بلوچ قوم مایوسی کا شکار
اکثریت بلوچ عوام کو تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے اور رکھا جارہا ہے
کسی بھی اہل قلم کے لیے لازم ہے کہ وہ جب بھی قلم اٹھائے تو غیر جانب داری سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ صداقت بیان کرے، لیکن اگر کوئی اہل قلم جانب داری سے کام لیتا ہے تو وہ قلم کار خود اپنا احتساب کرے کہ کیا وہ اپنے قلم کا ٹھیک استعمال کر رہا ہے؟ یا پھر اس کا قلم اپنی حد سے تجاوز کر رہا ہے؟ کیونکہ جانبداری سے اپنے قلم کا استعمال گویا اپنی حدود سے تجاوز کے مترادف ہی تو ہے۔
13 مئی 2017ء کو جب سانحہ پشکان و گنت پیش آیا جس میں 10 محنت کش شہید ہوئے تو میں نے اس سانحہ کے بارے میں ایک کالم لکھا، جوکہ 19 مئی 2017ء کو روزنامہ ایکسپریس کراچی میں چھپا۔ میرے اس کالم کو پڑھنے کے بعد میرے چند بلوچ دوستوں نے مجھ سے شکوہ کیا کہ تم لکھنے والے جانبداری سے کام لیتے ہو۔ ٹھیک ہے اس طرح محنت کشوں کا قتل ہونا قابل مذمت فعل ہے، یہ ٹھیک ہے کہ تم لکھنے والوں نے اس قسم کے واقعات کے بعد مذمتی کالم لکھے مگر یہ بھی تو لکھو کہ عام بلوچ کن حالات سے گزر رہا ہے۔
میرے ان بلوچ دوستوں کا شکوہ جائز تھا۔ چنانچہ آج کی نشست میں ہم کوشش کریں گے کہ بلوچ بھائیوں کو درپیش مسائل پر بات کریں۔ تو سب سے پہلے ذکر صوبہ بلوچستان میں مقیم بلوچ بھائیوں کا۔ ان غیور بلوچوں کے جو مسائل ہیں یا دوسرے الفاظ میں بلوچستان میں آباد بلوچ جن مسائل سے دوچار ہیں ان مسائل کا سامنا یہ لوگ صدیوں سے کر رہے ہیں، سب سے اہم مسئلہ ہے غربت۔ چنانچہ یہ پورے وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں غربت کی شرح دیگر تین صوبوں سے سب سے زیادہ ہے۔
میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ عام بلوچ کی خوراک ہے سوکھی روٹی، پیاز کے ساتھ۔ البتہ اگر کسی کا دل چاہے کہ آج کچھ اچھا کھا لوں تو پھر اس کی اس روز خوراک ہوگی سوکھی روٹی کے ساتھ چٹنی۔ اس عریاں غربت سے ہم اس وقت آگاہ ہوئے جب کہ 2008-09ء میں ہم خود غم روزگار کے سلسلے میں صوبہ بلوچستان گئے۔ فقط اتنا عرض کروں گا کہ ہمارے ساتھ کام کرنے والے ایک بزرگ محنت کش نے یہ کہا کہ آج میں ذرا جلدی چھٹی لے کر اپنی بیٹی کے پاس اس کے گاؤں جاؤں گا۔ خیر اگلے روز تھوڑا تاخیر سے وہ بزرگ آدمی اپنے کام پر آگئے۔ باتوں باتوں میں ذکر کرنے لگے کہ میری بیٹی نے گویا فرمائش کی تھی کہ ابا! جب مجھ سے ملنے آؤ تو ایک کلو آلو لیتے آنا کہ بہت روز ہوئے روکھی سوکھی روٹی کھاتے ہوئے، اب ذرا سالن سے روٹی کھانے کا دل چاہ رہا ہے۔ یہ ہے غربت کا عالم کہ شادی شدہ بیٹی باپ سے آلو لانے کی فرمائش کر رہی ہے۔
دوم جو مسئلہ ان بلوچوں کو درپیش ہے، وہ تعلیم کا ہے۔ اکثریت بلوچ عوام کو تعلیم سے محروم رکھا گیا ہے اور رکھا جارہا ہے۔ سوم مسئلہ ہے صحت کی سہولیات کا۔ پورے صوبہ بلوچستان میں کوئٹہ سمیت کوئی ایسا اسپتال نہیں جہاں پر علاج کی مکمل سہولیات میسر ہوں۔ البتہ اگر نجی علاج گاہیں ہیں تو یہ ممکن ہی نہیں ان نجی علاج گاہوں کے اخراجات یہ غریب بلوچ برداشت کر پائیں۔ چنانچہ اس کیفیت میں علاج کی سہولیات بھی گویا ندارد۔ ان حالات میں لباس کی کیا کیفیت ہے، تو بس ستر پوشی ہوجائے تو کافی ہے۔ رہائش کی کیفیت یہ ہے کہ مٹی کی دیواریں، گھاس پھوس کی چھت، ہو گیا رہائش کا مسئلہ بھی حل۔ چہارم مسئلہ ہے روزگار کا، تو اس سلسلے میں بھی آج تک کسی بھی حکومت نے اس مسئلے پر غور ہی نہیں کیا کہ ان غریب بلوچوں کو بھی روزگار کی ضرورت ہے۔
گویا یہ لوگ خودکار روزگار اسکیم کے تحت خود ہی روزگار تلاش کرتے ہیں، مل گیا تو ٹھیک، بصورت دیگر اپنی قسمت کا شکوہ کرتے رہو۔ پنجم مسئلہ جو ان بلوچوں کو درپیش ہے وہ بڑا ہی حساس معاملہ ہے، یا بنادیا گیا ہے۔ یہ وہ مسئلہ ہے جس کا یہ غریب گزشتہ 11 برس سے سامنا کر رہے ہیں، وہ مسئلہ ہے بلوچستان میں امن و امان کا۔ جن لوگوں نے یہ امن و امان کا مسئلہ پیدا کیا ہے ان لوگوں کے بارے میں عمومی طور پر دو رائے پائی جاتی ہے، ایک طبقہ ان لوگوں کو حریت پسند کہتا ہے تو دوسرا طبقہ ان لوگوں کو دہشتگرد کہتا ہے۔ ظاہر ہے یہ مسئلہ دیگر مسائل سے جڑا ہوا ہے۔ مطلب یہ اگر دیگر مسائل نہ ہوتے تو یہ مسئلہ پیدا نہ ہوتا، البتہ اس مسئلے نے ایک اور مسئلے کو جنم دیا ہے، وہ مسئلہ ہے بلوچ نوجوانوں کا اغوا ہونا اور پھر کچھ عرصے بعد ان نوجوانوں کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا۔ اس مسئلے کا ذمے دار کون ہے؟ ہم کوئی بھی رائے دینے سے قاصر ہیں، البتہ یہ ضرور عرض کریں گے خدارا یہ مسخ شدہ لاشیں ملنے کا سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔ کیونکہ یہ غیر انسانی عمل کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں۔
بلوچستان کے بعد ذکر کرتے ہیں کراچی کے علاقے لیاری کا، جہاں اکثریت کالی رنگت مگر خوبصورت دل والے لوگ آباد ہے۔ روزگار، تعلیم، سماجی امن، گویا ان لوگوں سے چھین لیا گیا ہے، بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ان تینوں چیزوں کو لیاری کے بلوچوں سے دور رکھا گیا ہے۔ اسی باعث غربت، جہالت و جرائم نے لیاری میں خوب نشو و نما پائی ہے۔ امن و امان میں خلل لیاری کا دیرینہ مسئلہ رہا ہے اور ہے۔ برس ہا برس ہوئے ہیں کہ لیاری میں جرائم پیشہ گروہوں کی چپقلش جاری ہے، ان دو گروہوں کے سرپرستوں کو گینگ وار کا سرغنہ کہا جاتا ہے، حد تو یہ ہے اگر ایک گینگ وار کا سرغنہ دنیا سے بھی اٹھ جائے تو اس کا جانشیں فوراً اس کی جگہ لے لیتا ہے، اس طرح لیاری میں قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ رواں دواں رہتا ہے۔
ظاہر ہے اس دو طرفہ لڑائی کا جانی نقصان بلوچوں ہی کا ہوتا ہے۔ اب آخر میں ذکر گڈاپ و ملیر میں ان قدیم ترین آباد بلوچوں کا۔ ان غریب بلوچوں کا مسئلہ یہ ہے کہ رہائشی اسکیموں کی تعمیر کی غرض سے ان قدیم باشندوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کیا جا رہا ہے۔ ان قدیم باشندوں کی زرعی و رہائشی اراضی کی اونے پونے داموں قیمت ادا کی جاتی ہے۔ البتہ جو لوگ اپنی زمین سے دست بردار ہونے سے انکار کریں تو پھر ان لوگوں کا جن کی اکثریت بلوچوں پر مشتمل ہے، مقدر بنتا ہے دھونس دھمکی و جھوٹے مقدمے۔ ان بلوچوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے والے لوگ نامور ترین رہائشی اسکیموں کے مالکان یعنی بلڈرز یا پھر وہ سیاستدان و ان سیاستدانوں کے قائدین ہیں، جو ان غریبوں کے ووٹوں کی بدولت اقتدار کے ایوانوں تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔
تسلیم کہ بلوچ مہمان نواز جفاکش و بہادر قوم ہے مگر یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ عصر حاضر میں بلوچ قوم مایوسی کا شکار ہے اور زخم خوردہ بھی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ قوم کے زخموں پر مرہم رکھا جائے، بلوچوں کے جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں اور ان کو تمام قانونی حقوق دیے جائیں۔ گڈاپ و ملیر سے بلوچوں کی بے دخلی بند کی جائے، جن زمینوں سے ان کو بے دخل کیا گیا ہے ان زمینوں پر ان بلوچوں کو بحال کیا جائے، لیاری سے گینگ وار ختم اور مکمل امن قائم کیا جائے، بلوچستان سے سرداری نظام کا مکمل خاتمہ کرکے ترقی کا عمل شروع کیا جائے، اغوا کرکے لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔ یاد رہے جس سماج میں جبر حد سے بڑھ جائے اور سماجی ترقی نہ ہو یعنی سماجی تبدیلی ناممکن ہوجائے اس سماج کے لوگ جغرافیائی تبدیلی کے لیے غور کرتے ہیں۔