روزے کی حکمت عملی
اسلامی عبادات، اسلامی تعلیمات کا بہترین عملی نمونہ ہیں
روزے کا بنیادی مقصد اللہ کی حاکمیت اور ربوبیت کا اقرار اور اعتراف کے شعور کو دل و دماغ میں روشن تر اور مستحکم کرنا، اس کے انکار اور انحراف کی راہوں کو تاریک تر اور منہدم کرنا اور انسان کا رخ دنیا کی بجائے آخرت کی طرف اور مادہ کے بجائے روح کی طرف پھیرنا ہے۔ روزہ اصل میں وہ چشمۂ رحمت و مغفرت ہے جس سے فرزندان توحید اپنی روحانی بھوک اور اخلاقی پیاس بجھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ روزے کے کچھ ضمنی اور ثانوی مقاصد بھی ہیں جن میں معاشرتی اور طبی پہلو خاص اہمیت کے حامل ہیں۔
(الف) معاشرتی پہلو: اسلامی عبادات، اسلامی تعلیمات کا بہترین عملی نمونہ ہیں۔ بے عملی، نظریہ کی موت ہے۔ جو تعلیم نظر سے دور ہوتی ہے، رفتہ رفتہ دل سے بھی دور ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسلام نے اپنی بنیادی تعلیمات کو مسلمانوں کے دل و دماغ میں یاد اور آباد رکھنے کا بخوبی عملی انتظام کیا۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ اور حج کیا ہیں؟ اسلامی تہذیب و تمدن کے اصول و مبادی اور بنیادی نکات، اللہ کی معبودیت، انسان کی عبودیت، وحدت، اخوت، حریت، مساوات اور مواسات کے عملی مظاہرے ہی تو ہیں۔
فرمان الٰہی مسلمانوں کو ایک دوسرے کے بھائی قرار دیتا ہے۔ روزہ کے ذریعے اسی وحدت نسل انسانی کے تصور کے شعور کو پختہ اور مضبوط کیا جاتا ہے۔ ماہ رمضان کے دوران برادران اسلام عالمی سطح پر مشرق، مغرب، شمال، جنوب تک ایک جماعت کا عملی مظاہرہ دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ مسلمانوں کا اتحاد ملی دیکھ کر دشمنوں کے دل دہل جاتے ہیں۔ مسلمانوں کے دل و دماغ میں محبت، سخاوت، ہمدردی، خیرخواہی، غمخواری اور کریم النفسی کے اوصاف حمیدہ پرورش پاتے اور پروان چڑھتے ہیں۔ درد دل کی دریا دلی کی وجہ سے غربت و افلاس کے نقوش مٹتے نہیں تو دھندلے ضرور ہوجاتے ہیں۔ ماہ صیام پورے عالم اسلام کے لیے نیکی کا، جشن چراغاں کی حیثیت رکھتا ہے۔ نیکی کی روشنی سے گناہوں کی تاریکی چھٹ جاتی ہے۔ نیکی کی کلیاں نکلنے، چٹخنے، کھلنے اور مہکنے لگتی ہیں۔ فضا میں تقویٰ کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ دشمن بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اسلامی ممالک میں دوران ماہ رمضان، ظلم، جرم اور گناہ کی رفتار، مقدار، تعداد اور شرح میں حیرانگی کی حد تک کمی آجاتی ہے۔ اجتماعی نظم کے ساتھ بغیر کسی خارجی دباؤ کے قانون کی حکمرانی کی ایسی نظیر اور مثال دنیا کے کسی مذہب اور نظریہ میں نظر نہیں آتی۔
بقول مشاہیر طب ''سحر خیزی، صحت، دولت، عزت، شہرت اور حکمت کی زرخیزی کی ضمانت ہے''۔ تاریخ انسانی کے ہر اس عظیم انسان کی سوانح حیات پڑھ کر دیکھ لو جس نے عظمت کے ستاروں پر کمند ڈالی، کم سونے اور جلد جاگنے کا عادی نظر آئے گا۔ روزہ مسلمان کو سحر خیزی کے صحت بخش اور حیات بخش سنہری اصول زندگی کا عادی بناتا ہے اور اس طرح اس کے دامن کو بہت سے معاشرتی اور معاشی فوائد کے موتیوں سے بھر دیتا ہے۔
(ب) طبی پہلو: ناطق قرآن کا حکیمانہ فرمان ہے (روزہ رکھو صحت مند ہوجاؤ گے)۔ روزے سے جہاں روح کی صفائی اور اخلاق کی ستھرائی ہوتی ہے وہاں جسم کی دھلائی بھی ہوجاتی ہے۔ افراط نفس اور تفریط روح میں توازن برقرار رکھنے کا روزہ ایک خودکار آلہ ہے۔ روزہ تاج الصحت ہے، مخزن حکمت ہے، روح کی غذا اور جسم کی شفا ہے۔ یہ لفاظی نہیں حقیقت ہے۔ طبی نکتہ نظر سے بہت سے لاعلاج امراض کا واحد علاج مریض کو ایک عرصہ خاص تک بھوکا اور پیاسا رکھنا ہے۔ جسمانی مشین کے کل پرزے پورے گیارہ مہینوں تک غذائی اجزا کو ہضم کرکے ان کو طاقت، توانائی اور جیون رس میں تحلیل کرنے میں مصروف عمل رہتے ہیں، جس کی وجہ سے ان میں کمزوری، خرابی اور شکست وریخت کا پیدا ہوجانا فطری ہے۔ روزہ کی شکل میں جسمانی اعضا کو مسلسل ایک ماہ تک آرام مل جاتا ہے۔ ان کی ٹوٹ پھوٹ کی مرمت اور درستی اپنے آپ ہوجاتی ہے۔ ان کی ضایع شدہ قوت بحال ہوجاتی ہے۔ فاسد، زہریلے اور گندے مادے کی نکاسی سے جسم کی صفائی ہوجاتی ہے۔
مشاہیر طب کی نگاہ میں سو بیماریوں کی ایک بیماری معدہ کی خرابی ہے۔ جس طرح زمین پر لگاتار کاشت کرنے سے تقلیل حاصل کے قانون کا اطلاق ہونے لگتا ہے یعنی زمین کی زرخیزی جواب دینے لگتی ہے اور پیداوار بتدریج گھٹتی چلی جاتی ہے لیکن اگر زمین کو کچھ عرصہ بلاکاشت چھوڑ دیا جائے اور زمین کو وقفہ آرام مل جائے تو دوبارہ تکثیر حاصل کے قانون کا اطلاق ہونے لگتا ہے یعنی اس کی پیداوار میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جسم بھی بمنزلہ زمین کے ہے۔ روزہ کی صورت میں جسمانی اعضا کو ایک ماہ کا وقفہ آرام مل جاتا ہے اور جسمانی تندرستی میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے۔ لیکن احتیاط اور پرہیز لازمی ہیں ورنہ یہ روحانی علاج (روزہ) بے اثر بھی ثابت ہوسکتا ہے معمول کے مطابق کم کھانا ماہ صیام کے دوران ضروری ہے۔
انسان عام طور پر صبح، دوپہر اور شام کھانا کھاتا ہے۔ روزہ کے دوران سحری ناشتہ کی اور افطاری شام کے کھانے کی قائم مقام بن جاتی ہے صرف ایک وقت کا کھانا یعنی دوپہر کا کھانا میسر نہیں ہوتا لیکن اس کی ایک حد تک تلافی سحری میں ناشتے سے زیادہ کھا کر اور افطاری میں شام کے کھانے سے زیادہ کھا کر ہوجاتی ہے تھوڑی بہت کسر رہ جاتی ہے جوکہ باقی رہنا بغرض آرام معدہ ضروری بھی ہے۔ اصل کمی غذا کی نہیں پانی کی رہتی ہے جس کمی کو ہم بتدریج مغرب سے لے کر رات گئے تک وقفے وقفے کے ساتھ پوری کرسکتے ہیں۔
روزہ کا اصول، کم خوراک، زیادہ آرام ہے لیکن ہم معمول کے برعکس زیادہ کھانا شروع کردیں تو روزے کا طبی مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ افطاری کے وقت صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ بیٹھیں اور بھوکے بھیڑیوں کی طرح کھانے پر ٹوٹ پڑیں اور اتنا کھا لیں کہ اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا بھی دوبھر ہوجائے یہ تو الٹا جسم پر ظلم ہوا۔ دن بھر کے خالی پیٹ میں افطاری کے وقت شدید ٹھنڈے مشروبات اتنے ٹھنڈے گویا کہ برف، غٹاغٹ چڑھا جانا اور اس پر پے در پے کھاتے رہنا اصول حکمت کے سراسر خلاف ہے۔ شدید ٹھنڈے مشروبات کی ایک دم گرم اور خالی معدے پر یلغار سے ٹمپریچر کی ایک تبدیلی سے نقصان پہنچنے کا شدید خطرہ ہوتا ہے نیز گرمی میں گرم تاثیر رکھنے والی ہری، سرخ مرچوں اور دیگر مسالہ جات سے تیار شدہ چیزوں سے پرہیز کرنا چاہیے۔ روغن اور مرچ مسالے تو مشاہیر طب کی نگاہ میں معدے کے ازلی دشمن ہیں اور ہم ان دشمنوں کو خالی پیٹ میں بھر کر اس کو روغن اور مرچ مسالوں کا گودام بنا دیتے ہیں۔ اور جب اپنی نادانی اور جہالت کا ردعمل نقصان کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے تو لگتے ہیں حکمت الٰہی میں نقص نکالنے لگتے ہیں۔
افطاری کا پہلا وقفہ اللہ حکیم نے کم سے کم رکھا ہے تاکہ خالی پیٹ کو معتدل مشروب اور ہلکی پھلکی غذا تھوڑی مقدار میں مل جائے اور پھر مسلمان روزے کے مقصد اصل یعنی یاد الٰہی کے لیے نماز مغرب میں مصروف ہوجائے تاکہ قیام، رکوع، قومہ، سجود اور قعدہ کے ذریعے جسم کی ہلکی سی ورزش ہوجائے اور پیٹ مزید غذا کے قبول کرنے کے لیے مستعد ہوجائے۔روزہ اس خدائے بزرگ و برتر نے فرض کیا ہے جس نے انسان کو اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا اور جو اس کے وجود کے ریشہ ریشہ کی ساخت اور ضرورت سے بخوبی واقف ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ کون سی چیز انسان کے لیے صحت بخش ہے اور کون سی چیز مضر۔ اگر روزہ جسم انسانی کے لیے مضر رساں ہوتا تو اللہ حکیم کبھی بھی فرض نہ کرتا۔ روزہ سراپا صحت روح و جسم ہے اور دونوں کے تقاضوں اور مطالبوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کا خودکار آلہ ہے۔ بشرطیکہ خرد، دل کی نگاہ سے روزے کو دیکھے اور اس کے فلسفہ اور حکمت کو بصیرت کے ساتھ سوچے اور سمجھے۔