت فوری طور پر تدبیرکرے اور معاملہ سلجھ جائے مگر یہ ضرور ہوا ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین الفاظ کی کوئی جنگ فی الحال نہیں ہو رہی ہے۔ جیساکہ سعودی عرب اور ایران الفاظ کی جنگ میں مبتلا ہیں اور اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
مسٹر ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ کا دورہ یقینا امریکا کے لیے خوش آیند ہے مگر شرق اوسط میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے مابین اختلافات میں اضافہ ہوا ہے، یہ منظر بحرین میں نظر آتا ہے جب ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل پہنچے اور ناتن یاہو کی پذیرائی کی۔ اسی روز بحرین میں الخلیفہ نامی حاکموں نے جو سعودی حکومت کے اتحادی ہیں انھوں نے بحرین کے ایک روحانی پیشوا شیخ عیسیٰ قاسم کے گاؤںمیں کارروائی کی۔ ایک رپورٹ کے مطابق 23 مئی کو بحرین کے کئی علاقوں میں زبردست مظاہرے ہوئے اس کے ردعمل کے طور پر عراق میں بھی مقتدا صدر جو ایک عسکری محاذ کی فورس کے سربراہ ہیں انھوں نے بغداد میں بحرین کے سفارت خانے کے خلاف مظاہرہ کیا۔ نجف میں بھی زبردست مظاہرے ہوئے۔ عراقیوں کا خیال ہے اور ایرانی سیاستدانوں کا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی شے پر بحرین کا معاملہ اٹھایا گیا ہے۔کیونکہ ٹرمپ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والوں کی حمایت کی ہے۔
ظاہر ہے ڈونلڈ ٹرمپ کی آمد کے بعد خطے میں کشیدگی کی ایک نئی لہر آئی ہے اور ان کے مقاصد پورے ہو رہے ہیں اس طرح جو ہتھیار فروخت کیے گئے ہیں وہ امریکا کی معاشی کامیابی ہے، جب کہ دوسری طرف غزہ میں اس دن بھی فلسطینی مظاہرین باہر نکلے جب مسٹر ٹرمپ نے اسرائیل میں قیام کیا اور جو فلسطینی اسرائیل کی قید میں 16 مئی سے بھوک ہڑتال پر ہیں ان کی حالت نازک ہو چکی ہے اور ان کو اسپتال میں داخل کرادیا گیا ہے۔ اس طرح مسلمان دو حصوں میں تقسیم ہوچکے ہیں گویا مسلمان دنیا آپس کے انتشار میں مبتلا ہوگئی ہے اسی لیے داعش اور القاعدہ کی جانب سے گزشتہ 5 برسوں میں کوئی بھی حملہ اسرائیل پر نہیں کیا گیا اور آپس میں مسلمان دست وگریباں ہوچکے ہیں یہ ہے مسلم امہ کا المیہ۔
حنان الخطیب جو فلسطینی بھوک ہڑتالیوں کے ہیومن رائٹس کمیشن اور ان کے وکیل ہیں ان کا بیان ہے کہ اسرائیل کی جیلوں میں بجلی بند ہے اور گرمی میں فلسطینی قیدیوں کی حالت بہت خراب ہے وہ کپڑے بدلنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ واضح رہے کہ ایسا ہی ایک واقعہ بھوک ہڑتال کا فلسطینی نوجوانوں نے 2012 میں بھی کیا تھا جس میں تقریباً 2000 بھوک ہڑتالی شریک تھے۔ جو بعد میں عالمی دباؤ کے نتیجے میں ختم ہوا تھا، مگر اب پھر ڈونلڈ ٹرمپ کی کمک کی وجہ سے اسرائیل کر رہا ہے ۔ حالانکہ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے جب انتخابات ہونے کو تھے تو ڈونلڈ ٹرمپ اپنی ان پالیسیوں کے خلاف تھے مگر انتخابات میں کون کیا وعدہ کرتا ہے اور اس کوکب وفا کرتا ہے کون پوچھنے والا ہے۔
مگر اس صورتحال پر قطرکے امیر نے سعودی عرب پر الزام لگایا ہے کہ (QNA) قطر نیوز ایجنسی نے بتایا ہے کہ سعودی عرب بے موقع ایران سے تعلقات کشیدہ کر رہا ہے۔ شیخ تمیم بن حماد کے نام سے جو خبر ہیک کی گئی ہے اس میں کہا گیا ہے کہ خطے میں امن کو تباہ کرنا نامناسب ہے۔ ظاہر ہے اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلم امہ خود کنفیوژ ہے۔ اس خبر میں کیا صداقت ہے کیونکہ (RT) نے اس خبر کو ہیک کہہ کر شایع کیا ہے مگر جو بھی ہے سب مسلم امہ کی ابتری کی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں۔
موجودہ سیاسی صورتحال کا اگر ہم جائزہ لیں تو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جلد یا بدیر صورتحال تصادم کی طرف بڑھ رہی ہے۔ جس میں امریکا اور ان کے حواری اور روس چین اور ان کے ساتھی مدمقابل ہوسکتے ہیں تو ایسی صورت میں ہمیں غیر جانبدار ہونا پڑے گا کیونکہ ماضی میں طالبان کی حمایت ہم کو کافی مہنگی پڑی تھی اور اس پر حکومت بھی کافی کنفیوژ رہی ہے۔