خارجی اور داخلی حالات
چین نے ہم سے تجارتی معاہدات اور سی پیک وغیرہ کو ملا کر اب تک کل 62 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔ اس موقع پر انھوں نے سعودی عرب سے 350 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا، جس میں 110 ارب ڈالر کا دفاعی معاہدہ ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا بڑا دفاعی معاہدہ سعودی عرب کس کے خلاف استعمال کرے گا؟ عرب امارات، بحرین، کویت، دبئی، ترکی، اسرائیل اور امریکا تو سعودی ارب کے دوست مما لک ہیں، ان کے علاوہ سارے امریکی اتحادی ممالک بھی سعودی عرب کے دوست ہیں۔ سعودی حکومت کے ایک اعلان کے مطابق یہاں 12.5 فیصد لوگ بیروزگار ہیں اور 10 فیصد خیراتی کھانوں پر پلتے ہیں۔ ٹرمپ اسلام پر لیکچر بھی دیا، مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ادھر سعودی حکومت اپنے ملک کا سب سے بڑا اعزاز ہندوستانی وزیراعظم کو پیش کرچکی ہے۔ اس کے بعد ہی راحیل شریف کو سعودی اتحاد کا سربراہ بنایا گیا ہے، جن کی تنخواہ نیٹو کے سربراہ سے بھی زیادہ ہے۔
پاکستان سے امریکا کی دوستی 1954ء سے ہوئی ہے اور معاہدات بھی۔ اس وقت سے امریکی سامراج نے پاکستان کے خلاف سازش شروع کی ہے۔ 1948ء میں 3 روپے کا ایک ڈالر تھا اور اب 106 روپے کا ایک ڈالر ہے اور وہ بھی اس لیے کہ امریکا ہمیں ایک ڈالر دے کر 14 ڈالر لے جاتا ہے۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ملکوں کو قرضے دے کر سود سے ترقی یافتہ بن گیا۔ بقول پروفیسر نوم چومسکی، امریکا اب تک 88 ملکوں میں بلاواسطہ یا بالواسطہ مداخلت کر چکا ہے، جس کے نتیجے میںوہ ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل کر چکا ہے۔
چین نے ہم سے تجارتی معاہدات اور سی پیک وغیرہ کو ملا کر اب تک کل 62 ارب ڈالر کا معاہدہ کیا ہے، جب کہ چین ہندوستان سے 2016ء میں 75 ارب ڈالر کی تجارت کر چکا ہے اور 2017ء کا ہدف 100 ارب ڈالر کا ہے۔ پاکستان کا سب سے اچھا دوست ترکی کہلاتا ہے، جہاں آمرانہ جمہوریت ہے۔ ترکی سے ہمارا گزشتہ سال تجارتی حجم ایک ارب ڈالر، افغانستان سے ایک ارب ڈالر اور ایران سے بھی تقریباً ایک ارب ڈالر رہا ہے۔ چین کا ایران سے یہ معاہدہ ہوگیا ہے کہ ایران جب چاہے چین سے ہیوی واٹر لے سکتا ہے۔ شام کو چین نے پیشکش کی ہے کہ ضرورت پڑی تو ہم شامی حکومت کی مدد کے لیے 50 ہزار فوج بھیج سکتے ہیں۔ روس کی فوج کو شام نے آنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ ٹرمپ شام پر اور افغانستان پر ایک ایک بم گرا کر روس کی خبرداری پر خاموش ہو گیا۔ جب کہ سوشلسٹ کوریا (شمالی کوریا) کو گیدڑ بھبکی دینے کے بعد دم بخود ہیں۔گزشتہ برس تجارتی خسارہ ہمیں سب سے زیادہ چین سے ہوا ہے۔
افغانستان، ایران اور ہندوستان سے بہتر تعلقات نہیں ہیں۔ امریکا نے ہمارے ملک پر ڈرون حملے کیے، سامراج مخالف ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کی خاتمے کے لیے مجاہدین بنوائے، ہمارے ہزاروں فوجی اور عوام جان سے جاتے رہے، لاکھوں افغان بھائی دربدر ہوئے، یہ سب کچھ سامراجی مفادات کے تحفظ کی خاطر کیا گیا۔ ہم نے مشرقی پاکستان کی عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کرنے کے بجائے وہاں فوج کشی کر دی اور نتیجتاً بنگلہ دیش وجود میں آ گیا اور اسے ہم نے تسلیم بھی کر لیا۔ اگر ہم ڈھاکا میں بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی نہ کرتے اور شیخ مجیب کو وزیراعظم کے طور پر تسلیم کر لیتے تو پھر بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کی نوبت نہ آتی۔ برصغیر کے تینوں حصوں میں تقسیم ہونے سے لاکھوں انسانوں کا قتل تو ہوا، لیکن ان تینوں ملکوں، پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش میں بھوک، افلاس، غربت اور بیروزگاری عروج پر ہے۔ تینوں ملکوں کے سرمایہ دار ارب پتی سے کھرب پتی بنتے جا رہے ہیں۔
درحقیقت اس وقت عالمی طور پر سامراج کے دو مرکز بن گئے ہیں۔ ایک کی سربراہی امریکا اور دوسرے کی روس کررہا ہے۔ ان عالمی حالات کی روشنی میں پاکستان کی معیشت، سیاست اور سماج کا تجزیہ کریں تو انسان تڑپ کر رہ جاتا ہے۔ پاکستان کے اسپتالوں کے باہر لاکھوں مریض اپنی باری کے انتظار میں بسیرا ڈالے رہتے ہیں۔ لاکھوں لوگ بیروزگاری کے باعث ڈاکے، چوری، گداگری، عصمت فروشی، منشیات نوشی اور خودکشی کرتے ہیں۔ ملک کی بڑی آبادی ناخواندہ ہے، بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے، جب کہ ہم دفاعی بجٹ 2017-18ء کا 960 ارب روپے کا مختص کرنے جا رہے ہیں۔ بیروزگاری کے خاتمے کا کوئی بجٹ نہیں۔ سب سے کم بجٹ تعلیم اور صحت کا ہوتا ہے۔اس پر جتنا بھی ماتم کیا جائے کم ہے۔
پاکستان میں واقعات کچھ اس طرح کے ہو رہے ہیں شاید ہی کہیں اور اس طرح کے خونخوار واقعات ہوتے ہوں۔ خدیجہ صدیقی جو کہ قانون کی طالبہ ہے، اس پر ایک لڑکے نے 23 بار چاقو سے وار کیے۔ پولیس کی رپورٹ بھی موجود ہے۔ چونکہ لڑکے کا باپ معروف وکیل ہے، اس لیے بھری عدالت میں وکلا گردی کے ذریعے اسے عدالت سے بھگا دیا گیا اور بعد میں ضمانت کروا لی۔ ایک سال بیتنے کے بعد بھی جج حضرات کوئی فیصلہ نہیں دے پائے۔ گجرات کے دو رشتے داروں نے اپنے چار سگے رشتے داروں کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا۔ پنجاب میں اپنی نواسی کو اس لیے تیل ڈال کر جلا دیا گیا کہ اس نے ایک ناخواندہ لڑکے سے شادی کرنے سے انکار کردیا تھا۔ پنجاب میں ایک خاتون کے ہاں لڑکی پیدا ہوئی اور پھر لڑکا پیدا نہ ہونے پر باپ نے چھ سالہ بیٹی کو بالٹی کے پانی میں ڈبو کر، گلا دبا کر مار ڈالا۔ تر بت میں تین مزدوروں کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا، اس سے قبل گوادر میں دس مزدوروں کو قتل کرنے کے بعد بی ایل اے نے جرم کو تسلیم کیا تھا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بلوچستان میں غیر بلوچوں کا مزدوری کرنا جرم ہے تو پھر لاکھوں بلوچوں کا امریکا، یورپ، عالم عرب، ایران اور ملک کے دیگر حصوں میں مزدوری کرنا جرم نہیں ہے؟ قطعی نہیں۔ دنیا جب تشکیل پارہی تھی تو دنیا ایک تھی، ریاست کے وجود کے بعد ملکوں کی لکیریں کھینچی گئیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بلوچستان میں مسلسل فوج کشی کی جائے، ان کے وسائل کو لوٹا جائے۔ بلوچستان میں دس ہزار ٹن سونا موجود ہے، اس کے نکالنے کا ٹھیکہ چینی کمپنی کو دیا گیا ہے۔
چین نکالے جانے والے سونے کا 51 فیصد خود لے جاتا ہے اور باقی وفاق کے لینے کے بعد بلوچستان کو صرف دو فیصد ملتا ہے۔ بلوچستان میں غربت 71 فیصد، جب کہ پنجاب میں 31 فیصد ہے۔ اس تفریق اور عمومی غربت کے خاتمے کے لیے ملک بھر میں سرداروں، چوہدریوں، وڈیروں اور خانوں سے زمین چھین کر ہاریوں، مزارعین اور کسانوں میں بانٹنے کی ضرورت ہے۔ ملک بھر میں مل، کارخانے اور فیکٹریوں کا جال بچھانا ہوگا۔ پھر جا کر یہ بھوک، افلاس اور دہشتگردی کا خاتمہ ہوگا۔ یہ تو رہے خارجی اور داخلی حالات کی نوعیت، اسے اصلاحات کے ذریعے اب بدلنا ممکن نہیں، صرف ایک کمیونسٹ نظام یا امداد باہمی کے آزاد سماج کے قیام میں ہی ممکن ہے۔