جھوٹ کے بغیر سیاست کیوں نہیں
1988ء سے اب تک قائم ہونے والی پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور (ق) سمیت سات حکومتوں پرکرپشن کے الزامات لگے
GWADAR:
ملک کی سیاست میں کرپشن کا جو واویلا مچا ہوا ہے یہ صرف (ن) لیگ کی حکومت میں نہیں مچا بلکہ کرپشن کا شور 1988ء میں برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت سے شروع ہوگیا تھا جب کہ اس سے قبل اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں غیر جماعتی بنیاد پر عام انتخابات کرائے تھے جس کے نتیجے میں ایک اچھی شہرت کے حامل، سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی سیاست دان محمد خان جونیجو کو سیاسی وزیر اعظم بنایا تھا جن کی حکومت جنرل ضیا الحق نے کرپشن کے الزام میں برطرف کی تھی اور نہ کسی بھی جانب سے ان کی حکومت پرکرپشن کا کوئی الزام لگا تھا۔
1988ء سے اب تک قائم ہونے والی پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور (ق) سمیت سات حکومتوں پرکرپشن کے الزامات لگے اور کرپشن کے الزام میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی 1999ء تک چاروں حکومتیں فوجی اور سویلین صدور کی طرف سے برطرف کی گئیں۔ (ن) لیگ اور پی پی کے بعد کی دونوں حکومتیں اپنی مقررہ مدت مکمل کر کے اقتدار سے الگ ہوئیں مگر ان پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات لگے، جنرل مشرف کی صدارت میں ان کے تین وزرائے اعظم ظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت اور شوکت عزیز پرکرپشن کے الزام میں کوئی مقدمہ نہیں چل رہا جب کہ صدر زرداری دور کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضاگیلانی پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے اوران سمیت سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔
کرپشن کے الزام میں موجودہ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم جے آئی ٹی تحقیقات کررہی ہے اور سپریم کورٹ کے دو سینئر جج قرار دے چکے ہیں کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں جب کہ ان کے متعلق مزید فیصلہ ابھی ہونا ہے۔
سیاست جس کی بنیاد کبھی عوام کی خدمت ہوا کرتی تھی اب گزشتہ 50 برسوں سے جھوٹ سیاست کی بنیاد بنا ہوا ہے اور ملک کا کوئی بھی سیاسی اور مذہبی رہنما جھوٹ کے الزام سے محفوظ نہیں ہے اور جھوٹ موجودہ سیاست کا اہم عنصر بن کر رہ گیا ہے۔ جس کے بغیر لگتا ہے کہ سیاست ہوسکتی ہے نہ چل سکتی ہے اور ملک میں شاید ہی کوئی سیاسی ومذہبی رہنما ہو جو جھوٹ نہ بولتا ہو۔کم یا زیادہ سارے ہی سیاستدانوں کی پارٹیاں ان کی سیاست میں جھوٹ موجود ہے جب کہ تمام سیاسی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ ان کی حکومتیں جھوٹ کے بغیر چل ہی نہیں سکتیں اور جھوٹ تمام حکومتوں کا پہلا اور بنیادی منشور بن کر رہ گیا ہے اور ہر سیاستدان اور حکومت جھوٹ کی بنیاد پر عوام سے جھوٹے وعدے کرکے انھیں جھوٹے دلاسے دے کر نہ صرف عوام کو گمراہ کرتے آرہے ہیں اور اپنے اپنے جھوٹوں کے باعث اپنی ساکھ بھی خراب کر رہے ہیں۔
پاکستان کے آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کے مطابق عوام کے منتخب نمایندوں کا صادق وامین ہونا لازمی ہے وگرنہ وہ عوامی عہدے پر رہنے کے اہل نہیں رہ سکتے مگر 1973ء میں اس آئین کے نفاذ کے بعد 44 سال میں ایک بھی عوامی نمایندہ صادق و امین نہ ہونے کی وجہ سے نااہل نہیں ہوا اور ملکی تاریخ میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے برسراقتدار وزیراعظم کے متعلق کہا ہے کہ وہ صادق وامین نظر نہیں آتے۔ ملکی تاریخ میں تو اب تک کوئی کونسلر تک صادق وامین نہ ہونے کے باعث کبھی نااہل قرار نہیں پایا اور سپریم کورٹ آنے والے دنوں میں جب وزیراعظم کی اہلیت کا فیصلہ کرے گی تو اس کے بعد ممکن ہے سیاست میں کچھ خوف وہراس پیدا ہو اور سیاست میں جھوٹ بولنا کم ہوجائے۔
پاکستان کی سیاست میں اگرکوئی اتفاق ہے تو وہ صرف جھوٹ پر ہی نظر آتا ہے اور ہر سیاسی رہنما جھوٹ کو اپنا بنیادی حق بنائے بیٹھا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جتنا جھوٹ بولے گا اس کی سیاست اتنی ہی کامیاب ہوگی اور جھوٹے وعدے ہی اسے سیاسی کامیابی بخشیں گے اورجھوٹ ہی اسے اقتدار تک پہنچائے گا۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد ملکی سیاست میں جھوٹ کا جو سیلاب اب طوفان بن کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیر اعظم کو گھیرے ہوئے ہے اس کی ابتدا میاں نواز شریف نے کی تھی جس کی انتہا ایمانداروں اورکرپشن سے پاک ہونے کے دعویدار تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کردی ہے اور انھوں نے اپنی سیاست میں جھوٹ کو سب سے زیادہ فروغ دیا ہے جس سے خود ان کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے مگر اب وہ بھی سیاست میں زندہ رہنے کے لیے جھوٹ کو اپنا منشور اولین بنانے پر مجبور ہوچکے ہیں جس کی ان کے پسند کرنے والوں کو توقع نہیں تھی۔ عمران خان اور نواز شریف سے قبل جب بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی مبینہ ملکیت سرے محل لندن کا معاملہ سامنے آیا تھا تو دونوں نے سرے محل سے اپنے تعلق کی واضح طور پر تردید اور لاتعلقی ظاہرکی تھی اور اسی طرح دونوں نے سوئٹزرلینڈ میں اپنی مبینہ کرپشن سے کمائے گئے مال کی موجودگی سے انکار کیا تھا۔ سوئٹزر لینڈ کی دستاویزات صدر زرداری کے دور میں گاڑیوں میں بھر کر لے جائے جانے کی فوٹیج میں قوم نے خود دیکھا تھا مگر حکمران لاتعلق بنے ہوئے تھے اور جھوٹ پر قائم رہے۔
میاں نواز شریف اقتدار سے محرومی کے بعد جنرل پرویز مشرف سے اپنی دس سالہ جلاوطنی کا معاہدہ کرکے سعودی عرب گئے تھے مگر انھوں نے کبھی اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا اور 2007ء میں جب انھوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے وطن آنا چاہا تو لاہور آکر ان کے غیر ملکی ضامنوں کو مداخلت کرنا پڑی تھی اور وہ انھیں معاہدے پر عمل کرنے کا پابند کرکے واپس لے گئے تھے۔ قوم میاں صاحب کی یہ مجبوری اور معاہدے کی وجوہات جانتی تھی مگر میاں صاحب جھوٹ پر برقرار رہے اگر وہ مجبوری میں کیے گئے معاہدے کا اعتراف کرلیتے تو ان کی سیاست ختم نہیں ہوجانی تھی بلکہ سچائی کے اعتبار پر ان کی عزت بڑھتی مگر انھوں نے کبھی معاہدے کا اعتراف نہیں کیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تیسری سیاسی قومی شخصیت کے طور پر 2013ء میں سامنے آئے تھے جنھیں 2013ء میں اقتدار میں آجانے کا سو فیصد یقین تھا مگر ناکامی پر انھوں نے الیکشن کمیشن، مسلم لیگ (ن) اور قومی اداروں پر الزامات لگانا اپنا منشور بنالیا اور انتخابی نتائج قبول نہ کرکے الزامات کی سیاست شروع کردی اور اس سلسلے میں اسلام آباد میں طویل اور بے مقصد دھرنا بھی دیا جس میں وہ نواز شریف سے استعفیٰ لے کر جانے سمیت نئے نئے اعلانات کرتے رہے اور اپنے صوبے میں اے پی ایس سانحہ کے نتیجے میں دھرنا ختم کرکے عزت بچانے میں ناکام رہے۔
انھوں نے پہلے 35 پنکچروں کا الزام لگایا پھر اسے سیاسی بیان قرار دے دیا اور دیگر غلط الزامات کے ساتھ حال ہی میں پانامہ پر خاموش رہنے کے لیے دس ارب روپے کی پیشکش کا الزام لگا کر اپنی پوزیشن مزید خراب کرلی۔ پانامہ لیکس کے بعد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے درمیان ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات لگانے کا مقابلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی رہنما جھوٹے الزامات لگا کر منحرف بھی ہو رہے ہیں مگر جھوٹ بند نہیں ہو رہا اور قوم صادق و امین ہونے کے دعویداروں کا تماشا دیکھ رہی ہے اور سوچ رہی ہے کہ کیا جھوٹ کے بغیر سیاست نہیں کی جا سکتی۔
ملک کی سیاست میں کرپشن کا جو واویلا مچا ہوا ہے یہ صرف (ن) لیگ کی حکومت میں نہیں مچا بلکہ کرپشن کا شور 1988ء میں برسر اقتدار آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت سے شروع ہوگیا تھا جب کہ اس سے قبل اس وقت کے فوجی صدر جنرل ضیا الحق نے 1985ء میں غیر جماعتی بنیاد پر عام انتخابات کرائے تھے جس کے نتیجے میں ایک اچھی شہرت کے حامل، سندھ سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی سیاست دان محمد خان جونیجو کو سیاسی وزیر اعظم بنایا تھا جن کی حکومت جنرل ضیا الحق نے کرپشن کے الزام میں برطرف کی تھی اور نہ کسی بھی جانب سے ان کی حکومت پرکرپشن کا کوئی الزام لگا تھا۔
1988ء سے اب تک قائم ہونے والی پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) اور (ق) سمیت سات حکومتوں پرکرپشن کے الزامات لگے اور کرپشن کے الزام میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی 1999ء تک چاروں حکومتیں فوجی اور سویلین صدور کی طرف سے برطرف کی گئیں۔ (ن) لیگ اور پی پی کے بعد کی دونوں حکومتیں اپنی مقررہ مدت مکمل کر کے اقتدار سے الگ ہوئیں مگر ان پر بھی کرپشن کے سنگین الزامات لگے، جنرل مشرف کی صدارت میں ان کے تین وزرائے اعظم ظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت اور شوکت عزیز پرکرپشن کے الزام میں کوئی مقدمہ نہیں چل رہا جب کہ صدر زرداری دور کے دونوں وزرائے اعظم یوسف رضاگیلانی پر کرپشن کے سنگین الزامات لگے اوران سمیت سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف پر کرپشن کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔
کرپشن کے الزام میں موجودہ وزیراعظم نواز شریف کے خلاف سپریم کورٹ کی ہدایت پر قائم جے آئی ٹی تحقیقات کررہی ہے اور سپریم کورٹ کے دو سینئر جج قرار دے چکے ہیں کہ نواز شریف صادق اور امین نہیں ہیں جب کہ ان کے متعلق مزید فیصلہ ابھی ہونا ہے۔
سیاست جس کی بنیاد کبھی عوام کی خدمت ہوا کرتی تھی اب گزشتہ 50 برسوں سے جھوٹ سیاست کی بنیاد بنا ہوا ہے اور ملک کا کوئی بھی سیاسی اور مذہبی رہنما جھوٹ کے الزام سے محفوظ نہیں ہے اور جھوٹ موجودہ سیاست کا اہم عنصر بن کر رہ گیا ہے۔ جس کے بغیر لگتا ہے کہ سیاست ہوسکتی ہے نہ چل سکتی ہے اور ملک میں شاید ہی کوئی سیاسی ومذہبی رہنما ہو جو جھوٹ نہ بولتا ہو۔کم یا زیادہ سارے ہی سیاستدانوں کی پارٹیاں ان کی سیاست میں جھوٹ موجود ہے جب کہ تمام سیاسی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے ثابت کر دکھایا ہے کہ ان کی حکومتیں جھوٹ کے بغیر چل ہی نہیں سکتیں اور جھوٹ تمام حکومتوں کا پہلا اور بنیادی منشور بن کر رہ گیا ہے اور ہر سیاستدان اور حکومت جھوٹ کی بنیاد پر عوام سے جھوٹے وعدے کرکے انھیں جھوٹے دلاسے دے کر نہ صرف عوام کو گمراہ کرتے آرہے ہیں اور اپنے اپنے جھوٹوں کے باعث اپنی ساکھ بھی خراب کر رہے ہیں۔
پاکستان کے آئین کی شق باسٹھ اور تریسٹھ کے مطابق عوام کے منتخب نمایندوں کا صادق وامین ہونا لازمی ہے وگرنہ وہ عوامی عہدے پر رہنے کے اہل نہیں رہ سکتے مگر 1973ء میں اس آئین کے نفاذ کے بعد 44 سال میں ایک بھی عوامی نمایندہ صادق و امین نہ ہونے کی وجہ سے نااہل نہیں ہوا اور ملکی تاریخ میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ججوں نے برسراقتدار وزیراعظم کے متعلق کہا ہے کہ وہ صادق وامین نظر نہیں آتے۔ ملکی تاریخ میں تو اب تک کوئی کونسلر تک صادق وامین نہ ہونے کے باعث کبھی نااہل قرار نہیں پایا اور سپریم کورٹ آنے والے دنوں میں جب وزیراعظم کی اہلیت کا فیصلہ کرے گی تو اس کے بعد ممکن ہے سیاست میں کچھ خوف وہراس پیدا ہو اور سیاست میں جھوٹ بولنا کم ہوجائے۔
پاکستان کی سیاست میں اگرکوئی اتفاق ہے تو وہ صرف جھوٹ پر ہی نظر آتا ہے اور ہر سیاسی رہنما جھوٹ کو اپنا بنیادی حق بنائے بیٹھا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جتنا جھوٹ بولے گا اس کی سیاست اتنی ہی کامیاب ہوگی اور جھوٹے وعدے ہی اسے سیاسی کامیابی بخشیں گے اورجھوٹ ہی اسے اقتدار تک پہنچائے گا۔
2013ء کے عام انتخابات کے بعد ملکی سیاست میں جھوٹ کا جو سیلاب اب طوفان بن کر مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور وزیر اعظم کو گھیرے ہوئے ہے اس کی ابتدا میاں نواز شریف نے کی تھی جس کی انتہا ایمانداروں اورکرپشن سے پاک ہونے کے دعویدار تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کردی ہے اور انھوں نے اپنی سیاست میں جھوٹ کو سب سے زیادہ فروغ دیا ہے جس سے خود ان کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے مگر اب وہ بھی سیاست میں زندہ رہنے کے لیے جھوٹ کو اپنا منشور اولین بنانے پر مجبور ہوچکے ہیں جس کی ان کے پسند کرنے والوں کو توقع نہیں تھی۔ عمران خان اور نواز شریف سے قبل جب بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کی مبینہ ملکیت سرے محل لندن کا معاملہ سامنے آیا تھا تو دونوں نے سرے محل سے اپنے تعلق کی واضح طور پر تردید اور لاتعلقی ظاہرکی تھی اور اسی طرح دونوں نے سوئٹزرلینڈ میں اپنی مبینہ کرپشن سے کمائے گئے مال کی موجودگی سے انکار کیا تھا۔ سوئٹزر لینڈ کی دستاویزات صدر زرداری کے دور میں گاڑیوں میں بھر کر لے جائے جانے کی فوٹیج میں قوم نے خود دیکھا تھا مگر حکمران لاتعلق بنے ہوئے تھے اور جھوٹ پر قائم رہے۔
میاں نواز شریف اقتدار سے محرومی کے بعد جنرل پرویز مشرف سے اپنی دس سالہ جلاوطنی کا معاہدہ کرکے سعودی عرب گئے تھے مگر انھوں نے کبھی اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا اور 2007ء میں جب انھوں نے معاہدے کی خلاف ورزی کر کے وطن آنا چاہا تو لاہور آکر ان کے غیر ملکی ضامنوں کو مداخلت کرنا پڑی تھی اور وہ انھیں معاہدے پر عمل کرنے کا پابند کرکے واپس لے گئے تھے۔ قوم میاں صاحب کی یہ مجبوری اور معاہدے کی وجوہات جانتی تھی مگر میاں صاحب جھوٹ پر برقرار رہے اگر وہ مجبوری میں کیے گئے معاہدے کا اعتراف کرلیتے تو ان کی سیاست ختم نہیں ہوجانی تھی بلکہ سچائی کے اعتبار پر ان کی عزت بڑھتی مگر انھوں نے کبھی معاہدے کا اعتراف نہیں کیا۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تیسری سیاسی قومی شخصیت کے طور پر 2013ء میں سامنے آئے تھے جنھیں 2013ء میں اقتدار میں آجانے کا سو فیصد یقین تھا مگر ناکامی پر انھوں نے الیکشن کمیشن، مسلم لیگ (ن) اور قومی اداروں پر الزامات لگانا اپنا منشور بنالیا اور انتخابی نتائج قبول نہ کرکے الزامات کی سیاست شروع کردی اور اس سلسلے میں اسلام آباد میں طویل اور بے مقصد دھرنا بھی دیا جس میں وہ نواز شریف سے استعفیٰ لے کر جانے سمیت نئے نئے اعلانات کرتے رہے اور اپنے صوبے میں اے پی ایس سانحہ کے نتیجے میں دھرنا ختم کرکے عزت بچانے میں ناکام رہے۔
انھوں نے پہلے 35 پنکچروں کا الزام لگایا پھر اسے سیاسی بیان قرار دے دیا اور دیگر غلط الزامات کے ساتھ حال ہی میں پانامہ پر خاموش رہنے کے لیے دس ارب روپے کی پیشکش کا الزام لگا کر اپنی پوزیشن مزید خراب کرلی۔ پانامہ لیکس کے بعد پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کے درمیان ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات لگانے کا مقابلہ جاری ہے۔ پی ٹی آئی رہنما جھوٹے الزامات لگا کر منحرف بھی ہو رہے ہیں مگر جھوٹ بند نہیں ہو رہا اور قوم صادق و امین ہونے کے دعویداروں کا تماشا دیکھ رہی ہے اور سوچ رہی ہے کہ کیا جھوٹ کے بغیر سیاست نہیں کی جا سکتی۔