پشاور ہائیکورٹ نے سابق طالبان ترجمان مسلم خان کی سزائے موت معطل کر دی
عدالت نے وزارت داخلہ اور حکام سے ریکارڈ طلب کرلیا، مسلم خان فورسز پر حملوں ،چینی انجینئرز کے اغوا میں ملوث ہے
عدالت عالیہ پشاور نے کالعدم تحریک پاکستان طالبان سوات کے سابق ترجمان مسلم خان کو ملٹری کورٹ کی جانب سے ملنے والی سزا معطل کرتے ہوئے وزارت داخلہ اور متعلقہ حکام سے ریکارڈ طلب کرلیا۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل ڈویژن بینچ نے مسلم خان کی اہلیہ ندا بی بی کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت کو بتایاگیا کہ ملزم سکیورٹی فورسز پر حملوں اور چینی انجینئرز و مقامی افراد کے اغوا میں بھی ملوث تھا، عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے ملٹری کورٹ سے سزایافتہ35 ملزموںکی سزائے موت اور 2 ملزموں کی عمرقید برقرار رکھی جبکہ2 ملزموں کو سزائے موت دینے کا ملٹری کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس واپس ریمانڈ کر دیا۔ جن قیدیوں کی سزائے موت کالعدم قرار دی گئی ان میں ملزم محمد عمران اور عزیز الرحمان شامل ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ عمران پر ملٹری کورٹ نے بارودی گاڑی تیار کرنے، ساتھیوں کیساتھ چیک پوسٹ پر حملہ اور بارودی مواد رکھنے کے الزامات عائد کیے جبکہ ملزم پر کسی کی موت کا الزام نہیں، ان جرائم پر قوانین کے مطابق سزائے موت نہیں دی جاتی، عزیزالرحمان پر سوات میں سی ڈی کی دکانوں کودھماکے سے اڑانے، مٹہ بازار میں پولیس کانسٹیبل محمد رزاق کو قتل کرنے اور نومبر2010ء میں گھر سے بارودی مواد برآمد ہونے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تاہم عدالت نے قرار دیا کہ پولیس کانسٹیبل کے بیٹے محمد دائود نے بیان حلفی دیا تھا کہ وہ ملزم کو معاف کرتے ہیں، اس کے بعد ملزم کی سزائے موت قوانین کے تحت درست نہیں، ملٹری کورٹ انکی سزا میں تخفیف کرے یا پھر دوبارہ فردجرم عائد کرے۔
چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل ڈویژن بینچ نے مسلم خان کی اہلیہ ندا بی بی کی درخواست پر سماعت کی۔ عدالت کو بتایاگیا کہ ملزم سکیورٹی فورسز پر حملوں اور چینی انجینئرز و مقامی افراد کے اغوا میں بھی ملوث تھا، عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے ملٹری کورٹ سے سزایافتہ35 ملزموںکی سزائے موت اور 2 ملزموں کی عمرقید برقرار رکھی جبکہ2 ملزموں کو سزائے موت دینے کا ملٹری کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس واپس ریمانڈ کر دیا۔ جن قیدیوں کی سزائے موت کالعدم قرار دی گئی ان میں ملزم محمد عمران اور عزیز الرحمان شامل ہیں۔
عدالت نے قرار دیا کہ عمران پر ملٹری کورٹ نے بارودی گاڑی تیار کرنے، ساتھیوں کیساتھ چیک پوسٹ پر حملہ اور بارودی مواد رکھنے کے الزامات عائد کیے جبکہ ملزم پر کسی کی موت کا الزام نہیں، ان جرائم پر قوانین کے مطابق سزائے موت نہیں دی جاتی، عزیزالرحمان پر سوات میں سی ڈی کی دکانوں کودھماکے سے اڑانے، مٹہ بازار میں پولیس کانسٹیبل محمد رزاق کو قتل کرنے اور نومبر2010ء میں گھر سے بارودی مواد برآمد ہونے کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی تاہم عدالت نے قرار دیا کہ پولیس کانسٹیبل کے بیٹے محمد دائود نے بیان حلفی دیا تھا کہ وہ ملزم کو معاف کرتے ہیں، اس کے بعد ملزم کی سزائے موت قوانین کے تحت درست نہیں، ملٹری کورٹ انکی سزا میں تخفیف کرے یا پھر دوبارہ فردجرم عائد کرے۔